دعا


بسم اللہ الرحمن الرحیم

قال الصادق (ع) اِحفَظ آدابَ الدُّعاءِ و انظُر مَن تَدعو وَ کَیفَ تَدعو وَ لِماذا تَدعو ؟ ؛ (۱)   

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا : آداب دعا کی حفاظت کرو (رعایت کرو) اور یہ دیکھو کہ کس کو پکار رھے ھو اور کس طرح پکار رھے ھو اور کیوں ؟

ھم انسانوں کی ذات اور ھمارے وجود کی بنیاد اپنی تمام ضرورتوں کی تکمیل کی وجہ سے ، عین دعا ، طلب ، درخواست اور فقیری ھے اور حضرت حق سے اپنی کمی کو پوری کرنے کے لئے بھیک مانگنا موجودات کی اندرونی اور بیرونی طبیعت کا تقاضا جو در حقیقت عین دعا ، اصل دعا ، بنیاد دعا اور ذات دعا ھے ۔ اور یہ بات کسی کے لئے قابل انکار نہیں ھے اور نہ ھوسکتی ھے ۔

 

دعا کی اھمیت

 

دعا کی اھمیت اور قدر و قیمت نیز اس کے آثار و نتائج اس درجہ واضح اور نمایاں ھیں کہ اغیار نے بھی اپنی فطری ھدایت کی بنیاد پر ، اس بات کی طرف اشارہ کیا ھے اور دعا کو تحریک کا سبب اور انسان کی سب سے زیادہ ضروری نیاز جانا ھے ۔ اور اس سے مرض کا علاج بلکہ جسمانی دردوں کا علاج شمار کی اھے ۔ ھمارے دور میں ایسے ایسے اسپتالوں کا تاسیس کر رھے ھیں جس میں تربیت شدہ (ٹینگ یافتہ) اور اس فن کے حاذق ڈاکٹر مشکل ترین جسمانی بیماریوں کا اس راہ سے مطالبہ کر رھے ھیں ۔

بہر حال دعا ایک ضروری اور فطری امر ھے اور ایک ایسا مسئلہ ھے جس کا خدا نے حکم دیا ھے ، اور اللہ کے عظیم المرتبت انبیا و پیغمبروں کے اخلاق کا جز قرار دیا گیا ھے ۔ اور انسان دعا کے سہارے حضرت حق سے عطیہ لینے کی لیاقت پیدا کرتا ھے ۔

دعا ، طلب ھے اور یہ طلب حقیقی ھو تو انسان پورے شوق کے ساتھ اس کے حصول کے لئے حرکت کرے گا ۔

 

قرآن میں دعا

 

قرآن مجید نے ، دعا کے دستور سے اس کے انجام نہ دینے اور اس سے روگردانی کرنے کو جہنم میں گرنے کا سبب جانا ھے ۔

" وَ قالَ رَبُّکُم ادعونِی أستَجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَ یَستَکبرونَ عَن عِبادَتِی سَیَدخُلونَ جَھَنَّمَ داخِرینَ ؛ (۲)

تمہارے رب نے کہا : مجھے پکارو تاکہ تمہاری (دعا) قبول کروں اور جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے وہ عنقریب ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں داخل ھوں گے ۔

قرآن کریم نے دعا کے سلسلہ میں چند باتیں ذکر کی ھیں جو درج ذیل ھیں:

 

۱ ۔ دعا کی روشنی میں کاموں کا حل

 

دعا کو امور میں آسانی کا سبب اور ھم و غم اور رنج و اندوہ سے نجات کا باعث جانتے ھیں اور اس مسلمہ کے ضمن میں بعض دعا کرنے والوں سے شکوہ کرتے ھوئے فرماتا ھے ۔ گرفتاری اور مشکلات کے وقت حد درجہ الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرتے ھو اور خدا سے اس کی قبولیت زبردستی چاھتے ھو اور خدا سے عہد و پیمان کرتے ھو کہ نجات کی صورت میں اس کے شکر گزار ھو گے ، لیکن مشکل برطرف ھوتے ھی شرک جو کہ بڑا ظلم ھے کی جانب لوٹ جاتے ھو !!

" قُل مَن یُنَجّیکُم مِن ظُلُماتِ البَرِّ والبَحرِ تَدعونَہُ تَضَرُّعاً وَ خُفیَۃً لَئِن أنجانا مِن ھَذِہِ لَنَکونَنَّ مِن الشَّاکِرینَ ۔ قُل اللہُ یُنَجّیکُم مِنھا وَمِن کُلِّ کَربٍ ثُمَّ اَنۡتُم تُشرِکونَ ؛ (۳)

کہو : تمہیں خشکی اور دریا کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ھے ؟ ! جبکہ اسے تضرع و زاری کے ساتھ (کھلم کھلا) اور پوشیدہ دونوں طریقہ سے پکارتے ھو ۔ اور (اور کہتے ھو) اگر ان (خطروں اور ظلمتوں) سے مجھے نجات دیدے تو ھم شکر گزاروں میں ھوں گے ۔ کہو : خدا تمہیں اس مشکل اور اس کے علاوہ دیگر پریشانیوں سے نجات دیتا ھے لیکن پھر بھی تم اس کا کسی کو شریک قرار دیتے ھو (کفر کا راستہ اختیار کرتے ھو )

 

۲ ۔ دعا نیک افراد کی خصوصیت

 

دعا پسندیدہ امر اور صالح بندوں کی علامت اور خصوصیت ھے اور ان کا زندگی کے تمام شعبوں میں اس بلند و بالا واقعیت کے ھمراہ تعارف کرتی ھے ۔

" اِنّھُم کانوا یُسارِعونَ فِی الخَیراتِ وَ یَدعونَنا رَغَباً وَ رَھَباً وَکانوا لَنا خاشِعِینَ ؛(۴)

کیونکہ وہ لوگ (ایسے خاندان تھے) جو ھمیشہ نیک کاموں میں سبقت کرتے اور خوف و رجا کے درمیان مجھے پکارتے اور ھمیشہ ھمارے سامنے (خاضع) اور خاشع تھے ۔

 

۳ ۔ دعا اور اس کی قبولیت

 

دعا کے شرائط پورے ھونے کی صورت میں دعا کی قبولیت کو ضروری جانتے اور اجابت دعا کو حضرت حق سے مخصوص مسئلہ جانتے ھیں اور اللہ کے بندوں سے اسی بات کا مطالبہ لیے کہ وہ اس معنی کی طرف متوجہ ھیں ۔

" وَ اذَا سَألَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعوَة الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلیَستَجِیبوا لِی وَلیُؤمِنوا بی لَعَلَّھُم یَرشُدون ؛ (۵)

جب ھمارے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان سے کہدو) میں قریب ھوں اور دعا کرنے والے کی دعا کا جب وہ مجھے پکارتا ھے جواب دیتا ھوں ۔ لھٰذا ان کو چاھئے کہ وہ ھماری دعوت قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ھدایت پائیں (مقصد تک پہونچیں)

 

۴ ۔ دعا اور اللہ کی عنایتیں

 

قرآن کریم اس اھم نکتہ کی جانب بہت توجہ دیتا ھے کہ اگر دعا نہ ھوتی تو خدا کی جانب سے بندوں پر کوئی توجہ نہ ھوتی ۔

" قُل ما یَعبَؤُا بِکُم رَبّی لَولا دُعاؤُکُم ؛ (۶)

کہو : تمہارا رب ، تمہاری کوئی قدر و قیمت نہ جانتا اگر تمہاری دعا نہ ھوتی ۔

 

۵ ۔ دعا کی فطری ھونا اور انسان کی بھول ۔

 

قرآن کریم انسان کے لئے دعا کو ایک فطری اور ضروری امر جانتا ھے ۔ کیونکہ انسان محدودتیوں کے سمندر انواع و اقسام مشکلات اور شواھد میں مبتلا ھے ۔ اور اس سے ریائی کے لئے حضرت حق کی بارگاہ میں دعا کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتا ۔ اور دعا کو اس سلسلہ میں ھدایت کا عامل اور خدا سے آشنائی کا ذریعہ جانا ھے ۔ اس کے باوجود ، دعا کے بعد کچھ لوگوں کو حضرت حق کی نسبت ناشکرا اور بھلکٹر جانا ھے ۔

" وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرُّ دَعَوا رَبَّھُم مُنیبینَ اِلَیہِ ثُمَّ اِذَا أذَاقَھُم مِنہُ رَحمَۃً اِذَا فَریقٌ مِنھُم برَبِّھِم یُشرِکُونَ ؛ (۷)

جب لوگوں کو نقصان ھوتا اور تکلیف پہونچتی ھے تو اپنے رب کو پکارتے ھیں اور توبہ کرتے ھوئے اس کی بارگاہ میں واپس آتے ھیں ۔ لیکن جیسے ھی انہیں اپنی رحمت سے فیضیاب کرتا ھے ناگاہ ان میں سے کچھ لوگ اپنے رب کی نسبت مشرک ھوجاتے ھیں ۔ (۸)

 

دعا اور روایتیں

 

زندگی میں دعا اور اس کے آثار و نتائج اس درجہ اھم ھیں کہ شیعوں کے مشہور محدث جناب ثقۃ الاسلام کلینی (رح) نے اپنی گرانقدر کتاب " اصول کافی " میں تقریباً ۶۰ / باب دعا کے سلسلہ میں ذکر کیا ھے کہ ان ابواب میں سے کچھ کی طرف ھم اشارہ کر رھے ھیں ۔

 

دعا کی فضیلت

 

قُلبُ لاَبی جَعفَر (ع) أیُّ العِبادَة أفضَلُ ؟ فَقالَ : ما مِن شَیءٍ اَفضَلُ عِندَ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ مِن اَن یُسئَلُ وَ یُطلَبُ مِمّا عِندَہُ وَما أحَدٌ أبغَضُ اِلی اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ مِمَّن یَستَکبِرُ عَن عِبادَتِہِ وَلا یَسئَلُ ما عِندَہُ ؛ (۹)

راوی کہتا ھے : میں نے امام محمد باقر (ع) سے عرض کیا کہ سب سے افضل عبادت کون سی ھے ؟ امام نے فرمایا : خدا کی نزدیک اس چیز سے افضل کوئی چیز نہیں ھے کہ جو اس کے پاس ھے اس کی درخواست کی جائے اور خدا کے نزدیک حق کی عبادت سے روگردانی کرنے والے انسان سے زیادہ کوئی چیز ناپسند بھی نہیں ھے ۔ اور جو کچھ اس کے پاس ھے اس کی درخواست نہ کرے ۔

مسیر کہتا ھے : حضرت امام جعفر صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا : حضرت حق کی بارگاہ میں دعا کرو اور یہ نہ کہو کہ اب وقت گذر گیا ھے اور جو مقدر ھے وھی ھوگا اور دعا کا کوئی اثر نہیں ھے ۔ یقیناً خدا کے نزدیک کچھ مقام اور منزلت ھے جب تک دعا کے بغیر رسائی نہیں ھوگی ۔

اگر بندہ اپنا منہ بند رکھے ۔ اور دعا نہ کرے تو اسے کچھ نصیب نہیں ھوگا ۔ لھذا دعا کرو کہ تم پر عنایت ھو ، اے مسیر کوئی در ایسا نہیں ھے کہ اسے کھٹکھٹایا جائے مگر یہ امید ھے کہ دستک دینے والے کے لئے کھل جائے گا ۔ ۱۰

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) قال : " مَن لَم یَسئَلِ اللہِ عَزّ وَ جَلَّ مِن فَضلِہِ فَقَد اِفتَقَرَ ؛ (۱۱)

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو بھی خدا کے فضل کی درخواست نہ کرے وہ بیچارہ اور فقیر ھوجائے گا ۔

سیف تمار کہتے ھیں : امام صادق (ع) سے میں نے سنا کہ آپ فرماتے تھے: تم لوگ دعا کو اپنا شیوہ بنادو ، کیونکہ خداوند عالم سے نزدیک ھونے کے لئے اس کے مانند کوئی چیز نہیں ھے ۔

اور کسی بھی چھوٹی حاجت کو اس کے چھوٹے ھونے کی بنا پر ترک نہ کرو کیونکہ جس کے ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی حاجتیں اسی کے ہاتھ میں بڑی بڑی بھی حاجتیں ھیں ۔ (۱۲)

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) قال : " قالَ اَمیرُ المِؤمنین علیہ السلام : اَحَبُّ الاَعمالِ اِلی اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ فی الاَرضِ الدُّعاءُ وَ اَفضَلُ العِبادَة العِفافُ قال : و کانَ اَمیرُ المؤمِنینَ رَجُلاً دَعّاءً ؛  (۱۳)

امام صادق (ع) نے فرمایا : امیر المومنین فرماتے ھیں : خداوند عالم کے نزدیک روئے زمین پر سب سے زیادہ پسندیدہ عمل دعا ھے اور بہترین عبادت عفت اور پاکدامنی ھے ۔ اور امیر المومنین زیادہ دعاؤں کے مالک انسان تھے ۔

 

دعا مومن کا ہتھیار

 

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) قال : قالَ رَسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : " الدُّعاُ سِلاحُ المُؤمِنِ وَ عَمودُ الدّینِ و نورُ السّماواتِ وَالاَرضِ ؛ (۱۴)

امام صادق (ع) فرماتے ھیں : دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ھے ۔

نیز حضرت صادق (ع) فرماتے ھیں : امیر المومنین نے فرمایا : دعا ، نجات کی کنجی اور کامیابی کا خزانہ ھے ۔ اور بہترین دعا وہ دعا ھے جو پاکیزہ سینوں اور طاھر دلوں سے ظاھر ھو ۔ اور مناجات میں نجات کا ذریعہ ھے اور انسان کی نجات اس کے اخلاص کی بنا پر ھے ۔ اور جب جزع و ضرع اور داد و فریاد دشوار ھوجائے تو پناہ گاہ خدا ھے ۔

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) قال : " الدُّعاءُ اَنقَذُ مِنَ السِّنانِ الحَدیدِ ؛ (۱۵)

دعا ، لوھے کے تیز نیزہ سے بھی زیادہ نفوذ کرنے والی چیز ھے ۔

 

دعا کے ذریعہ بلا اور قضا کو رد کرنا

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) قال : " اِنَّ الدُّعاءَ یَرُدُّ القَضاءَ وَ قَد نَزَلَ مِنَ السَّماءِ وَقَد اُبرِمَ اِبراماً ؛ (۱۶)

امام صادق (ع) نے فرمایا : دعا آسمان سے نازل ھونے والی قضا کو لوٹا دیتی ھے ۔ اگر چہ وہ قضا شدت کےساتھ مبرم اور محکم ھوچکی ھو ۔

کانَ عَلیُّ بنُ الحُسَینِ (ع) یَقُولُ : " الدُّعاءُ یَدفَعُ البَلاءَ النَّازِلَ وَما لَم یَنزِل ؛ (۱۷)

حضرت علی بن الحسین (ع) فرماتے تھے : دعا نازل ھونے والی اور نازل نہ ھونے والی دونوں بلد کو دور کرتی ھے ۔

اس روایت کا مصداق قرآن کریم میں جناب یونس کی قوم ھے ۔ کہ ان کے سروں پر الہی بلا منڈلا رھی تھی لیکن اس عالم ربانی کی رھنمائی سے سب بیابان میں گئے اور خاک مذلت پر سر رکھ کر خدا کی بارگاہ میں رد بلد کی درخواست کی تو ان کی دعا پوری ھوگئی

 

دعا ھر درد کا علاج

 

عَن عَلاءِ بنِ کامِلٍ قالَ : قالَ لی اَبو عَبدِ اللہِ علیہ السلام : " عَلَیکَ بالدُّعاءِ فَاِنَّہُ شِفاءٌ مِن کُلِّ داءٍ ؛ (۱۸)

علاء بن کامل کہتے ھیں : حضرت صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا : تم اپنے لئے دعا لازم کرلو کیونکہ دعا ھر درد کا علاج ھے

ھاں ، دعا ھر درد کا علاج ھے ۔ جب دل حضرت محبوب سے آگ جاتا ھے ارو جان اوصاف معشوق کا آئینہ بن جاتی ھے اور آدمی ھر طرف سے رحمت کے دروازے اپنے لئے کھلا دیکھتا ھے ۔ اور دل اتصال کے زیر اثر امید سے مالا مال ھوجاتا ھے ۔

تو روح تسلط اور مالکیت کی مالک ھوجاتی ھے اور دردوں کے حملوں بالخصوص معنوی دردوں کے وقت اپنے محبوب سے رد بلا اور بیماری کی شفا کی درخواست کرتا ھے ۔ اور محبوب بھی اس کی بیماری کو چاھے کوئی سی بھی ھو یقیناً شفا بخشتا ھے ۔

یہاں پر مناسب ھے کہ تین سبق آموز واقعہ کی جانب اختصار سے اشارہ کریں ۔

۱ ۔ میرا ایک دیندار دوست تھا اور مسائل الہی سے ھمدردی رکھتا تھا جس کی ۷۰ سال کی عمر تھی اس نے مجھ سے کہا : جب میں تقریباً ۱۰ سال کا تھا تو شدید بخار میں مبتلا ھوگیا طب اور طبیب دونوں ھی میرے معالجے سے عاجز آگئے تو میرے والد نے مجھے اپنی گود میں لے کر ایک زندہ ضمیر سید کے پاس آئے اور میری تکلیف کی ساری داستان ان سے کہہ سنائی تو اس زندہ دل انسان نے آسمان کی جانب اپنا سر اٹھایا اور میری طرف مخاطب ھوکر کیا : اے جلد دینے والے بخار ! اسے چھوڑ دو ابھی زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ بخار اتر گیا اور ابتک کہ ۷۰ سال کا ھورھا ھوں مجھے کبھی بخار نہیں آیا  

۲ ۔ مرحوم محدث قمی کے فرزند مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد آنکھ کے شدید درد میں مبتلا ھوگئے ، عراق کے ڈاکٹر معاجلہ سے عاجز آگئے ، ایک دن انہوں نے میری والدہ سے کتاب کافی مانگی انہوں نے اپنی بیوی کے ہاتھ سے کتاب کافی لی اور کہا : یہ کتاب رسولخدا (ص) کے اھلبیت کا سرمایہ ھے اور یہ ممکن نہیں ھے کہ خداوند عالم اس کتاب سے آنکھ ملنے کے بعد مجھے شفا نہ دے ، حضرت حق کی جانب لو لگائی اور سوختہ دل کے ساتھ اپنی آنکھ کافی نامی کتاب سے مس کردی ان کے دیدہ کا درد ختم ھوگیا ۔

۳ ۔ یہ بھی انہوں نے ھی نقل کیا ھے کہ میرے والد ایک سخت بیماری میں مبتلا ھوئے اور ساری دوائیں بے اثر ھوکر رہ گئیں تو حد درجہ رنجیدہ خاطر ھوکر انہوں نے میری والد سے کہا : یہ انگلیاں برسوں سے اھلبیت (ع) کے آثار لکھ رھی ھیں اگر ان انگلیوں میں اللہ کا اثر نہ ھو تو اسے کاٹ دینا چاھیئے ایک پاکیزہ برتن مانگا اور تھوڑا پانی اس کے پاس رکھا اور اس مرد الہی نے انگلیاں اس ظرف میں رکھیں اور خداوند عالم سے اس کے وسیلہ سے شفا مانگی اور اس پانی کو پی لیا تو بیماری دور ھوگئی ۔

 

دل و زبان کی طہارت ، قبولیت دعا کے لئے شرط

 

دعا کرنے والے کی دعا اس وقت باب اجابت سے ٹکراتی اور اوپر جاتی ھے جب پاکیزہ زبان اور کدورتوں اور آلودگیوں سے دل پاک ھو پھر اپنے خدا سے درخواست کرے ۔ یعنی اس کی سانس بھی الہی ھو ۔ اللہ کی نافرمانیوں کا شکار نہ ھو اور جو چیز بھی اسے خدا سے دور کرتی ھے اس سے اجتناب کرے ۔ پھر ممکن نہیں کہ کوئی قلب سلیم اور پاکیزہ زبان سے خداوند رحیم سے کوئی چیز مانگے اور وہ چیز اس کی مصلحت میں بھی ھو اور خدا اسے رد کردے لھذا دعا کرنے والا ، دعا کرنے سے پہلے دو چیز حاصل کرے ۔ ۱ ۔ پاکیزہ دل اور قلب سلیم    ۲ ۔ طاھر زبان

 

دعا کرنے والی کو دعا قبول ھے

 

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) قال : الدُّعاءُ کَھفُ الاِجابَۃِ کَما اَنَّ السَحابَ کَھفُ المَطَرِ ؛ (۱۹)

امام صادق (ع) نے فرمایا : دعا ، قبولیت کا خزانہ جس طرح بادل ، بارش کا خزانہ ھے ۔

حضرت صادق نے فرمایا : مَا أبرَزَ عَبدٌ یَدَہُ اِلَی اللہِ العَزِیزِ الجَبَّارِ اِلا استَحیَا اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ أن یَرُدَّھَا صِفراً حَتّی یَجعَلَ فِیھَا مِن فَضلِ رَحمَتِہِ مَا یَشَاءُ فَاِذَا دَعَا أحَدُکُم فَلا یَرُدَّ یَدَہُ حَتّی یَمسَخَ عَلَی وَجھِہِ وَ رَأسِہِ ؛ (۲۰)

کوئی بندہ خداوند عزیز و جبار کی بارگاہ میں دست نیاز دراز نہیں کرتا مگر یہ کہ خداوند عالم اسے خالی ہاتھ لوٹانے سے کرم کرتا ھے ۔ جب تک اس کے ہاتھوں کو اپنے فضول اور رحمت سے پر نہیں کردیتا ۔ لھذا تم میں سے جب بھی کوئی دعا کرے تو اسے محروم نہیں کرتا جب تک کہ اس کے ہاتھ اور سینہ کو مس نہیں کرتا ۔

کیا وجہ ھے کہ بہت ساری دعائیں قبول نہیں ھوتیں ؟

اس شبہ کا چند طریقوں سے جواب دیا جاسکتا ھے :

۱ ۔ خدا کا وعدہ اس کی مشیت سے مشروط ھے اور سورہ انعام کی ۴۱ / ویں آیت میں ارشاد ھوتا ھے اگر ھم چاھیں تو قبول کرتے ھیں اسی نکتہ کی طرف اشارہ ھے ۔

۲ ۔ اجابت سے مراد جس کے بارے میں خدا اور اس کی حجتوں نے فرمایا ھے توجہ اور دعا کا سننا ھے ۔ یعنی فوراً سنی جائے گی اور مورد عنایت واقع ھوگی ۔ لیکن یہ ممکن ھے کہ مصلحتوں کی وجہ سے بندہ کی حاجت دیر میں پوری ھو ۔

۳ ۔ یہ ھے کہ اجابت ، دعا کرنے والے کے لئے حاجت کے خیر ھونے سے مشروط ھے بندہ خدا سے ایک ایسی حاجت کا خواھاں ھوتا ھے جب کہ اپنی درخواست کے تمام مصالح اور مفاسد سے آگاہ نہیں ھے ۔ اسی طرح آئندہ بھی اس کے نتائج اور آثار سے بطور کامل باخبر نہیں ھے ۔ لیکن خداوند سبحان ، عالم مطلق ھے ساری چیز کو جانتا اور اپنے بندہ کی مصلحت کے مطابق بندوں کی حاجتوں کو پوری کرتا ھے ۔

 

دعا کے آداب

دعا میں کلی حضور ضروری ھے ۔

 

سُلَیمانِ بنِ عَمر و قالَ : سَمِعتُ اَبا عَبدِ اللہِ علیہ السلام یقول : اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ لا یَستَجیبُ دُعاءً بظَھرٍ قَلبٍ ساہٍ فاِذا دَعَوتَ فاَقبل بِقَلبکَ ثُمّ استَیقِن بالاِجابَۃِ ؛ (۲۱)

سلیمان بن عمرو فرماتے ھیں : امام صادق (ع) کو میں نے فرماتے سنا : خداوند عالم بے خبر دل سے نکلی ھوئی دعا کو قبول نہیں کرتا لھذا جب خدا کی بارگاہ قدس میں دعا کے لئے آؤ تو دل سے لگاؤ اور اس بات کا یقین رکھو کہ جو دل مولیٰ سے دعا میں مشغول ھے اس کی دعا قبول ھوگی

اور دعا کرنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ اس کے اندر دقت قلب بھی پائی جائے لھذا جس کے اندر سخت دلی پائی جاتی ھے اس کی دعا قبول نہیں ھے ۔

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) قال : " اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ لا یَستَجیبُ دُعاءً بظَھرِ قَلبٍ قاسٍ؛ (۲۲)

امام صادق (ع) نے فرمایا :

خداوند عالم سخت دل اور سنگدل انسان کی دعا قبول نہیں کرتا ۔

 

دعا میں اصرار اور بار بار تکرار

 

کچھ لوگ دعا کو معمولی اور سبک جانتے ھیں ۔ کیونکہ بہت سادہ انداز اور جلد بازی میں دعا کرتے ھیں ثانیاً اور مصلحت کو نظر میں رکھے بغیر اجابت کے خواھاں ھوتے ھیں ۔ اس سلسلہ میں ائمہ اطہار (ع) فرماتے ھیں ۔ دعا میں اصرار اور الحاح کرو اور اس کی قبولیت کو خدا کی طرف سے اپنے لئے مصلحت اور اس کے لئے لازم وقت جانو ۔

عَن اَبی عبد اللہ (ع) قالَ : اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ کَرِہَ اِلحاَح النَّاسِ بَعضُھُم عَلیٰ بَعضٍ فی المَسئَلَۃِ وَ اَحَبَّ ۔ (۲۳)

عَن اَبی جَعفَرٍ (ع) قال : "لا واللہِ لا یُلِحُّ عَبدُ علی اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ اِلا استَجابَ اللہُ لَہُ ؛ (۲۴)

امام باقر (ع) نے فرمایا : خدا کی قسم جب کوئی بندہ خدا کی بارگاہ میں اصرار کرتا ھے تو خدا اس کی دعا قبول فرماتا ھے ۔

 

دعا میں حاجتوں کا اظہار ۔

 

حضرت حق کا وجود اقدس ، تمام ظاھر و باطن ، ماضی ، حال اور مستقبل سب پر ھر جہت سے آگاہ اور عالم ھے اور بندہ کی جائز حاجتیں اور جو کچھ بندہ چاھتا ھے حضرت حق کے لئے آشکار اور ھویدا ھے لیکن خدا یہ چاھتا ھے کہ بندہ دعا کے وقت اپنی زبان سے اپنی حاجتوں کو بیان کرے ۔

عَن اَبی عَبدِ اللہ (ع) " اَنَّ اللہَ تبارَکَ وَ تعالیٰ یَعلَمُ ما یُریدُ العَبدُ اِذا دعاہُ و لکنَّہُ یُحِبُّ اَن تَبُثَّ اِلَیہِ الحَوائِجُ فَاِذا دَعَوتَ فَسَمِّ حَاجَتَکَ و فی حَدیثٍ آخَرَ قالَ : اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ یَعلَمُ حاجَتَکَ وَ ما تُریدُ و لکِن یُحِبُّ اَن تَبُثَّ اِلَیہِ الحَوائِجُ ؛ (۲۵)

امام صادق (ع) نے فرمایا : خداوند منان یہ جانتا ھے کہ بندہ دعا کے وقت کیا چاھتا ھے لیکن اس بات کو پسند کرتا ھے کہ حاجتیں اس کی بارگاہ میں کہی جائیں ، لھٰذا جب بھی دعا کرو تو اپنی حاجت زبان سے کہو ، ایک دوسری روایت میں مذکور ھے : خداوند سبحان تمہاری حاجت اور آرزو کو جانتا ھے لیکن اس بات کو پسند کرتا کہ تم اپنی حاجتیں اس کی بارگاہ میں اپنی زبان سے کہو

 

خفیہ دعا کی اھمیت

 

عَن ابی الحَسَنِ الرِّضا (ع) قالَ : " دَعوَة العَبدِ سِرّاً دَعوَة واحِدَة تَعدِلُ سَبعینَ دَعوَة عَلانیَۃً ؛ (۲۶)

امام رضا (ع) نے فرمایا : بندہ کی پوشیدہ طور پر ایک دعا ۷۰ / آشکار طور پر دعاؤں کے برابر ھے ۔

اس کا راز یہ ھے کہ پوشیدہ طور پر دعا کرنا خلوص ، اخلاص اور نیت کی پاکیزگی سے زیادہ نزدیک ھے اور عمل جتنا خالص ھوگا اس کی قدر و قیمت بھی اتنی زیادہ ھوگی ۔

 

بارگاہ احدیث میں آنسو بہانے کی اھمیت

 

خدا اور خدا کی راہ میں نیز ان مصائب پر جو خدا کی راہ میں اولیائے الہی پر ٹوٹے ھیں ، پر رونا نیک اور پسندیدہ عمل ھے ۔ قرآن کریم خدا کے لئے رونے کو حق کے عاشقوں کی علامت شمار کرتا ھے :

" وَ اِذَا سَمِعوا مَا اُنزِلَ اِلَی الرَّسولِ تَرَی أعیُنَھم تَفیضُ مِنَ الدَّمعِ مِمَّا عَرَفوا مِن الحَقِّ یَقولونَ رَبَّنا آمَنَّا فاکتُبنا مَعَ الشَّاھِدینَ ؛ (۲۷)  

جب بھی پیغمبر (اسلام) پر آیتیں نازل شدہ سنیں تو انہیں تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھیں (شوق سے) اشکبار ھوتی ھیں جو حقیقت انہوں نے دریافت کی ھے، اس کی وجہ سے وہ لوگ کہتے ھیں : خدایا ! ھم ایمان لائے لھذا ھمیں گوایوں کے ساتھ (حق کے شاھدوں اور محمد کے ناصروں میں) لکھ ۔

دعا کے وقت رونا خاص اھمیت کا حامل ھے ، اور آنسو باطنی صفائی کی نشانی ھے آدمی کو رحمت حق سے قریب کرکے گناھوں کے بوجھ سے ھلکا کرتی ھے ۔

امام صادق (ع) فرماتے ھیں : ما من شی الا ولہ کیل أو وزن الا لدموع فان القطرة منھا تطفیٔ بحارا من نار فاذا اغر ورقت العین بمائھا لم یرھق وجھہ قتر ولا ذلۃ فاذا أفاضت حرمھا اللہ علی النار ولو أن باکیا بکا فی أمۃ لرحموا ؛ (۲۸)

گریہ کے سوا ھر چیز کے لئے ایک پیمانہ اور وزن ھے کہ جس کا ایک قطر آگ کے دریاؤں کو خاموش کردیتا ھے اور جب آنسو آنکھ کے حلقوں میں آجاتا ھے تو صاحب گریہ کا چہرہ ذلت و خواری سے دوچار نہیں ھوتا اور جب رخسار پر گرنے لگتا ھے تو اس پر آتش دوزخ حرام ھوجاتی ھے ۔ اور جب بھی کسی امت کے درمیان کوئی ایک شخص گریہ کناں ھوگا تو اس امت پر رحم و کرم کی بارش ھوگی ۔

عَن اَبی جَعفَرٍ (ع) قالَ : " ما مِن قَطرَة اَحَبُّ اِلَی اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ مِن قَطرَة دموعٍ فی سوادِ اللَّیلِ مَخافَۃً مِنَ اللہِ لا یُرادُ بِھا غَیرُہُ ؛ (۲۹)

خدا کے نزدیک شب کی تاریکی میں آنکھ سے نکلنے والے آنسو سے زیادہ کوئی آنسو محبوب نہیں ھے جو خدا کے خوف سے نکلا ھے اور خدا کے علاوہ اس کی کوئی اور غرض بھی رھو ۔

قُلتُ لأبِی عَبدِ اللہِ (ع) : أکُونُ أدعُو فَأشتَھِی البُکَاءَ وَلا یَجِیئُنِی وَ رُبَّمَا ذَکَرتُ بَعضَ مَن مَاتَ مِن أھلِی فَأرِقُ وَ أبکِی فَھَل یَجُوزُ ذَلِکَ فَقَالَ نَعَم فَتَذَکَّرھُم فَاِذَا رَقَقتَ فَابکِ وَ ادعُ رَبِّکَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی یُعطَ ؛ (۳۰)

اسحاق بن عمار کہتے ھیں : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا میں دعا کرتے وقت رونا چاھتا ھو ، لیکن آنسو نہیں نکلتے اور بسا اوقات اپنے بعض مرحومین کی یاد کرتا ھوں تو آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ھیں اور رقت طاری ھوجاتی ھے ، آیا یہ کام صحیح ھے ؟ آپ نے فرمایا : ھاں ، انہیں یاد کرو اور جب رقت طاری ھو تو گریہ کرو اور اپنے رب کو پکارو اور حضرت حق کی بارگاہ میں دعا کرو۔

 

دعا سے پہلے خدا کی تعریف و توصیف

 

حارث بن مغیرہ کہتے ھیں : حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی خدا کی بارگاہ میں دینی اور دنیوی حاجتوں میں سے کوئی حاجت کا طلبگار ھے تو اسے جلدی کرنی چاھیئے لیکن یہ یاد رھے کہ دعا سے پہلے اللہ کی تعریف و توصیف کرو اور پیغمبر اور آپ کی پاکیزہ آل پر درود و سلام بھیجو اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو " ۔ (۳۱)

محمد بن مسلم فرماتے ھیں : حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا : امیر المومنین (ع) کی کتاب میں ایسا ھی ھے کہ تعریف درخواست سے پہلے ھو لہذا جب بھی خدا کی بارگاہ میں دعا کرو اور اسے پکارو تو اس کی بزرگی اور عظمت بیان کرو ، میں نے عرض کیا : کیسے اس کی تمجید کروں ؟

آپ نے فرمایا : کہو :

" یا مَن ھُوَ اَقرَبُ اِلَیَّ مِن حَبلِ الوَریدِ ، یا فَعِّالاً لِما یُریدً ، یا مَن یَحولُ بَینَ المَرءِ وَ قَلبہِ ، یا مَن ھُوَ بالمَنظَرِ الاَعلیٰ ، یا مَن ھُو لَیسَ کَمِثلِہِ شَیٌٔ ؛ (۳۲)

اے وہ ذات جو میری رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ھے ۔ اسے وہ ذات کہ جو چاھتی ھے انجام دیتی ھے ، اے وہ ذات جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ھوجاتی ھے ، اے وہ ذات جو بلند ترین منظر پر ھے اے وہ ذات جس کے مثل کوئی چیز نہیں ھے ۔

 

اجتماعی دعا کرو

 

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ھیں : اگر چالیس آدمی اکٹھا ھوکر کسی کام کے لئے خدا سے دعا کریں تو یقیناً خداوند عالم اسے قبول کرے گا ۔ اگر چالیس آدمی نہ ھو بلکہ صرف چار ھوں تو بھی اکٹھا دعا کریں اور دس بار خداوند عز و جل کو پکاریں تو خدا ان کی دعا قبول فرمائے گا ۔ اور اگر چار افراد بھی نہ ھو تو ایک ھی آدمی چالیس بار خدا کو پکارے تو بھی خداوند عزیز و جبار اس کی دعا قبول کرے گا ۔ (۳۳)

 

سب کے لئے دعا کرو

 

عَن اَبی عبد اللہ (ع) قالَ : (قالَ رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اِذا دَعا اَحَدُکُم فَلیَعُمَّ فَاِنَّہُ اَوجَبُ لِلدُّعاءِ ؛ (۳۴)

امام صادق علیہ السلام رسول اکرم (ص) سے نقل فرماتے ھیں : تم میں سے کوئی بھی جب دعا کرے تو سب کے لئے دعا کرے کیونکہ اس کے قبول ھونے کا زیادہ امکان ھے ۔

 

قبولیت میں تاخیر سے گھبراؤ نہیں

 

احمد بن محمد بن ابی نصر فرماتے ھیں : میں حضرت امام رضا (ع) سے عرض کیا :

میں آپ پر قربان جاؤں میں چند سال سے خدا سے ایک حاجت طلب کر رھا ھوں اور اجابت میں تاخیر کی بنا پر میرے دل میں سلبیہ اور اضطراب پیدا ھوگیا ھے تو آپ نے فرمایا : اے احمد ! ایسا نہ ھو کہ شیطان تمہارے دل میں راہ پیدا کرے اور تمہیں مایوسی اور نا امیدی کے میدان میں لے جائے ۔ امام باقر (ع) نے فرمایا : جب بھی کوئی مومن خدا سے حاجت طلب کرے اور اس کی قبولیت میں تاخیر ھو تو یہ تاخیر اس وجہ سے کہ خدا کے نزدیک اس کی آواز محبوب اور گریہ و زاری پسندیدہ ھے ، اس کے بعد فرمایا : خدا کی قسم جو کچھ خدا مومنین کے لئے جو وہ چاھیں ذخیرہ کرتا ھے وہ بہتر ھے اس چیز سے کہ انہیں جلدی انہیں عطا کردے دنیا کی کتنی اھمیت ھے ؟ امام باقر (ع) نے فرمایا : مومن عیش و عشرت کی حالت میں اسی طرح دعا کرے جس طرح مشکلات اور پریشانیوں کے عالم میں کرتا ھے ۔ اور جو کچھ اسے دیا گیا ھے وہ اسے دعا کرنے سے سست نہ بنا دے ، لھذا تم دعا سے گبھراو نہیں کیونکہ خدا کے نزدیک دعا کی بڑی اھمیت ھے ۔

امام سلام کلام کو باقی رکھتے ھوئے فرماتے ھیں :

بتاؤ اگر میں تم سے کوئی چیز کیوں تو کیا تم اس پر اعتماد رکھتے ھو ؟ میں نے کہا : میں آپ پر قربان ھوجاؤں اگر میں آپ کے فرمان پر اعتماد نہیں کروں گا تو پھر کس کی بات پر اعتماد کروں گا ۔ جب کہ آپ خلق پر خدا کی حجت ھیں ؟

آپ نے فرمایا : پھر تو خدا اس کے وعدوں اور کلام پر زیادہ اعتماد کر کیونکہ خداوند عالم نے تم سے قبولیت کا وعدہ کیا ھے ۔ یا یہ کہ تیری دعا کی اجابت ایک میعاد و مدت کے لئے ٹال دی گئی ھے ۔

کیا خدا نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا ھے :

" جب ھمارے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو (تم کہو) میں قریب ھوں اور دعا کرنے والے کی دعا جب وہ مجھے پکارتا ھے قبول کرتا ھوں ۔ (۳۵)

یا فرمایا : خدا کی رحمت سے مایوس نہ ھو ۔ (۳۶)

یا فرمایا : خدا نے تم سے اضافہ اور بخشش کا وعدہ کیا ھے ۔ (۳۷)

لھذا خداوند عز و جل پر دوسروں کے مقابل پر اعتماد زیادہ ھونا چاھیئے اور اپنے دل میں عربی کے سوا کسی اور چیز کو راہ نہ دو کیونکہ تم بخشے ھوئے ھو ۔ (۳۸)

حضرت صادق (ع) فرماتے ھیں : جب مومن اپنی حاجت میں خدا کو پکارے تو خدا فرماتا ھے : اس کی قبولیت میں تاخیر کرو ۔ کیونکہ اس کی آواز اور اس کی دعا کا مشتاق ھوں ۔ اور جب قیامت کے دن آئے تو خدا فرمائے گا : اے میرے بندہ ! تم نے مجھے پکارا لیکن میں نے تیری دعا کے قبول کرنے میں تاخیر کی اس وقت اس تاخیر کے بدلے تیرا یہ اور وہ ثواب ھے ۔ اس کے بعد حضرت صادق (ع) نے فرمایا : مومن آرزو کرتا ھے کہ اے کاش دنیا میں اس کی کوئی دعا قبول نہ ھوتی کیونکہ اس کا ثواب عظیم ھے ۔

 

دعا شروع کرنے پہلے محمد اور آل محمد (ص) پر صلوات بھیجو

 

عَن اَبی عبد اللہ (ع) ، قالَ : کُلُّ دُعاءٍ یُدعی اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ بہِ مَحجوبٌ عَنِ السَّماءِ حَتّی یُصَلّیٰ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمّدٍ ؛ (۳۹)

امام صادق (ع) نے فرمایا : جس دعا کے ذریعہ بھی خدا کو پکارا جاتا ھے اس وقت ترک وہ آسمان پر نہیں جاتی جب تک کہ محمد و آل محمد پر صلوات نہ بھیجی جائے ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا : مَن کَانَت لَہُ اِلَی اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ حَاجَۃٌ فَلیَبدَأ بالصَّلاةِ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ ثُمَّ یَسألُ حَاجَتَہُ ثُمَّ یَختِمُ بالصَّلاةِ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ فَاِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ أکرَمُ مِن أن یَقبَلَ الطَّرَفَینِ وَ یَدَعَ الوَسَطَ اِذَا کَانَتِ الصَّلاةُ عَلَی مُحَمَّدٍ وََ آلِ مُحَمَّدٍ لا تُحجَبُ عَنہُ ؛ (۴۰)

جسے بھی اللہ کی بارگاہ میں کوئی حاجت ھو تو وہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے اس کے بعد اپنی حاجت کو طلب کرے آخر میں بھی محمد و آل محمد (ص) پر صلوات کے ذریعہ ختم کرے اس لئے کہ خداوند عالم اس سے کریم ھے کہ اول و آخر کو قبول کرے اور وسط کو چھوڑ دے کیونکہ صلوات محجوب نہیں ھے ۔

جب تم لوگ صحیفۂ سجادیہ میں سید الساجدین امام زین العابدین (ع) کی دعاؤں پر نظر کرو گے تو دیکھو گے کہ آنحضرت نے اپنی دعاؤں کو صلوات سے شروع کیا ھے ۔ اور یہ بات صحیفہ سجادیہ میں تکرار کے ساتھ ملاحظہ ھوگی ۔

 

اجابت دعا کے اوقات

 

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا : اطلُبُوا الدُّعَاءَ فِی أربَعِ سَاعَاتٍ عِندَ ھُبُوبِ الرِّیَاحِ وَ زَوَالِ الأفیَاءِ وَ نُزُولِ القَطرِ وَ أوَّلِ قَطرَةٍ مِن دَمِ القَتِیلِ المُؤمِنٍ فَاِنَّ أبوَابَ السَّمَاء ؛ (۴۱)

چار وقت دعا کرو جب تیز و تند ھوائیں چل رھی ھوں ، ظھر کے وقت ، بارش کے وقت اور جب کسی مومن کا خون بہایا جارھا ھو ۔ کیونکہ ایسے موقعوں پر رحمت کے دروازے کھلے رھتے ھیں ۔

نیز حضرت صادق (ع) نے فرمایا : یُستَجَابُ الدُّعَاءُ فِی أربَعَۃِ مَوَاطِنَ فِی الوَترِ وَ بَعدَ الفَجرِ و بَعدَ الظُّھرِ و بَعدَ المَغرِبِ ؛ (۴۲)

چار مرحلوں میں دعا قبول ھوتی ھے : نماز وتر میں ، فجر کے بعد ، ظھر اور مغرب کے بعد ۔

حضرت صادق (ع) امیر المومنین (ع) سے نقل کرتے ھیں : اغتَنِمُوا الدُّعَاءَ عِندَ أربَعٍ عِندَ قِرَاءَةِ القُرآنِ وَ عِندَ الآذَانِ وَ عِندَ نُزُولِ الغَیثِ وَ عِندَ التِقَاءِ الصَّفَّینِ لِلشَّھَادَةِ ؛ (۴۳)

چار موقعوں پر دعا کو غنیمت شمار کرو ، قرآن پڑھتے وقت ، آذان کے وقت ، بارش کے وقت اور میدان جہاد میں حق پرستوں کے کفر کے خلاف لڑتے و جہاد کرتے وقت ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا : اِذَا قَشَعَّرَ جِلدُکَ وَ دَمَعَت عَینَاکَ فَدُونَکَ دُونَکَ فَقَد قُصِدَ قَصدُکَ ؛  (۴۴)

جب تمہارے جسم لرزنے لگیں اور آنسو نکلیں تو اس بات کی امید رکھو کہ تمہاری طرف عنایت ھوچکی ھے ۔

 

جن لوگوں کی دعا مستجاب ھوتی ھے

 

عَن عیسیٰ بنِ عَبدِ اللہِ القُمِّی قالَ : (سَمِعتُ اَبا عبدِ اللہِ علیہ السلام یَقولُ : ثلاثۃٌ دَعوَتُھُم مُستجَابۃٌ : اَلحاجُّ فانظُروا کَیفَ تَخلُفونَہُ ، والغازی فی سَبیلِ اللہِ فانظُروا کَیفَ تَخلُفونَہُ ، والمَریضُ فَلا تُغیظوہُ وَلا تُضجِروہُ ؛ (۴۵)

عیسی بن عبد اللہ قمی حضرت امام صادق (ع) سے روایت کرتے ھیں : تین گروہ کی دعا مقبول ھے :

جو حج پر جائے ، لہذا غور کرو کہ اس کے پسماندگان سے کیسی رفتار دکھو گے ، جو راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلتا ھے ۔ لھذا اس کی غیبت میں اس کے پسماندگان کے ساتھ رفتار رکھنے میں احتیاط سے کام لو ۔ تیسرے بیمار کی ۔ لھذا اسے غصہ نہ دلاؤ اور اسے عاجز نہ کرو " کہیں تمہارے لئے نفرین ارو بد دعا نہ کرے"۔

نیز حضرت فرماتے ھیں : میرے والد بزرگوار نے فرمایا : تُفَتَّحُ عِندَ ھَذِہِ خَمسُ دَعَوَاتٍ لا یُحجبنَ عَنِ الرِّبِّ تَبَارَکَ وَ تَعَالَیٰ دَعوَةُ الاِمَامِ المُقسِطِ دَعوَةُ المَظلُومِ یَقُولُ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ لأنتَقِمَنَّ لَکَ وَلَو بَعدَ حِینٍ وَ دَعوَةُ الوَلَدِ الصَّالِحِ لِوَالِدَیہِ وَ دَعوَةُ الوَالِدِ الصَّالِحِ لِوَلَدِہِ وَ دَعوَةُ المُؤمِنِ لأَخِیہِ بظَھرِ الغَیبِ فَیَقُولُ وَلَکَ مِثلُہُ ؛ (۴۶)

پانچ دعا اللہ جل جلالہ کی بارگاہ کبریائی میں رد نہیں ھوتی ۔ عادل رھبر اور پیشوا کی دعا ، مظلوم کی دعا کہ جس کے بارے میں خدا نے فرمایا ھے : یقیناً میں تمہارا انتقام لوں گا اگرچہ ایک طولانی مدت کے بعد ھو ، والدین کے لئے نیک اولاد کی دعا ، صالح والد کی فرزند کے لئے دعا، اور برادر مومن کی دعا برادر ایمانی کے لئے اس کے پس پشت خدا فرماتا ھے : تمہارے لئے اسی کے مثل ھونا چاھیئے ۔

 

جن لوگوں کی دعا قبول نہیں ھوتی

 

امام صادق (ع) فرماتے ھیں : چار انسان کی دعا قبول نہیں ھوتی :

۱ ۔ ایسے شخص کی جو گھر میں بیٹھتا کہتا ھو : خدایا مجھے روزی دے ، اس سے کہا جاتا ھے کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا ھے کہ روزی کے لئے گھر سے باھر نکلو اور تلاش کرو

۲ ۔ ایسا انسان جس کے پاس بیوی ھو اور اس عورت کی ناقابل برداشت اذیت سے چھٹکارا پانے کے لئے عورت کے لئے بد دعا کرے تو اس سے کہا جاتا ھے کہ اسے طلاق اسے طلاق دینے اور اس سے چھٹکارا پانے کا اختیار تمہارے ہاتھ میں ھے لھذا یہ بد دعا کا مقام نہیں ھے ۔

۳ ۔ وہ شخص جسے مال و دولت ملی لیکن اس نے سب ضائع و برباد کر کے اب کہتا ھے : خدا یا مجھے رزق عطا کر تو اس سے کہا جاتا ھے کیا میں نے تجھے میانہ روی کا حکم نہیں دیا تھا ۔ آیا میں نے تجھے مال کی اصلاح کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اس کے بعد حضرت نے سورہ فرمان کی ۶۷ / ویں آیت سے دلیل پیش کی ۔ (۴۷)

۴ ۔ وہ انسان جو کسی غیر کو شاھد اور گواہ کے بغیر قرض دے اور قرض لینے والا انکار کردے اور منکر مدیون سے طلب دریافت کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کرے اور اس سے مانگے تو اس سے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تمہیں یہ حکم نہیں دیا کہ قرض دیتے وقت شاھد بناؤ ۔

 

منابع و ماخذ

 

۱ ۔  محدث نوری ، مستدرک الوسائل ، ج ۵ ، ص ۲۱۷ ۔

۲ ۔ سورہ مؤمن ، آیت ۶۰ ۔

۳ ۔ سورہ انعام ، آیت ۶۳ ۔ ۶۴ ۔

۴ ۔ سورہ انبیاء ، آیت ۹۰ ۔

۵ ۔ سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۶ ۔

۶ ۔ سورہ فرقان ، آیت ۷۷ ۔

۷ ۔ سورہ روم ، آیت ۳۳ ۔

۸ ۔ آیات ۶۵ عنکبوت ، ۳۲ لقمان ، ۱۲ یونس ۔

۹ ۔ اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۶۔

۱۰ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۷ ۔

۱۱ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۷ ۔

۱۲ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۷ ۔

۱۳ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۷ ۔

۱۴ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۸ ۔

۱۵ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۹ ۔

۱۶ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۹ ۔

۱۷ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۶۹ ۔

۱۸ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۰ ۔

۱۹ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۱ ۔

۲۰ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۱ ۔

۲۱ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۳ ۔

۲۲ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۴ ۔

۲۳ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۵ ۔

۲۴ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۵ ۔

۲۵ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۴ ۔

۲۶ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۲۷۴ ۔

۲۷ ۔ سورہ مائدہ ، آیہ ۸۳ ۔

۲۸ ۔ مجموعہ ورام ، ج ۲ ، ص ۲۰۲ ۔

۲۹ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۸۲ ۔

۳۰ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۸۲ ۔

۳۱ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۸۴ ۔

۳۲ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۸۴ ۔

۳۳ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۸۷ ۔

۳۴ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۳ ۔

۳۵ ۔ سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۶ ۔

۳۶ ۔ سورہ زمر ، آیت ۵۳ ۔

۳۷ ۔ سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۸ ۔

۳۸ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۸۸ ۔

۳۹ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۹۳ ۔

۴۰ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۹۴ ۔

۴۱ ۔ حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، ج ۷ ، ص ۶۴ ۔

۴۲ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۷ ۔

۴۳ ۔ حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، ج ۷ ص ۶۴ ۔

۴۴ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۷۸ ۔

۴۵ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۵۰۹ ۔

۴۶ ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۵۰۹ ۔

۴۷ ۔ " وَ الَّذِینَ اِذَا أنفَقُوا لَم یُسرِفُوا وَلَم یَقتَرُوا وَ کَان بَینَ ذَلِکَ قَوَاماً ؛ وہ جب انفاق کرتے ھیں تو نہ اسراف کرتے ھیں اور نہ بخل سے کام لیتے ھیں ۔ بلکہ ان دونوں کے درمیان میانہ روی اختیار کرتے ھیں ۔

 

تفسیر 4

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

اِنۡ کَانَتۡ لَکُمُ الدَّارُ الاخِرَةُ عِنۡدَ اللہِ خَالِصَۃً مِنۡ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صَادِقِینَ وَ لَنۡ یَتَمَنَّوہُ اَبَداً بمَا قَدّمَتۡ اَیۡدِیھِمۡ وَ اللہُ عَلِیمٌ بالظّالِمِینَ وَ لَتَجَدَنّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیٰوة وَ مِنَ الَّذِینَ اَشۡرَکُوا یَوَدُّ اَحَدُھُم لَو یُعَمَّرُ اَلفَ سَنَۃٍ وَ مَا ھُوَ بمُزَحۡزِحِہ مِنَ الۡعَذابِ اَنۡ یُعَمَّرۡ وَ اللہُ بَصیرٌ بمَا یَعۡمَلُونَ

 

ترجمہ :

ان سے کہیے ، اگر (دعوے کے مطابق) منزل آخرت خدا کی طرف سے تمھارے ھی لیے ھے دوسروں کے لیے نہیں ھے۔ تو موت کی تمنا کرو ۔ اگر سچے ھو (۹۴) لیکن یہ لوگ ایسی تمنا ھرگز نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنے ھاتھوں کیے ھوئے کرتوت وھاں بھیج چکے ھیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ھے (۹۵) تم ان لوگوں کو زندگانی دنیا پر بے حد گرویدہ (لالچی) پاؤ گے حتیٰ کہ مشرکوں سے بھی زیادہ ، ان میں کا ھر شخص یہ چاھتا ھے کہ ھزار برس جیے ، حالانکہ اتنی طویل عمر بھی انھیں عذاب سے بچا نہیں سکے گی۔ اور جو کچھ یہ کرتے ھیں اللہ ان کے بارے میں (دانا اور ) بینا ھے (۹۶)

 

تفسیر

۹۴۔ قُلۡ اِنۡ کَانَتۡ لَکُمُ الدَّارُ الاخِرَة …

دار آخرت ، جنت بھی ھے ، جہنم بھی ۔ اگر چہ یہودی دعویدارنِ جنت ھی تھے ، مگر قرآن نے "دار آخرت" کہہ کر ادبی معجزہ برتا ھے جو اس کی خصوصیت ھے ۔ مطلب یہ ھے کہ یہودی پروپیگنڈا کرتے ھیں کہ جنت ان کی ھے وہ جہنم جائیں گے ھی نہیں اور اگر گئے بھی تو چند روز وھاں رھیں گے اور اس مدت میں آگ ان کے جسم کو نہ چھوے گی ۔۔۔۔ آیت نمبر ۸۰ بھی دیکھیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہنّم میں چند روز کے لیے جانا اور آتش جہنم کی اذیت سے بچے رھنا ایمان کامل و عمل صالح کے بعد اللہ کی رضا چاھتا ھے اور اگر تم نے سند لکھوا رکھی ھے ؟! اور جنت تمھاری ھی ھے تو پھر دنیا میں کیوں ھو ، دعا کرو ، جلدی موت آئے کہ جنت ملے ۔ دنیا چھوڑو اور آرزوے آخرت میں سرگرمی دکھاؤ ۔ سچائی کا تقاضا تو یہی ھے ۔

 

۹۵ ۔ وَ لَنۡ یَتَمَنَّوہُ اَبَداً ……

چونکہ انبیاء کی تعلیم سن چکے ھیں کہ خدا عادل ھے ۔ وہ مجرم کو سزا دے گا ۔ اور یہ لوگ ظلم و بد اعمالیاں کرتے رھے ھیں ، اس لیے جہنم سے ڈرتے اور موت سے بھاگتے ھیں ۔

اسلام میں آرزوے شھادت کا فلسفہ ھی یہ ھے کہ اگر مومن ھو تو آگے بڑھو، راہِ خدا میں ھر لمحہ ایسا جہاد کرو جو سنت و سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھے ۔ اس راہ میں مرو گے تو جنت پاؤ گے اور مردہ نہ کہلاؤ گے ۔

 

۹۶۔ وَ لَتَجَدَنّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ

ان یہودیوں کی طرف سے جنت کے دعوے اور جہنم سے معافی کا پروپیگنڈا غلط ھے ، یہ لوگ بڑے لالچی اور عہد شکن ھیں انھیں بہر صورت دولت چاھیے ۔ حصولِ زر کے لیے ان کو قتل نبی یا تحریف توریت سے بھی عار نہیں ، اسی دولت کی خاطر وہ ھمیشہ زندہ رھنا چاھتے ھیں ۔ تو کیا ھے ، سو نہیں ھزار سال جی کے دیکھ لیں آخر کار جہنم میں ٹھکانا ھوگا ۔ کیونکہ ان کے اعمال ھی اتنے بد ھیں کہ جنت کی بو سونگھنے کا حق بھی نہیں رکھتے ۔ جنت میں جانا تو بڑی بات ھے ۔

رسول اسلام (ص) کی تعلیم ھے کہ حساب کے دن سے پہلے اپنا حساب روز کا روز کرتے رھو ۔ اس کے بعد جمع تفریق میں غلطی ھوگی تو خدا رحمٰن و رحیم ھے ۔ مگر یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جنت تمھاری ھے۔ یہی تقوےٰ کی بنیاد ھے ۔ امید نجات سے مایوس نہ ھونے اور قرب الٰہی کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر مومن آدمی موت سے خوشی محسوس کرتا ھے ۔

نشان مردِ مومن با تو گویم     چو مرگ آید تبسم برلب اوست

 

قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِجبۡریَلَ فَاِنَّہُ نَزّلَہُ عَلٰی قَلۡبکَ باِذۡنِ اللہِ مُصَدِّقاً لِمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ ھُدًی وَ بُشۡرَیٰ لِلۡمُؤمِنِینَ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا للہِ وَ مَلائِکَتِہ وَ رُسُلِہ وَ جِبۡریۡلَ وَ میکالَ فَاِنّ اللہَ عَدُوٌّ لِلۡکَافِرِینَ وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَا اِلَیکَ اٰیاتٍ بَیِّناتٍ وَ ما یَکۡفُرُ بھا اِلا الۡفاسِقُونَ

 

ترجمہ :

اس سے کہہ دیجیے جو جبریل کا دشمن ھے کہ بلا شبہ وھی تو اللہ کے حکم سے آپ کے قلب پر قرآن لائے وہ ان چیزوں (کتب آسمانی و دین خدا) کی تصدیق کرتا ھے جو اس (قرآن) کے سامنے موجود ھیں اور مومنوں کے واسطے ھدایت و خوش خبری ھے (۹۷) جو شخص اللہ اور اس کے ملائکہ اور پیغمبروں اور جبریل و میکائیل کا دشمن ھے تو اللہ بھی کافروں کا دشمن (۹۸) اور ھم نے آپ پر واضح و روشن آیتیں اتاریں اور ان کا انکار نہیں کریں گے۔ مگر بدکار و نافرمان لوگ (۹۹)

 

 تفسیر :

۹۷۔ قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِجبۡریلَ …

۹۸۔ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا للہِ وَمَلائِکَتِہ …

یہودی جبریل علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ ابن صوریا، فدک سے چند یہودی لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوا۔ اور حضرت سے مختلف سوالات کے اطمینان بخش جواب سن کر کہنے لگا۔ اچھا، یہ بتائیے کہ آپ کے پاس وحی لانے والے فرشتے کا نام کیا ھے ؟ اگر آپ نے اس کا بھی صحیح جواب دیا تو ھم ایمان لے آئیں گے ۔ حضرت نے جبرئیل کا نام لیا ۔ یہ جواب بھی صحیح ملا تو اس نے بدباطنی کا اظھار کرتے ھوئے کہا : جبریل تو ھمارا بڑا دشمن ھے ۔ اس نے تو ھمیشہ ھمارے لیے مشکلات ھی پیدا کی ھیں ۔ البتہ میکائیل اچھا فرشتہ ھے اگر وہ وحی لاتے تو ھم اسے مان کر اسلام لے آتے ۔

اللہ نے فرمایا : جبریل ھوں یا میکائیل یا کوئی اور فرشتہ یا پیغام بر ، سب اللہ کے محبوب ھیں ان کا دشمن اللہ کا دشمن ھے اور کافر ھے ۔ اور کافر سے خدا محبت نہیں فرماتا ۔ آیت میں جبریل کے دشمن کو اللہ نے پہلے اپنا دشمن قرار دیا ھے ۔ اور ملائکہ و مرسلین کے بعد جبریل و میکائیل کا نام ان کی اھمیت جتانے کے لیے لیا ھے

جبریل علیہ السلام تو قرآن جیسی کتاب لائے اور قرآن گذشتہ نازل شدہ کتابوں اور انبیاء کے تعلیمات کی تائید کرتا اور اللہ کے پیام کو آگے بڑھاتا ھے وہ ھدایت ھے اور مومنوں کو بشارت ھے ۔ گویا ، جبریل (ع) بھی قابل ستائش اور قرآن بھی لایق محبت ھے ، ۔

[قرآن مجید میں جبریل کا نام سورۂ نحل سمیت تین مرتبہ ھے اور ی سے پہلے ھمزہ نہیں ھے اور دو جگہ ان کی صفت "روح القدس" اور "روح الامین" بتائی گئی ھے ۔ صحیفۂ کاملہ و نہج البلاغہ خصوصی طور پر ان ملائکہ کی تعریف دیکھنے کے قابل ھے]   

 

۹۹۔ وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَا اِلَیکَ اٰیاتٍ بَیِّناتٍ …

ابن صوریا (جیسے لوگ کہتے ھیں ۔ آج بھی اگر کوئی یہ بات کہتا یا سوچتا ھے کہ) آپ کوئی ایسی دل کش بات کہیے کہ ھم سنتے ھی مان لیں ؟ جواب دیا گیا کہ بدکار و غلط اندیش لوگوں کی بات بیکار ھے ، رھے اھل فکر و دانش تو ان کے لیے یہ آیتیں واضح بھی ھیں اور روشن بھی ایمان افروز اور عقل کو اپیل کرنے والی ھیں ھی ۔

اَوَ کُلّمَا عاھَدُوا عَھۡداً نَبَذَہُ فَرِیقٌ مِنۡھُمۡ  بَلۡ اَکۡثَرُھُمۡ لا یُؤمِنُونَ وَ لَمّا جَاءَھُمۡ رَسُولٌ مِنۡ عِنۡدَ اللہِ مُصَدّقٌ لِمَا مَعَھُمۡ نَبَذَ فَرِیقٌ مِنَ الّذِینَ اُوتُوا الۡکِتَابَ کِتَابَ اللہِ وَرَاءَ ظُھُورِھِمۡ کَاَنَّھُمۡ لا یَعۡلَمُونَ ۔

 

ترجمہ :

کیا جب بھی کوئی قول و قرار کریں گے تو ایک فریق ان میں سے اسے (ضرور) مسترد کرے گا ۔ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان رکھتے ھی نہیں (۱۰۰)  اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے رسول آیا جو تائید (تصدیق ) کرتا ھے اس کی جو ان لوگوں کے پاس (توریت) ھے ۔ تو جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پسِ پشت ڈال دیا گویا وہ لوگ جانتے ھی نہیں ۔ (۱۰۱)  

 

تفسیر :

۱۰۰۔ اَوَ کُلّمَا عاھَدُوا …

ان یہودیوں پر آج بھی بھروسہ نہ کرنا ، ان کا دستور ھے کہ جب یہ کوئی معاھدہ کرتے ھیں تو فوراً انھیں میں سے ایک گروپ اسے توڑ دیتا ھے ۔ کوہ طور پر میثاق لیا گیا کہ تورات پر عمل کریں گے ، مگر عمل نہ کرنا تھا نہ کیا ۔  

بنو نضیر و بنو قریضلہ نے آنحضرت (ص) سے معاھدہ کیا مگر خندق میں مشرکین مکہ سے جاملے ان پر بھروسہ عقل مندی کے خلاف ھے ۔ 

 

۱۰۱۔ وَ لَمّا جَاءَھُمۡ رَسُولٌ مِنۡ عِنۡدَ اللہِ …  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے بارے میں یہودی اپنی مقدس کتاب اور اکابرِ اھل علم سے سنتے چلے آتے تھے ۔ مگر جب وہ وقت سعید آیا اور حضور نے اعلان دعوت فرمایا تو ان لوگوں نے انھیں یوں جھٹلایا جیسے تورات بھول گئے اس کے تعلیمات پسِ پشت ڈال کر لاعلم بن گئے ۔ حالانکہ آنحضرت (ص) تورات و تعلیمات انبیا کے مؤید تھے اسے مسترد کرنے والے نہ تھے ۔ 

 

وَاتّبَعُوا مٰا تَتۡلُو الشَّیاطینُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ وَ ما کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لکِنّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا یُعَلِّمُونَ النّاسَ السِّحۡرَ وَ مَا اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ ببَابلَ ھارُوتَ وَ مارُوتَ وَ ما یُعَلِّمانِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّی یَقُولا اِنّمَا نَحنُ فِتۡنَۃً فَلا تَکۡفُرۡ فَیَتَعَلّمُونَ مِنۡہُما مَا یُفَرّقُونَ بہ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجہِ وَ مَاھُمۡ بضارّینَ بہ مِنۡ اَحَدٍ اِلا باِذۡنِ اللہِ وَ یَتَعَلّمُونَ ما یَضُرّھُمۡ وَ لا یَنۡفُعُھُمۡ وَلَقَدۡ عَلِمُوا لَمِنَ اشۡتَرٰہُ مَا لَہُ فِی الآخِرَة مِنۡ خَلاقٍ وَ لَبِئۡسَ مٰا شَرَوۡا بہ اَنۡفُسَھُمۡ لَوۡ کَانُوا یَعۡلَمُونَ وَلَو اَنّھُمۡ اٰمَنُو وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوبَۃٌ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ خَیۡرٌ لَوۡ کَانُوا یَعۡلَمُونَ   

 

ترجمہ :

اور پیچھے پڑ گئے اس کے جو شیاطین، سلیمان کی بادشاھی میں جپا کرتے تھے ، حالانکہ سلیمان نے کفر اختیار نہیں کیا تھا ، لیکن شیطانوں نے کفر اختیار کیا ، وہ عوام کو جادو سکھاتے تھے اور بابل میں دو فرشتوں ، ھاروت و ماروت پر جو (علم) نازل کیا گیا ۔ حالانکہ وہ دونوں کسی کو تعلیم ھی نہ دیتے تھے جب تک وہ یہ نہ کہہ دیتے تھے کہ ھم دونوں تو فقط آزمائش ھیں لھٰذا تم اس پر عمل کرکے بے ایمان نہ ھوجانا ۔ اس کے بعد بھی لوگ ان سے وہ (عمل) سیکھتے تھے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ۔ حالانکہ حکم خدا کے بغیر وہ کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ۔ اور یہ لوگ وہ چیز تو سیکھتے ھیں جو انھیں نقصان پہنچائے اور فائدہ کچھ نہ دے ۔ باوجودیکہ وہ حتماً جان چکے تھے کہ جو شخص ان برائیوں کا خریدار ھوا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ھوگا ۔ اور بلا شبہ بہت ھی برا ھے جس کے بدلے انھوں نے اپنے نفس (خودی و ذات) کو بیچا، کاش وہ لوگ یہ جان جاتے (۱۰۲) اور اگر یہ لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ برتتے تو یقیناً اللہ کے حضور ثواب اس سے کہیں بہتر ھوتا کاش یہ لوگ اتنا تو سمجھ لیتے (۱۰۳)  

 

تفسیر :

مدینے کے یہودیوں نے معاشی اقتدار کے ساتھ کچھ سماجی چونچلے اور مقامی کہانیاں گڑھ رکھی تھیں ان کے کاھن اور ربّی عوام کو طرح طرح سے گمراہ کرتے رھتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں بھی وہ عجیب عجیب قصے سناتے اور انبیا پر تہمتیں لگاتے تھے اس سے عوام میں ان کے معلومات کی دھاک بیٹھی تھی ۔ ان میں سے ایک من گڑھت حضرت سلیمان علیہ السلام سے جادو کی نسبت اور ھاروت و ماروت کی کہانی بھی تھی ۔ قرآن مجید نے تفصیلات میں جائے بغیر چند اھم حقائق بیان فرما کر ان تمام داستانوں کی تردید کردی جن سے یہودیوں نے ساکھ بنا رکھی تھی ۔

جادو کا حضرت سلیمان (ع) سے کوئی تعلق نہیں ، ان کو کافر کہنا غلط ھے اور یہ نبی پر بہت بڑا بہتان ھے ۔   

عہد سلیمان علیہ السلام یا ان کے بعد جادو کا چرچا شیطانوں ، منکرین دین و اخلاق نے کیا اور وہ کافر تھے ۔ اسلام جادو ٹونے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔

بابل کی تاریخ و سماج کے حوالے سے ھاروت و ماروت کو جادو گر بتانا بھی غلط ھے وہ دونوں جو کچھ بتاتے تھے وہ کفر نہ تھا ، لوگوں نے اس کا استعمال غلط کیا ۔  

نام و نہاد جادو گر، ٹونے ٹوٹکے کرنے والے گھاٹے کا سودا کرتے ھیں ، آخرت میں انھیں سنوا ملے گی۔ نیز یہ کہ وہ اپنے کسی عمل سے کسی کا کچھ بگاڑ یا سنوار نہیں سکتے ، نفع رسانی تو اللہ کے ھاتھ میں ھے وھی قادر و توانا ھے ۔  

جو لوگ یہ کام کرتے ھیں ان کے لیے بہتر یہی تھا ۔ اور ھے ۔ کہ علم کتاب حاصل کریں ، ایمان و تقویٰ کے راستے پر چلیں ، اور کتاب خدا کے خلاف عمل نہ کریں ۔ خواہ مخواہ عوام فریبی اور ان کو دین سے منحرف کرنے کی مہم چلانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اور ھوا بھی یہی کہ اسلام کی روشنی نے کاھنوں اور ساحروں کے چراغ گل کردیے ۔ 

اگر یہ لوگ جادو گری کے بجائے ایمان لے آتے اور متقی بن جاتے تو اجر و ثواب کے مستحق ھوتے اور نفرین و عذاب سے بچ جاتے ۔

یَا اَیُّھَا الّذِینَ اٰمَنُوا لا تَقُولُوا راعِنا وَ قُولُوا انۡظُرۡنا وَ اسۡمَعُوا وَلِلۡکَافِرینَ عَذٰابٌ اَلیمٌ مَا یَوَدُّ الّذِینَ کَفَرُوا مِنۡ اَھۡلِ الۡکِتَابِ وَ لا الۡمُشۡرِکِینَ اَنۡ یُنَزّلَ عَلَیکُمۡ مِنۡ خَیۡرٍ مِنۡ رَبّکُمۡ وَ اللہُ یَخۡتَصُّ برَحۡمَتِہ مَنۡ یَشَاءُ وَ اللہُ ذُوالۡفَضۡلِ العَظیمِ

 

ترجمہ :

اے ایمان لانے والو! "راعنا" نہ کہا کرو ۔ "انظرنا" کہا کرو۔ اور (توجہ سے) سنا کرو ۔ اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ھے (۱۰۴) اھل کتاب میں کافر اور مشرک لوگ یہ نہیں چاھتے کہ تمھارے رب کی طرف سے تم پر کوئی نیک بات اترے اور اللہ اپنی رحمت سے جسے چاھتا ھے خاص کرلیتا ھے اور اللہ فضلِ عظیم کا مالک ھے۔  (۱۰۵)   

 

تفسیر

۱۰۴۔ یَا اَیُّھَا الّذِینَ اٰمَنُوا لا تَقُولُوا راعِنا …  

قرآن مجید میں تقریباً ۸۹ جگہ "یا ایھا الذین آمنوا" سے خطاب ھوا ھے اور یہ سب آیتیں مدنی ھیں ۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ دعوت اسلام قبول کرنے والے مدینے میں علم و عمل ، اعتقادات و احکام کی بنا پر ایک توصیفی خطاب سے ممتاز ھوگئے تھے ۔ زیر نظر آیت میں ان لوگوں کو آداب ھم نشینی و گفتگو سے باخبر اور تربیت اخلاق سے نوازا جارھا ھے ارشاد ھے کہ "راعنا" سے بات روکنا۔ اور ایسا کلمہ کہنا جس میں ذم کا پہلو نکلتا ھو مناسب نہیں ۔ اس کے بجائے ۔ جب نبی سے کسی بات کو دوبارہ یا آھستہ اور ٹھر ٹھر کر کہنے کی درخواست کرنا ھو تو "انظرنا" کہہ کر متوجہ کیا کرو ۔

"راعنا" ذو معینین ھے ۔ اس کے ایک معنی ھیں۔ ذرا ھمارا خیال رکھیے ۔ ھمیں بات سمجھنے کا موقع دیجئے ۔ بات آھستہ آھستہ ٹھر ٹھر کر کیجیے ۔ دوسرے معنی ھیں ھمارے چروا ھے ۔ سنو ۔ کاش بہرے ھوتے ۔

یہودی "راعنا" کہہ کر توھین رسالت کرتے تھے لھٰذا اسے ممنوع قرار دیا ۔ "انظرنا" کے معنی ھیں : ذرا مہلت دیجئے ۔ ذرا آھستہ آھستہ ۔  

جس حرف ، کلمہ اور بات سے دشمنوں کو مذاق اڑانے کا موقع ملے ، جب قرآن کریم ھمیں اس محاورے کی اجازت نہیں دیتا ، تو ایسے کام اور ایسے معاملات کی اجازت کیسے مل سکتی ھے جس سے دشمنان اسلام، یہودی یا ان جیسے لوگ مسلمانوں کا یا اسلام کا تمسخر کرسکیں ۔ مسلمانوں کو غیروں کی بات اپنانے سے پہلے سو مرتبہ سوچ لینا چاھیے کہ یہ پسندیدگی کہیں ادب آموزی قرآن و سنت کے خلاف تو نہیں ھے ۔ (سورة النساء کی ۴۶ ویں آیت بھی ملاحظہ کریں ۔ )

 

۱۰۵۔ مَا یَوَدُّ الّذِینَ کَفَرُوا …

نام نہاد اھل کتاب اور مشرک دونوں یہ چاھتے ھیں کہ دنیا جہاں کی بھلائی اور ھر طرح کا اعزاز انھیں کے پاس رھے ۔ تم مسلمانوں کے پاس کتاب خدا کا آنا، تمھارے رسول پر وحی کا اترنا انھیں گوارا نہیں ۔ اس لیے مسلمان ان سے خلوص و محبت کی امید نہ رکھیں ۔ خدا سے لو لگائیں فضل و کرم کا مالک تو وھی ھے ۔

مدعی لاکھ برا چاھے تو کیا ھوتا ھے      وھی ھوتا ھے جو منظور خدا ھوتا ھے ۔

مٰا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِھٰانَاۡتِ بخَیۡرٍ مِنۡھَا اَوۡ مِثۡلِھٰا اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدیرٌ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنّ اللہَ لَہُ مُلۡکُ السَّمٰوٰاتِ وَالارۡضِ وَمٰا لَکُمۡ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَلِیٍّ وَلا نَصِیرٍ

 

ترجمہ :

جو آیت بھی ھم منسوخ کرتے یا بھلا دیتے ھیں تو اس سے بہتر یا ویسی ھی آیت نازل بھی کردیتے ھیں۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ ھر چیز پر (ھر  طرح کی) قدرت رکھتا ھے ۔ (۱۰۶) کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ ھی کے لیے زمین و آسمان کی سلطنت ھے۔ اور تمھارا، اللہ کے سوا کوئی حامی و مددگار نہیں ھے (۱۰۷)

 

تفسیر :

دونوں آیتوں میں ایک سوال کا جواب دو مخاطبین کو دیا گیا ھے۔ یہودی اپنی عادت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا، خدا پر اعتراض کرتے تھے کہ بھلا یہ کیا ھوا کہ خدا ایک مرتبہ آیت (آیات یا حکم یا احکام) نازل کرتا ھے پھر اسے منسوخ کردیتا ھے ، تورات نازل کی منسوخ ھوگئی ، انجیل بھیجی پھر قرآن نے اسے منسوخ کردیا ، بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا پھر بدل دیا ، ایک ھی مرتبہ ایسا حکم کیوں نہ دیا جس کے بدلنے کی ضرورت نہ پڑتی ؟ اس کا جواب پہلے اھل کتاب کو یہ دیا کہ ھم قادر و مختار ھیں، تمھارے پابند نہیں، ھم جب کسی آیت یا حکم کو منسوخ کرتے یا اسے مؤخر کردیتے ھیں تو اس سے بہتر فرمان جاری کرتے ھیں یا اس سے ملتا جلتا اور زیادہ مناسب مصلحت حکم دیدیتے ھیں ۔ حکیم و علیم کا مطلب یہ ھے کہ ارتقاء فکری و عملی کو پیش نظر رکھ کر دستور بنائے ۔ پھر اسلام تو دائمی دستور ھے اس میں تو ماضی کو یوں باقی رکھنا ھے کہ مستقبل تک کوئی ترمیم نہ ھوسکے ھماری حکمت کے مطابق نہیں گذشتہ پیغمبروں کے دور ھمارے نبی (ص) نے ختم کردیے تو ھمارے حکم یکے بعد دیگرے گذشتہ احکام کو منسوخ کیوں نہ کریں ۔

پھر مسلمانوں سے خطاب ھے کہ تم ان یہودیوں اور مشرکوں کی باتوں کو سمجھتے ھو ، یہ نہ پیغمبروں کو مانتے تھے نہ کتابوں پر ان کا ایمان ، یہ ان نکتوں کو کیا سمجھیں کہ اللہ ، زمین و آسمان و کائنات کا مالک ھے وھی حامی و ناصر ھے ، ان دشمنان اسلام و مخالفین مذھب کی دل جوئی سے کیا فائدہ نہ ان کی مدد کسی کام کی نہ ان کی حمایت کا کوئی فائدہ۔ یہ کچھ ھے ھی نہیں ۔ آخر اتنے دن بیت المقدس قبلہ رھا ، انھوں نے تمھارا کیا ساتھ دیا جو آئندہ ھم نوائی کی امید رکھی جائے ۔

اَمۡ تُرِیدُونَ اَنۡ تَسۡئَلُوا رَسُولَکُمۡ کَمٰا سُئِلَ مُوسیٰ مِن قَبۡلُ وَ مَنۡ یَتَبَدَّلِ الۡکُفۡرَ بالایمٰانِ فَقَدۡ ضَلَّ سَواءَ السّبیلِ وَدَّ کَثیرٌ مِنۡ اَھۡلِ الۡکِتَابِ لَوۡ یَرُدُّونَکُمۡ مِنۡ بَعۡدِ اِیمٰانِکُمۡ کُفّاراً حَسَدًا مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِھِمۡ مِنۡ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الۡحَقُّ فَاعۡفُوا وَاصۡفَحُوا حَتّٰی یَاتِےَ اللہُ باَمۡرِہ اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَیٍٔ قَدِیرٌ ۔ وَ اَقِیمُوا الصّلوٰاة وَ اٰتُوا الزّکوٰة وَ مَا تُقَدِّمُوا لانۡفُسِکُمۡ مِنۡ خَیرٍ تَجِدُوہُ عِنۡدَ اللہِ اِنَّ اللہَ بمَا تَعۡمَلُونَ بَصیرٌ ۔

 

ترجمہ :

کیا تم چاھتے ھو کہ اپنے رسول سے ویسے ھی سوال (جواب) کرو جیسے پہلے زمانے میں موسیٰ سے سوال کیے گئے تھے ؟ اور جس نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کیا تو وہ ضرور سیدھے راستے سے بھٹک گیا (۱۰۸) اھل کتاب میں بہت سے لوگ اس امید میں ھیں کہ تمھیں ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر میں واپس لائیں ، یہ (بات) ان کے دلوں میں حسد کی بنا پر ھے ۔ یہ ان پر حق ظاھر ھونے کے بعد کی بات ھے ۔ لھٰذا تم ان سے در گذر کرو انھیں معاف کردو، یہاں تک کہ خدا اپنا حکم جاری کرے۔ بلا شبہ اللہ ھر چیز پر قادر ھے (۱۰۹) اور نماز قائم کرو ، زکوٰة دیتے رھو اور جو نیک عمل اپنے لیے پہلے سے بھیج دو گے اس کو اللہ کے حضور میں پاؤ گے ۔ جو عمل تم کر رھے ھو اللہ اسے ضرور دیکھ رھا ھے (۱۱۰)

 

تفسیر :

۱۰۸ ۔ اََمۡ تُرِیدُونَ اَنۡ تَسۡئَلُوا …

ادب آموزی و شخصیت سازی کی بات ھورھی ھے ، یہودی کے واقعات ان کے اقدامات اور نتائج دیکھ چکے ۔ اس سے سبق لو اور مسلمانو ! تم ان کا طریقہ نہ اپناؤ ، تم ان کی طرح اپنے رسول اعظم (ص) سے ویسی کٹھ حجتی نہ کرو ۔ اس طرح سے ایمان کفر سے بدل جائے گا ۔ سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے ۔

 

۱۰۹۔ وَدَّ کَثیرٌ مِنۡ اَھۡلِ الۡکِتَابِ …

یہ رجحان کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سوالوں کی بوچھار کردو ۔" در اصل ایک سازش ھے ۔ یہود و نصاریٰ اسلام کی حقانیت اور اپنے افکار کے غلط ھونے سے با خبر ھوچکے ھیں ۔ ان کے پاس دلائل تو ختم ھوگئے اب وہ تمھیں شبھوں میں مبتلا کرکے غلط اقدام کرنے پر آمادہ کر رھے ھیں ۔ وہ سمجھتے ھیں کہ اس طرح تم اسلام سے منحرف ھوجاؤ گے اور ان کے دل کی آگ بجھ جائے گی ۔ مگر تم یاد رکھو کہ ایمان سے انحراف سیدھے راستے اور منزل سے انحراف ھے جو بہت خطرناک کام ھے ۔

تم ان کی باتیں سنتے اور در گذر کرتے رھو، تمھارا خدا ان کے کرتوت دیکھ رھا ھے ۔ حکم جہاد یا حکم اخراج آجائے پھر کچھ کرنا ابھی ان کو طاقت آزمائی کرلینے دو ۔ ان کو حسد کی آگ میں جلنے دو ۔

 

۱۱۰۔ وَ اَقِیمُوا الصّلوٰاة وَ اٰتُوا الزّکوٰة …

آج اور ھمیشہ دشمنان دین کو رسوا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ھے نماز قائم کرنے میں غفلت اور زکاة ادا کرنے میں سستی نہ برتو یہ کام دشمن کے شرمندہ و ذلیل ھونے کا سبب ھے ۔

خود تمھارے لیے ذات و روح کی تقویت اور معاشرے کے لیے خوش حالی و ترقی کے فوائد حاصل ھوں گے ۔ یہ بات ذھن میں رکھو کہ رضاء خدا ھدف ھے ، اور خدا عمل و نیت عمل سے خوب واقف ھے ۔      

وَقٰالُوا لَنۡ یَدۡخُلَ الجَنّۃَ اِلا مَنۡ کَانَ ھُودًا اَوۡ نَصٰارٰی تِلۡکَ اَمٰانِیُّھُمۡ قُلۡ ھٰاتُوا بُرۡھٰانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰادِقینَ بَلیٰ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡھَہُ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہُ اَجۡرُہُ عِنۡدَ رَبّہ وَ لا خَوۡفٌ عَلَیۡھِمۡ وَ لاھُم یَحۡزِنُونَ ۔

ترجمہ :

اور وہ کہتے ھیں جنت میں ھرگز نہیں جاسکتا مگر وھی جو یہودی ھو یا نصرانی ۔ یہ ان کی آرزوئیں ھیں ۔ آپ ان سے کہیے ، تم اپنی دلیل لاؤ اگر سچے ھو (۱۱۱) ھاں ، جو بھی اللہ کے سامنے اپنا سر جھکادے اور نیک عمل ھو، اس کا اچھا بدلہ اس کے پروردگار کے یہاں ھے۔ ایسے لوگوں کو نہ خوف ھو گا نہ وہ (آخرت) میں غمگین ھوں گے (۱۱۲)  

 

تفسیر :

عرب میں یہودیوں اور ان سے زیادہ عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیاں تیز تھیں، اسلام کے آنے سے انھیں ایک عقلی و استدلالی دعوت کا سامنا کرنا پڑا ۔ سادہ لوح قبیلوں میں دونوں گروھوں کے مبلغ کہتے پھرتے تھے بس ان کے مذھب والے ھی جنت میں جائیں (دیکھیے آیت ۸۰) عوام اس اعلان سے متاثر ھوتے تھے ۔ اسلام نے انھیں للکارا ، ان کی سیرت و کردار ، ان کی تاریخ اور قدیم عادتوں کی تفصیل بیان کی اور کہا ، تم اور جنت میں جاؤ گے ، نہ خدا کا کہنا مانتے ھو ، نہ کتاب کی حفاظت کرتے ھو، خدا پر بہتان ، تورات میں تحریف ، عقائد میں تغیر ، پھر بھی جنت میں جانے کی خام خیالی میں مبتلا ھو ۔ اچھا ، اگر تمھارا عقیدہ اور تمھارا اعلان ٹھیک ھے تو دلیل لاؤ ،

عقل سے ثابت کرو اور عمل کا دفتر پیش کرو ۔ مذھب کے علاوہ بھی اچھائی اور اچھے نتائج کی آرزو اسے کرنا چاھیے جو کم از کم اللہ کے سامنے سرجھکا کر اسے مالک وقادر تو مانے ۔ خوش کردار اور نیک عمل تو ھو ۔ اس کے بعد آخرت میں بھلائی کی امید رکھے تو عقل مان بھی لے گی ۔ بدکرداری و بد عقیدگی کے بعد تو یہ دعوے انسانیت کا مذاق ھیں ۔

وَ قَالَتِ الۡیَھُودُ لَیۡسَتِ النَّصٰاریٰ عَلٰی شَۓٍ وَ قَالَتِ النّصٰاریٰ لَیۡسَتِ الیَھُودُ عَلٰی شَۓٍ وَ ھُمۡ یَتۡلُونَ الکِتَابَ کَذالِکَ قَالَ الّذِینَ لا یَعۡلَمُونَ مِثۡلَ قَوۡلِھِمۡ فَاللہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَھُمۡ یَومَ القِیٰمَۃِ فِیمٰا کَانُوا فِیہِ یَخۡتَلِفُونَ ۔

 

ترجمہ :

یہودی کہتے ھیں ، مسیحی کسی چیز (عقیدۂ صحیح) پر نہیں اور مسیحی کہتے ھیں ، یہودی کسی بنیاد پر (قائم) نہیں ھیں ، حالانکہ دونوں اللہ کی کتاب پڑھتے ھیں ۔ اسی طرح ان لوگوں جیسی بات جاھلوں (لا علم مشرکوں) نے بھی کی ھیں ۔ تو ، اللہ ،قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں بھی یہ جھگڑتے ھیں (۱۱۳)

 

تفسیر :

میدان میں تین حریف تھے۔ یہود جو توارات والے تھے ، عیسائی جن کے پاس انجیل تھی ۔ مشرک جن کے بتوں کی تعداد بہت تھی ۔ یہ لوگ کعبہ کے پڑوسی اور مدینہ کے اصلی باشندے ھونے پر مغرور تھے ۔ عیسائی اور موسائی اپنی منطق بھگارتے اور مذھبی تبلیغ کرتے تو یہ بے علم و کتاب لوگ بھی پانچویں سواروں میں کھڑے ھوتے اور شور کرتے تھے ۔ قرآن مجید نے انتہائی حسین و معجز نما پیرائے میں اس کی نقشہ کشی کی ھے ۔ گذشتہ آیات میں ان کے یہ پروپیگنڈے گذر چکے ھیں کہ ھر ایک کہتا ھے کہ جنت ھماری ، دوسرے کا دخل نہیں اور یہاں یہ ھے کہ ھر گروہ کہتا ھے کہ دوسرا کچھ ھے ھی نہیں ۔ نہ عقیدہ صحیح نہ عمل درست ھے ۔ ھم ھی حق پر ھیں ۔ لطف یہ ھے کہ اپنے دعوے پر دلیل کسی کے پاس نہیں ۔ کتنے افسوس کی بات ھے رسول و کتاب کے باوجود دو گروہ آپس میں لڑتے تھے ، حالانکہ تورات و انجیل جھگڑے ختم کرنے کے لیے اتری تھیں جب وہ موسیٰ اور یہ عیسیٰ پر متفق نہیں تو آنحضرت (ص) کو کیسے مانیں گے ۔ نتیجہ یہ کہ قیامت کے دن اللہ انھیں سزا دے گا ۔ کیونکہ اس کی حجت تمام ھوچکی ۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَنَعَ مَسٰاجِدَ اللہِ اَنۡ یُذۡکَرَ فِیھَا اسۡمُہُ وَ سَعٰی فِی خَرابھَا اوُلئکَ مٰا کٰانَ لَھُمۡ اَنۡ یَدۡخُلُوھٰا اِلا خَائِفینَ لَھُمۡ فِی الدُّنۡیٰا خِزۡیٌ وَ لَھُمۡ فِی الاٰخِرَة عَذٰابٌ عَظیمٌ وَ للہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوا فَثَمّ وَجۡہُ اللہِ اِنّ اللہَ وَاسِعٌ عَلیمٌ

 

ترجمہ :

اس سے بڑھ کر ظالم کون ھوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے روکے اور انھیں ویران کرنے کے درپے ھو ۔ ایسے لوگوں کو حق نہیں کہ مسجدوں میں داخل ھوں مگر ڈرتے ھوئے ۔ ایسے ھی لوگوں کے لیے رسوائی ھے دنیا میں اور ان ھی لوگوں کے لیے آخرت میں بہت بھاری عذاب ھے (۱۱۴) اور اللہ کا مشرق و مغرب ھے ، تو جدھر بھی منہ کرو ادھر ھی اللہ کا سامنا ھے ۔ بے شک اللہ وسعتوں کا مالک اور بہت بڑا صاحب علم ھے (۱۱۵) 

 

تفسیر :

۱۱۴۔ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَنَعَ مَسٰاجِدَ اللہِ …

یروشلم میں عیسائی نے یہودیوں کو شکست دی تورات جلا دی ۔ بیت المقدس کو نقصان پہنچایا ۔ یہود کا داخلہ بند کردیا ۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حج سے روک دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ سے واپس چلے آئے ۔ دونوں واقعات کے پس منظر میں عمومی بات ارشاد فرمائی کہ مسجدوں میں جو بھی ذکر خدا و عبادت سے منع کرے اور اللہ کے گھر کو جو بھی ویران کرنے کی کوشش کرتا ھے وہ بہت بڑا ظالم ھے ۔ اللہ کے گھر پر کسی کو تسلط کا حق نہیں ھے ۔ ایسے اشخاص اگر اللہ کے گھر میں جاتے ھیں تو ذرا ڈر کر جائیں وہ ادب کی جگہ عاجزی و تقویٰ کے ساتھ داخل ھونے کا مقام ھے وھاں قوت کا مظاھرہ کیسا؟ اللہ ، جب چاھے گا ان کے ظلم کا پانسہ پلٹ دے گا ۔ یہ بیت المقدس اور مکہ و کعبہ مسلمانوں کے پاس ھوگا دشمن رسوا ھوں گے اور انھیں آخرت میں عذاب ملے گا ۔ ایسا ھی ھوا کہ تھوڑی ھی مدت میں مکہ اور یروشلم مسلمانوں نے فتح کرلیا ۔

ھر مسجد کی تعمیر و آبادی مومن کا شیوہ ھے ، وھاں جائے دوسرے لوگوں کو بلائے نماز و تسبیح و تہلیل سے مسجد کو گونجتے رھنا چاھیے کہ وہ خانۂ خدا ھے اس کا حق ھی یہ ھے ۔

اور مسجد میں نماز سے روکنا ، اپنی چودھراھٹ قائم کرنے کے لیے ظلم ھے مسجد کی ویرانی مسلمان نہیں کرسکتا اور اگر کوئی شخص یا اھل محلہ ، گروہ یا ایک طبقہ آبادی مسجد میں خلل ڈالتا ھے تو مجرم ھے ۔

مسجد کو عبادت و درس قرآن و عقائد و اعمال کا مرکز رھنا چاھئے ۔ وھاں ھر قسم کی دینی سرگرمیوں کا سرچشمہ اور اسلام دشمن اعمال و افکار کے خلاف فکر و عمل ساز تربیتی مدرسہ اور کردار ساز ادارہ اور دشمن کے خلاف مورچہ ھونا چاھیے ۔

۱۱۵۔ وَ للہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ …

یہ جگھڑا بے معنی ھے کہ عیسائیوں کا قبلہ اچھا یا موسائیوں کا ، یا مشرکوں کا قبلہ اچھا ؟ جھتیں اور سمتیں اللہ کی ملکیت ھیں جدھر رخ کرو گے اللہ ھی اللہ ھے ۔ وہ زمان و مکان کا پابند نہیں ۔ یہ کیا ، کہ بیت المقدس کی طرف رخ کیا گیا تو اھل مکہ ناراض ھوں یا کعبہ کی طرف رخ ھوتو یہود و نصاریٰ جلیں ؟ قبلہ اللہ کی رضا کی ایک علامت ھے وہ مشرق ھو یا مغرب ۔ جدھر اللہ کا حکم ھو ادھر سجدہ صحیح ھے اور بس ۔

فقھا کہتے ھیں کہ حالت سفر میں مستحبی نمازوں اور جسے سمت قبلہ معلوم نہ ھو اس کے بارے میں یا اگر کسی کو سمت قبلہ نہیں مل رھی ھے تو جدھر چاھے رخ کرکے نماز پڑھ لے

یہ مسئلہ فقہی ھے اپنے مجتہد کا فتویٰ معلوم کرنا چاھیے۔

وَ قالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَداً سُبۡحٰانَہُ بَلۡ لَہُ مَا فِی السَّمٰوٰاتِ وَ الارۡضِ کُلٌ لَہُ قٰانِتُونَ بَدِیعُ السَّمٰوٰاتِ وَ الاَرۡضِ وَ اِذَا قَضیٰ اَمۡراً فَاِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُنۡ فَیَکُونُ ۔

 

ترجمہ :

اور انھوں نے کہا ، اللہ اولاد رکھتا ھے ۔ وہ پاک ھے ۔ بلکہ زمین آسمان میں جو کچھ ھے سب اسی کا ھے اور سب اسی کے فرماں بردار ھیں (۱۱۶) وھی آسمانوں اور زمیں کو وجود بخشنے والا ھے ۔ جب وہ کسی فرمان کا فیصلہ کرتا ھے تو کہتا ھے ۔ ھوجا ۔ اور وہ چیز فوراً وجود میں آجاتی ھے (۱۱۷)  

 

تفسیر :

۱۱۶۔ وَ قالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَداً …

یہود ، نصاریٰ اور مشرک سب نے عقیدہ گڑھ لیا ھے کہ اللہ کی اولاد ھے ، یہود عزیز کو ، نصاریٰ مسیح کو ، مشرک فرشتوں کو اولاد خدا کہتے ھیں ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ انبیاء (ع) نے انھیں بتایا کہ خدا وحدہ لا شریک ھے ، وہ ھر چیز کا مالک اور تمام مخلوق اس کی فرماں بردار ھے تو وہ اولاد کیسے بنا سکتا ھے ؟ یہ بات توحید و تعلیمات تورات و انجیل کے برخلاف ھے ۔ عقل سلیم ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔

۱۱۷۔ بَدِیعُ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرۡضِ …

اللہ کی حکمت جیسے ھی کسی تخلیق کا تقاضا کرتی ھے۔ بلا کسی وقفہ کے وہ شے وجود میں آجاتی ھے۔ کسی سابقہ مثال کے بغیر یہ فضاء محیط اور یہ زمین اس کی عظیم تخلیق کا نمونہ ھیں۔

امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

مخلوق کا ارادہ، ضمیر میں کسی چیز کا خطور اور اس سے آثار کا ابھرنا ھے اور اللہ عزو جل کا ارادہ خود فعل تخلیق ھے، وہ فکر اور تیاری نہیں کرتا۔۔۔۔ "کن فیکون" ایک تعبیر ھے مراد، مشیّت و خلق ھے۔ یعنی اس کی مشیت کا ظھور خلق ھے۔  

تفسیر  3

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 st1\:*{behavior:url(#ieooui) } /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}


 

سَیَقُولُ السُّفَھٰاءُ مِنَ النّٰاسِ مٰا وَلّٰھُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِھِمُ الَّتِے کانُوا عَلَیۡھٰا قُلۡ للہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ یَھۡدِیۡ مَنۡ یَشٰاءُ اِلٰی صِراطٍ مُسۡتَقیمٍ وَکَذٰلِکَ جَعَلۡنَاکُمۡ اُمَّۃً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُھَدٰآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیۡکُمۡ شَھیدًا وَ مٰا جَعَلۡنَا الۡقِبۡلَۃَ الَّتِی کُنۡتَ عَلَیۡھٰا اِلا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنۡ یَنۡقَلِبُ عَلیٰ عَقِبَیۡہِ وَ اِنۡ کٰانَتۡ لَکَبیرَة اِلا عَلَی الّذینَ ھَدَی اللہُ وَ مٰا کَانَ اللہُ لِیُضِیعَ ایمٰانَکُمۡ اِنَّ اللہَ بالنّٰاسِ لَرَؤُفٌ رَحیمٌ ۔

 

ترجمہ :

کچھ بے وقوف لوگ اب یہ کہیں گے: ان (مسلمانوں) کے رخ اس قبلہ سے کس چیز نے موڑ دیے ، جس پر وہ تھے ، آپ یہ کہہ دیں ، مشرق و مغرب اللہ کے ھیں ، وہ جسے چاھتا ھے راہ مستقیم دکھاتا ھے ۔ (۱۴۲)

اور یوں ھم نے تم لوگوں کو امتِ وسط (معتدل گروہ) بنایا کہ تم لوگوں پر گواہ رھو اور رسول (آخر الزمان (ص)) تم پر گواہ رھیں ۔ 

اور جس قبلے (بیت المقدس) پر تم تھے ، ھم نے اسے مقرر ھی اس لیے کیا تھا کہ : پچھلے پیروں پلٹنے والوں کے مقابلے میں ان کو پہچان لیں جو رسول کی پیروی کریں گے ۔ اور اگر چہ یہ بات (تحویل قبلہ) گراں (شاق) تھی ، مگر ان لوگوں پر (نہیں) جن کی اللہ نے ھدایت کی (جو مومن تھے) ۔ اور اللہ، ایسا نہیں کہ تمھارے ایمان کو برباد کردے۔ بے شک اللہ، لوگوں پر بڑا ھی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ھے (۱۴۳)

 

تفسیر :

تیس دن میں ختم قرآن کرنے والوں کی آسانی کے لیے کتاب کریم کے تیس جزء قرار دیے گیے ھیں ، پہلا پارہ یا جزو " الم " ھے اور دوسرا " سیقول "۔ پہلے پارے میں ایک سو اڑتالیس آیتیں تھیں اس پارے میں ایک سو ساٹھ آیتیں ھیں ۔

سورة البقرة کے گذشتہ آیات میں ۔ تقوے کی اھمیت ۔ قرآن کی ھدایت ۔ مؤمنین کی تعریف۔ آدم علیہ السلام کی خلافت ۔ بنی اسرائیل کا قومی کردار اور تاریخی و فکری پس منظر ابراھیم علیہ السلام کا مرتبہ۔ عرب کے مذھبی رجحانات اور وھاں کے رھنے والوں کی سوچ اور آخر میں ۔ " صبغۃ اللہ " ۔ اللہ والوں کا رنگ ڈھنگ ۔ کتاب خدا میں تحریف ، احکام خدا میں کٹھ حجتی ۔ انبیا کی مخالفت میں سزا اور اطاعت خدا و رسول (ص) میں جزا کا بیان ، اس بات پر تمام ھوا  ۔۔۔۔ " وہ ماضی کی امت تھی جس کا دور ختم ھوا ، وہ اپنا اعمال نامہ لے کر گذر گئی ۔ اس کا کیا اس کے سامنے آئے گا ۔ اب تمھارے عمل و کردار کا مرحلہ ھے جس کے نتائج سے تمھیں دوچار ھونا پڑے گا ۔"

تم امت وسطیٰ ھو ۔ تم نئی تاریخ کے موجد ھو۔ تمھاری سمت گذشتہ امت سے جدا اور تمھارے قانون قاعدے ان کے حوالے سے نہیں بلکہ قرآن کے ذریعے سمجھے اور رسول اللہ (ص) کے واسطے سے نافذ العمل ھوں گے ۔ لیکن سلسلہ ایک ھے ، حضرت آدم (ع) سے خاتم (علیہم السلام) تک ایک دین ۔

۱۴۲۔ سَیَقُولُ السُّفَھٰاءُ مِنَ النّٰاسِ

سورے کا آغاز تھا، عقل و بینش اور راسخ العقیدہ لوگوں کی تعریف سے ۔ اور یہ موڑ عقل دشمن افراد کے طریق فکر کی نشان دھی سے شروع ھورھا ھے ۔ یعنی اھل عقیدہ و عمل کے دو گروہ ھیں ۔

وہ دانش اور جو عمل بھی کرتے ھیں ۔۔۔ بے وقوف ، کج بحث ، متشکک اور عمل میں نکمے ۔

روایاتِ اھل بیت (ع) کے مطابق مکہ میں حکم تھا کہ سمتِ قبلہ ایسی ھو کہ بیت المقدس اور کعبہ دونوں کی طرف رخ ھوسکے (وھاں یہ ممکن تھا کیونکہ کعبہ کی جہتیں چار ھیں) اور جہاں یہ ممکن نہ تھا وھاں صرف بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی پابندی تھی ۔ چنانچہ مدینۂ منورہ میں اسی طرح نماز پڑھی جاتی رھی ، روایات اھل بیت (ع) کے مطابق سترہ ماہ اور بعض اقوال کی بنا پر انیس اور ایک رائے میں سات ماہ تک یہی طریقہ رھا ۔ شیخ مفید نے مسارُّ الشیعہ میں ۱۵/ رجب سن ۲ ھجری تحویلِ قبلہ کی تاریخ لکھی ھے ۔ در منثور سیوطی کی ایک روایت اس کی مؤید ھے ۔

ایک سماجی خلفشار سے پیغمبر (ص) کو مطلع فرمایا ۔۔۔ میرے حبیب! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ھی لوگوں کو تبدیلی قبلہ کی خبر ھوگی ، فوراً کج بحث و کم عقل لوگ، چہ میگوئیاں شروع کردیں گے ۔ یہ کیا ھوا ؟ یہ کیوں ھوا ؟ یہودیوں کے قبلے میں کیا خوبی تھی کہ پہلے اسے قبلہ مان لیا اور اب کیا ترجیح نکل آئی کہ بیت اللہ المکرم کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے ؟ ان سوالوں کا بنیادی جواب ھے کہ اللہ، رب العالمین ھے ۔ اس کی نہ کوئی جہت ھے نہ وہ مکان کا پابند ھے " مشرق بھی اس کا مغرب کا بھی مالک " مسئلہ بیت المقدس اور کعبہ کا نہیں، بات ھے حکم اور فرماں برداری کی ۔ تم اپنی پسند و ناپسند کو معیار بندگی قرار دیتے ھو یا صراط مستقیم پر رضاء الٰہی کے مطابق گردن جھکا کر چلنے کو دین جانتے ھو ؟ صراطِ مستقیم کی رھنمائی اور اس کی جہت بتانا ، اللہ کا حق اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری ھے اب صلاح و فلاح کا تقاضہ یہی ھے کہ خانۂ کعبہ ھی نقطۂ آغاز سفرِ عبودیت ھو ۔ یہیں کمال تقوی کا امتحان ھو ۔ نماز و حج اس مقدس قبلے کی عظمت اور ھماری بندگی کے دو مظھر ھیں ، دونوں کا تعلق کعبے سے رھے گا ۔

۱۴۳۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلۡنَاکُمۡ اُمَّۃً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُھَدٰآءَ 

عیسائی ، مکان ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے ھیں ، چونکہ ان کی اکثریت مغرب میں ھے لھذا مجموعی طور پر ان کا قبلہ مشرق ھے ۔ یہودی شام و بابل میں زیادہ آباد تھے ، ان کے لیے سمتِ بیت المقدس (تقریباً مغرب) سمت قبلہ تھی ، چونکہ حکم تحویل قبلہ مدینہ میں آیا اور اھل مدینہ کے واسطے سمت جنوب و وسط مشرق و مغرب ، سمت قبلہ قرار پائی۔ لھذا مدینہ کا قبلہ وسطی ٹھہرا ۔ یہی قبلہ صراط مستقیم اور اسی کعبہ کو قبلہ ماننے والے امت وسط قرار دیے گئے ۔ یہ لوگ عقیدے میں معتدل ھیں ، شرک و غلو، جبر و تفویض، تشبیہ و تعطیل سے پاک اور توحید خالص پر قائم ھیں ۔ سماجی طور پر معتدل، دنیادار ، جیسے یہودی … نہ تارک الدنیا۔ جیسے مسیحی اور بدھ … مسلمان اپنی فکر ، اخلاق اور معاملات میں اعتدال کی راہ چلتا ھے ، صلح و جنگ، حکومت و سیاست عبادت و تجارت، غرض ھر مرحلۂ حیات میں للٰہیت اور حکم خدا پر سراپا تسلیم و رضا رھتا ھے۔ چونکہ عدل اس کا دستور ھے۔ اس لیے وہ تمام انسانوں کا گواہ عادل ھے ، اس کی عدالت و میانہ روی چونکہ زیر قیادتِ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھے اس لئے آنحضرت (ص) براہ راست اس امت کے گواہ ھیں ۔

ابتدائی آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کو " خلیفہ " بنانے کا تذکرہ گذر چکا، آدم علیہ السلام کے بعد ھر مومن باللہ انسان کو خلیفۂ ارضی کہا گیا ، کہ اصل و اساس خلافت، معیار و نمونۂ خلیفۃ اللہ ابوالبشر (ع) ھیں ، جو بھی جتنا ، ان جیسا بنے گا خلافت ارضی میں اتنا ھی حصہ پائے گا ۔ اس آیۂ مبارکہ میں امت وسط و شہید کا لقب اصالتاً محمد و آل محمد رسول و ائمہ علیہم الصلوٰة والسلام کے لیے ھے۔ ان کی پیروی اور حسب امکان ان جیسا بننے والے ثانوی درجے میں استحقاق مدارج رکھتے ھیں ۔ وہ معصوم ھیں تو یہ عادل بن جائیں ۔ وہ شھداء ھیں ، یعنی امت و خدا کے درمیان وسیلہ ھیں اور امت شھید و وسط ھے ، یعنی امت اسلامیہ عام انسانوں اور ھادی برحق کے درمیان ایک کڑی ھے ۔

اس کی ایک توضیح آل عمران کی آیت نمبر ۱۱۰ سے ھوتی ھے " کنتم خیر امّۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر " ۔ درس یہ ھے کہ جس طرح رسول (ص) اعتدالِ کامل اور مثالِ اعلیٰ ھیں اسی طرح امت کو مثال کامل ھونا چاھئے ۔

تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادق سے روایت ھے : تمہارا خیال ھے کہ اللہ قیامت کے دن تمام امتوں کے سامنے ایسے شخص سے گواھی لے گا ، جس کی گواھی اس دنیا میں سیر بھر کجھوروں کے مقدمے میں قبول نہیں ھوتی ؟

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : ھم امت وسط اور ھم مخلوق پر اللہ کے گواہ ھیں۔ یہی تفسیر امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمائی ھے ۔

۔۔۔۔۔ " و ما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم… "

تبدیلی قبلہ کی وجہ یہ تھی کہ عبادت گذار ، عقیدہ رکھیں کہ مشرق و مغرب، سمت و جہت کچھ نہیں، اصلِ اصول اللہ کی رضا ھے اور اللہ دنیا کو دکھادے کہ جو لوگ بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے ان میں رسول کے پیرو کون لوگ تھے اور رجعت پسند کون تھے ۔ وان کانت لکبیرة الا علی الذین ھدی اللہ ۔۔۔۔ نیا حکم جذباتی وابستگی رکھنے والوں پر گران تھا ، لیکن اھلِ تقویٰ اور اللہ کی ھدایت حاصل کرنے والوں کے لیے باعث شکر و حمد تھا ۔ انھیں ناگواری محسوس ھونے کا سوال ھی نہ تھا ۔۔۔۔ وما کان اللہ لیضیع ایمانکم ۔۔۔۔ یہ سوال کہ جو لوگ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رھے ، ان کی نمازوں کا کیا ھوگا ؟ یاد رھے ، اللہ ، عقیدۂ درست و عمل صحیح (ایمان) کو نظر انداز نہیں کرتا ، وہ نیت دیکھتا ھے ۔ اگر وہ لوگ اپنی پسند سے نمازیں پڑھتے تھے تو قبلۂ اول بحال رھتا جب بھی عبادتیں قبول نہ ھوتیں ۔ البتہ جو مومن قربۃً الی اللہ عبادت کرتے تھے ان کا صلہ انھیں ضرور ملے گا ۔ اللہ تو رؤف و رحیم ھے ۔

لنعلم ۔۔۔۔ تاکہ ھم جان لیں ۔ تحویل قبلہ امتحان تھا ۔ امتحان ، عموماً اس لیے ھوتا ھے کہ طالب علم کو سند و درجہ دیا جائے ۔ عموماً ، استاد کو اپنے شاگرد کی قابلیت معلوم ھوتی ھے ۔ مگر استاد یا شاگرد کا جاننا کافی نہیں ، علم کسی وجود کا ثبوت نہیں ، وجود و ظھور کمال کے لیے ایک راہ سے گذرنا اور ایک عمل ایجاد کرنا ضروری ھے ۔ اللہ ، کو علم ھے کہ مومن کون ھے ۔ کافر کون ۔ مگر اس علم کے ظھور اور معلوم کے وجود سے دوسروں کو تشویق اور خود اس شخص پر حجت تمام ھوتی ھے ۔ تو ۔۔۔۔ الا لنعلم ۔۔۔۔۔ کا مطلب واضح ھے ۔ بطور محاورہ ، مراد یہ ھے کہ سب جان لیں ، خدا جو علم غیب رکھتا ھے ، اس کا علم شھود سب کو حاصل ھوجائے کہ متبعِ رسول (ص) کون ھے اور ھوا و ھوس کا پرستار کون ھے ۔ رھا اللہ ، تو ما اللہ بغافل عما تعملون ۔ اس طرح کے استعمال قرآن مجید میں بکثرت ھیں ۔ (ابھی اس امتحان و علم کے نتائج و گفتگو کا سلسلہ جاری ھے اور بات مزید واضح ھورھی ھے)

سمت قبلہ کا تعین مظاھراتی امور میں وحدت کی بنیاد ھے ۔ اللہ ایک ھے ، پوری امتِ مسلہ کا فکری نقطہ اتحاد، قرآن حق ھے ، نظریاتی نقطۂ اتحاد۔ رسول (ص) قائد و امام ھیں اور قبلہ مرکز توجہ دونوں دعووں کے لیے عملی اقدامات اور صف بندی ضروری ھے۔ حضور (ص) آگے اور سب ان کے پیچھے قدم ملا کر ایک سمت چلیں تو امتِ وسط اپنے گواہ کے ساتھ سب کے ساتھ سب کے سامنے شان و شوکت سے ابھر کر آئے گی ۔

قَدۡ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجۡھِکَ فِی السَّمٰآءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰھٰا فَوَلِّ وَجۡھَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرامِ وَ حَیۡثُ مٰا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوا وُجُوھَکُمۡ شَطۡرَہُ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوتُوا الۡکِتٰابَ لَیَعۡلَمُونَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَبِّہِمۡ وَ مَا اللہُ بغٰافِلٍ عَمّٰا یَعۡمَلُونَ وَ لَئِنۡ اَتَیۡتَ الَّذِیۡنَ اُوتُوا الۡکِتٰابَ بکُلِّ اٰیَۃٍ مٰاتَبِعُوا قِبۡلَتَکَ وَ مٰا اَنۡتَ بِتَابِعٍ قِبۡلَتَہُمۡ وَ مٰا بَعۡضُہُمۡ بِتَابِعٍ قِبۡلَۃَ بَعۡضٍ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَھۡوَاءَھُمۡ مِنۡ بَعۡدِ مٰا جٰاءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ اِنَّکَ اِذاً لَمِنَ الظَّالِمینَ اَلَّذِینَ اٰتَیۡنٰاھُمُ الۡکِتَابَ یَعۡرِفُونَہُ کَمَا یَعۡرِفُونَ اَبۡنٰآءَھُمۡ وَ اِنَّ فَرِیقًا مِنۡہُمۡ لَیَکۡتُمُونَ الۡحَقَّ وَ ھُمۡ یَعۡلَمُونَ اَلۡحَقُّ مِنۡ رَبِّکَ فَلا تَکُونَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرینَ ۔

 

ترجمہ :

یقیناً ھم تمھارے چہرے کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھ رھے ھیں ، تو ھم تمھیں اس قبلے کی طرف ضرور موڑ دیں گے جس سے تم خوش ھو ۔ تو اب اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کرلو ۔۔۔ اور جس جگہ بھی تم ھوا کرو ، اسی طرف منہ کرلیا کرو ۔ اور جن لوگوں کو کتاب ملی ھے وہ اچھی طرح جانتے ھیں کہ یہی اللہ کی طرف سے بجا و درست (و حق) ھے ۔ اور اللہ ، ان کاموں سے بے خبر نہیں جو کچھ وہ لوگ کرتے ھیں (۱۴۴) اور اگر (اے رسول (ص) آپ ، اھل کتاب کے پاس ساری نشانیاں (دلائل و براھین) لے آئیں (جب بھی) وہ لوگ آپ کے قبلے کو نہ مانیں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کو مانیں گے اور نہ ان میں کوئی ایک دوسرے کا قبلہ ماننے والا ھے ۔ اور اگر آپ نے ان کی خواھشات کی پیروی کی۔ جب کہ علم (حقائق) آپ کے پاس آچکا ھے ۔ تو اس وقت آپ بھی ستم رھوں گے (۱۴۵) جن لوگوں کو ھم نے کتاب دی ھے وہ اسے یوں جانتے ھیں جیسے اپنی اولاد کو ۔ اور بلا شبہ ایک گروہ ان میں ایسا ھے (جس کے افراد) دیدہ و دانستہ حق بات کو چھپاتے ھیں (۱۴۶) حق آپ کے رب (ھی) کی طرف سے ھے ، اس کے بعد آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ھوئیے گا (۱۴۷)  

 

تفسیر

۱۴۴۔ قَدۡ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجۡھِکَ فِی السَّمٰآءِ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت المقدس کے قبلۂ موقت ھونے کا علم تھا وقت حکم ثانی کی قربت اور انتظار کی گھڑیاں بے چین کیے تھیں ۔ وحی کی تمنا اور نزول فرمان کی آرزو میں نگاھیں بلندی کی طرف اٹھ رھی تھیِں ، حبیب کو یہ ادا بھا گئی اور انتہائی محبت کے لہجے میں ارشاد ھوا " ھم نے تمھاری نگاھوں کا اٹھنا دیکھا ، گھبراؤ نہیں ، ھم ایسا قبلہ مقرر کرنے والے ھیں ، جس سے تم خوش ھوجاو گے ، تمھارے دادا ابراھیم (ع) کا آباد کیا ھوا کعبہ ، جہاں انھوں نے تمھارے لیے دعا کی تھی ۔ موسیٰ (ع) سے پہلے کا قبلہ ۔

حکم تبدیلی قبلہ : رسول اللہ (ص) مدینۂ منورہ سے ذرا دور بنی سلمہ کی آبادی میں ظھر کی نماز ادا فرما رھے تھے کہ حکم ھوا ۔ "فول وجہک شطر المسجد الحرام" تیسری رکعت میں حضرت نے سمت مسجد الحرام رخ فرما لیا ، ابھی تک وھاں یاد گاری مسجد موجود ھے ، گذشتہ دس سال پہلے جب پہلے حج سے مشرف ھوا اور مدینۂ منورہ میں حاضری دی ، تو مسجد ذو قبلتین میں میں نے نماز پڑھی ، مسجد میں داخل ھوتے ھی زینے والے دروازے کے قریب بائیں ھاتھ محراب کی علامت صدیوں سے چلی آرھی تھی ، دوسری مرتبہ گیا تو وہ محراب مٹادی گئی تھی ۔

بہر حال سمت مسجد الحرام رخ کرنا شرط اداء نماز ھے ، جہاں بھی نماز ادا کرنا ھو سمت یہی رکھنا ھوگی ۔ اس حکم نے مسلمانوں کو ھیئت و جغرافیہ ۔ طول بلند و عرض بلد و اسطرلاب وغیرہ کے علم و فن سے آشنا کیا اور پھر اس میں مسلمانوں نے ایسی مہارت حاصل کی جس نے معاصر قوموں پر برتری پائی ۔

اس حکم کے ردّ عمل اور اھل کتاب کی بحث پر دھیان نہ دیں ۔ انھیں جس طرح آخری نبی کے اوصاف و احوال کا علم ھے اسی طرح اس قبلے کے برحق ھونے کی اطلاع ھے ۔ اس کے بعد جو کرتے ھیں کریں ، اللہ، ان کے کرتوت جانتا ھے ۔

حکم مذکور میں "کعبہ" کے بجائے "شطر مسجد حرام" ایک معجز نما تعبیر ھے۔ اس سے جہت اور اس میں طولِ مسافت ۔ اور طول صف میں فائدہ ، خطّ سجدہ متعین کرنے میں آسانی اور کعبہ کے گرد حرکت کے دائرے کی عظمت ، سب کا بیان آگیا ۔

۱۴۵۔ وَ لَئِنۡ اَتَیۡتَ الَّذِیۡنَ اُوتُوا الۡکِتٰابَ بکُلِّ اٰیَۃٍ  

میرے رسول (ص) ، آپ یا مسلمان ، جتنی دلیلیں دیں ، معجزے بھی دکھائیے یہ اس قبلے کو مانیں گے نہیں ۔ یہ مسئلہ مرکزیت کا ھے ، خود ان کے رخ الگ الگ ھیں اور آپ بھی ان کا قبلہ کب مانیں گے فکر مند نہ ھوں ، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ اے پیغمبر ! قرآن آجانے کے بعد ان کی رائے کا وزن ھی کیا رہ جاتا ھے ۔ بفرض محال اگر آپ ان کے مطالبے مان لیں تو اس قدر محبوب و بلند مرتبہ ھونے کے باوجود حق سے دور ھوجائیں گے ۔ منحرف لوگوں کو مقدم سمجھنے اور حکم خدا کو ثانوی درجہ قرار دینے پر یہ تنبیہ در اصل عام مسلمانوں کے لیے ھے ، کہ جب ھم قانون کی بات کرتے ھیں تو اپنے بندۂ خاص اور تمھارے رھبر اعظم کو بھی اس کا پابند کرتے ھیں ، تا بہ شما چہ رسد ۔

نیز دیکھئے آیت ۱۲۰۔

۱۴۶۔ اَلَّذِینَ اٰتَیۡنٰاھُمُ الۡکِتَابَ یَعۡرِفُونَہُ 

اھل کتاب ۔ یہود و نصاری آپ کے حسب نسب، شکل و صورت ، بعثت و شریعت کے بارے میں خوب جانتے اور آپ اتنا ھی جانتے پہچانتے ھیں جیسے اپنے بیٹوں کو، اسی وجہ سے تو ان میں سلیم الطبع مسلمان ھوگئے ، کج فطرت یہ باتیں چھپاتے ھیں اور چپھاتے رھیں گے ۔ مگر آپ کا نام اور کام اونچا ھوکر رھے گا ۔

۱۴۷۔ اَلۡحَقُّ مِنۡ رَبِّکَ 

قبلہ کی تبدیلی ھو یا آپ کی رسالت اور قرآن کا نزول ، حق وھی ھے جو آپ کے رب کی طرف سے ھے ۔ ھمدردی کی بنا پر حق کے معاملے میں پس و پیش کو راہ نہ دینا چاھیے ۔ حق استقامت چاھتا ھے ۔۔۔۔ یہاں بھی روئے سخن ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ھے اور بات عام مسلمانوں سے ھورھی ھے ۔ اس طرح بات میں زور اور کلام میں بلندی آگئی ھے اور یہ حق صرف اللہ کو حاصل ھے ۔

وَ لِکُلِّ وِجۡھَۃٌ ھُوَ مُوِلِّیھٰا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰاتِ اَیۡنَ مٰا تَکُونُوا یَاۡتِ بکُمُ اللہُ جَمِیعاً اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَیٍٔ قَدیرٌ ۔

 

ترجمہ :

ھر ایک (گروہ) کی ایک جہت ھے ، وہ اس کی طرف منہ کرتا ھے ۔ تم تو نیکیوں میں آگے بڑھو (مقابلہ کرو) ۔ تم جہاں کہیں ھوگے ، اللہ تم سب کو (محشر میں) جمع کردے گا ۔ بے شک اللہ ھر چیز پر قادر ھے (جو چاھے کرسکتا ھے) (۱۴۸) 

 

تفسیر

مکے میں بتوں کی مخالفت اور مدینہ میں قبلہ کا مسئلہ پہلا سنگین مسئلہ تھا، وھاں مشرک بھڑک اٹھے تھے ، یہاں یہود و نصاری سامنے آگئے ۔ قرآن مجید نے سادہ اور ھدایت آفرین لہجے میں سمجھایا کہ ابراھیم علیہ السلام سے موسیٰ علی نینا و علیہما السلام تک غور کرو، ان کے ماننے والے آج ایک جہت پر کب متفق ھیں ، جو تم مسلمانوں سے الجھ رھے ھو ، بیت المقدس ایک مگر اس کے ماننے والوں کی جہتیں دو ۔ بس یہ بحث چھوڑو ۔ خیر و بھلائی کو دیکھو، کدھر ھے ۔ کون حق و صداقت، دنیا و آخرت میں فائدہ دینے والی باتیں بتاتا ھے ، بس بھلائیوں کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو ۔ قیامت کے روز (بنابر روایات اھل بیت علیہم السلام رجعت کے موقع پر) قادر مطلق اللہ ، تم سب کو یک جا کر دے گا اور اس وقت ھر ایک کا عقیدہ درست اور عملِ صحیح کام آئے گا ۔ نیز دیکھئے آیت ۱۷۷۔    

وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡھَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرٰامِ وَ اِنَّہُ لَلۡحَقُّ مِنۡ رَبِّکَ وَ مَا اللہُ بغٰافِلٍ عَمّٰا تَعۡمَلُونَ وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡھَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرٰامِ وَ حَیۡثُ مٰا کُنۡتُمۡ فَوۡلُّوا وُجُوھَکُمۡ شَطۡرَہُ لِئَلا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ اِلا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنۡہُمۡ فَلا تَخۡشَوۡھُمۡ وَ اخۡشَوۡن وَ لاُتِمَّ نِعۡمَتی عَلَیۡکُمۡ وَ لَعَلکُمۡ تَھۡتَدُونَ ۔

 

ترجمہ :

جہاں سے باھر جاؤ (شھر ھو یا قریہ، نماز کے لیے) اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کرلو ، بے شک تمھارے رب کا یہ حکم برحق ھے ، اور جو عمل تم کرتے ھو اللہ اس سے بے خبر نہیں ھے ۱۴۹ اور جہاں سے بھی نکلو ، اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف کرلو (نماز کے لیے) اور جہاں کہیں (ٹھہرے ھوئے) ھو اپنے رخ اسی (مسجد الحرام) کی طرف رکھو ، تاکہ لوگوں کو تمھارے خلاف کوئی دلیل ھاتھ نہ آئے ۔ رھے وہ لوگ جو بے انصاف ھیں تو ان سے بے خوف رھو ، اور مجھ سے ڈرتے رھو ۔ اور اس لیے کہ تم پر اپنی نعمت تمام کروں اور اس واسطے کہ تم ھدایت پالو ۱۵۰  

 

تفسیر :

۱۴۹۔ وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡھَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرٰامِ …عَمّٰا تَعۡمَلُونَ

۱۵۰۔ وَ مِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡھَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرٰامِ …تَھۡتَدُونَ۔

مسجد الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم فقط مدینے ھی کے لیے نہیں ، سفر میں جاؤ اور نماز پڑھنے کھڑے ھو ، کہیں پڑاؤ کرو اور نماز پڑھنا ھو تو قبلہ وھی مسجد الحرام کی سمت ھے ۔ خواہ سفر ( یا نماز) مکے سے مدینے ھو یا مدینے سے شام ، راستہ بیت المقدس کی طرف ھو یا مشرق یا مغرب کی طرف ، سمت نماز و قبلہ وھی ھوگا ۔

تحویل قبلہ کا حکم بار بار یا تو اس لیے ھے کہ اس کے اسباب متعدد اور فائدے الگ الگ تھے ۔ (الف) قد نریٰ تقلب وجھک … رسول اللہ (ص) کی تکریم و رضا کا اظھار (ب) ولکل وجھۃ ھو مولّیھا … سنت اللہ یہ ھے کہ صاحبان شریعت کا قبلہ الگ ھوتا ھے ۔ (ج) لئلا یکون للناس علیکم حجۃ ۔ دشمن کی دلیلیں توڑنے کے لیے ۔

آیت نمبر ۱۵۰ میں تین فائدے بیان ھوئے ھیں ۔ (۱) دشمن الزام نہ لگا سکیں۔  (۲) اللہ اپنی نعمت تمام کرے (۳) مسلمان راہ ھدایت پاجائیں ۔

پھر تینوں آیتوں میں استقبال قبلہ کی تین حیثیتیں بیان ھوئی ھیں ۔ پہلی حیثیت نماز پڑھنے کی حالت ھے ۔ دوسری حیثیت زمان (سفر) کی اور تیسری حیثیت مکان اور مقام قیام کی ھے ۔

مقصود اصل تقویٰ ھے ، اس کے لیے خلا ھو یا ملا عمل ایک ھونا اور خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرنا شرط ھے ۔

کَمٰا اَرۡسَلۡنٰا فیکُمۡ رَسُولا مِنۡکُمۡ یَتۡلُوا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰاتِنا وَ یُزَکّیکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰابَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مٰا لَمۡ تَکُونُوا تَعۡلَمُونَ فَاذۡکُرُونی اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرۡوا لی وَ لا تَکۡفُرُونِ یٰا اَیُّھُا الّذینَ اٰمَنُوا اسۡتَعینُوا بالصَّبۡرِ وَ الصَّلوٰةِ اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرینَ ۔

 

ترجمہ :

جیسے ھم نے تمھیں میں سے تمھارے درمیان ایک رسول بھیجا ، وہ تم کو ھماری آیتیں پڑھ کر سناتا اور تمھارے نفس کو پاک کرتا اور تمھیں کتاب و دانش کی تعلیم دیتا ھے اور جو تمھیں معلوم نہ تھا وہ بتاتا ھے (۱۵۱) تو مجھے یاد کرتے رھو ، میں بھی تمہارا ذکر (خیر) کیا کروں گا ۔ ارو میرا شکر ادا کرتے رھو اور نا شکری نہ کرنا (۱۵۲) ایمان لانے والوں ! صبر اور نماز کے وسیلے سے (خدا سے) مدد مانگو ۔ بے شک، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ھے (۱۵۳)     

 

تفسیر :

۱۵۱۔ کَمٰا اَرۡسَلۡنٰا فیکُمۡ رَسُولا 

اس سے پہلی آیت میں ولاتم نعمتی ۔ تھتدون ۔ کی بات ھے ۔ بعثت رسول (ص) کو اللہ نے نعمت قرار دیا ھے ۔ "من اللہ علی المؤمنین اذ بعث" اسی طرح کھلی گمراھی میں مبتلا لوگوں کے لیے آخری پیغمبر کو ھدایت و ھادی بناکر بھیجا۔ اس آیت میں "کما" "جس طرح، جیسے" کہہ کر سابقہ مسئلے کو معجزانہ طور سے مربوط فرمایا کہ تم لوگوں میں سے ایک شخص کو ھم نے مبعوث کیا ، یہ تمھارے معاشرے ، تمھارے شھر، تمھارے جانے پہچانے خاندان کا فرد ھے ۔ تم اپنا تخلیقی کلام سنتے سناتے رھے ۔ یہ ھماری آیتیں پڑھتا اور سناتا ھے ۔ تم اخلاق و نفسیات بگاڑتے ھو یہ انھیں پاک و طاھر کرتا ھے ۔ تم جہالت و مکاری ، خونخواری و عہد شکنی کے درس دیتے رھے ، یہ کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے ۔ تم سب بھلائے بیٹھے تھے ، یہ روز علم و عقل کو جلا بخشتا ھے ۔ (دیکھئے آیت نمبر ۱۲۹) ذھنی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے تلاوت ، نفسیاتی قوتوں کو صالح بنانے کے لیے تزکیہ و تقوی ، اس کے بعد دستور و قانون کی تعلیم اور دانش و بینش کی راھیں کھولنے کے لیے حکمت کی تلقین و تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم کار نامہ ھے ۔

۱۵۲۔ فَاذۡکُرُونی اَذۡکُرۡکُمۡ  

تعلیم و تربیت کے شاندار فوائد حاصل کرنے کا فائدہ کم سے کم یہ تو ھو کہ ھر دم اس کی یاد ھو ، یہ اس کا کرم، جو اس نے فرمایا ۔۔۔ مجھے یاد رکھو گے تو میں بھی تمھیں نظر انداز نہ کروں گا ربوبیت کی شان یہی ھے ۔ اب بندگی کا تقاضہ فراموش نہ ھو، ھر لمحہ ذکر ، ھر آن شکر، کبھی کفران و ناشکری کا تصور قریب نہ آنے پائے ۔  

۱۵۳۔ یٰا اَیُّھُا الّذینَ اٰمَنُوا اسۡتَعینُوا بالصَّبۡرِ 

صبر کا قرآن مجید میں تقریباً ستر مرتبہ ذکر کیا گیا ھے ۔۔ آدمیت و شخصیت کا سنگ بنیاد ، ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر رکھا جائے تو ایک اندرونی قوت ابھرتی ھے ، جسے صبر کہتے ھیں ۔ جب اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں تو مصائب سے کیوں ڈرے اور صراط مستقیم سے کیوں ھٹے ۔ ثبات قدم (صبر) کے ساتھ نماز پڑھ کر مزید قوت میں اضافہ چاھو ۔ ثابت قدم ، راسخ الایمان افراد کا اللہ ساتھ دیتا ھے ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ھر مشکل کے وقت اٹھتے نماز پڑھتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے۔  

وَ لا تَقُولُوا لِمَنۡ یُقۡتَلُ فی سَبیلِ اللہِ اَمۡوٰاتٌ بَلۡ اَحۡیٰآءٌ وَ لٰکِنۡ لا تَشۡعُرُونَ    

 

ترجمہ :

جو راہ خدا میں قتل کیے گئے ، انھیں مردہ نہ کہو ۔ وہ تو زندہ ھیں ۔ اور بات یہ ھے کہ تم (ان کی زندگی کا) شعور نہیں رکھتے ۔ ۱۵۴

 

تفسیر :

شھید زندہ ھے ۔ اسے مردہ نہ کہو۔ راہ خدا میں جسے قتل کردیا گیا ، اللہ کے لیے جس نے خون کا دریا عبور کرلیا ، اس کی توحید پرستی ، اللہ پر بھروسہ ، مقاصد دین پر زندگی نثار کرنے کا عمل ، خالقِ موت و حیات کی ایسی رضا کا باعث ھے کہ اس نے اپنی قدرت کاملہ سے تار نفس ٹوٹ جانے، جسم کے آثار ختم ھوجانے کے باوجود "زندہ" رکھنے کا فیصلہ کرلیا ۔ یہ سوال کہ اس کی زندگی کیا ھے ؟ حیّ و میت کا ھم ھر لمحہ مشاھدہ کرتے ھیں ، اس شھید میں اور عام مرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ملتا ؟ جواب ھے "لا تشعرون" اس زندگی کا تم شعور نہیں رکھتے ۔ اسی سورۂ بقرہ میں ملائکہ کی بات معجزے کی زبان میں بیان ھوئی ھے ۔ "سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم ۳۲ پروردگار تو پاک ھے ۔ ھمیں تو وھی معلوم ھے جو تو نے ھمیں عطا کیا تو ھر قسم کے علم کا مالک اور تمام حکمتوں سے باخبر ھے ۔ اس نے کہا ھم نے موت کو خلق کیا ۔ عقل کو تردّد ھوا ، اس نے فرمایا "غیب" ایک حقیقت ھے ۔ عقل کو شک ھوا ۔ اس بارے میں عقل کو یہ بات یاد دلانا چاھیے کہ حکما و فلاسفہ بلکہ آج کے سائینس داں بھی کہتے ھیں ۔ "وعلم کنہ حقائق الاشیا عسیر جدّا" "چیزوں کی اصل و کنہ کا علم مشکل ترین بات ھے ۔" 

راہ خدا میں موت زندگی بن جاتی ھے ۔ یہ وہ اعلان ھے جس نے مسلمانوں کے لیے حق پر مرنا آسان کردیا۔ بدر سے کربلا تک ، اس کے مثالی نمونے اور تاریخ مسلمانان عالم اس کے حیرت انگیز آثار سے روشن ھے اور نور افشاں رھے گی ۔ (دیکھئے آل عمران ۱۶۹)

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیٍٔ مِنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوعِ وَنَقۡصٍ مِنَ الاَمۡوٰالِ وَالاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰاتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ اَلَّذینَ اِذٰا اَصٰابَتۡہُمۡ مُصیبَۃٌ قٰالُوا اِنّا للہِ وَ اِنّٰا اِلَیہِ رٰاجِعُونَ اُوٰلئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَواتٌ مِنۡ رَبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الۡمُھۡتَدُونَ ۔   

 

ترجمہ :

 اور ھم قطعاً تمھیں تھوڑے سے خوف ، بھوک اور مال و جان اور پھلوں میں کمی سے آزمائیں گے ۔ اور (اے رسول (ص) بشارت دیں ۔ ان صبر کرنے والوں کو (۱۵۵) جو مصیبت پڑنے کے وقت کہتے ھیں۔ ھم اللہ ھی کے ھیں اور ھم اسی کے حضور میں پلٹ کر جانے والے ھیں (۱۵۶) یہی وہ (لوگ) ھیں جن پر ان کے رب کی طرف سے صلوٰة و رحمت ھے ۔ اور یہی وہ ھیں جو ھدایت یافتہ ھیں (۱۵۷)  

 

تفسیر :

۱۵۵۔ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیٍٔ مِنَ الۡخَوۡفِ …    

زندگی جد و جہد ، محنت و مشقت ، امتحان اور سفر در سفر کا نام ھے ۔ ٹھہرنا ، ساکن و مطمئن رھنا ، آرام و سکون کا نام موت ھے ، فکری تصادم، عملی ٹکراؤ ، مقاصد کا تضاد ، آگے بڑھنے اور منزل پا لینے کی خاطر ٹھوکریں کھانا پڑتی ھیں ۔ یہاں دعوے ٹھکرا دیے جاتے ھیں ، دلیلیں پرکھی جاتی ھیں ۔ جن طلبہ نے گولڈ میڈل لیے ھیں ، جن مزدوروں نے تاج محل بنائے ھیں ، ان سے پوچھیے ، کتنی راتیں جاگ کے کاٹیں، کتنے دن بے حواسی میں گذارے ۔ کتنے پتھر ڈھوئے اور کتنی چوٹیں کھائیں تب جاکر داد ملی اور انعام پائے ھیں ۔ اللہ کا دستور قدیم ھے کہ دعوت اسلام پر لبیک کہنے والوں کو انعام دیتا ھے ۔ ان کے ھاتھ پاک ان کا ظاھر طاھر ، ان سے معاشرتی زندگی کے رشتے استوار کرنے کا حکم دینے کے بعد ۔۔۔ امتحان لیتا ھے ۔۔۔ أحسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا … کیا لوگ یہ سمجھ بیٹھے ھیں کہ وہ اس بنیاد پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ دعوائے ایمان کرتے ھیں ۔ حالانکہ ھم نے ان سے پہلے والوں کو آزمایا ۔ تاکہ اللہ سچے لوگوں کو الگ دیکھ لے اور جھوٹوں کو الگ دیکھ لے ۔" (العنکبوت ۲ ) ۔ اللہ کا امتحان ، جان ، مال ، اولاد ، فصل ، خوف اور ھزار رنگ سے ھوتا ھے ۔ جو جتنا ثابت قدم رھا اسے اتنی ھی بلندی ملی۔ قرآن نے اس کی ضمانت دی ھے ۔  

۱۵۶۔ اَلَّذینَ اِذٰا اَصٰابَتۡہُمۡ مُصیبَۃٌ …

مصیبت میں مبتلا ھونے والے نفسیاتی طور پر تین گروھوں میں بٹ جاتے ھیں ۔

(۱) وہ لوگ جو گھبرا کر جائز و ناجائز اخلاقی و غیر اخلاقی تدبیروں سے مدد لے کر بلا کو ٹالنے کی سعی کرتے ھیں ۔ (۲) وہ لوگ جو حواس باختہ ھوکر بے دست و پا پڑ جاتے ھیں کہ جو ھونا ھے ھوگا ۔ (۳) وہ لوگ جو مصیبت کے وقت تیار اور بلا میں گرفتار ھوکر خدا سے لو لگاتے ، توکل کا دامن تھام کر کہتے ھیں "حسبنا اللہ" وہ تھک کے نہیں بیٹھتے ، قانون خدا اور رضا کے آئین کو سامنے رکھ کر سر گرم عمل رھتے ھیں اور کہتے ھیں : "انا للہ وانا الیہ راجعون"

 

 عجیب فلسفہ اور زندگی آفرین عقیدہ

 

عقیدۂ لا الہ الا اللہ ، بجائے خود ایک قوت ھے ، ایک قادر و مالک ، خالق و حکیم کو مان کر ھر قوت و طاقت کو کمزوری سمجھنا … لا حول ولا قوة الا باللہ … کوئی قوت کوئی طاقت نہیں ھے ۔ مگر اللہ سے ۔۔۔ اس عزیمت کے سامنے کوئی فرعون و یزید نہیں ٹھہر سکتا ۔ پھر ایک منزل وہ ھے جہاں عقل و بصیرت کہتی ھے ۔ انا للہ ۔ ھم اللہ کے ھیں ، وہ مالک ھے ۔ تم مملوک ، وہ آقا ھے ھم بندے ، وہ صاحب اختیار ھم بے اختیار و ناچیز ۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس کی تفسیر کا سمندر دو جملوں میں سمو دیا ھے ۔ "ان قولنا ۔۔۔ انا للہ ۔۔۔ اقرار علی انفسنا بالملک ۔۔ ھمارا ۔۔ انا للہ ۔۔۔ کہنا در اصل یہ اقرار ھے کہ ھم اس کی ملکیت میں ھیں ۔ وقولنا ۔۔۔ انا الیہ راجعون ۔ اقرار علی انفسنا بالھلک ۔" اور انا الیہ راجعون ۔ یہ اقرار ھے کہ ھم فنا ھوجائیں گے۔ (کلمات قصار نہج البلاغہ) سپردگی کا یہ درجہ تقوے کا انتہائی مقام ھے ۔ یہاں پہنچ کر مصیبت بشارت بن جاتی ھے اور خدا بندے سے اس کی رضا پوچھتا ھے ۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درجے کی معراج پر فائز تھے ، اور علی (ع) و فاطمہ (ع) ان کے نقش قدم پر ان کے پیچھے پیچھے ۔ ان کی امت میں ھزاروں افراد اس فلسفے پر کار بند رھے اور آج بھی ھیں ۔

 

ایک خاتون کا درجہ

شیخ عباس قمی (رح) نے سفینۃ البحار میں لکھا ھے :

ام عقیل ایک صحرا نشین خاتون کے گھر دو مہمان آگئے ، اس کا فرزند اونٹ چرانے صحرا گیا ھوا تھا ، مہمانوں کے اترتے ھی کسی نے خبر دی ۔۔۔ اونٹ بگڑ گیا اور اس نے تمھارے بیٹے کو کنویں میں پھینک دیا، اس کی موت واقع ھوچکی ھے ۔ وہ مومنہ مجبر سے کہنے لگی ۔ ذرا زحمت کرو ، میرے یہاں مہمان آئے ھیں یہ دنبہ لو، اسے ذبح کرکے گوشت تیار کردو۔ گوشت تیار ھوا ، اس نے جلدی جلدی کھانا پکاکر مہمانوں کے سامنے لگادیا ۔ مہمان کھانے سے فارغ ھوچکے تو مومنہ نے کہا ۔ آپ میں سے کوئی عالم قرآن ھے ؟ ایک شخص نے پوچھا کیا بات ھے ؟ اس نے کہا مجھے کوئی ایسی آیت سنائیے کہ بیٹے کی موت سے تسلی و صبر حاصل ھو ۔ مہمان نے آیت پڑھی ۔۔۔ وبشر الصابرین الذین اذا اصابتہم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون اولئک علیہم صلوة من ربہم ورحمۃ واولئک ھم المہتدون ۔۔ عورت خدا حافظ کہہ کر اٹھی اور نمازیں پڑھنے لگی ، نماز کے بعد بارگاہ الٰہی میں عرض کی ۔۔۔ یا اللہ ! تو نے جو حکم دیا تھا میں نے اس کی تعمیل کی ۔ اب تو نے جو وعدہ فرمایا ھے ، اسے پورا کر ۔۔۔ اگر اس دنیا میں کسی کو کسی کے لیے جینے کا حق ھوتا … (ھم لوگ یہ سمجھے کہ یہ خاتون کہے گی کہ میرا فرزند میرے لیے زندہ رھتا ۔ مگر اس نے جملہ یہ کہکر پورا کیا ۔ تو پیغمبر اسلام (ص) امت کے لیے باقی رھتے (سفینہ مادہ صبر)

اور کربلا کے واقعے میں امام حسین علیہ السلام نے اس آیت کی قولی و فعلی جو تفسیر فرمائی اس کی مثال قیامت تک کے لیے ایک درس ھے ۔ مدینے سے کربلا تک ھر قدم پر یہ آیت پڑھتے اور روکنے اور مشورے دینے والوں کو سمجھاتے رھے کہ جب ھم اللہ کے ھیں اور اسی کے حضور جارھے ھیں تو غم کیا اور خوف کس کا ۔

انقلاب اسلامی ایران میں ۔۔۔ سید جلیل امام روح اللہ خمینی مدظلہ العالی اور ان کے ساتھیوں نے امام حسین علیہ السلام کے اس درس اور قرآن کے اس فلسفے پر عمل کے جو نمونے پیش کیے ھیں وہ حقانیت اسلام و قرآن کا زندہ ثبوت ھیں ۔ انقلاب کے ستون ، قوم کے سربراہ ، امام کے دست و بازو ، آیت اللہ محمد حسین بہشتی اپنے ۷۲ ساتھیوں کے ساتھ بم سے اڑا دیے گئے ھم دور ھونے کے باوجود لرز گئے ۔ مگر امام خمینی مدظلہ نے تقریر کے آغاز ھی میں فرمایا کہ جس قوم کا فلسفہ انا للہ ھو اسے موت سے نہیں ڈرایا جاسکتا ۔ عزیز سے عزیز ترین کی موتیں اور بلا پر بلا کی یورشیں ھیں ، مگر رھبر اعظم ملت کا چہرہ انا للہ وانا الیہ راجعون کا آئینہ ھے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو چار عادتیں ھوں گی اسے نور اللہ اعظم میں جگہ ملے گی جس کی ھر کام میں لا الٰہ الا اللہ و محمد رسول اللہ سے ضمانت لینے کی عادت ھو ، اور جس پر مصیبت آئے تو انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کی عادت ھو جسے کوئی خیر ملے تو الحمد لللّٰہ اور غلطی کرے تو استغفر اللہ کہنے کی عادت ھو ۔ (دیکھئے الصافی بحوالۂ عیاشی والخصال)  

۱۵۷۔ اُوٰلئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَواتٌ

وہ صابر و ثابت قدم، وہ انا للہ کے قائل افراد قابل درود و رحمت ھیں ۔ اللہ ان پر صلوٰة بھیجتا اور رحمت نازل فرماتا ھے ۔ کیونکہ "رحمتی وسعت کل شیٔ فساکتبھا للذین یتقون" (الاعراف ۱۵۶) یہ بات آفرین بھی ھے اور سند رضا بھی ۔ نیز مرد مومن کی سب سے بڑی کامیابی کا اعلان ھے ۔

اِنَّ الصَّفٰا وَ الۡمَرۡوَةَ مِنۡ شَعٰائِرِ اللہِ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلا جُنٰاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَطَّوَّفَ بِہِمٰا وَ مَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡراً فَاِنَّ اللہَ شٰاکِرٌ عَلیمٌ  ۔   

 

ترجمہ :

بلا شبہ صفا اور مروہ (کی پہاڑیاں) اللہ کے شعائر میں ھیں ، تو جب بھی کوئی شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ بجالائے تو کوئی حرج نہیں (کوئی گناہ نہیں) کہ ان دونوں میں سعی کرے اور جو شخص دل و جان سے اچھا کام کرے تو اللہ قدر داں اور سب کچھ جاننے والا ھے (۱۵۸)   

 

تفسیر :

جب سے کعبہ ھے اس وقت سے حج ھے ، حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عمارت کی تجدید کی اور اپنی زوجہ "ھاجرہ" کو مع شیر خوار فرزند اسماعیل علیہ السلام کے یہاں آباد کیا ۔ اللہ نے ان کے منصوبے کو پسند فرمایا اور حج میں ان لوگوں کے اعمال کو واجب قرار دے دیا ۔ آنحضرت (ص) سے پہلے یہاں بتوں کا راج تھا، اور بت شکن خلیل اللہ کے موحدانہ حج میں مہملات ملاکر اسے کچھ سے کچھ کردیا گیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحکم خدا حج کے مناسک معین کیے تو ان میں طواف خانۂ کعبہ اور صفا و مروہ کی سعی بھی تھی ۔ بظاھر روایات اہل مدینہ دستور قدیم کے مطابق سعی نہیں کرتے تھے ۔ پھر صفا پر "اساف" اور مروہ پر "نائلہ" نامی مورتیں رکھ کر اور ستم ڈھایا تھا ۔ لوگ مسلمان ھوئے اور حضور (ص) نے احکام حج بتائے۔ تو کچھ لوگوں نے "سعی" کے بارے میں تردد کیا ۔ دونوں بتوں کی طرف آنا جانا ، ان کے پہاڑوں میں سعی کریں ؟ کیا حکم ھے ۔ ارشاد باری ھوا ۔۔۔ حج اور عمرہ دونوں میں سعی کرو، سعی میں کوئی گناہ اور کوئی رکاوٹ نہیں ھے ۔ اگر دل و جان سے خدا کے لئے یہ عمل یا کوئی نیک عمل کرو گے تو خدا اس کا بدلہ دے گا، وہ نیت و کردار سے باخبر ھے ۔

صفا ۔ ایک پتھر کی پہاڑی گوشۂ حجر اسود کے سامنے پندرہ میٹر بلند اور مروہ حجر اسماعیل کے سامنے آٹھ میٹر کی اونچائی رکھتی ھے ۔ دونوں سخت پہاڑیوں کے درمیان چار سو انیس بیس میٹر کا فاصلہ ھے ۔ جن کے درمیان چلنا اور "ھرولہ" کرنا پڑتا ھے ۔

سعی، بندگی کی سخت راھوں اور عاجزی کی پتھریلی گھاٹیوں میں قدم بڑھانے کی تربیت بھی ھے اور للٰہیت کا امتحان بھی ھے ۔

اِنَّ الَّذِینَ یَکۡتُمُونَ مٰا اَنۡزَلۡنٰا مِنَ الۡبَیِّنٰاتِ وَ الۡھُدیٰ مِنۡ بَعۡدِ مٰا بَیَّنّٰاہُ لِلنّٰاسِ فِی الۡکِتٰابِ اُوٰلئِکَ یَلۡعَنُھُمُ اللہُ وَ یَلۡعَنُھُمُ اللاعِنُونَ اِلا الَّذِینَ تٰابُوا وَ اَصۡلَحُوا وَ بَیَّنُوا فَاُوٰلئِکَ اَتُوبُ عَلَیۡھِمۡ وَ اَنا التَّوَّابُ الرَّحیمُ   

 

ترجمہ :

بے شک جو لوگ ان واضح احکام اور ھدایات کو جنھیں ھم نے نازل کیا اس کے بعد چھپاتے ھیں جبکہ ھم لوگوں کے لیے کتاب میں صاف صاف بیان کرچکے ، تو یہی لوگ،ھیں جن پر اللہ لعنت کرتا ھے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ھیں (۱۵۹) مگر جن لوگوں نے (حق چھپانے سے) توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی اور (کتاب کے احکام) بیان کیے ، تو میں ان کی توبہ قبول کرتا ھوں اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ھوں (۱۶۰)

 

تفسیر :

۱۵۹۔ اِنَّ الَّذِینَ یَکۡتُمُونَ مٰا اَنۡزَلۡنٰا … 

تورات میں آخری نبی امی (ص) کے صفات اور ھدایت کے اصول ، توحید و احکام شریعت اس لیے نازل کیے گئے تھے کہ مستقبل تک لوگوں کو فکری طور پر تیار کیا جائے مگر یہود نے ان تعلیمات کو چھپایا اور لوگوں کو کچھ نہ بتایا ، لھذا جو لوگ حقائق کو چھپاتے اور عوام کو اندھیرے میں رکھتے ھیں ، انھیں لعنت کی سزا ھے ۔ ان پر اللہ لعنت کرتا ھے ، اور مومن انسان بھی لعنت کرتے ھیں ۔

نفرت کا اظھار جس طرح لعنت سے ھوتا ھے کسی چیز سے نہیں ھوتا ، لعنت ، آخرت میں رحمت سے دوری اور دنیا میں پھٹکار اور بیزاری ھے اور یہ سزا اس باخبر کے لیے ھے جو حق چھپائے ۔ دینِ خدا ایک مشن ھے ، ایک تحریک اس تحریک میں پیام کو چھپانا اصل دین کی ترقی کو روکنا اور اسے انحراف کی طرف ڈھکیلنا ھے ۔ ظاھر ھے کہ با مقصد منصوبوں میں ایسے کام بڑے سخت جرم ھیں ۔ خدا رحیم ھے اس لیے ایسے مجرموں کو موت کی سزا نہیں دی ، مگر ھاں ، لعنت کی سزا وہ دی ھے جو ھمیشہ باقی رھے گی ۔ دیکھیے آیت ۱۵۹ ۔

۱۶۰۔ اِلا الَّذِینَ تٰابُوا …

تربیت اور ھمت افزائی کا یہ انداز رحمت ۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ حق چھپانے کا مذموم جرم اور اس کی سزا بیان کرنے کے بعد ارشاد ھوا کہ جو لوگ اپنی اصلاح کرلیں ، توبہ و معافی مانگ لیں اور اللہ کا پیام کما حقہ لوگوں تک پہنچانے لگیں گے وہ دوبارہ مومنوں میں شامل اور اسلام کے حلقے میں داخل مان لیے جائیں گے ۔

اِنّ الَّذینَ کَفَرُوا وَ مٰاتُوا وَ ھُمۡ کُفّٰارٌ اُولٰئِکَ عَلَیۡھِمۡ لَعۡنَۃُ اللہِ وَ الۡمَلائِکَۃِ وَ النّٰاسِ اَجۡمَعینَ خٰالِدینَ فیھٰا لا یُخَفِّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذٰابُ وَ لاھُمۡ یُنۡظَرُونَ وَ اِلٰھُکُمۡ اِلٰہٌ وٰاحِدٌ لا الٰہَ الا ھُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحیمُ ۔

 

ترجمہ :

بے شک جو کافر ھوئے اور کفر کی حالت میں مرگئے ۔ ان لوگوں پر اللہ کی اور ملائکہ کی اور سب لوگوں کی لعنت ھے (۱۶۱) ھمیشہ اسی لعنت میں رھیں گے نہ ان پر سے عذاب ھلکا ھوگا اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی (۱۶۲) اور تمھارا معبود،  یکتا معبود ھے ، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ رحمٰن و رحیم ھے(۱۶۳) 

 

تفسیر :

۱۶۱۔ اِنّ الَّذینَ کَفَرُوا وَ مٰاتُوا وَھُمۡ کُفّٰارٌ …

۱۶۲۔ خٰالِدینَ فیھٰا لا یُخَفِّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذٰابُ …

اللہ کے تعلیمات اور حق باتوں کے چھپانے پر تنبیہ کے بعد ان افراد و اقوام کے بارے میں قانون بیان ھو رھا ھے کہ منکرین تعلیمات انبیاء کی سزا ابدی عذاب آخرت اور دنیا میں اللہ کی لعنت کے ساتھ ساتھ ملائکہ اور انسانوں کی لعنت و برأت سے بھی دوچار رھیں گے ۔ یہ افراد ھمیشہ ان سے بیزاری کا اعلان کرتے رھیں گے ۔ تاکہ ان کی طرح دوسرے افراد کفر اختیار نہ کریں ۔

۱۶۳۔ وَ اِلٰھُکُمۡ اِلٰہٌ وٰاحِدٌ

یہ اعتقاد رکھو اور یہ حقیقت ھے کہ معبود حقیقی تم سب کا ایک ھی ھے اس میں تعدد کا ذرہ برابر احتمال نہیں ۔ یہ آقای نہیں کہ اس سے گھبرائے تو دوسرے کے ھو رھے ، یہاں تو اس وحدہ لاشریک سے منہ موڑا تو پھر کوئی والی و وارث نہ ھوسکے گا ۔ اس کے سوا نہ کسی کے سامنے سرجھکانا صحیح ھے نہ کسی اور کے لیے تم پیدا ھوئے ھو ۔

جسے اس کی یکتائی میں شک ھو وہ کائینات کی تخلیق پر غور کرے ، ھر ذرہ اس کی وحدانیت و وجود کی دلیل ھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 


تفسیر2

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

(لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم ۔) (آل عمران / ۱۶۴)

اللہ نے مومنین پر احسان کیا کہ انھیں میں ان کا رسول بھیجا ۔

و ھذا کتاب أنزلناہ مبارک فاتبعوہ و اتقوا لعلکم ترحمون۔ أن تقولوا انما انزل الکتاب علی طائفتین من قبلنا و ان کنا عن دراستھم لغالفین ۔ او تقولوا لو أنّا انزل علینا الکتاب لکنا أھدیٰ منھم فقد جاءکم بینۃ من ربکم و ھدی و رحمۃ فمن أظلم ممن کذب بآیات اللہ…) (انعام / ۱۵۵ ، ۱۵۷)

یہ بابرکت کتاب تم پر نازل کی لھٰذا اس کا اتباع کرو اور پرھیز گار بنو تاکہ شائد لائق رحم ھوجاؤ ، یہ جو کہتے ھو کہ ھم سے پہلے دو گروھوں پر کتاب نازل ھوئی اور ھم اس کو پڑھنے سے غافل رھے یا یہ کہو کہ اگر کتاب ھم پر نازل ھوتی تو ھم اس سے زیادہ ھدایت کرتے تو اب واضح اور کھلی دلیل اور بینہ اور ھدایت و رحمت تمھارے پروردگار کی طرف سے نازل ھوتی ھے تو پھر کون آیات خدا کو جھٹلانے والے سے زیادہ ظالم ھوسکتا ھے ۔

 

۳ ۔ بنیادی مقصد میں شریک دوسرے مقاصد

مذکورہ تفسیر سے ان دوسرے مقاصد کے نقوش کو بھی سمجھا جاسکتا ھے جن کا تذکرہ ھم نے بنیادی مقصد تک پہونچنے کے سلسلے میں کیا ھے۔ اس کے علاوہ خود اصلی مقصد کی اھمیت کو بھی سمجھا جاسکتا ھے ۔ نیز یہ کہ دوسرے مقاصد فرعی ھیں ۔ ان فرعی مقاصد کا مجموعہ بنیادی مقصد کو وجود میں نہیں لاسکتا چہ جائیکہ وہ خود منفرداً بنیادی مقصد بن جائیں ۔

۱۔ یاد دھانی اور عذاب خدا سے ڈرانا ۔۔۔ یہ دونوں چیزیں بھی قرآن میں قرآن کے نزول کے مقصد کے عنوان سے بتائی گئی ھیں جیسا کہ کچھ آیات کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ھے یہی دونوں چیزیں پیغمبروں کی ذمہ داری کے عنوان سے بھی بتائی گئی ھیں ۔

(او لم یتفکروا ما بصاحبھم من جنّۃ ان ھو الا نذیر مبین) (اعراف / ۱۸۴)

کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ ان کے ساتھی ناعقلی کی تاریکی نہیں ھے وہ صرف کھلا ھوا نذیر ڈرانے والا ھے ۔

(ان انا الا نذیر و بشیر لقوم یؤمنون) (اعراف / ۱۸۸)

میں ایمان والوں کے لیے نذیر و بشیر کے علاوہ کچھ نہیں ھوں ۔

(انما انت نذیر و اللہ علیٰ کل شیءٍ وکیل) (ھود / ۱۲)

تم نذیر کے علاوہ کچھ نہیں ھو اور اللہ ھر چیز کا حافظ و نگہبان ھے ۔  

(قال یا قوم انی لکم نذیر مبین) (نوح / ۲)

کہا کہ اے میری قوم میں تمھارے لیے کھلا ھوا نذیر ھوں ۔

یہ انزار اور خوف دلانا پیغمبروں کی بعض ذمہ داریوں کو بتاتا ھے اور کچھ نزول قرآن کے مقصد اور عمل تغییر کو متحقق کرنے کی سعی کو اپنے دامن میں لیے ھوئے ھے ۔

اس بات کی وضاحت کے لیے یہ عمل کافی ھے کہ ھم انزار اور عذاب خدا سے خوف دلانے کے کام کو ان دوسرے مسائل کے ساتھ قرار دیدیں جن کے متکفل خود قرآن اور پیغمبر اکرم (ص) ھیں ۔

(قد جاءتکم موعظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمۃ للمؤمنین) (یونس / ۵۷)

تمھارے پروردگار کی جانب سے موعظہ اور تمھارے دلوں کے لیے شفاء اور مومنین کے لیے ھدایت و رحمت نازل ھوئی ھے۔ اسی لیے یہ موعظہ شفاء و ھدایت و رحمت کے ساتھ ساتھ ھے ۔ جیسا کہ بہت سی آیات میں انذار کو بشارت کے ساتھ ذکر کیا گیا ھے ۔

(کان الناس امۃ واحدة فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین و أنزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ ، و ما اختلف فیہ الا الذین اُوتوہ من بعد ما جاءتھم البینات بغیاً بینھم فھدی اللہ الذین امنوا لما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ و اللہ یھدی من یشاء الی صراطٍ مستقیم) (بقرہ / ۲۱۳)

سبھی لوگ ایک امت تھے اللہ نے پیغمبروں کو خوف دلانے اور بشارت دینے کے لیے بھیجا اور ان کے ھمراہ کتاب بھیجی تاکہ ان کے اختلافات کا فیصلہ کرسکیں اور انھوں نے دین میں کوئی اختلاف نہیں کیا ھے مگر ان لوگوں نے اپنے اوپر تجاوز و بغاوت حاکم ھونے کی وجہ سے اختلاف کیا ھے جن کے پاس دین پہونچا۔ اس وقت اللہ نے مختلف فیہ مسئلہ میں مومنوں کی ھدایت کی اور اللہ جس کو چاھتا ھے صراط مستقیم کی ھدایت کرتا ھے ۔

یہ آیت کریمہ پیغمبروں کے عمل اور قرآن میں انذار اور خوف دلانے کے اثرات پر روشنی ڈالتی ھے اور بتاتی ھے ۔ انزار ایسی ذمہ داری ھے جسے پیغمبروں کو راہ راست کی ھدایت کرنے والی کتاب کے ساتھ کام میں لانا ھی چاھیے ۔

ھمیں جب یہ معلوم ھوتا کہ قیام عدل کا دار و مدار انذار پر موقوف ھے تو ھم اس بات کی طرف بھی متوجہ ھوں گے قرآن کریم میں انذار کو نزول کے بنیادی مقصد اور پیغمبروں کی ذمہ داری کے عنوان دینے پر تاکید کی وجہ کیا ھے ؟ یہ تائید اس لیے ھے کہ اصل حیات اور وہ معیار جو عدل و انصاف کے ذیل میں دین کے لیے مورد اعتماد ھے بنیادی طور پر اس کا ارتباط موت کے بعد کی دنیا اور اس دنیا میں عذاب کا خوف دلائے اور بہشت کی بشارت ھے ۔

اس طرح اسی انزار کو پیغمبروں کی ذمہ داری قرار دینے کی تائید پیغمبر سے متعلق روحی شکل کو بھی حل کرسکتی ھے کہ پیغمبر اپنے کو عوام میں بنیادی تبدیلی لانے ایسا ذمہ دار تصور کرتا رھے کہ اگر عوام میں وہ تغیر حاصل نہ ھوسکا تو خدا کے سامنے سخت صورت حال سے دوچار ھونا ھوگا ۔

(لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین ۔ ان نشأ ننزل علیھم من السماء آیۃ فظلت أعناقھم لھا خاضعین ) (شعراء / ۳، ۴)

اے میرے رسول شاید تم اپنے کو ھلاکت میں ڈال دو گے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ھم اگر چاھیں تو ان پر آسمان سے ایک نشانی نازل کریں جو انھیں سر جھکانے پر مجبور کردے ۔

(و من ضل فقل انما أنا من المنذرین) (نمل / ۹۲)

(طٰہ ما أنزلنا علیک القرآن لتشقیٰ الا تذکرة لمن یخشیٰ ) (طٰہ / ۳۔ ۱)

اور جو گمراہ ھو ، اس سے کہیے کہ میں تنبیہ کرنے والا ھوں ۔

اے پیغمبر ! ھم نے قرآن کو اس لیے نہیں نازل کیا کہ اپنے کو مشقت میں ڈالیں بلکہ مقصد اس شخص کے لیے ذکر ھے جو ڈرتا ھے ۔

(فلعلک تارک بعض ما یوحی الیک و ضائق بہ صدرک ان یقولوا لولا انزل علیہ کنز أو جاء معہ ملک انما انت نذیر و اللہ علی کل شیءٍ وکیل ۔ ) (ھود /۱۲)

اے رسول کہیں ایسا نہ ھو کہ بعض آیتیں جو آپ پر وحی کی گئی ھیں ان کو نہ پہنچائیں یا لوگوں کے یہ کہنے سے کہ کوئی خزانہ کیوں نہ نازل ھوا یا فرشتہ کیوں نہیں آیا دل تنگ نہ ھوں، آپ صرف نذیر ھیں اور اللہ ھر چیز کا نگہبان ھے ۔

قرآن نے یہاں پر پیغمبر کی ذمہ داری صرف انذار بتائی ھے ۔ ذمہ داری اور اس مقصد کے درمیان فرق جسے رسول اکرم کو انجام دینا ھے۔ رسول کو اپنی تمام طاقت کام میں لانی ھے وہ انزار و فداکاری کے ذمہ دار ھیں لیکن افراد میں تبدیلی پیدا کرنا اگر چہ ان کا مقصد ھے اور تمام چیزوں کے مقابلے میں اھم ھے اور اس کو انہیں انجام دینا ھے لیکن وہ اس کے نتائج کے ذمہ دار نہیں ھیں جیسا کہ بعض مواقع پر انذار کے لیے محنت و مشقت اس حقیقت کی وضاحت کرتی ھے کہ پیغمبر میں ذرہ برابر بھی جاہ و منزلت قدرت و طاقت مادی فوائد کا لالچ نہ تھا بلکہ وہ صرف اپنے فریضہ کو پورا کرنا چاھتے تھے ۔

(و اتل علیہم نبأ نوح اذ قال لقومہ یا قوم ان کان کبر علیکم مقامی و تذکیری بآیات اللہ فعلی اللہ توکلت فاجمعوا أمرکم و شرکاءکم ثم لا یکن امرکم علیکم غمۃ ثم اقضوا الی و لا تنظرون فان تولیتم فما سألتکم من اجر ان أجری الا علی اللہ و امرت ان أکون من المسلمین ۔) (یونس/ ۷۱ ، ۷۲)

خبر نوح کو ان کے لیے دھراؤ کہ جب نوح نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم اگر میرا مقام اور خدا کی آیات کا یاد لانا تمھارے لئے گراں گزرتا ھے تو میرا اللہ پر بھروسہ ھے پس اپنے اور اپنے شرکاء کے امر کو فراھم کرو اور تمھارے امر میں کس پیچیدگی و ابہام کا وجود نہ تھا پھر میرا کام پورا کرو اور مجھے مہلت نہ دو اور جب بھی میری طرف رخ موڑے تو میں اپنے کام کا کوئی بدلہ نہیں چاھوں گا میرا اجر تو اللہ پر ھے اور میں اس کے امر کے سامنے سرجھکائے ھوئے ھوں ۔

۲۔ قرآن میں مثال پیش کرنے کا مقصد انذار و یادھانی ھے جیسا بعض آیات میں اشارہ ھوا ھے ۔

(و لقد ضربنا للناس فی ھٰذا القرآن من کل مثل لعلھم یتذکرون ۔) (زمر / ۲۷)

ھم نے اس قرآن میں ھر قسم کی مثال پیش کی ھے تاکہ لوگ یاد رکھ سکیں ۔

۳۔ جب قرآن حجت، برھان اور موعظہ ھے تو انزار و ھدایت میں شریک ھونا چاھئے اسی لئے ھم دیکھتے ھیں کہ برھان ھدایت و نور و صراط مستقیم کے خود قرآن میں ساتھ ھے ۔

(یا أیھا الناس قد جاءکم برھان من ربکم و أنزلنا الیکم نوراً مبیناً فامّا الذین آمنوا باللہ و اعتصموا بہ فسیدخلھم فی رحمۃ منہ و فضل و یھدیھم الیہ صراطاً مستقیماً) (نساء / ۱۷۴ ۔ ۱۷۵)

اے لوگو تمھارے پروردگار کی طرف سے برھان نازل ھوئی اور تم پر کھلا نور اترا لھٰذا جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس سے متمسک ھوئے ۔ اللہ انھیں اپنے فضل و رحمت میں داخل کرے گا اور انھیں راہ مستقیم کی ھدایت کرے گا ۔

۴۔ احکام کی تفصیل و تشریح ۔۔۔۔۔ یہ نکتہ بنیادی عمومی تبدیلی میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کی بنیاد پر مکمل تبدیلی کے وقت قرآن کی وسعت و گہرائی کو سامنے رکھا جائے وہ تبیان کل شئے ھے ، ھدایت و رحمت ھے اور صراط مستقیم کو مجسم کرتی ھے ۔

(و نزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شی و ھدی و رحمۃ و بشریٰ للمسلمین) (نحل / ۸۹)

اے پیغمبر (ص) ھم نے تم پر کتاب نازل کی تاکہ ھر شے کی بیان کرنے والی ھو اور مسلمانوں کے لیے ھدایت و رحمت و بشارت ھو ۔   

۵ ۔ سورہ بقرہ کی مذکورہ آیت (۲۱۳) کی تشریح کے مطابق قرآن مجید ختم اختلاف ، حق و باطل میں جدائی اور تفرقہ سے دوری کرنا ھے ۔ یہی اس کا اسلوب عام ھے یعنی ھدایت و نور ۔   

 ۶ ۔ رسالتوں کی تصدیق اور ان کی تکمیل کا مطلب یہ نہیں ھے کہ سماج میں بنیادی تبدیلی کا وجود نہیں رھا اس لیے کہ کبھی سماجی انحراف اس حد تک پہونچ جاتا ھے کہ پھر سماج ما قبل کی رسالتوں کے مقصد سے دور ھوجاتا ھے چہ جائیکہ جدید رسالتوں کے مقاصد! یہی وجہ ھے کہ مختلف مواقع پر خصوصاً اھل کتاب سے جدال ان کے تعصب کے ذکر ان کے انحرافات تھوڑی قیمت میں آیات خدا بیچنے کے موقعہ پر قرآن کریم مذمت کرتا ھے اسی لئے قرآن کریم ما سبق کی رسالتوں کی تکمیل ان کی تصدیق اور ان پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان رسالتوں اور آسمانی مفاھم سے دور ھوجانے والے سماج کے لیے ایک بنیادی عمل انجام دیتا ھے تاکہ ان کی فکر اور ان کا عمل صحیح راستے سے ھٹ گیا ھو تو اسے نظریہ اور تطبیق کی شاھراہ پر واپس لائے۔ در اصل گذشتہ تعلیمات کی تصدیق ھدایت و صراط مستقیم کی نگہداشت ھے ، یہی انبیاء و مرسلین کا کام ھے ۔ ھم نے اساسی و بنیادی مقصد نزول قرآن میں اس طرف اشارہ کیا ھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ھے :

(قل انّنی ھدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیّما ملۃ ابراھیم حنیفاً وما کان من المشرکین ۔) (انعام /۱۶۱)   

اور اسی بات کو مزید وضاحت کے ساتھ سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۷ میں بیان کیا ھے :

(الذین یتبعون الرّسول النبیَّ الامِّیّ الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراة و…) (الأعراف / ۱۵۷)

۷ ۔ تاریخ انسان۔ انبیاء کرام اور امتوں کے قصّے ، اور پوری تاریخ پر حکمران کلیات کتاب در اصل " انذار " کے قانون اساسی کی ایک شق ھیں ۔ اس سے وہ حکمت بھی سمجھ میں آتی ھے جو عام اسلوب قرآن میں موجود ھے ۔ یہ پہلو اساسی ستون اور اسلوب و مقصد کے ابعاد کی طرف راھنمائی کرتا ھے ۔ اسی سے مستقبل کے بارے میں کلیات و قوانین فطرت کا وہ رشتہ بھی سامنے آتا ھے جو مستقبل کو ماضی سے ملاتا ھے ۔

۸ ۔ اصل بات جو قرآن ھمارے سامنے پیش کرتا ھے وہ ھے زندگی کا کامل و مکمل تصور ، قرآن کا اسلوب اسی تمثیل کاری پر قائم ھے۔ پھر حیات انسانی پر صحیح حکمراں کلیات وہ اقدار بیان کرنا ھے جن پر عدالت و انصاف کو بالادستی ھو ۔ دین و قرآن کا یہی پیام ھے ۔

انسان کا وجود میں کیا مرتبہ ھے اور اس میں اس کی ذمہ داریاں کیا ھیں ۔

اس کے بعد ھم دیکھتے ھیں کہ دوسرے مقاصد اھم ھونے کے باوجود ۔ اساسی مقصد کے بعد فرعی بن جاتے ھیں ۔ یہ مقاصد بڑی حد تک بنیادی نکتے تک پہنچنے میں مددگار ھیں ۔۔۔۔۔ تاریخ قرآن سے ھم کو اب تک یہی سبق ملا ھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تفسیر سورۂ بقرہ کے بارے میں ایک نظر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جناب ڈاکٹر بی آزار شیرازی

ترجمہ و اضافہ :۔ جناب سید مرتضیٰ حسین

 

نام اور آیات :

قرآن مجید کا یہ دوسرا سورہ ھے اور اس کا نام " البقرہ " ھے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل نے گائے کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا تھا وہ انتہائی گمراہ کن تھا ، یوں تو وہ اپنے تئیں خدا پرست اور برتر از ھمہ جتاتے تھے مگر شرک کا عالم یہ تھا کہ گائے کی پوجا اور وہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات مبارک میں کر کے اپنے رجحانات کی نمایش کرچکے تھے ۔

سورے میں دو سو چھیاسی آیتیں اور چالیس رکوع ھیں ۔

 

زمانۂ نزول :

مجموعی طور پر اسے مدنی سورہ کہا جاتا ھے، اس لیے کہ اس کی اکثر آیتیں ھجرت کے بعد نازل ھوئی ھیں۔ آخری چند آیتیں البتہ مکی ھیں ۔

 

پس منظر :

سورۂ بقرہ کی آیتیں مختلف اوقات و حالات میں نازل ھوتی رھیں ، اس لیے کہ ھر ایک آیت یا آیات کی نزول الگ الگ ھے ۔ بصورتِ موجودہ یہ ایک مکمل سورہ ھے  اور امام محمد باقر علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان فرمائی ۔

اعطیت الطوال مکان التوراة و المئین مکان الانجیل ، و اعطیت المثانی مکان الزبور و فضلت بالمفصّل سبع و ستین سورة ۔ (تفسیر البرھان)

مجھے طویل سورے تورات کے بجائے اور سو سے زیادہ آیتوں والے سورے انجیل کے عوض اور مثانی زبور کے بدلے عطا کیے گئے اور ۶۷ (مفصل) سورے بطور شرف زیادہ مرحمت ھوئے ۔

گویا سوروں کی حد آنحضرت (ص) کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر ھوئی ۔ بظاھر سورۂ بقرہ و آل عمران میں اسی طرح کی بات پائی جاتی ھے ۔ یعنی البقرہ میں جناب موسیٰ (ع) اور بنی اسرائیل کا تذکرہ ھے اور آل عمران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نصاریٰ کا تذکرہ ھے ۔ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کی مناسبت سے دونوں سورتوں کا آنا بجائے خود ایک معجز نما بات ھے ۔

آغاز میں تین گروھوں کو تعارف ھے اور ان کے اعمال و عقائد ، افکار و کردار پر روشنی کہ اسلام کو ھمیشہ انھیں گروھوں سے سابقہ رھے گا ۔ متقی (مؤمن) کافر (منکر) منافق (موقع پرست)

دوسرے مرحلے میں یہودیوں کے سماجی اثر و نفوذ اور تعلیمی و تبلیغی معاملات میں نسل پرستی اور آقائیت کا پروپیگنڈہ ، انبیاء پر بہتان ، آسمانی کتاب میں تحریف ، قصص و حکایات اور خرافات کو ، اللہ کی طرف منسوب کرنا اور انبیا کے نام کو بدنام کرنا ۔ ایسی خطرناک صورت حال تھی کہ مشرک و غیر مشرک اس سے مرعوب بنے ھوئے تھے۔ مدینے میں ان کا اقتصادی نظام بھی غالب تھا اس لیے ان کے افکار و کردار ، پروپیگنڈے اور تعلیمات کی حقیقت واضح کی گئی ۔

اللہ نے حضرت آدم (ع) سے حضرت ابراھیم و اسماعیل اور موسیٰ و داؤد علیہم السلام تک اپنی حکمت کے مطابق اصل واقعات سے سب کو آگاہ کیا اور نئے نبی علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰة والسلام ، نئی کتاب یعنی قرآن اور نئی امت یعنی مسلمانوں کے لیے ھدایت و رھنمائی کی راھیں کھولیں اور قیامت تک باقی رھنے والے مثالی کردار و اصول روشن کیے ۔

احکام بتائے ، نئے معاشرتی ، انتظامی ، اقتصادی ، قانونی اور فکری ضابطے مقرر کیے جو آیات کے ساتھ درجہ بدرجہ سامنے آتے ھیں ۔ اس ضمن میں فاضل معاصر جناب بے آزاد شیرازی صاحب کا مقالہ ۔ " تفسیر قرآن بہ قرآن با توجہ بہ ھم بستگی آیات " ایک محنت و عمیق مطالعہ کا آئینہ دار میں محترم قارئین کی نذر کرتا ھوں اور فاضلِ موصوف کی اجازت کا شکر گذار ھوں ۔

 

سورۂ بقرہ کے آیات و مطالب کا باھمی ربط

تقویٰ ۔ خلافت آدم ۔ بنی اسرائیل ۔ خاندانِ ابراھیم (ع) ۔ رسالت پیغمبر اکرم (ص) ۔ مسلمانوں کی عزیمت ۔ شجرۂ ممنوعہ و حدودِ الٰہی ۔ سورۂ بقرہ کے بڑے بڑے نکات میں سے چند نکتے ھیں ۔

قرآن نے اپنا موضوع " متقین کی ھدایت بتایا ھے ۔ اور آدمیوں کے تین گروہ کیے ھیں متقی ۔ کافر ۔ منافق ۔

خلقت کائنات ۔ حضرت آدم (ع) کی خلافت ارضی کا واقعہ۔ بنی اسرائیل کے تذکرے کے بعد امامتِ حضرت ابراھیم (ع) کا بیان ھے ۔ اور کم و بیش پانچ سو حدود الٰہی کا ذکر ھے ۔   

ان مطالب کا متقی لوگوں اور تقوے سے کیا تعلق ھے ؟

واقعۂ حضرت آدم (ع) کا ماجرائے بنی اسرائیل سے کیا ربط ھے ؟

اور ان دونوں تذکروں سے خاندان ابراھیم (ع) کا جوڑ کیا ھے ؟

پانچ سو احکام ، اصل موضوع تقویٰ و متقین سے کیوں کر مربوط ھیں ؟ 

ان سوالات کے جواب غور و فکر کے بعد یہ ملتے ھیں : 

 

۱۔ تقوے اور خلافت ارضی کا تعلق :

" ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبۃ للمتقین " (الاعراف / ۱۲۸)

یقیناً زمین اللہ کی ھے وہ اپنے (با صلاحیت ) بندوں میں جسے چاھتا ھے وارثِ (خلافت) بناتا ھے اور عاقبت (خلافت) متقی لوگوں کی ھے ۔"

حصولِ کامیابی کے لیے حضرت موسیٰ (ع) کی نصیحت کا بیان ھے ۔ کلیم اللہ قوم کو سمجھا رھے تھے کہ وراثت و خلافت ارضی زیر سایۂ تقویٰ ھے ۔ جب باھمی اعتماد و تعاون ھو تو قدرت پیدا ھوتی ھے ، بے ایمان و تقویٰ دشمن انتشار کا شکار ھوکر شکست کھاتے اور مومن فتح یاب ھوتے ھیں ۔

اللہ ، اقوام و ملل کو زمین پر قدرت و اختیار دیتا ھے کہ انھیں تقوے کی بنیاد پر جانچے اور امتحان لے ۔

" و ھو الذی جعلکم خلائف الارض و رفع بعضکم فوق بعض درجات لیبلوکم فیما اٰتاکم " (الانعام / ۱۶۵)  

۔۔۔ اللہ وہ ھے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور ایک کا رتبہ دوسرے سے بڑھایا تاکہ جو تمھیں دیا گیا ھے اس میں تمھارا امتحان لے ۔  

وہ دیکھنا چاھتا ھے کہ ناطاقتوں کو اقتدار و حکمرانی حاصل کرکے اللہ کی نعمتوں کو بھلاتے ھیں یا اس پر شکر ادا کرکے اللہ کا رخ کرتے ھیں ۔ مادیات میں الجھتے ھیں یا ایمان کو مستحکم بناتے ھیں ۔ کردار و اخلاق میں شیطان بنتے ھیں۔ یا اخلاق الہیہ کو اپناتے ھیں ، غرور و خود سری کرکے ناتوان عوام کو غلام بناتے ھیں یا انکساری و عاجزی اختیار کرکے بے یادوں کی یاری اور غریبوں کی دستگیری کرکے انھیں اونچی سطح پر لاتے ھیں، مستضعفین پر ظلم ڈھاتے ھیں یا خوف خدا سے راہ تقویٰ پر چلنے اور مستکبرین کو نظر انداز کرتے اور خستہ حال عوام کو گلے لگاتے ھیں ۔ اس امتحان میں نتیجہ اور عاقبت اھل تقویٰ کے حق میں ھوگی ۔

خلافت و تقویٰ کے باھمی تعلق پر گفتگو کے بعد سورۂ بقرہ کے موضوع "تقویٰ " ۔ متقین ۔۔۔۔ اور کافرین و منافقین پر نظر ڈالتے ھیں ۔ زمین پر خلافتِ آدم (ع) اور بنی اسرائیل کی خلاف تقویٰ رفتار و کردار کی وجہ سے خلافت ارضی کے لیے نا اھلی کا قرآنی بیان سامنے رکھ کر حضرت ابراھیم (ع) اور ان کے پاکیزہ خاندان کے تقویٰ اور صلاحیت امامت و خلافتِ ارضی پر غور کریں ، اس تناظر میں بنی اسرائیل و تذکرۂ ابراھیم (ع) و اولاد ابراھیم (ع) کا معیار تقویٰ واضح ھوگا ۔

 

۲۔ داستان آدم و بنی اسرائیل :

" الرٰ کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر " (سورۂ ھود / ۱) قرآن کا اسلوب یہ ھے کہ شروع میں ایک مطلب کو مختصر اور دوسری مرتبہ تفصیل ایک مرتبہ کلی دوسری بار جزئیاتی انداز سے بیان کرتا ھے ۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں " انسان شناسی "۔ تعمیر انسانیت ۔۔۔۔ پر روشنی ڈالی ھے ۔ اس کے لیے حضرت آدم (ع) کا مجمل اور بنی اسرائیل کی داستان مفصل ھے ۔ بنی اسرائیل نے نعمتِ حیات و آزادی ، زمین آسمان سے ملنے والے کھانے ، اس دور کے انسانوں پر برتری ، اقتدار و خلافت جیسے انعامات سے نوازا لیکن اس نا اھل قوم نے عہد الٰہی توڑ کر شیطان کا راستہ اختیار کیا ، آخر کار " ظالمین " کے زمرے میں شمار ھوئی ۔ ناشکری کی سزا ملی اور " ھبوط " نصیب ھوا ۔ اللہ نے ایک مرتبہ پھر وقت دیا اور پیغمبر آخر الزمان (ص) کو بھیجا ۔ بنی اسرائیل کو خاص طور پر مطلع کیا ، ان کو دعوت میں خصوصی توجہ سے دیکھا مگر یہ قوم نہ ماننا تھا نہ مانی ۔ اس پس منظر میں آیات کا ربط دیکھیے :

 

شمار  قصہ آدم (ع)                           سورہ و آیت             قصہ بنی اسرائیل     

۱۔ اذقال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔  (البقرہ ۳۰) قال عسیٰ ربکم ان یھلک عدوکم        (الاعراف ۱۲۹)

۲۔  قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء ۔ (البقرہ ۳۰)  ثم انتم ھٰولاء تقتلون انفسکم  (البقرہ ۸۵)

۳۔ و اذ قلنا للملائکۃ اسجدو الآدم  (البقرہ ۳۴)  و اذ قلنا … و ادخلوا الباب سجداً و قولوا حطۃ  (البقرہ ۵۸)

۴۔ فسجدوا الا ابلیس (البقرہ ۳۴) فبدّل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم (البقرہ ۵۹)

۵۔ ابیٰ و استکبر (البقرہ ۳۴) افکلما جاءکم رسول بما لاتھوی انفسکم استکبرتم  (البقرہ۸۷)

۶۔ و ما کان من الکافرین (البقرہ ۳۴) و آمنو بما انزلت مصدقاً لما معکم و لا تکونوا اول کافر بہ  (البقرہ ۴۱)

۷۔ و قلنا یا آدم اسکن انت و زوجک الجنۃ (البقرہ ۳۵) و اذقلنا ادخلوا ھذہ القریۃ (الارض المقدسہ) (البقرہ ۵۸)

۸۔ و کلا منھا رغداً حیث شئتما  (البقرہ ۳۵) و لا تعثوا فی الارض مفسدین (البقرہ ۶۰)

۹۔ و لا تقربا ھذہ الشجرة (البقرہ ۳۵) ثم اتخذتم العجل من بعدہ و انتم ظالمون (البقرہ ۵۱)

۱۰ فتکونا من الظالمین (البقرہ ۳۵) واتبعوا ما تتلوا الشیاطین علی ملک سلیمان (البقرہ ۱۰۲)

۱۱۔ فازلّھما الشیطان عنھا فاخرجھما مما کانا فیہ (البقرہ ۳۶) اھبطوا مصراً فان لکم ما سألتم (البقرہ ۶۱)

۱۲۔ و قلنا اھبطوا (البقرہ ۳۶) و ضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ و باؤا بغضب من اللہ (البقرہ ۶۱)

۱۳۔ بعضکم لبعض عدو (البقرہ ۳۶) قال فانھا محرّمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض (المائدة ۲۶)  

۱۴۔ و لکم فی الارض (البقرہ ۳۶) ثم عفونا عنکم من بعد ذٰلک لعلکم تشکرون (البقرہ ۵۲)

۱۵۔ فتلقیٰ آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ (البقرہ ۳۷) فتاب علیکم انہ ھو التواب الرحیم (البقرہ ۵۴)

۱۶۔ انہ ھو التواب الرحیم (البقرہ ۳۷) ان الذین آمنوا و الذین ھادوا  (البقرہ ۶۲)

۱۷ ۔ قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدیً فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون (البقرہ ۳۸) و النصاریٰ و الصابئین من آمن باللہ و الیوم الاٰخر و عمل صالحاً فلھم اجرھم عند ربھم و لا خوف علیہم و لا ھم یحزنون

 

۳۔ قصصِ بنی اسرائیل و آدم (ع) و ابراھیم (ع) کے روابط :

تاریخ حضرت ابراھیم علیہ السلام بھی داستان بنی اسرائیل کے مانند واقعات حضرت آدم سے مسئلہ خلافت مطابقت رکھتے ھیں ۔ دونوں میں نفی و اثبات کا فرق ھے اور انھیں نکات کو دونوں جگہ نمایاں درجہ حاصل ھے ۔

واقعۂ آدم (ع) میں ، اللہ نے ملائکہ سے فرمایا " انی جاعل فی الارض خلیفۃ " میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ھوں ۔ ملائکہ نے عرض کیا " اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء " ؟ خلافت ان میں قرار دی ھے جو زمین میں فساد و خوں ریزی کریں گے۔ اللہ نے جواب دیا : جو حقائق میں جانتا ھوں وہ تم نہیں جانتے ۔

ماجرأ بنی اسرائیل میں خلیفہ زمین کے منفی پہلو ملاحظہ ھوں ۔ اور واقعات ابراھیم (ع) میں امامت کا اعلان و جناب ابراھیم (ع) کا ، اسماعیل و سرور دو عالم (ص) اپنی اولاد کے لیے درخواست پھر اس کا جواب ۔ قصۂ آدم (ع) کے " انی اعلم ما لا تعلمون " کی تفصیل ملتی ھے ۔

بنی اسرائیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

۱۔ قالوا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء " سورۂ بقرہ کی تیسویں آیت میں ملائکہ نے بے تقویٰ اور مفسدین کی خلافت پر سوال اٹھایا ھے

 

آل ابراھیم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی آیت میں " انی اعلم ما لا تعلمون " تفصیلی جواب ھے اور تذکرۂ ابراھیم (ع) میں متقین و صالحین کے مثالی کردار ۔

۲۔ چوراسی اور پچاسی نمبر آیتوں میں بنی اسرائیل کی فساد انگیز و خون آشام تاریخ کا تعارف ۔

سورۂ بقرہ ھی کی ایک سو چوبیس نمبر آیت میں ابراھیم (ع) اور آل ابراھیم (ع) کے حسن کردار و صلاحیت کا بیان ھے ۔

۳۔ سورۂ مائدہ کی چوبیسویں آیت میں ھے کہ بنی اسرائیل امتحان میں ناکام ھوگئے انھوں نے کہا تھا " فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھٰھنا قاعدون "

سورۂ بقرہ کی آیت ۱۲۴ میں امتحانات میں حضرت ابراھیم (ع) کی کامیابیوں کا تذکرہ ھے : " و اذا ابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فأتمھن "

اس سلسلے میں حضرت آدم (ع) کے اس امتحان کا تذکرہ بھی ملاحظہ ھو جس میں کلمات و اسماء کا ذکر ھے

۴۔ بنی اسرائیل ظالمین کے نمونے تھے آیت نمبر ۵۱ ، ۹۵ سورۂ بقرہ ۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام صالحین و عادلین کا نمونہ تھے ۔ سورۂ بقرہ ۱۳۰

۵۔ بنی اسرائیل روح شیطانی ، نافرمانی و ظلم کے نمودار تھے : " … ذٰلک بما عصو او کانوا یعتدون " سورہ بقرہ آیت ۶۱

" اذ قال لہ ربّہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین " سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۱ ھے اور ابراھیم (ع) و آل ابراھیم کی فرماں برداری و اسلام کی نمودار ھے ۔

۶ ۔ " و لن یتمنوہ ابداً بما قدمت ایدیھم " (بقرہ / ۹۵) سے معلوم ھوتا ھے کہ بنی اسرائیل کو نہ اللہ سے محبت تھی نہ شھادت کا خیال ۔

اس کے مقابلے میں " فلا تموتن الا وانتم مسلمون " (بقرہ / ۱۲۴) سے واضح ھوتا ھے کہ حضرت ابراھیم اور ان کی اولاد عشق الٰہی میں آخری سانس لینے کی آرزو مند تھی ۔

۷ ۔ بقرہ کی آیت ۶۱ : ۵ : اھبطوا مصراً … و ضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ) سے معلوم ھوا کہ بنی اسرائیل امامت و خلافت کی اھلیت کھو چکی تھی ۔

اسی سورے کی آیت ۱۲۵ : " قال انی جاعلک للناس اماماً " سند ھے کہ خلیل خدا نیز ان کی ذریت اھلیتِ خلافتِ زمین کے لیے مثالی حیثیت کی مالک تھی۔

۸ ۔ آیات نمبر ۵۱ ، ۵۴ ، ۵۹ ، ۶۵ ، ۸۳ ، ۸۴ ، ۸۵ ، ۹۳ ، ۱۰۰ میں بنی اسرائیل کی عہد شکنی پر مذمت ھے ۔

آیت نمبر ۱۳۵ میں ابراھیم (ع) و اسماعیل (ع) کی عہد پورا کرنے کا بیان ھے " و عھدنا الیٰ ابراھیم و اسماعیل "

۹ ۔ بنی اسرائیل نے " باب " میں سرجھکانے کے بجائے بت پرستی کی اور اللہ کی بات بدل دی " و ادخلوا الباب سجداً … فبدل الذین ظلموا " (آیت ۵۸ ۔ ۵۹)

حضرت ابراھیم و اسماعیل نے " البیت " کو بتوں سے پاک کیا ۔ توحید پرستی کو رواج دیا : " و عہدنا الیٰ ابراھیم و اسماعیل ان طھرا بیتی " بقرہ آیت ۱۲۵  

۱۰۔ سورۂ اعراف کی آیت ۱۳۸ میں ھے کہ بنی اسرائیل جاھل قوم تھی "انکم قوم تجھلون "

سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۰ سے معلوم ھوتا ھے کہ ملت ابراھیم (ع) مثالِ علم و عقل تھی : " ومن یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ "

۱۱ ۔ " ثم قست قلوبکم من بعد ذٰلک " سورۂ بقرہ کی آیت ۸۴ بتاتی ھے کہ بنی اسرائیل کے دل سخت اور عیب دار تھے ۔

و ان من شیعتہ لابراھیم اذ جاء ربہ بقلب سلیم " سورۂ صافات کی آیت ۸۴ بتاتی ھے کہ ابراھیم (ع) (وآل ابراھیم) قلب سلیم کے مالک تھے ۔

۱۲۔ انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل" سورۂ بقرہ کی آیت ۵۴ ھے ۔ جس نے بتایا کہ بنی اسرائیل گوسالے کی پوجا کرتے اور بت بناتے تھے ۔

" تاللہ لاکیدَنَّ اصنامکم " سورۂ (انبیاء) کی آیت نمبر ۵۷ سے معلوم ھوا کہ خلیل اللہ (ع) (وآل خلیل) کا عمل بت شکنی ھے ۔

۱۳۔ سورۂ بقرہ کی اکسٹھویں آیت بتاتی ھے کہ بنی اسرائیل نعمتوں کی ناقدری کرتے تھے " اتستبدلون الذی ھو ادنیٰ بالذی ھو خیر "

سورۂ نحل کی آیت نمبر ۱۲۱ میں ابراھیم (ع) کو نعمتوں پر شکر گذار قرار دیا گیا ھے : " شاکراً لانعمہ "

۱۴۔ ذلک بانھم کانوا یکفرون بآیات اللہ " (بقرہ / ۶۱)

 بنی اسرائیل آیات الہی کے منکر قرار دیے گئے ھیں ۔

" انہ من عبادنا المؤمنین " سورۂ الصافات / ۱۱۱ میں حضرت ابراھیم (ع) کو مومن باللہ کے عنوان سے یاد فرمایا ھے ۔

 

۴۔ دونوں ملتوں کے تقابل کا مقصد

اس تقابل کا مقصد گذشتہ قوموں کی زندگی سے اسباق حاصل کرنا ھے ۔ ایک اور بات جو سامنے آتی ھے وہ یہودیوں کی قوم پرستی اور خود پسندی ھے ، جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسترد فرمایا ، یہودی کھلم کھلا یہ چاھتے تھے کہ سب ان کی پیروی کریں : " و لن ترضیٰ عنک الیھود و لا النصاریٰ حتی تتبع ملتھم "۔ بقرہ / ۱۲۰ ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جنت میں یہودی ھی جائیں گے، بہت ھوا تو نصاریٰ بھی جاسکیں گے : " لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصاریٰ " البقرہ ۔ ۱۱۱

تقابلی مطالعہ سے یہ نتیجہ بھی حاصل ھوا کہ بنی اسرائیل خلافت و امامت کے لائق نہیں ھیں کیونکہ اسی سورے کی آیت ۱۲۴ میں کلیہ ارشاد فرمایا ھے : "لاینال عھدی الظالمین " اور بنی اسرائیل ظالم ھیں ۔

سنّتِ ابراھیمی کے پیروکار جن کے رسول (ص) نتیجۂ دعاء خلیل اللہ ھیں ۔ دیکھیے البقرہ آیات ۱۲۹ ۔ ۱۴۲ ، مسلمان امامت و خلافت کے زیادہ حقدار ھیں ۔ اسی بنا پر ان کا قبلہ بدل گیا ۔ آیات ۱۴۲ ، ۱۴۳ ۔

آیات نمبر ۱۰۴۔۔۔ ۱۱۰ میں ایسے امور بیان ھوئے ھیں جن سے ثابت ھوتا ھے کہ بنی اسرائیل سے خلافت مسلمانوں کو منتقل فرمادی ھے ۔

 

۵۔ شجر ممنوع ۔ حدود کی پابندی اور تقوے کا ربط :

اللہ عز اسمہ نے امتوں کو زمین کا وارث بنایا ۔ معین عہد و پیمان اور شرائط کی پابندی کے بعد خلافت کا شرف بخشا ۔ جیسے حضرت آدم (ع) کو جنت میں اس شرط سے رھنے کی اجازت دی تھی کہ " و لا تقربا ھذہ الشجرة " یہی شرط آج تک مسلمانوں پر عائد ھے " تلک حدود اللہ فلا تقربوھا "  (بقرہ / ۱۸۷)

سورۂ بقرہ میں تقریباً پانچ سو احکام و حدود بیان ھوئے ھیں ۔ کلمۂ " حدود " سورۂ بقرہ میں کم و بیش سات اور النساء ، النور ، المجادلہ والطلاق میں سات جگہ استعمال ھوا ھے ۔

حدود سے تجاوز ممنوع ھے ۔ ان کی مخالفت سے بچنے کا حکم ھے ۔ محرمات بجالانے کی سخت سزا بلکہ اسے ظلم قرار دیا ھے۔ اس بچاؤ کا نام تقویٰ ھے اور تقوے سے آراستہ لوگوں کو اچھے نتائج کی خوش خبری دی ھے " و العاقبۃ للمتقین "۔

۱۔ شجر ممنوع سے محرمات الہی مراد لیے جاسکتے ھیں ۔     

۲۔ شجر ممنوع ، کانٹوں سے لدا ھوا ھے اس سے بچنا تقویٰ ھے ۔

۳۔ اس درخت سے قربت نفس پر ظلم اور جنت سے نکلنا ھے ۔

خلاصہ یہ کہ حدود ، شجر ممنوع ملتی جلتی تعبیریں ھیں اس سے قریب جانا ظلم اور بچنا تقویٰ ھے ۔ 

۴۔ تقویٰ جنت میں داخل ھونے اور رھنے کا سبب ھے ۔

جیسے ممالک کی سرحدیں ھوتی ھیں جن سے ایک ملک کا رھنے والا عبور نہیں کرسکتا کبھی کبھی ان سرحدوں پر بجلی کے تار اور خار دار حد بندیاں ھوتی ھیں کہ ان سے قریب جانا خطرناک ھوتا ھے ۔ حدود اللہ اسی طرح کی چیز محسوس ھوتی ھے ۔ اس حدود سے بچنے کو بھی قرآن نے تقویٰ کہا ھے ۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۷ ھے : 

" تلک حدود اللہ فلا تقربوھا کذلک یبیّن اللہ آیاتہ للناس لعلھم یتقون "

" یہ اللہ کے حدود ھیں تو ان کے قریب نہ جانا ، اللہ اپنی آیتیں لوگوں پر اسی طرح واضح کرتا ھے تاکہ لوگ " تقویٰ " اختیار کریں ۔

اور جو شخص حدود الٰہی سے تجاوز کرے گا اور اس شجر ممنوع کے قریب جائے گا وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا :

" تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا و من یتعد حدود اللہ فاولئک ھم الظالمون " (البقرہ / ۲۲۹)

یہ اللہ کی سر حدیں ھیں ان کے آگے نہ بڑھنا اور جو بھی اللہ کی سرحدوں سے تجاوز کرے گا وہ ظالموں میں ھوگا ۔

حدود الٰہیہ سے بچنا (تقویٰ) جنت کی ضمانت اور بڑی کامیابی کی سند ھے۔

" تلک حدود اللہ و من یطع اللہ و رسولہ یدخلہ جنّات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا و ذلک الفوز العظیم "

یہ اللہ کی سرحدیں ھیں، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کا فرماں بردار ھوگا اللہ اسے اس جنت میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ھوں گی وھاں وہ لوگ ھمیشہ رھیں گے اور یہی بڑی کامیابی ھے ۔ (النساء / ۱۳)

ان حدود سے تجاوز عدم تقویٰ اور خلود فی النار ھے ۔  

" ومن یعص اللہ ورسولہ ویتعد حدودہ یدخلہ نارا خالدا فیھا ولہ عذاب مھین "

اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے حدود سے آگے بڑھے گا وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا اسی میں ھمیشہ رھے گا ، اور اسے رسوا کن عذاب ھوگا (النساء / ۱۴)

تفسیر

800x600
Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}
وَ قٰالَ الَّذینَ لایَعۡلَمُونَ لَوۡلا یُکَلِّمُنَا اللہُ اَوۡ تَاۡتینٰا اٰیَۃٌ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِینَ مِنۡ قَبۡلِھِمۡ مِثۡلَ قَوۡلِھِمۡ تَشٰابَھَتۡ قُلُوبُھُمۡ قَدۡ بَیَّنّا الاٰیٰاتِ لِقَوۡمٍ یُوقِنُونَ  
 
ترجمہ :
بے علم و خبر لوگ کہتے ھیں ، اللہ ھم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی آیت ھمارے پاس کیوں نہیں آتی ؟ ان سے پہلے والوں نے بھی انھیں جیسی بات کہی تھی ، ان کی ضمیر و دل ان سے ملتے جلتے ھیں ۔ ھم نے (اھل یقین) حقیقت طلب لوگوں کے لیے آیتیں واضح کردی ھیں (۱۱۸) ۔  
 
تفسیر :
انسان کی کج بحثی اور لامذھب لوگوں کی منطق یا جاھلوں کی سوچ بھی عجیب ھے ، ان کی عقلی سطح بلند ھو یا نہ ھو خود فیصلہ کرنا چاھتے ھیں ۔ اللہ نے اس خلل کو دور کرنے اور فکر و خیال کو معتدل رکھنے کے واسطے معصوم رھنما بھیجے ، رسول پر کتابیں نازل کیں۔ آخر میں حکیم اعظم ، نبی خاتم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ، قرآن نازل کیا اور اعلان کردیا کہ ان کی بات ھماری بات ھے ۔ اب نہ یہ تم سے بات کرتے ھیں نہ ھماری وحی پڑھتے ھیں ۔ مطالبہ یہ ھے کہ براہ راست ان پر وحی کیوں نہیں آتی ۔ یہ تو وھی باتیں ھیں جو ان سے پہلے اسرائیل موسیٰ علیہ السلام سے کیا کرتے تھے یہ ان جیسے بن گئے ھیں اور ان کا حال و نتیجہ سنایا جاچکا ھے ۔
اِنّا اَرۡسَلۡنٰاکَ بالۡحَقِّ بَشیرًا وَ نَذیرًا وَ لا تُسۡئَلُ عَنۡ اَصۡحٰابِ الۡجَحیمِ ۔ وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَھُودُ وَ لا النَّصٰاریٰ حَتّٰے تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمۡ قُلۡ اِنَّ ھُدَی اللہِ ھُوَ الۡھُدیٰ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَھۡوٰاءَھُمۡ بَعۡدَ الَّذِی جٰآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ مٰا لَکَ مِنَ اللہِ مِنۡ وَلِےٍّ وَ لا نَصیرٍ ۔ اَلَّذِینَ اٰتَیۡنٰاھُمُ الۡکِتٰابَ یَتۡلُونَہُ حَقَّ تِلاوَتِہ اُولٰئِکَ یُؤۡمِنُونَ بِہ وَ مَنۡ یَکۡفُرۡ بِہ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الخٰاسِرُونَ ۔
 
ترجمہ :
بے شک ھم نے آپ کو سچا دین دے کر بھیجا ۔ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) اور آپ سے جہنم والوں کے بارے میں جواب طلبی نہیں کی جائے گی (۱۱۹) اور تم سے نہ کبھی یہودی راضی ھوں گے نہ عیسائی ، یہاں تک کہ تم ان کی ملت کے تابع ھوجاؤ اور بلا شبہ ھدایت تو صرف اللہ کی ھدایت ھے ۔ اور اگر تم اس کے بعد بھی کہ تمھارے پاس علم آچکا ھے ان کی مرضیوں کے پابند ھوئے تو پھر اللہ کے عوض نہ کوئی سربراہ ملے گا نہ مددگار (۱۲۰) جن لوگوں کو ھم نے کتاب دی ھے وہ لوگ اس کو اس طرح پڑھتے ھیں جو اس کے پڑھنے کا حق ھے ، وھی لوگ اس پر ایمان لائے اور جو اس سے انکار کرتے ھیں وھی لوگ گھاٹے میں ھیں (۱۲۱) ۔
 
تفسیر :
۱۱۹۔ اِنّا اَرۡسَلۡنٰاکَ بالۡحَقِّ …
تمام پیغمبر، تشویق و تنبیہ پر مامور تھے ۔ فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین ۔ البقرہ ۲۱۳۔ آنحضرت (ص) بھی چونکہ خاتم النبیین تھے ۔ اس لیے تربیت بشر کے اس اصول پر کار بند رھے ، بشارت نہ ایسی کہ لوگ بے خوف ھوجائیں ورنہ احساس بندگی نہ رھے گا نہ اتنا ڈرانا کہ لوگ ترکِ دنیا کردیں ۔ عیسائی اور ھندووں کا انتہا پسند طریقہ دو متوازی افراط و تفریط کے نقطے ھیں جن کی طرف وہ نکل گئے اور ناکارۂ محض ھوگئے ۔ اسلام حق و اعتدال کا پیغام ھے اور رسول بشیر بھی ھیں نذیر بھی ۔ مگر مہربان و دل سوز ۔ حضور (ص) کے جذبۂ رحمت کا تقاضا تھا کہ سب انسان مسلمان ھوجائیں اور کوئی جہنم میں نہ جائے ۔ اللہ عز اسمہ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : آپ مطمئن رھیں ان ھٹ دھرم جہنمیوں کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا ۔ آپ نے حق کا پیغام پہنچایا، دلیل دی، شوقِ جنت و خوف جہنم و نتائج نیک و بد سمجھا دیے ۔ آپ کا اس سے بڑھ کر کوئی کام نہیں ۔ ھر مسلمان کے لیے تبلیغ کی یہی راہ ھے اور یہی طریقہ ھمیں اپنانا چاھیے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مقصد ھی تبلیغ کے عمل کا تسلسل ھے ۔
 
۱۲۰۔ وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَھُودُ وَلا النَّصٰاریٰ …  
آپ حق لے کر آئے اور یہود و نصاریٰ باطل پر اڑے ھوئے ھیں ، آپ کچھ بھی کرلیں ، حتی کہ بفرض محال ان کے اندر داخل ھوجائیں جب بھی یہ لوگ خوش تو شاید ھوجائیں مگر آپ کی بات نہ مانیں گے اور آپ سے یہ ھو ھی نہیں سکتا ۔ آپ صاف کہہ دیجیے ۔
اللہ کی ھدایت ۔۔ اسلام ۔۔ ھی راہ حق ھے ۔۔۔ اور بس ۔۔۔۔ اس کے بعد آپ ۔۔۔۔ یعنی آپ کے مخاطب ۔ اس علم و دانش کے بعد (قرآن و احکام ، عقائد و استدلال کے بعد بھی) ان گمراھوں کے ساتھی ھوئے تو پھر اللہ کی سربراھی و سرپرستی و نصرت سے محروم ھوجائیں گے نہ مغفرت ھوگی نہ شفاعت ۔۔۔ نیز دیکھیے آیت نمبر ۱۴۵ ۔
۱۲۱۔ اَلَّذِینَ اٰتَیۡنٰاھُمُ الۡکِتٰابَ …  
تورات و انجیل و قرآن کے حامل ایسے بھی ھیں جو اسے سمجھ کر پڑھتے اور اس سے ھدایت حاصل کرتے ھیں جیسے عبد اللہ بن سلام ، شعبہ بن عمر و اور تمام بن یہود اور ان کے ساتھی جو اسلام قبول کرچکے یا آئندہ مسلمان ھوں گے ۔
ایک قول یہ ھے کہ جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ کچھ مکی حبشے سے مدینے آئے ان میں بتیس ۳۲ اھل حبشہ تھے اور آٹھ آدمی شام کے راھب تھے ، ان سب نے مدینے آکر اپنے مسلمان ھونے کا اعلان کیا ۔ آیت نے ایسے افراد کی تعریف بھی کی اور یہ بھی بتایا کہ اھل نظر اپنے کفر کو چھوڑ دیا کرتے ھیں اور جو نہیں چھوڑتے وہ نقصان اٹھاتے ھیں اور اٹھاتے رھیں گے ۔
یٰا بَنِی اِسۡرٰائِیلَ اذۡکُرُوا نِعۡمَتِیَ الَّتے اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنّی فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰالَمینَ وَ اتَّقُوا یَوۡمًا لا تَجۡزی نَفۡسٌ عَنۡ نَفۡسٍ شَیۡئًا وَ لا یُقۡبَلُ مِنۡھٰا عَدۡلٌ وَ لا تَنۡفَعُھَا شَفٰاعَۃٌ وَ لاھُمۡ یُنۡصَرُونَ ۔
 
ترجمہ :
اے بنی اسرائیل میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم کو دیں اور میں نے تمھیں سارے جہانوں پر برتری بخشی تھی ۱۲۲ اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کی طرف سے نہ فدیہ ھوسکے گا نہ اس کی طرف سے کوئی بدلہ قبول ھوگا اور نہ کوئی سفارش اس کے کام آئے گی اور نہ ان کو مدد دی جائے گی ۱۲۳
 
تفسیر :
۱۲۲۔ یٰا بَنِی اِسۡرٰائِیلَ اذۡکُرُوا …  
بنی اسرائیل کی تاریخ و جبلت و کردار کی بات اب ختم ھورھی ھے اور انھیں پھر تنبیہ کی جارھی ھے ، سابقہ انعام جو اب چھن چکے ان کو یاد دلاکر ایک مرتبہ پھر دعوت اسلام کی طرف متوجہ کیا جارھا ھے ۔ تاکہ غافل ھوشیار ھوں اور حجت خدا تمام ھو ۔
 
۱۲۳۔ وَ اتَّقُوا یَوۡمًا لا تَجۡزی نَفۡسٌ عَنۡ نَفۡسٍ شَیۡئًا …  
اتنے انعام ٹھکرانے کے بعد قیامت کی فکر کرو وھاں فدیے اور عوض معاوضے یا سعی و سفارش تمھارے بارے میں کام نہ آئے گی ۔ اللہ کا غضب اور جہنم کی سزا تمھارے لیے مقرر ھوچکی ھے۔ اس سے نجات کا ذریعہ صرف اسلام ھے ۔
وَاِذِ ابۡتَلٰی اِبۡرٰاھیمَ رَبُّہُ بِکَلِمٰاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قٰالَ اِنِّی جٰاعِلُکَ لِلنَّاسِ امٰامًا قٰالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتی قٰالَ لایَنٰالُ عَھۡدِیَ الظّٰالِمینَ ۔
 
ترجمہ :
اور جب آزمایا ابراھیم (ع) کو ان کے رب نے کئی باتوں سے اور انھوں نے ان باتوں کو پورا کردیا ۔ فرمایا میں تمھیں سب لوگوں کا امام بنا رھا ھوں ۔ وہ بولے اور میری اولاد میں سے ؟ فرمایا : میرے عہد سے ظالم فائدہ نہ اٹھائیں گے (۱۲۴)
 
تفسیر :
اس دور کے حجاز میں آباد قبائل حضرت ابراھیم (ع) پر قدرے متفق تھے سب کے جدّ اعلیٰ ھونے کی وجہ سے یہود و مشرک دونوں کے لیے ان کی شخصیت کے کئی پہلو احترام و توجہ کا باعث تھے ۔ اسی حوالے سے ان کے ایک امتحان پھر اس میں حضرت کی ثابت قدمی و کامیابی کا تذکرہ ھورھا ھے کہ اسلام فقط زبانی احترام کا قائل نہیں بلکہ ان کے اقوال و افعال پر عمل بھی چاھتا ھے ۔  
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کتنے مشکلات کا سامنا کیا ؟ ان پر کیا کیا ذمے داریاں تھیں جن کو بوجہِ احسن ادا کیا ؟ قرآن نے ھدایت آفرین انداز سے ان کو بیان کیا ھے ۔ مثلاً شرک و بت پرستی کے ماحول سے ٹکر ۔ چاند ، سورج اور شھر و مملکت کے بتوں کا انکار اور توحید کا پرچار ، پھر بت خانے میں جاکر بتوں کو توڑنا ۔ آگ میں جلنا قبول کرنا مگر نمرود وقت کے سامنے نہ جھکنا ، وطن چھوڑنا مگر خدائے وحدہ لاشریک سے منہ نہ موڑنا ، بے آب و گیاہ پتھریلی زمین پر خاندان کو آباد کرنا ۔ کعبۃ اللہ کی تعمیر و آبادی ، بیٹے کو قربان گاہ میں ذبح کے لئے تیار ھونا ۔ حج کرنا اور اس کی دعوت دینا۔ نبی آخر الزمان (ص) کی آمد کی دعا اور ان کے صفات کا بیان ۔ امامت مانگنا ، دین اللہ کا نام اسلام اور اس کے پرستاروں کو مسلمان کہنا ایسے مقامات ھیں جہاں سے ابراھیم (ع) بت شکن گذرے اور بڑے قد آور نکلے کہ اللہ نے خلیل بنایا رسول بنا کر صحیفے دیے ۔ آخر میں خلعت امامت بخشا ۔
حضرت ابراھیم (ع) نے یہ منصب عظیم اپنی نسل کے لیے خدا سے طلب کیا اور خود سے کسی کو امام نہ بنایا۔ اللہ نے جواب میں اس منصب کو اپنے خصوصی اختیار میں رکھنے کا اعلان کرتے ھوئے فرمایا کہ شرک و بدکاری و گنہ گاری جیسے ظلم و عیب سے تعلق رکھنے والے اس منصب کے اھل نہ ھوگے ۔ امامت اسے ملے گی جو عادل و معصوم ھوگا ۔ عدلِ ضمیر و خلقت ، عدلِ کردار و خصلت ، اپنی ذات اور غیر کی بات میں مرضی الٰہی سے ذرہ بھر انحراف کا شائبہ نہ ھو ، اول خلقت سے آخر حیات تک پاک و معصوم ھوگا تو امامت دوں گا ۔ منصبِ ختم نبوت حضرت اسماعیل (ع) کی ذریت میں رکھا تو ایک مدت دراز تک آخری نبی کا انتظار کرایا ، نبی آیا تو سب نبیوں کا سردار ، اب اس کی شریعت کا محافظ بھی اگر فخر انبیا نہ ھوا تو بات کیا ھوئی ۔ نبی آیا تو کتابِ معجزہ و علم و ادراک کا گنجینہ لایا ، صفات الہیہ کا مظھر ، صبر و استقامت و شجاعت و بصیرت و علم لدنی کا آئینہ " ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ " کی بات بات پر تصدیق اب اس کا وارث اگر ان کمالات سے آراستہ نہ ھوا تو آخری شریعت کی حفاظت کی ضمانت کہاں سے ملے ۔
ارشاد ھوا " و جعلناھم ائمۃ یھدون بامرنا "۔ (انبیاء: ۷۳) ھم انھیں امام بناتے جو ھمارے اشاروں پر ھدایت کرتے ھیں ۔ اور سورۂ سجدہ میں فرمایا : " و جعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبروا … ۲۲ اور جب انھوں نے صبر (ثابت قدمی) کا مظاھرہ کیا تو ھم نے ان میں سے امام بنائے جو ھماری حکم سے ھدایت کرتے ھیں ۔ یعنی رھنمائی و پیشوائی میں اپنی رائے کو دخل نہیں دیتے جو ھم چاھتے ھیں وہ کرتے ھیں ۔
توجہ طلب بات ھے۔ حضرت آدم (ع) کو خلیفہ بناتے وقت ملائکہ سامنے تھے، نور و تقدس کی بات تھی تو اللہ نے اپنے خلیفہ کی بنیادی صفت علم میں سب پر فوقیت بتائی۔۔۔ دیکھیے آیات بالا۔ ۳۰ ۔ ۳۳۔ یہاں مکہ و شھر کعبہ میں بات جاہ طلب ظالموں سے ھے ۔ لھٰذا بڑی صفت خلیفہ کا غیر ظالم ھونا بتائی ۔ وھاں فرمایا تھا "انی جاعل فی الارض خلیفہ" یہاں پھر ایک تفصیل ھے اور وہ بھی " انی جاعلک للناس اماما " وھاں انسان پیدا نہیں ھوئے تھے لھٰذا زمین کی خلافت کے حوالے سے یہاں امتیں موجود تھیں لھٰذا انسانوں کے حوالے سے ، خود نصب امام کیا وھاں صاحب منصب کی بڑی صفت علم یہاں بڑی صفت غیر ظالم ھونا ، تاکہ انسانوں کے نظام کو قیامت تک عدل کی بنیادوں پر چلا سکے اور خود معصوم عن الخطا ، یعنی شائبہ ظلم سے پاک ھو ۔
جعل کے معنی خلق اور نصب و تعیین کے ھیں جو اللہ کے قبضۂ قدرت میں ھے ۔
رشید رضا نے تفسیر المنار میں اس آیت کی تفسیر میں بہت سی توجہ طلب باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا ھے ۔ علماء اھل سنت کے ائمہ اربعہ نے اپنے زمانے کے خلفاء کو برحق نہیں مانا ۔ یعنی مسلمانوں کے نزدیک تخت و تاج و اقتدار امامت و خلافت و قیادت کی بنیاد نہیں بلکہ اساس افضلیت ھے ، علم و کردار میں سب سے بہتر اور غیر ظالم ھونا ۔ اس کے علاوہ جو تاویلیں موقع پرست اھل دستار کرتے ھیں وہ ناقابل اعتبار تھیں اور آج بھی ھیں ۔
وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثٰابَۃً لِلنَّاسِ وَ اَمۡنًا وَاتَّخِذُوا مِنۡ مَقٰامِ اِبۡرٰھِیمَ مُصَلًّی وَ عَھِدۡنَا اِلَیٰ اِبۡرَاھیمَ وَ اِسۡمٰعیلَ اَنۡ طَھِّرا بَیۡتِیَ لِلطّائِفینَ وَ الۡعٰاکفینَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُودِ وَ اِذۡ قٰالَ اِبۡرٰھِیمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ھٰذٰا بَلَدًا اٰمِنًا وَ ارۡزُقۡ اَھۡلَہُ مِنَ الثَّمَرٰاتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ بِاللہِ وَ الۡیَوۡمِ الاٰخِرِ قٰالَ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہُ قَلیلاً ثُمَّ اضۡطَرُّہُ اِلٰے عَذٰابِ النّارِ وَ بِئۡسَ الۡمَصیرُ ۔
 
ترجمہ :
جب ھم نے خانہ کعبہ کو تمام لوگوں (عوام) کے لیے اجتماع اور پناہ کی جگہ قرار دیا ۔ اور بنالو ابراھیم کے کھڑے ھونے کی جگہ کو نماز کی جگہ ۔۔۔ اور ابراھیم و اسماعیل کو ھم نے حکم دیا کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک رکھو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے (۱۲۵)
اور جب ابراھیم نے دعا مانگی ۔۔۔ پروردگار! اس شھر کو شھر امن بنادے اور یہاں والوں میں جو اللہ ۔۔۔ اور ۔۔۔ قیامت پر ایمان لائے اسے طرح طرح کے پھل عطا فرما ۔ اللہ نے فرمایا ۔۔۔ اور جو کفر اختیار کرے گا اسے چند روز فائدہ اٹھانے دوں گا پھر اسے مجبور کرکے عذاب دوزخ میں کھینچوں گا اور وہ بہت بری جگہ ھے (۱۲۶)
 
تفسیر :
۱۲۵۔ وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثٰابَۃً …  
بنی اسرائیل کی رسوا کن تاریخ و کردار کے بعد دین کا پس منظر اور اسلام کا مرکز واضح ھورھا ھے ۔ کعبہ ، دنیا میں پہلا گھر ، جو مبارک و ھدایت ھے ۔ اس کا مطلب فقط تقدس نہیں بلکہ اللہ نے اسے " امن و سلامتی " کی جگہ بنایا ، شھر مکہ حرم ھے ، یہاں قتل و فساد منع ھے ۔ آبرو اور مال کا احترام لازم ھے ۔ یہاں ایک جگہ حضرت ابراھیم (ع) کے قیام کی علامت بنی ھوئی ھے ، حکم ھے کہ نماز طواف " مقام ابراھیم " کے سامنے پڑھا کرو ۔ " مقام ابراھیم " شعائر اللہ ھیں ۔ کعبے میں تین قسم کے افراد آئیں گے۔ طوافِ حج و عمرہ کرنے والے۔ اعتکاف کرنے والے اور نماز پڑھنے والے ۔ ابراھیم (ع) و اسماعیل (ع) نے خدا سے عہد کرلیا کہ اس گھر کو ھر طرح کی نجاست سے پاک رکھیں گے ۔ چنانچہ جب تک دونوں نبی رھے ، کعبۃ اللہ نجس آدمیوں اور نجس بتوں سے پاک رھا ۔ اپنے بعد کے لیے محمد وآل محمد (ص) کو دعا کرکے مانگا ۔ جنھوں نے بیت اللہ کو دوامی ظاھری پاکیزگی سے آراستہ کیا ۔
 
۱۲۶۔ وَ اِذۡ قٰالَ اِبۡرٰھِیمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ھٰذٰا بَلَدًا اٰمِنًا …  
یہاں سے خلیل اللہ علی نبینا و علیہ السلام کی دعاؤں کا تذکرہ شروع ھوا ھے ۔ ایک تمنا یہ کی۔۔ کعبہ کو مرکز امن بنادے ۔ گذشتہ آیت میں قبول دعا کا حوالہ آچکا ۔ " جعلنا البیت مثابۃ وامنا " دوسری آرزو ۔۔۔ مومنوں کو نتائج و ثمرات سے سرفراز فرما ۔ جواب ملا ، اچھا ۔  مگر غیر مومن، مشرک و کافر ان پھلوں سے دائمی فائدہ نہ اٹھاسکیں گے آخرت میں انھیں سخت سزادی جائے گی ۔ یہی اسلوبِ بشارت و نذارت ۔ تشویق و تنبیہ۔ قرآن کا معجزہ ھے ۔
وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰھیمُ الۡقَوٰاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیعُ الۡعَلیمُ رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنٰا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنٰآ اُمَّۃً مُسۡلِمَۃً لَکَ وَ اَرِنَا مَنٰاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنٰا اِنّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ رَبَّنٰا وَ ابۡعَثۡ فِیۡھِم رَسُولاً مِنۡہُمۡ یَتۡلُوا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰاتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الۡکِتٰابَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡھِمۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزیزُ الۡحَکیمُ ۔
 
ترجمہ :
(الف) اور جب ابراھیم کعبہ / بیت کی بنیادیں اونچی کر رھے تھے اسماعیل (بھی شریک) تھے ۔ ھمارے رب ! ھم سے (یہ خدمت) قبول کر ، بے شک تو ، تو ھی بہت سننے اور بہت جاننے والا ھے (۱۲۷)   
(ب) اے ھمارے رب! ھم دونوں کو اپنا فرماں بردار قرار دے ۔ اور ھماری ذریت / اولاد میں ایک جماعت کو اپنا فرماں بردار بنا۔ اور ھمیں ھمارے مقامات حج (و ارکان حج) بتا (دکھا) دے اور ھماری توبہ قبول کر۔ بے شک تو ، تو ھی بہت توبہ قبول کرنے اور بہت رحم کرنے والا ھے (۱۲۸)  
(ج) اے ھمارے پروردگار ! ان لوگوں میں، انھیں میں کا ایک رسول بھیج دے وہ ان کے روبرو تیری آیتیں پڑھے اور انھیں تعلیم کتاب و حکمت (تہہ کی باتیں) بتائے ۔ اور ان کو پاک کردے ۔ بے شک تو ، تو ھی غالب اور صاحبِ تدبیر ھے ۱۲۹
 
تفسیر :
۱۲۸۔ وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰھیمُ الۡقَوٰاعِدَ …  
سورۂ آل عمران (آیت ۹۶) میں ارشاد باری ھے ۔۔۔۔ " بلا شبہ لوگوں کے لیے پہلے گھر بنایا گیا … اور حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا " الا ترون انّ اللہ سبحانہ… تم نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ نے آدم سے لے کر اب تک اولین و آخرین کو پتھروں کے چند ٹکڑوں سے آزمایا … اسے اپنا بیت الحرام قرار دیا پھر آدم (ع) اور ان کی اولاد کو اس کے گرد طواف کا حکم دیا … (خطبۂ قاصعہ نہج البلاغہ) کعبۃ اللہ کی تعمیر و تجدید حسب ضرورت ھوتی ھی رھی ۔ لیکن خلیل اللہ کی یہ کوشش اللہ نے یوں قبول کی کہ قرآن میں اس کا بار بار تذکرہ کیا ۔ انہوں نے فقط گھر ھی نہیں بنایا بلکہ اسے دائمی طور پر روحانی و مادّی طور پر آباد رکھنے کا اھتمام بھی کیا ۔ انھوں نے سب سے پہلے دعا کی ۔ پروردگارا ھم دونوں باپ بیٹوں کی یہ محنت قبول فرما ۔
رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنٰا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ …  
دوسری دعا ۔۔ ھم دونوں کو اپنے ان خاص بندوں میں شمار کر جو تیرے سامنے سر تسلیم جھکانے والے ۔۔۔ مسلم ۔۔۔۔ ھیں ۔ تیسری دعا کہ یہ شرف ھم دونوں کے ساتھ ھماری اولاد میں بھی رھے امت مسلمہ ھونے کی عزت انھیں بھی دے ۔ چوتھی دعا مناسک حج کے طور طریقے ، خاص عبادتوں کے ٹھکانے تو خود بتا کہ ھم تیری رضا کے مطابق فرائض انجام دیں ، اپنی رائے شریک نہ کریں ۔
اس قربت کے بعد بھی اس کی بارگاہ میں توبہ و طلب رحمت ھے ۔ یہ بات نہ بھولیے کہ دین کی خدمت کر کے مطمئن ھونا کافی نہیں۔ کوشش ھونا چاھیے کہ دینداری کے تحفظ کے لیے اپنی اولاد در اولاد کو اس طرح پالیے اور ان کی ایسی تربیت کیجئے کہ شمعِ ایمان اپنے گھر میں فروزاں رھے۔ یہی دستور خلیل اللہ و حبیب اللہ ھے ۔
 
 ۱۲۹۔ رَبَّنٰا وَ ابۡعَثۡ فِیۡھِم …
بیت اللہ کی تعمیر سے فراغت کے بعد خلیل اللہ نے بڑی عاجزی و نبوی خلوص سے دعائیں شروع کردیں ۔ گذشتہ آیات میں پانچ درخواستوں کا تذکرہ ھوچکا، حضرت کی ایک بڑی اھم دعا یہ تھی کہ ان لوگوں میں ایک ایسا رسول پیدا کر جو ان کے لیے اجنبی نہ ھو ۔
(الف) اس پر جو وحی نازل ھو وہ خود پڑھے کہ لوگ سنیں اور اسے یاد کرلیں۔ (ب) انھیں الکتاب (مجموعۂ وحی) کی تعلیم دے ۔ (ج) اور حکمت ، تہہ کی باتیں ، گہرے نکات اور عقل کو پختہ ، علم کو جلا اور دانش و بینش کو تصدیق بخشنے والے حقائق سکھائے ۔ (د) اور جن کو تعلیم دی انھیں تربیت بھی دی ان کی ضمیر پاک ، ان کا کردار بے داغ ، ان کے احساسات شفاف اور ان کے ادراک خدا نما بنادے ۔ خدایا ، تیرے لیے یہ سب کچھ بھی نہیں غلبہ و اقتدار ، تدبیر و حکمت تیری مشیتوں کا نام ھے ۔
تینوں آیتوں میں سمیع و علیم ۔۔ تواب و رحیم ۔ عزیز و حکیم ۔۔ کی ترکیب پر غور کیجئے جو ابلاغ و اسلوب ، معنویت اور صوتی حسن ، گہرائی اور مناسبت کا عجیب معجزہ ھے ۔
آیت میں رسول اعظم و نبی خاتم (ص) کے لیے جو صفات بیان ھوئے ھیں ان میں تعلیم اور تربیت کے تمام پہلو اور ایک نبی کامل و مکمل کے بلند ترین صفاتِ ذات و کردار کو جمع کردیا ھے ۔ مزید گفتگو آگے آنے والی آیت ۱۵۱ ، نیز آل عمران و سورۂ جمعہ میں ھوگی انشاء اللہ ۔
وَ مَنۡ یَرۡغَبُ عَنۡ مِلَّۃِ اِبۡرٰھیمَ اِلا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہُ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰاہُ فِی الدُّنۡیٰا وَ اِنّہُ فِی الاخِرَة لَمَنَ الصّٰالِحینَ اِذۡ قٰالَ لَہُ رَبُّہُ اَسۡلِمۡ قٰالَ اَسۡلَمۡتُ لِرِبِّ العٰالَمینَ وَ وَصّٰی بِھٰا اِبۡرٰھیمُ بَنیہِ وَیَعۡقُوبُ یَا بَنِیّ اِنَّ اللہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلا تَمُوتُنَّ اِلا وَ اَنۡتُمۡ مُسۡلِمُوۡنَ اَمۡ کُنۡتُمۡ شُھَدآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوبَ الۡمَوۡتُ اِذۡ قٰالَ لِبَنیہِ مٰا تَعۡبُدُونَ مِنۡ بَعۡدی قٰالُوا نَعۡبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبٰائِکَ اِبۡرٰھیمَ وَ اِسۡمٰعیلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰھًا وَاحِدًا وَ نَحۡنُ لَہُ مُسۡلِمُونَ تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ لَھَا مٰا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مٰا کَسَبۡتُمۡ وَ لا تُسۡئَلُونَ عَمّا کَانُوا یَعۡمَلُونَ ۔
 
ترجمہ :
اور کون ھے جو ابراھیم (ع) کے مذھب سے رو گرداں ھو (نفرت کرے) مگر جو خود ھی عقل سے دور ھوجائے ۔ اور ھم نے ابراھیم (ع) کو دنیا میں منتخب کرلیا اور وہ حتماً آخرت میں بھی اچھوں ھی میں سے ھوں گے (۱۳۰) اور جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا اسلام لاؤ (مکمل طور پر فرمانبردار بن جاؤ) تو عرض کی میں سارے جہانوں کے رب پر اسلام لایا (۱۳۱) اور اسی طریقے کی ابراھیم نے اپنی اولاد سے وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ اے بیٹو ! یقیناً ، اللہ نے تمھارے واسطے دین (اسلام) کو چن لیا ھے ۔ اب تم ھرگز نہ مرنا مگر مسلمان (۱۳۲) کیا تم اس وقت موجود تھے، جب یعقوب کی موت سر پر کھڑی تھی ؟ اس وقت انھوں نے اپنی اولاد سے کہا : میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انھوں نے کہا : ھم آپ کے اللہ اور آپ کے بزرگوں ابراھیم و اسماعیل کے واحد و یکتا اللہ و معبود کی عبادت کریں گے ۔ اور ھم اسی ذات کے فرمانبردار ھیں (۱۳۳) وہ ایک قوم تھی جو گذر گئی ۔ جو ان لوگوں نے کیا وہ ان کے آگے آئے گا جو تم عمل کرو گے وہ تمھارے آگے آئے گا۔ اور جو کچھ وہ کرتے رھے ، تم سے اس کی جواب طلبی نہیں کی جائے گی (۱۳۴)
 
تفسیر :
۱۳۰۔ وَ مَنۡ یَرۡغَبُ عَنۡ مِلَّۃِ اِبۡرٰھیمَ …  
۱۳۱۔ اِذۡ قٰالَ لَہُ رَبُّہُ اَسۡلِمۡ …
مِلّۃٌ : دین و شریعت (ملت خدا کی طرف سے لکھایا ھوا ، دستور و قانون) ۔
ابراھیم علیہ السلام  کے طور طریقے ، دعوت و اھتمام توجہُّ الی اللہ اور توحید و مرکز کی حفاظت کے انتظامات بیان کرنے کے بعد ، سمھایا گیا کہ ملت ابراھیمی کی پیروی کرو ۔۔۔۔۔ فاتبعوا ملۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین (آل عمران ۔ ۹۵) (اس ابراھیم (ع) کی ملت کے پیروکار بن جاؤ جو سب کو چھوڑ کر اللہ کا ھو رھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا) اتنے اچھے نبی کا عقل و دانش پر مبنی راستہ وھی چھوڑے گا جو عقل سے ھاتھ دھو بیٹھے گا ۔ خلیل اللہ نے تو وحی کے اشاروں اور عقل خدا داد نیز منصبِ بلند کی وجہ سے اس راہ کو ھمیشہ کے لیے ھموار کردیا ھے ۔
ملت ابراھیمی کی دوسری تعبیر اسلام ھے۔ خود خلیل اللہ نے دعوت خدا "اَسۡلِمۡ " کے جواب میں " اَسۡلَمۡتُ " کہا ۔ کعبے کے پڑوسیوں اور ابراھیم (ع) کے پرستاروں کو اب اعتراض کا حق کیا رہ جاتا ھے ۔
تم کو ابراھیم (ع) کا وہ خلوص بندگی یاد رکھنا چاھیے جس میں اپنی خواھش ، غیر کا تصور غرض ھر ماورا کو چھوڑ کر فقط اور فقط اللہ کے ھونے کا عقیدہ و عمل پیش کیا گیا ھے ۔
 
۱۳۲۔ وَ وَصّٰی بِھٰا اِبۡرٰھیمُ بَنیہِ وَ یَعۡقُوبُ …
۱۳۳۔ اَمۡ کُنۡتُمۡ شُھَدآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوبَ الۡمَوۡتُ …  
ابراھیم (ع) و اسماعیل (ع) ، اسحاق (ع) و یعقوب (ع) کے نام کی تسبیح جپنے والو ، مشرکو ! تم میں ایک بھی اصل و اصول پر باقی نہیں۔ ابراھیم (ع) وہ پاک نبی ھے کہ زندگی بھر توحید کی تبلیغ کی دنیا سے جاتے ھوئے اپنی اولاد سے اقرار توحید لیا اور سمجھایا کہ مرنا تو دین اسلام پر مرنا ۔
یہودیو ! باپ دادا کی نجات پر اپنی بخشش کا عقیدہ رکھنے والو ! یعقوب (ع)  نبی نے بھی آخری وقت ابراھیم و اسماعیل و اسحاق علیہم السلام کا نام لے لے کر وحدہ لاشریک کا سب سے کلمہ پڑھوایا اور اولاد کو اس دین کا پابند بنایا تھا ۔ تم نے آج الگ الگ اپنے اپنے مذھب و دین بنا رکھے ھیں اور شرک کی دعوت دیتے پھرتے ھو ۔ آؤ اور دین ابراھیمی یعنی اسلام کو مانو ۔
 
۱۳۴۔  تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ …
عقل و دانش کی بات تو یہ ھے کہ اپنی خیر مناؤ ، وہ کرو جو کل کام آئے ، باپ نے جو کیا بیٹا اس کا جواب دہ نہیں ھوگا ۔ خدا کے یہاں ھر شخص سے اس کے عقیدہ و عمل کے بارے میں پوچھ گچھ ھوگی ۔
وَ قٰالُوا کُونُوا ھُودًا اَوۡ نَصٰارٰی تَھۡتَدُوۡا قُلۡ بِلۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰھیمَ حَنیفًا وَ مٰا کٰانَ مِنَ الۡمُشۡرِکینَ قُولُوا اٰمَنّا بِاللہِ وَ مٰا اُنۡزِلَ اِلَیۡنٰا وَ مٰا اُنۡزِلَ اِلیٰ اِبۡرٰھیمَ وَ اِسۡمٰعیلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوبَ وَ الاَسۡبٰاطِ وَ مٰا اُوتِیَ مُوسٰی وَ عیسٰی وَ مٰآ اُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِنۡ رَبِّہِمۡ لا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِنۡہُمۡ وَ نَحۡنُ لَہُ مُسۡلِمُوۡنَ فَاِنۡ اٰمَنُوا بِمِثۡلِ مٰا اٰمَنۡتُمۡ بِہ فَقَدِ اھۡتَدَوۡا وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا ھُمۡ فی شِقٰاقٍ فَسَیَکۡفِیکَھُمُ اللہُ وَ ھُوَ السَّمیعُ الۡعَلیمُ ۔ صِبۡغَۃَ اللہِ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللہِ صِبۡغَۃً وَ نَحۡنُ لَہُ عٰابِدُونَ ۔
 
ترجمہ :
ان لوگوں نے کہا : تم سب یہودی یا نصرانی بن جاؤ ، راہ راست پر آجاؤ گے ۔ ان سے کہیے : (یہ نہیں) بلکہ ابراھیم کے خالص (توحید پر مبنی) طریقہ پر (چلو) وہ ھرگز مشرکین سے نہ تھے (۱۳۵) تم کہو : ھم اللہ پر ایمان لاچکے ، جو ھم پر نازل کیا گیا اور جو ابراھیم (ع) و اسماعیل (ع) و اسحاق (ع) و یعقوب (ع) اور اولاد یعقوب پر (صحیفے) نازل کیے گئے اور جو (کتب) موسیٰ (ع) اور عیسی کو دی گئی تھیں اور جو دوسرے نبیوں کو عطا کی گئی تھیں ان کے رب کی طرف سے ۔ ھم تو ان میں سے کسی ایک میں بھی تفریق نہیں کرتے۔ اور ھم صرف اللہ کے فرماں بردار (مسلم) ھیں ۔ (۱۳۶)
اس کے بعد جیسے تم ایمان لائے وہ لوگ بھی ایمان لے آئیں تو یقیناً راہ راست پر آگئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں (نہ مانیں) تو وہ لوگ صرف ضد پر ھیں ۔ پھر تو ان کے مقابلے کے لیے تمھاری طرف سے اللہ کافی ھے اور وہ بہت سننے اور بہت جاننے والا ھے (۱۳۷) " اللہ کا رنگ " اور اللہ سے بہتر رنگ کون (رنگ) ھوگا اور ھم تو صرف اسی کی عبادت کرنے والے ھیں (۱۳۸)  
 
تفسیر :
۱۳۵۔ وَ قٰالُوا کُونُوا ھُودًا اَوۡ نَصٰارٰی …  
۱۳۶۔ قُولُو اٰمَنّا بِاللہِ وَ مٰا اُنۡزِلَ اِلَیۡنٰا …
مدینے میں یہود و نصاریٰ کی معاشی و سماجی و سیاسی حیثیت مستحکم تھی ھجرت کے بعد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ھوچکا تھا اور اسلام کو فروغ ، اسے دیکھ کر یہاں کے ربّی اور پادری ھمت کرکے بڑھے اور مسلمانوں کو اپنے اپنے دین میں آنے کی دعوت دینے لگے ، ان کی دعوت کے جواب میں ارشاد باری ھوا کہ ، تم تو ھوچکے ھو بت پرست اور ھم اللہ کو مانتے ھیں ۔ ابراھیم (ع) ، اسماعیل (ع)، اسحاق (ع)، یعقوب (ع)، موسیٰ (ع)، عیسیٰ (ع)، اور تمام انبیاء علیہم السلام نیز ان پر نازل شدہ کتابوں اور سب صحیفوں ، سب پر ھمارا عقیدہ ھے ھم تمھاری طرح مشرک نہیں ، موحد ھیں اور دین حنیف یعنی اسلام پر قائم ھیں ۔ ھم موسیٰ (ع) کو مان کر عیسیٰ (ع) کو نہ ماننے والے اور عیسیٰ (ع) کو مان کر محمد (ص) کا انکار کرنے والے نہیں ھیں ۔ سب نبی اپنے اپنے وقت میں برحق تھے اور آج بھی محترم ھیں ۔ تم انبیاء سے ناروا سلوک کرنے والے لوگ کس منہ سے ھمیں دعوت دیتے ھو ۔ عقیدوں میں تم نے شرک اور کتابوں میں تم نے تحریف کی ۔
 
۱۳۷۔ فَاِنۡ اٰمَنُوا بِمِثۡلِ مٰا اٰمَنۡتُمۡ بِہ …
پس بہت بحث ھوچکی ، اگر یہ بالکل تمھاری طرح دعوت و حقائق کو مانتے ھیں تو خیر قبول کرلو اور اپنا بنالو یہ مسلمان ھیں اور اگر ھٹ دھرمی پر جمے رھیں تو ، اللہ خود ان کے لیے کافی ھے ۔ دلائل کے وقت دلائل دیے جائیں گے ۔ مباھلے کے وقت مباھلہ ھوگا اور تلوار کے جواب میں خندق و خیبر کے معرکے ھوں گے ۔ جیسی مصلحت ھوگی وہ کیا جائے گا ۔
 
۱۳۸۔ صِبۡغَۃَ اللہِ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللہِ …
ان لوگوں نے " بپتسمہ " کا ڈھونگ رچا رکھا ھے ، جیسے ھندو تلک لگاتے ھیں یہ لوگ بچے کو یا نئے آدمی کو عیسائی بنانے کے لیے رنگین یا زرد پانی میں غسل دیتے ھیں، تعمید یا بپتسمہ کا یہ عمل سیدھے سادھے عوام کو متاثر کرتا ھے ، وہ لوگ اسے پیدائشی گناھوں اور پاپ دادا کے باپ سے پاک کرنا اور اللہ کے رنگ میں رنگنا کہتے ھیں ۔ اسلام ان لوگوں کے ٹوٹکوں اور رنگوں کا قائل نہیں ، یہاں عقل و دانش کی بات ھے ۔ سب سے اچھا رنگ اللہ کا ھے۔ اس کی رضا میں ڈوب جاؤ ، تخلّقوا باخلاق اللہ ۔ خدائی صفات پیدا کرو ۔ ھم موسیٰ (ع) اور عیسیٰ علیہما السلام کو خدا یا اس کا بیٹا ماننے والے نہیں ھیں ۔ ھم اللہ کے بندے اور اسی کے عبادت گذار ھیں ۔
صبغۃ اللہ ۔۔۔۔ یعنی اتخذوا صبغۃ اللہ ۔۔۔۔ اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے۔ صبغۃ اللہ ۔۔۔ سے اسلام مراد ھے ۔۔۔     
قُلۡ اَتُحٰاجُّونَنَا فِی اللہِ وَ ھُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ وَ لَنٰا اَعۡمٰالُنٰا وَ لَکُمۡ اَعۡمٰالُکُمۡ وَ نَحۡنُ لَہُ مُخۡلِصُوۡنَ اَمۡ تَقُوۡلُونَ اِنَّ اِبۡرٰھیمَ وَ اِسۡمٰعیلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوبَ وَ الاَسۡبٰاطَ کٰانُوا ھُودًا اَوۡ نَصٰاریٰ قُلۡ ءَاَنۡتُمۡ اَعۡلَمُ اَمِ اللہُ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَتَمَ شَھٰادَةً عِنۡدَہُ مِنَ اللہِ وَ مَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمّٰا تَعۡمَلُونَ تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ لَھٰا مٰا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مٰا کَسَبۡتُمۡ وَ لا تُسۡئَلُونَ عَمّٰا کَانُوا یَعۡمَلُونَ ۔
 
ترجمہ :
ان سے کہیے : کیا تم ھم سے " اللہ " کے بارے میں بحث کرنا چاھتے ھو ؟ حالانکہ وہ ھم سب کا رب ھے۔ ھمارے اعمال ھمارے کام آئیں گے اور تمھارے کرتوت تمھارے ۔ اور ھم توبہ اخلاص (بے عقیدۂ شرک) اس کے (عبادت گذار) ھیں (۱۳۹) یا تم یہ کہتے ھو کہ یقینی طور پر ابراھیم (ع) و اسماعیل (ع) و اسحاق (ع) و یعقوب (ع) و اسباط (اولاد یعقوب (ع) یہودی یا نصرانی تھے ؟ (جواب میں) کہیے : تم زیادہ واقف (حال) ھو یا اللہ ؟
اور اس سے زیادہ ستم گار کون ھوگا جس کے پاس خدا کی طرف سے گواھی (نبوت) موجود ھو پھر وہ اسے چھپائے اور جو کچھ تم کرتے ھو اللہ اس سے بے خبر نہیں ھے (۱۴۰)
وہ ایک قوم تھی جو گذر گئی ۔ جو ان لوگوں نے کیا وہ ان کے آگے آئے گا جو تم کرو گے وہ تمھارے آگے آئے گا ، اور جو کچھ وہ کرتے رھے تم سے اس کی جواب طلبی نہیں کی جائے گی (۱۴۱)
 
تفسیر :
۱۳۹۔ قُلۡ اَتُحٰاجُّونَنَا فِی اللہِ …
عیسائی و یہودی مبلغین سے پوچھیے کہ ھم سے " اللہ کے موضوع پر بحث کرنا چاھتے ھو ؟ یعنی تمھارا خدا سے کوئی خاص تعلق ھے ۔ یہ خیال غلط ھے ، دیکھ لو وہ جیسا تمھارا پالنے والا ھے اسی شان سے ھماری پرورش فرما رھا ھے ۔ اب رھا بندگی میں تمھاری برتری تو یہ بھی پرکھ لو تم اپنی عبادت میں غیر کو شریک کرتے ھو ، ھم جو عبادت کرتے ھیں وہ خالص اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ھوتی ھے ۔ تمھاری طرح باپ دادا کے لیے اور تعصب و قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں کرتے ۔ اس کے بعد کتنا غلط عقیدہ ھے کہ تمھارے اگلوں کے اعمال قبول ھوں گے اور ھمارے اعمال رد ھوجائیں گے ؟ اللہ عادل ھے ۔ ھر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ دے گا اور تمھارا خیال عقیدۂ عدل کے خلاف ھے ۔
 
۱۴۰۔ اَمۡ تَقُوۡلُونَ اِنَّ اِبۡرٰھیمَ وَ اِسۡمٰعیلَ …
نحن ابناء اللہ و احباؤہ ۔۔۔ ھم اللہ کی اولاد و دوست ھیں ۔۔۔۔ نعوذ باللہ ۔۔۔۔ کا دعویٰ تو غلط ھوچکا، کیونکہ وہ جس طرح تمھیں پال رھا ھے ھمیں بھی اسی طرح پرورش دے رھا ھے ۔ دوسری بات یہ کہ ابراھیم (ع) و اسماعیل (ع) ۔ اسحاق (ع) و یعقوب علی نبیا وآلہ علیہم السلام اور اسباط یہودی تھی بقول یہود ۔۔ اور نصرانی تھے بقول نصاریٰ ۔۔ یہ بھی جھوٹ اور غلط ھے ۔۔ ان کے پاس توریت و انجیل کے ثبوت موجود ھیں کہ وہ اسلام کے پرستار تھے اور انھوں نے نبی آخر الزمان کی خبر دی ان کو ھادی و نبی و رسول ماننے پر زور دیا ۔ اس حقیقت سے باخبر ھونے کے بعد بھی یہ ربی ۔۔ اور ۔۔۔ اسقف ۔۔ میرے رسول ھونے کی گواھی نہیں دیتے ۔ تحریف و تاویل کرتے ھیں جسے خدا خوب جانتا ھے اور اس نے ان حقائق کو واشگاف بھی فرمادیا ۔ 
 
۱۴۱۔ تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ …
خلاصہ یہ ھے کہ گذشتہ قومیں اور ان کے اعمال نامے سب کے سامنے ھیں اور تمھارے اعمال نامے تمھارے سامنے ۔ اللہ کے حضور میں ھر عاقل و دانا سے صرف اس کے عقائد ، اس کی نیت اور اس کے اعمال کی باز پرس ھوگی اور اس کی جزا یا سزا ملے گی ۔ اب ھر شخص کو اپنے بارے میں ھوشیار و تیار رھنا چاھئے ۔ قیامت کے دن ھر شخص کے اعمال ھی کام آئیں گے۔ کیونکہ خدا عادل ھے ۔ یہاں تک یہود و نصاریٰ کے نفسیات و مقاصد اور تاریخ و کردار کی بات تھی اور اسلام کا موقف ، لیکن متقی اور موحد افراد کی ھدایت آموزی کے اسباق ابھی تمام نہیں ھوئے ، احکام کی منزل بھی آنے والی ھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
نزول قرآن کا مقصد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جناب سید محمد باقر حکیم
ترجمہ : محمد حسن معروفی
 
اھمیت موضوع
" نزول قرآن کے مقصد " پر قلم اٹھانے سے پہلے اس موضوع کی اھمیت و افادیت پر مختصراً یوں روشنی ڈالی جاسکتی ھے :
پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم کے مطالب و مفاھیم کا سمجھنا اور اس کی گہرائیوں کا درک کرنا ایک مخصوص گروہ کی معرفت پر موقوف ھے کیونکہ تفسیر کا بہر حال اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق ھونا ضروری ھے ، قرآن کو سمجھنے کے لئے وحی الٰہی کا خاص اسلوب جاننے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ آیتوں کے شان نزول ، جائے نزول اور اسباب نزول سے واقفیت بھی بے حد لازمی ھے تاکہ آیتوں کے قرآنی مفاھیم میں کم از کم ان کا یقینی مصداق سامنے رھے ۔
معرفت اسلوب قرآن کے سلسلے میں سب سے زیادہ مفید طریقہ نزول قرآن کے اغراض و مقاصد سے کما حقہ واقفیت ھے کیونکہ مقصد ایسی شی ھے جو فطری طور پر قرآن کے مفاھیم و معانی پر اثر انداز ھے اور اسے ھم پورے قرآن کی آیتوں کو سمجھنے کے سلسلے میں " قرینۂ منفصلہ " قرار دے سکتے ھیں ۔
خود قرآن میں سبب نزول یوں بیان ھوا ھے (و نزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیءٍ و ھدیً و رحمۃ و بشریٰ للمسلمین) (نحل/ ۸۹) یعنی ھم نے قرآن اس لئے نازل کیا ھے کہ وہ " تمام چیزوں " کو (پہچنوائے) بیان کرے ، اور مسلمانوں کے لئے سبب ھدایت و رحمت و بشارت ھو ۔ اس آیۂ کریمہ میں " لکل شیٔ " سے نزول قرآن کا مقصد سمجھنے میں مدد مل سکتی ھے۔ اس طرح کے مقامات قرآن مجید میں اور بھی ھیں ۔
۲۔ نزول قرآن کے مقصد سے واقفیت آیتوں کے مجموعی ظواھر کی تفسیر میں بھی بہت کار آمد ھے کیونکہ آیتوں کے اسباب نزول کی تبدیلی سے ان کی تفسیریں بدل سکتی ھیں ۔ جیسا کہ مکرر قصص میں کہیں مفسر ادبی تفسیر کرتے ھیں اور کہیں تربیتی ۔
۳۔ انداز بیان ، معنی و مضمون اور نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کا اسلوب منفرد و خاص ھے ۔ مفہوم سمجھتے اور نتیجہ حاصل کرتے وقت آدمی اس کے معیار کو نہیں پاسکتا ، پھر بھی اسلوب قرآن کو ایک مثالی اسلوب ضرور قرار دیا جاسکتا ھے ۔ انبیا و مرسلین کی راہ پر چلنے والوں نے ایسا ھی کیا ھے ۔ در اصل اس قسم کے اتباع میں " مقصد کی دریافت " کو خاص اھمیت حاصل ھے ۔ کیونکہ قرآن حصول مقصد کے مرحلے میں مثال اسلوب رکھتا ھے ۔ اسلامی پیام رسانی کے راستوں میں " دریافت مقصد " کے بعد اسی انداز و اسلوب کی پیروی فائدہ دے سکتی ھے ۔
مثلاً قرآن میں ایک واقعہ کا تاریخ کا سادہ سا تذکرہ ھوا ھے ، تو اس مقصد کے لیے یہی انداز مثالی ھے ۔ لیکن اگر مقصد تربیت و تبدیلی ھے تو مذکورہ اسلوب اختیار کرنا مناسب نہ ھوگا اس کے لیے اسی قرآن کا دوسرا مقام دیکھنا ھوگا جہاں اس کا مقصد بھی تبدیلی و تربیت ھو ۔
قرآنی زاویے سے مقاصد کے اشارے
مقصد نزول قرآن کی تعیین کے سلسلے میں اگر خود قرآن ھی کو مشعل راہ قرار دیا جائے تو بہتر ھوگا قرآن کریم کی ان آیتوں کا جن میں نزول قرآن کے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ھے ، جائزہ لیا جائے یا ان آیتوں کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے جن میں قرآن نے اپنے اوصاف و امتیازات یا اپنے لانے والے نبی اکرم (ص) کے صفات و خصوصیات بیان کئے ھیں ، تو ھمیں اس کے بہت سے اغراض و مقاصد معلوم ھوسکیں گے ۔ اس کے بعد ، تصورّات ، مفاھیم ، مقامات ، قانون سازی اور تعبیرات و وعظ کے مقاصد و اسالیب سے واقفیت اور بہت سے دوسرے مقاصد کے حصول میں مزید آسانی ھوگی ۔
(الف) قرآن کی روشنی میں مقاصد نزول
ارشاد باری تعالیٰ ھے : (و اوحی اِلیَّ ھذا القرآن لأنذرکم بہ و من بلغ …) (انعام/ ۱۹)
اس آیت میں بزبان پیغمبر اکرم (ص) مقصد نزول کی یوں وضاحت ھورھی ھے کہ یہ قرآن مجھ پر بطور وحی اس لئے نازل ھوا ھے کہ میں تم لوگوں کو اس کے ذریعہ (عذاب الٰہی) سے ڈراؤں دھمکاؤں اور ان لوگوں کو بھی ، جن تک میرا پیغام پہنچ سکے ۔
دوسری جگہ ارشاد ھے :
(کتابٌ اُنزل الیک فلا یکن فی صدرک حرج منہ لتنذر بہ و ذکری للمؤمنین (اعراف/ ۲) 
یعنی قرآن آپ پر نازل ھوا ھے اپنے سینے میں تنگی کا احساس نہ کریں تاکہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو ڈرا دھمکا سکیں اور وہ مومنین کے لیے یاد دھانی کا ذریعہ قرار پائے ۔
ایک اور جگہ پر یوں ارشاد ھو رھا ھے :
(طٰہ ما اُنزل علیک القرآن لتشقیٰ الا تذکرة لمن یخشیٰ) (طہ/ ۱ و ۳) 
اے طہ (پاک و پاکیزہ نبی (ص) میں نے آپ پر قرآن اس لئے نہیں نازل کیا کہ خود کو مشقتوں میں ڈال دیں بلکہ اس کا مقصد یہ ھے کہ جن لوگوں کے دلوں میں خوف الٰہی پایا جاتا ھے ، قرآن ان کے لئے (تلقین خیر) اور یاد دھانی کا ذریعہ ھو ۔"
مندرجہ بالا آیتوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ھے کہ نزول قرآن کا مقصد "انداز و تذکر " (یعنی ڈرانے دھمکانے اور تلقین و یاد دھانی ھے ۔
اس سلسلے میں دوسری بہت سی آیتیں بھی ملیں گی جن سے صاف ظاھر ھے کہ قرآن ذریعہ تلقین و نصیحت ھے ، جیسے :
(ان ھو الا ذکر و قرآن مبین) (یس / ۶۹) لعلھم یتذکرون (زمر / ۲۷)
یعنی شاید لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں (ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مُدَّکرٍ) (قمر / ۱۷) یعنی ھم نے قرآن کو تلقین و نصیحت کا ذریعہ بنایا کیا اس سے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ھے ؟ انما اَنت نذیر واللہ علی کل شیءٍ وکیل (ھود /۱۲) نبی ! آپ محض نذیر (عذاب آخرت سے ڈرانے والے) ھیں اور اللہ ھر شے کا ذمہ دار ھے ۔
۲۔ بعض آیات میں نزول قرآن کا مقصد مثل بیان کرنا ۔ عبرتیں پیش کرنا اور اسباق دینا بیان ھوا ھے ۔ جیسے (و لقد صرّفنا فی ھذا القرآن من کل مثل ۔ (اسراء /۸۹) ۔ یعنی ھم نے اس قرآن میں ھر طرح کی مثل بیان کی ھے ۔
۳۔ بعض آیتوں کے مطالعہ سے نزول کا مقصد دلائل و براھین لانا اور معجزات کا ظاھر کرنا سمجھ میں آتا ھے ۔ چنانچہ ارشاد ھوا ھے : (ائتونی بکتاب من قبل ھذا أو اثارة من علم (احقاف/ ۴) ) یعنی اس قرآن سے پہلے کوئی علمی نمونہ اور شاھکار پیش (کرسکتے ھو تو) پیش کرو ۔
دوسری جگہ یوں ارشاد ھے : (و ان کنتم فی ریب مما نزّلنا علی عبدنا فأتوا بسورة من مثلہ) (بقرہ / ۲۳) یعنی ھم نے جو کچھ اپنے بندہ پر نازل کیا ھے ، اگر اس کے بارے میں تم شک و شبہ میں مبتلا ھو تو اس کے ایک (چھوٹے سے) سورہ کا مثل ھی بنا لاؤ ۔  
مزید ارشاد ھوا : (قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی أن یأتوا بمثل ھذا القرآن لا یأتون بمثلہ و لو کان بعضھم لبعض ظھیراً) (اسراء / ۸۸) یعنی اے نبی (ص) ! کہہ دیجئے کہ اگر تمام جنات و انسان یکجا ھوکر بھی قرآن کا مثل و نظیر لانا چاھیں اور ایک دوسرے کے بھرپور معین و مددگار بھی بن جائیں تب بھی قرآن کا مثل لانے سے قاصر رھیں گے ۔  
ایک اور جگہ ھے : (ھذا کتاب انزلناہ مبارک فاتبعوہ و اتقوا لعلکم ترحمون ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طائفتین من قبلنا) (انعام / ۱۵۵ ، ۱۵۶) یعنی قرآن کو ھم نے خیر و برکت کے ساتھ نازل کیا، تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو شاید تم رحمت الٰہی کے مستحق قرار پاؤ  ۔ 
یہ آیۂ کریمہ اس مفہوم کی طرف یوں اشارہ کر رھی ھے : (یا ایھا الناس قد جاءکم برھان من ربکم و انزلنا الیکم نوراً مبیناً (نساء / ۱۷۴) یعنی اے لوگو ! تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی جانب سے برھان آئی اور ھم نے تم پر آشکارا نور نازل کیا ۔ 
۴ ۔ بعض مقامات سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ قرآن دستور اور قانون اور احکام کی تفصیل پر مشتمل ایک کتاب ھے ، جیسا کہ ان آیتوں سے ظاھر ھورھا ھے : (و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط) (حدید/ ۲۵) ھم نے ان پر کتاب و میزان نازل کی کہ تاکہ وہ انسانوں میں عدل قائم کرسکیں ۔
(انّا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ) (نساء / ۱۰۵)  
اے رسول (ص) ! ھم نے بے شک آپ پر کتاب برحق نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اللہ کے بتائے ھوئے احکام سے باخبر کریں۔ ( و نزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیء و ھدیً و رحمۃ) (نحل /۸۹) 
اے رسول (ص) ! ھم نے آپ پر وہ کتاب نازل کی جو ھر شئے کی (حقیقت اور اس کے رموز) کو بیان کرنے والی ھے اور سر چشمۂ ھدایت و رحمت ھے ۔
۵ ۔ دوسری آیتوں میں وارد ھوا ھے کہ قرآن اس لئے ھے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے ، اختلافات کو ختم کرے اور حق و باطل کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے پہچنوادے چنانچہ ارشاد ھے (و انزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما من اختلفوا فیہ) (بقرہ / ۲۱۳) اللہ نے ان کے لئے کتاب برحق نازل کی جو اختلافات کے وقت ان میں فیصلہ کرتی ھے ۔
(و ما انزلنا علیک الکتاب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیہ) (النحل / ۶۴) ۔ یعنی ھم نے آپ پر کتاب صرف اس لئے نازل کی کہ آپ لوگوں کے اختلافات کو ان پر واضح کردیں ۔
(ان ھذا القرآن یقص علی بنی اسرائیل اکثر الذی ھم فیہ یختلفون) (نمل / ۷۶) بے شک یہ کتاب بنی اسرائیل کے بہت سی اختلافات کو بیان کرتی ھے اور ان کی نشاندھی کرتی ھے ۔
۶ ۔ اسی سورت میں ھمیں دوسرے مقامات پر نظر آتا ھے کہ نزول قرآن کا مقصد انبیائے ما سبق کی تصدیق اور ان پر نازل شدہ کتابوں کی تائید ھے ۔ چنانچہ ارشاد ھوا ھے :
(و انزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب و مھینمنا علیہ)  (مائدہ /۴۸)
یعنی ھم نے آپ پر قرآن حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ وہ گذشتہ کتابوں کے لئے ذریعہ تصدیق ھو (و لما جاءھم کتاب من عند اللہ مصدق لما معھم) (بقرہ /۸۹) ان کے پاس اللہ کی جانب سے کتاب نازل ھوئی جو گذشتہ کتابوں کی تصدیق کرتی ھے ۔
(نزّل علیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیہ و أنزل التوراة و الانجیل من قبل ھدیً للناس و أنزل الفرقان ۔) (آل عمران / ۳) ۔
یعنی آپ پر وہ کتاب برحق نازل ھوئی جو توریت و انجیل جیسی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور لوگوں کے لئے ذریعہ ھدایت ھے ۔
۷۔ جب ھم قرآن کے مطالب و مفاھیم کا جائزہ لیں گے تو معلوم ھوگا کہ اس کا ایک حصہ انسانی تحرّک و ارتقا کی تاریخ اور ان اصول و ضوابط پر مشتمل ھے جو انسانی عروج و ارتقا میں مؤثر ھیں ۔  قصص قرآن اور سابقہ اقوام و ملل پر گفتگو ان کی راست روی و گمراھی ، خوش حالی و استقلال ، بدبختی اور تباھی و بربادی کے تذکرے پر مشتمل ھے ۔ چنانچہ ھم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ھیں کہ نزول قرآن کا مقصد انسانی رویّہ کی نشاندھی اور اسلامی پیام کی تاریخ اور اس راہ میں پیش آنے والے حادثات و واقعات کی یاد دھانی ھے ۔
۸۔ قرآن میں کائنات و زندگی، علت حیات اور مبدء وجود، اس کے کردار اور اس کی انتہا کا ایک مکمل خاکہ بھی موجود ھے ۔
۹۔ اس کے علاوہ دوسری آیتوں میں ھمیں نظر آئے گا کہ قرآن کتاب ھدایت اور سرچشمہ نور و رحمت ھے ۔ چنانچہ ارشاد ھوا ھے :
(شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان (البقرة / ۱۸۵)
رمضان وہ مہینہ ھے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، لوگوں کی ھدایت کے لئے دلائل و براھین ھیں اور وہ حق و باطل کے درمیان فرق کا ذریعہ ھے ۔
(ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدیً للمتقین) (بقرہ / ۲)
یعنی بے شک کتاب یہ صاحبان تقویٰ کے لئے سبب ھدایت ھے ۔
(ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی أقوم و یبشر المؤمنین) (اسراء / ۹)
بے شک یہ قرآن انتہائی مناسب عنوان سے ھدایت کرتا ھے اور صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ھے ۔    
و ننزّل من القرآن ما ھو شفاء و رحمۃ للمؤمنین) (اسراء /۸۲)  
یعنی ھم وہ قرآن نازل کریں گے جو مومنین کے لئے سبب شفا و رحمت ھوگا۔
(قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام ویخرجھم من الظلمات الی النور باذنہ و یھدیھم الی صراط مستقیم ۔ ) (مائدہ / ۱۵ ، ۱۶)
خدا کی جانب سے تمھارے پاس ایک نور اور ایک واضح کتاب آچکی جس کے ذریعہ خدا اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے والوں کی سلامتی کے راستوں کی طرف ھدایت کرتا ھے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ھے اور صراط مستقیم کی رھنمائی کرتا ھے ۔
(کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور باذن ربہم الی صراط العزیز الحمید) ۔ (ابراھیم /۱)
یعنی اے رسول (ص) ! قرآن ایک ایسی کتاب ھے جسے ھم نے آپ پر نازل کیا ھے تاکہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں اور بحکم پروردگار ان کی اس راستے کی جانب رھنمائی کریں جو ذات عزیز و حمید کا راستہ ھے ۔
غرضکہ ھم نے جن مقاصد کا تذکرہ کیا ان میں سے بعض ایک دوسرے میں مدغم اور بعض ایک دوسرے پر اثر انداز نظر آئیں گے۔ ایسے اھداف و مقاصد بھی ملیں گے جو ایک دوسرے سے مربوط ھیں لیکن جب کسی آیت کی تفسیر کی جاتی ھے تو یہ اھداف ایک دوسرے سے مختلف ھوتے ھیں ۔ لھٰذا ھماری یہ سعی ھوگی کہ ان کے درمیان سے اھم ترین بنیادی اغراض و مقاصد دریافت کرسکیں ۔
 
نزول قرآن کا بنیادی مقصد انقلابی تبدیلی اور انقلابی قوانین کا نفاذ ھے
بحث کو مزید واضح و روشن کرنے کے لیے مندرجہ ذیل عنوان سے ایک سوال پر غور کرتے چلیں وہ بنیادی مقصد کیا ھے جسے قرآنی ظواھر نمایاں کرتے ھیں اور جسے ھر جگہ دیکھا جاسکتا ھے اور قرآن کی ھر آیت خواہ اس کا مضمون و مفہوم و رنگ کچھ بھی ھو مگر اس بنیاد کی نقاب کشائی کرتی ھے ۔ ابھی جن مقاصد کا مطالعہ پیش کیا گیا ھے خود ان کے باھمی تناظر سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ در اصل یہ مقاصد سمٹ کر ایک نکتہ بنتے اور ایک ھدف کی نشان دھی کرتے ھین ، اس بنیادی مقصد کے تین " بُعد " ھیں ، تمام مقاصد اس سے مربوط ھیں جیسے مرکز سے دائرے کے خطوط ۔ ھماری یہ بات قرآن ھی سے ثابت ھوتی ھے ۔
انسانیت میں وسیع اجتماعی تبدیلی لانا اصلی مقصد ھے جسے ایک پروگرام اور انقلابی قواعد و قوانین کے ذریعہ مشخص و معین کیا گیا ھے ۔
 
الف : پہلا بُعد ۔۔۔ عمقی تغیّر
یہ سہ بُعدی مقصد جس کا پہلا بُعد وسیع بنیادی تغییر ھے ۔ جیسا کہ قرآن کا ارشاد ھے :
(یخرجھم من الظلمات الی النور) اس قانون کی بنیاد پر کہ (ان اللہ لا یُغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (رعد /۱۱) اللہ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک کہ خود وہ اپنے کو نہیں بدل لیتے ۔ (ذلک بان اللہ لم یک مغیراً نعمۃ أنعمھا علی قوم حتی یغیروا ما بأنفسھم) (انفال / ۵۳) یہ اس لئے ھے کہ اللہ کسی قوم کو جب نعمت سے نوازتا ھے تو جب تک وہ قوم خود کو نہیں بدلتی اللہ اس کی نعمت کو تبدیل نہیں کرتا ۔
اس بُعد کی طرف قرآن کریم کی متعدد آیات میں اشارات موجود ھیں جبکہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا بھی اصلی مقصد یہی ھے ۔
(قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین ۔ یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام و یخرجھم من الظلمات الی النور باذنہ و یھدیھم الی صراط مستقیم) (مائدہ / ۱۵ ۔ ۱۶)
تمھارے پاس اللہ کی طرف سے واضح و روشن کتاب اور نور آیا جس کے ذریعہ خداوند عالم پیروان راہ خدا کو سلامتی کے راہ کی ھدایت کرکے ان کو اپنے اذن سے تاریکیوں سے نور کی جانب لاتا اور راہ راست کی ھدایت کرتا ھے ۔
(کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور باذن ربھم الی صراط العزیز الحمید) (ابراھیم / ۱ )
وہ کتاب جس کو میں نے تم پر اس لیے اتارا کہ تم عوام کو تاریکی سے نور کی طرف اپنے پروردگار کے اذن سے خدائے عزیز و حمید کی راہ پر لاؤ ۔
(ھو الذین ینزل علی عبدہ آیات بینات لیخرجکم من الظلمات الی النور و ان اللہ بکم لرؤوف رحیم) (حدید / ۹)
وہ وہ خدا ھے جو اپنے بندہ پر روشن آیات کو نازل کرتا ھے تاکہ تم کو تاریکیوں سے نور کی طرف لائے اور اللہ تم پر مہربان و رحیم ھے۔
(قد أنزل اللہ الیکم ذکراً رسولاً یتلوا علیکم آیات اللہ مبینات لیخرج الذین آمنوا و عملوا الصالحات من الظلمات الی النور) (طلاق / ۱۰ ، ۱۱)
اس نے تمھاری جانب رسول کو ذکر بنا کر بھیجا ھے تاکہ تمھارے سامنے اللہ کی واضح آیات کی تلاوت کرے تاکہ مومن اور صالح اعمال بجالانے والوں کو ظلمت سے نور میں لائے۔
(یا ایھا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذکراً کثیراً … ھو الذی یصلی علیکم و ملائکتہ لیخرجکم من الظلمات الی النور و کان بالمؤمنین رحیماً (الاحزاب : ۴۱ ۔ ۴۳)
اے ایمان والو : اللہ کو ذکر کثیر کے ساتھ یاد کرو ، وہ اور اس کے ملائکہ تم پر درود بھیجتے ھیں تاکہ تم کو تاریکیوں سے نور میں لائے اور وہ مومنین کے لئے بڑا رحیم ھے ۔
قرآن کریم کی ان آیات کریمہ میں اس بنیادی وسیع تبدیل و تغیر کو دو تناقض و متضاد (نور و ظلمت) مرکز سے ایک دوسرے مرکز کی طرف نکلنے سے تعبیر کیا گیا ھے اور تنہا مقصد نزول قرآن اور صفت قرآن ھے جو پہلی آیت میں ھے وہ مقصد نہیں ھے بلکہ جو پہلی آیت میں آیا ھے وہ نزول قرآن کا اس مقصد سے جیسا کہ دوسری اور تیسری آیت میں بھی یہی بات کہی گئی ھے جیسا کہ یہ مقصد بھی نزول قرآن اور پیغمبر اکرم کی دعوت کے مابین ارتباط کا بخوبی پتہ دیتی ھے کیونکہ چوتھی آیت میں ذکر سے رسول اکرم کے لیے یہی تعبیر ھوئی ھے اس وقت آپ اسی مقصد کو خدا اور انسان کے مابین رابطہ کہہ سکتے ھیں ۔ ھر عنوان کا رابطہ خدا کی نسبت انسان کی رفتار و سلوک اور بندے کی نسبت اللہ کی رحمت و عنایت کا رابطہ جیسا کہ پانچویں آیت میں کہا گیا ھے ۔
قرآن کریم میں مومن و کافر کو دو متضاد مرکزوں سے وابستہ کیا گیا ھے "اللہ" اور " طاغوت " اس سے بات کی وضاحت ھوجاتی ھے کہ قرآن کا بنیادی مقصد " یخرجھم من الظلمات الی النور " یعنی اجتماعی تبدیلی لانا ھے ۔ جیسا کہ قرآن کا ارشاد ھے :
(اللہ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمات الی النور و الذین کفروا أولیاؤھم الطاغوت یخرجونھم من النور الی الظلمات أولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون ۔) (بقرہ / ۲۵۷)
اللہ ، اھل ایمان کا ولی ھے ، انھیں تاریکیوں سے نور کی طرف لاتا ھے اور کافروں کا ولی طاغوت ھے جو انھیں نور سے ظلمت کی طرف لے جاتا ھے ، یہی لوگ جہنمی ھیں اور ھمیشہ جہنم میں رھیں گے ۔
اور شاید یہی ایک ایسا پہلو ھے جو اولوا العزم پیغمبروں اور دوسرے تمام رسولوں کے اصلی مقصد میں فرق پیدا کرتا ھے ۔ سورہ ابراھیم میں جو آیت حضرت موسیٰ (ع) کی شان میں نازل ھوئی ھے اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ھے ۔
(و لقد ارسلنا موسیٰ بآیاتنا ان اخرج قومک من الظلمات الی النور و ذکرھم بایام اللہ ان فی ذلک لآیات لکل صبار شکور) (ابراھیم / ۵)
میں نے موسیٰ (ع) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے روشنی میں لاؤ انھیں ایام الٰہی کی یاد دلاؤ یقیناً اس میں ھر صبار و شکور کے لئے نشانیاں موجود ھیں ۔
خصوصاً جب ھم بہ نظر غائر دیکھتے ھیں کہ یہ آیت آیۂ (کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور باذن ربھم …) (ابراھیم / ۱ ) کے سیاق میں واقع ھے تو اندازہ ھوتا ھے کہ شاید اس سے پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت موسیٰ (ع) کی عظیم ذمہ داریوں کے ما بین تقابل بتانا مقصود ھے ۔
 
عملی تغییر کا پھیلاؤ
قرآن مجید میں اس عملی تغیر کی طرف بہت واضح اشارے اور منظر کشی ھے (یخرجھم من الظلمات الی النور) ان کو تاریکیوں سے روشنی میں لاتا ھے یہ قول عین وھاں ارشاد ھوا ھے جہاں رسول اکرم کی عظیم ذمہ داریوں کو دوسرے اھل کتاب کے مقابلے میں بیان کیا ھے ۔
(الذین یتبعون الرسول النبیّ الامیّ الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراة و الانجیل یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر و یحل لھم الطیبات و یحرم علیہم الخبائث و یضع عنہم اصرھم و الاغلال التی کانت علیہم فالذین آمنوا بہ و عزّروہ و نصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون) (اعراف / ۱۵۷) ۔
جو لوگ اس پیامبر امی کی پیروی کرتے ھیں جس کی تعریف و توصیف توراة و انجیل میں پاتے ھیں ۔ وہ پیغمبر جو انھیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ھیں اور وہ جو ان کے لئے طیب و طاھر چیزوں کو حلال اور خبیث اور بری چیزوں کو حرام بتاتا ھے اور وہ جو ان کے کاندھوں کے بھاری بوجھل گناھوں کو ھلکا کرتا ھے ۔ پس جو لوگ اس کی مدد اور اس کی نصرت کریں اور اس کے ساتھ نازل ھونے والے نور کی پیروی کریں وھی لوگ فلاح پائیں گے ۔
(لقد منّ اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیہم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلالٍ مبین) آل عمران / ۱۶۴)
یقیناً اللہ نے مومنین کے درمیان ھی سے رسول بھیج کر مومنین پر احسان کیا ھے تاکہ وہ اس کے لئے اس کی آیتوں کی تلاوت کرے اور ان کا تزکیہ نفس کرے، کتاب و حکمت سکھائے اگر اس کے پہلے وہ کھلی گمراھی میں زندگی گزارتے تھے۔
 
اس تبدیلی کا صحیح طریقہ
یہ بنیادی تبدیلی در حقیقت ایک سیدھے راستے اور صحیح روش کی محتاج ھے جس سے بنیادی مقصد کا دوسرا بُعد سامنے آتا ھے اور اس طریقہ کو کتاب و حکمت کا وسیلہ بتایا جاتا ھے۔ کتاب جو کہ شریعت کا آئینہ ھے اور دین حکمت جو کہ ان قوانین و سنن کی آئینہ دار ھے جو انسان اور اس کی ارتقائی حرکت کی تاریخ میں موثر رھی ھے اور اس کی سعادت و شقاوت میں اثر انداز رھے اور قرآن اسی لئے آیا ھے تاکہ ایک راہ متیعن کرے چنانچہ قرآن ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش کرتا ھے ۔
(ھدیً للناس و بینات من الھدی و الفرقان) (بقرہ / ۱۸۵)
عوام کی ھدایت کا سرمایہ اور راہ ھدایت کا پتہ بتانے والا اور فرقان ھے ۔
اور قرآن (ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدیً للمتقین) (بقرہ / ۲) ھے ۔
(ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم و یبشر المؤمنین الذین یعملون الصالحات ان لھم اجراً کبیراً) (اسراء / ۹)
یقیناً یہ قرآن سیدھے راستے کی دعوت دیتا اور جو مومنین اعمال صالح انجام دیتے ھیں ان کو اجر عظیم کی بشارت دیتا ھے ۔ (و ننزل من القرآن ما ھو شفاء و رحمۃ للمؤمنین و لا یزید الظالمین الا خساراً) (اسراء / ۸۲) ھم ، قرآن سے جو شفاء و رحمت ھے ، مومنین کے لئے نازل کرتے ھیں اور ستمگاروں کے لئے خساروں کے علاوہ کچھ زیادہ نہ ھوگا ۔
(و یخرجھم من الظلمات الی النور باذنہ و یھدیھم الی صراط مستقیم) (المائدة / ۱۶) (و نزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیء و ھدیً و رحمۃ وبشری للمسلمین) (نحل / ۸۹)
اے پیغمبر ھم نے تم پر کتاب نازل کی جو تمام چیزوں کو بیان کرنے والی ھے اور مسلمانوں کے لئے بشارت و رحمت اور ھدایت کا سرمایہ ھے ۔
(ان ھذا القرآن یقصّ علی بنی اسرائیل اکثر الذی ھم فیہ یختلفون و انہ لھدیً و رحمۃ للمؤمنین) (نمل / ۷۶، ۷۷)
یقیناً یہ قرآن بنی اسرائیل کی ان اکثر چیزوں کو بیان کرتا ھے جس میں انھیں اختلاف ھے اور وہ قرآن مومنین کے لیے رحمت و ھدایت ھے ۔
(یا أیھا الناس قد جاءتکم موعظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدیً ورحمۃ للمؤمنین ۔) (یونس / ۵۷)
اے لوگو ! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے دلوں کے لیے شفاء اور مومنین کے لیے رحمت و ھدایت آئی ھے ۔
(ما کان حدیثاً یفتری و لکن تصدیق الذی بین یدیہ و تفصیل کلّ شیًٔ و ھدیً و رحمۃ لقوم یؤمنون) (یوسف /۱۱۱)
یہ قرآن بشری کلام نہیں ھے بلکہ گذشتہ کتابوں کے بارے میں تصدیق اور تمام چیزوں کی تفصیل نیز ایمان والوں کے لیے رحمت و ھدایت ھے ۔
(ان فی ھذا لبلاغاً لقوم عابدین و ما أرسلناک الا رحمۃ للعالمین) (انبیاء/ ۱۰۶، ۱۰۷)
یقیناً یہ قرآن عبادت گذاری کے لیے ھے اور ھم نے تمہیں نہیں بھیجا ھے، مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر ۔
(و أوحی الی ھذا القرآن لانذرکم و من بلغ … )) (انعام/ ۱۹)
یہ قرآن مجھ پر وحی ھوا ھے تاکہ تمھیں اور ھر اس آدمی کو (عذاب خدا سے) ڈراؤں جس تک پیام پہونچا ھے ۔
اس صحیح روش کی تعبیر قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر صراط مستقیم سے کی ھے، اس صراط کی تعبیر کی ھے جو کمال انسانیت اور کمال نعمت بشری ھے۔
(اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لا الضالین) ۔ (فاتحۃ / ۶ ، ۷)
ھمیں راہ راست کی ھدایت کر، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپنی نعمت نازل کی ھے ان لوگوں کے راہ کی نہیں جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ھے اور نہ ان لوگوں کے راہ کی جو گمراہ ھیں ۔
(قل اننی ھدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفاً و ما کان من المشرکین) (انعام / ۱۶۱)
کہو میرے پروردگار نے مجھے اس راہ راست کی ھدایت کی ھے جو صحیح دین اور ملت حنیف ابراھیم (ع) ھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔
(ان ابراھیم کان امۃ قانتاً للہ حنیفاً و لم یک من المشرکین شاکراً لأنعمہ اجتباہ و ھداہ الی صراط مستقیم) (نحل / ۱۲۱)
یقیناً ابراھیم (ع) امت و پیروکار و مطیع تھے اور وہ مشرک نہ تھے اور وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گذار تھے ۔ اللہ نے ان کو منتخب کیا اور راہ راست کی ھدایت کی ۔
(انا فتحنا لک فتحاً مبیناً لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک و ما تأخر و یتم نعمتہ علیک و یھدیک صراطاً مستقیماً) ۔ (فتح / ۱ ، ۲)
ھم نے تم کو کھلی فتح دی تاکہ اللہ تمہاری آیندہ و گذشتہ گناھوں کو بخش دے اور اپنی نعمتوں کو تم پر کامل و مکمل کردے اور تم کو راہ راست کی ھدایت کرے ۔
 
ج : انقلابی چھاؤنی کی بنیاد
اجتماعی تبدیلی لانے کا کام ایک انقلابی چھاؤنی کے وجود کا محتاج ھے اور اسی انقلابی چھاؤنی سے تیسرا بُعد وجود میں آتا ھے ۔ اسی لئے قرآن نے اس چھاؤنی کو وجود میں لانے کی ضرورت پر زور دیا اور یہ چاھا کہ یہ چھاؤنی رسالت سے الجھنے والے حوادثات کا مقابلہ کرسکے اور نبی اپنے عظیم مقصد تک پہونچنے کا موقف اختیار کریں ظاھر ھے ایسی چھاونی کو وجود میں لانا اور وہ بھی ایسے سخت وقت ھیں، اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ رسالت کے مستقبل کے لیے اس کی وسعت کے علاوہ بقاء اور دوام کا مسئلہ ھے ۔
لھٰذا قرآن نے جس تغییری عمل کو مقصد قرار دیا ھے ۔ اس میں کیفی بعد کے علاوہ ایک کمی بعد بھی ھے کہ قرآن خاص طور سے چاھتا ھے کہ پیغمبر اس کے تحقق کے لیے اقدام کریں اور اس کو اس طرح محکم کریں کہ پیغمبر کی وفات اور وحی کے بند ھونے کے بعد بھی یہ رسالت باقی رھے اور اس چھاؤنی کے ذریعہ جس کو خاص اھمیت دی گئی ھے رسالت کے مستقبل کو استحکام حاصل ھوتا رھے۔ بہت سی آیتیں ھیں جو عصر رسالت کے حوادثات کو بیان کرتی ھیں نیز عادات و رسوم و قوانین یا زیان کے اسباب کی تحقیق کرتی ھیں ۔
جزیرة العرب ام القریٰ ومن حولھا کے رھنے والوں کی طرف قرآن کریم نے خاص توجہ مبذول کی تاکہ یہاں سے رسالت کو وسعت دینے کے لیے انقلابی چھاؤنی کو وجود میں لایا جاسکے ۔
یہ خصوصی توجہ دوسرے افراد بشری کی بہ نسبت جزیرے کے لوگوں کو فوقیت دینے کے لئے نہیں ھے بلکہ کمی مقصد یا اسلام کا پیغام پہنچانے کی ایک منزل کے لیے ھے اس لیے کہ یہ سب پیغمبر کے دائرہ عمل ھیں اور یہ سب ایسی جمعیت کو وجود میں لاتے ھیں جہاں پیغمبر (ص) نے رسالت کا آغاز کیا ھے ۔
(و ھذا کتاب أنزلناہ مبارک مصدق الذی بین یدیہ و لتنذر اُمّ القریٰ و من حولھا و الذین یومنون بالآخرة یؤمنون بہ و ھم علی صلاتھم یحافظون) (انعام/ ۹۲)
یہ وہ کتاب ھے جس کو بابرکت بنا کر بھیجا ھے تاکہ گذشتہ لوگوں کی تصدیق کرنے والی اور ام القریٰ اور اس کے اطراف کے لوگوں کے لیے خوف دلانے والی ھو ، اور جو لوگ آخرت کا عقیدہ رکھتے اس کتاب پر ایمان لاتے ھیں ، نیز اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ھیں ان سب کے لیے نذارت ھے ۔
(و کذلک أوحینا الیک قرآناً عربیاً لتنذر ام القریٰ و من حولھا و تنذر یوم الجمع لاریب فیہ فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر) (شوریٰ / ۷)
اسی طرح ھم نے قرآن عربی کو تمھاری طرف وحی کیا تاکہ تم ام القریٰ اور اس کے اطراف کے افراد کو خوف دلاتے رھو ۔  
(ھو الذی بعث فی الأمیین رسولاً منھم یتلوا علیہم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ۔ ) (جمعہ / ۲)
وہ وھی خدا ھے جس نے جاھل لوگوں میں انھیں میں سے رسول بنا کر بھیجا تاکہ ان کے لیے اس کی آیات کی تلاوت کرے اور اس کا تزکیہ نفس کرے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگر چہ وہ اس کے پہلے کھلی گمراھی میں تھے۔

متفرقہ احادیث 2

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

امام حسین علیہ السلام :خوش نامی اور نیک بختی کی علامتوں میں سے ایک، عقلمندوں کے ساتھ اٹھنا  بیٹھنا ہے ۔

 

حضرت رسول خدا(ص): سنت میں سے ہے کہ آدمی اپنے مہمان کے ساتھ دروازے تک جائے ۔

 

حضرت رسول خدا(ص) : جس کی نماز اسے بُرے فعل اور منکرات سے نہ روکے ، خدا  سے دوری کے علاوہ اسے کچھ نہیں دیتی ہے ۔

 

مام صادق علیہ السلام :آج کے دن دنیا میں اس طرح کا عمل کرو کہ جس کے ذریعہ آخرت میں کامیابی کی امید رکھتے ہو۔

 

حضرت رسول خدا(ص): مشورہ لیتنا، ندامت اور پشیمانی کے مقابلے میں ایک محکم قلعہ ہے اور سر زنش سے امان میں رکھتا ہے ۔

 

امام باقر علیہ السلام : خلوت میں کثرت کے وسیلہ سے ، دل کی نرمی اپنے اندر پیدا کرو۔

 

حضرت رسول خدا(ص): جو شخص اپنے اہل وعیال کے لئے حلال رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے ، [اس کی کوشش]راہ خدا میں شمار ہوگی ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): خدایا! معلمین کو بخش دے اور ان کی عم کو دراز کردے اور ان کے کام میں برکت عطا کر۔

 

حضرت رسول خدا (ص): اللہ دوست رکھتا ہے کہ جب بھی اپنے کسی بندے کو کوئی نعمت دیتا ہے تو اس کا اثر اس میں دیکھے۔

 

امام علی علیہ السلام: مرد کی نیکی اپنے رشتہ داروں کے حق میں ، ایک صدقہ ہے۔

 

حضرت رسول خدا (ص): اللہ ، بلند مرتبہ اور شریف کاموں کو دوست رکھتا ہے اور چھوٹے اور ناچیز کاموں کو ناپسند کرتا ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): قیامت کے دن خدا کے نزدیک لوگوں میں سے سب سے بُرا شخص وہ بندہ ہے کہ جس نے اپنی آخرت کو دوسروں کی دنیا کی خاطر تباہ کیا ہے ۔

 

امام حسین علیہ السلام: احسان کا پوراکرنا اس کے شروع کرنے سے بہتر ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام نیکیوں کے بارے میں فکر کرنا ، انسان کو ان پر عمل کرنے کی طرف دعوت دیتا ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام :جو شخص طبابت کرتا ہے اسے خدا سے ڈرنا چاہئے اور خیر خواہ ہونا چاہئے اور اپنی پوری کوشش کرنا چاہئے ۔

 

امام علی علیہ السلام :حسن سیاست حکمرانی کے دوام کا باعث ہے ۔

 

امام صادق علیہ السلام :خدا سے اس طرح امید رکھو کہ یہ امید تمہیں اس کی نافرمانی پر جری نہ کرے ، اور اس طرح اس سے ڈرو کہ یہ ڈرنا تمہیں اس کی رحمت سے مایوس نہ کرے ۔

 

امام علی علیہ السلام: سیاست کی بنیاد ، نرمی اور مدارات کا استعمال ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: عادلانہ سیاست کے تین اصول ہیں :دور اندیشی میں نرمی ، عدالت کو نہایت تک پہنچانا ، اور میانہ روی کے ساتھ بخشش کرنا۔

 

حضرت رسول خدا (ص): اے علی(ع)! ہٹ دھرمی سے پرہیز کرو ، کیونکہ اس کا آغاز جہل(جہالت) اور اس کا انجام ، ندامت ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: دوستی اور مودتوں کو دلوں سے پوچھو، کہ کیونکہ وہ ایسے گواہ ہیں جو رسوت قبول نہیں کرتے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): شاباش ہے اس پر جو کہ اپنے مال کی زیادتی کو انفاق کرے اور اپنی زبان کی زیادہ گوئی کو روک لے ۔

 

امام ہادی علیہ السلام: مومن، خدا کی طرف سے توفیق اور اپنے نفس کی نصیحت اور نصیحت کرنے والے کی نصیحت قبول کرنے کا محتاج ہے ۔

 

امام رضا علیہ السلام: لوگو دوقسم کے ہیں:ایک وہ پالینے والا شخص کہ جو[اپنی پائی ہوئی چیز پر] اکتفا نہیں کرتا اور ایک وہ ڈھونڈھنے والا شخص جو نہیں پاتا۔

 

امام علی علیہ السلام: حق کو برباد کرنے کے لئے کسی سے مدد مانگنا ، دیانت اور امانت [داری] کی علامت ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): اگر چاہتے ہو کہ تمہارا احترام کیا جائے تو نرمی اختیار کرو اور اگر چاہتے ہو کہ تمہاری توہین کی جائے تو سختی اور خشونت سے کام لو۔

 

امام علی علیہ السلام: آخرت میں مشغول رہو تاکہ دنیا ذلیل ہو کر تمہارے پاس آئے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): اپنے کاموں میں کتمان اور چھپانے سے مدد لو؛ اس لئے کہ ہر صاحب نعمت سے حسد کیا جاتا ہے ۔

 

امام کاظم علیہ السلام: اپنی خلوتوں میں خدا سے شرم کرو، جس طرح کہ اپنے ظاہر میں لوگوں سے شرم کرتے ہو۔

 

امام علی علیہ السلام: خواہشات نفسانی اور لذتوں کی موجودگی میں پرہیزگاروں کی پرہیزگاری ظاہر ہوتی ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو شخص بغیر علم کے کوئی عمل انجام دیتا ہے تو تباہیاں کرتا ہے اس کی بنائی ہوئی چیزوں سے زیادہ ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): بعوض اشعار ، حکمت ہیں۔

 

حضرت رسول خدا (ص): ہر آدمی کو اپنی جان ، مال اور اہل وعیال کی خاطر جنگ کرنا چاہئے ۔

 

امام حسن عسکری علیہ السلام: کوئی بھی غیر تمند شخص نے حق کو ترک نہیں کیا مگر یہ کہ خوار ہو گیا اور کوئی بھی ذلیل آدمی نے حق کو نہیں اپنایا مگر یہ کہ عزیز ہوگیا۔

 

امام صادق علیہ السلام: شاباش ہو اس آدمی پر جسے جھوٹی آروزئیں سرگرم نہ کریں۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو آدمی کسی ملدار کے پاس جا کر تواضع کرے، اس کے دین کا دو تہائی حصہ بر باد ہو گیا ہے ۔

 

امام زین العابدین علیہ السلام:جو خدا کی دی ہوئی قسمت پر قانع رہے ، وہی لوگوں میں سب سے زیادہ بے نیاز شخص ہے ۔

 

امام صادق علیہ السلام: ہر چیز کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیا، ہم اہل بیت(ع) کی محبت ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): نعمتوں کو بیان کرنا ، شکر ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور خرید و فروش میں خریدار کو فریب دینے کے لئے ، جھوٹ بول کر قیمت میں اضافہ نہ کرو، اور ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو۔

 امام علی علیہ السلام: سب سے اچھا دوست وہ ہے جو اطاعت خدا میں مدد کرے ۔

 

امام علی علیہ السلام:خدا سے تقرب حاصل کرنا اس سے خواہش کرنے یں ہے اور لوگوں سے تقرب، ان سے ترک خواہش میں ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: کوئی لباس ، سلامتی سے زیادہ خوبصورت نہیں ہے ۔

 

امام رضا علیہ السلام: جو شخص اس مجلس میں بیٹھے گا جس میں ہمارا ا(اہل بیت کی) یاد زندہ ہوتی ہو، اس دن جس دن سارے دل مر جائیں گے ، اس کا دل نہیں مرے گا۔

 

حضرت رسول خدا(ص): سب سے افضل ہجرت ، اس چیز سے ہجرت ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔

 

امام علی علیہ السلام: علم حاصل کرو تاکہ تمہں زندگی عطا کرے ۔

 

امام علی علیہ السلام:اپنی عقلوں کو خطا سے دور نہ سمجھو، اس لئے کہ ان پر اعتماد کرنے سے ہی خطا ہوتی ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: آدمی ، اپنے کئے ہوئے گناہ کی وجہ سے، رزق و روزی سے محروم ہو جاتا ہے ۔

 

امام رضا علیہ السلام: صاحب نعمت پر واجب ہے کہ اپنے اہل وعیال پر وسعت دے۔

 

امام علی علیہ السلام: معصیت خالق کے ساتھ کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے ۔

 

امام علی علیہ السلام: زیادہ بولنے سے پرہیز کرو؛ اس لئے کہ جس کا کلام زیادہ ہو اس کے گناہ زیادہ ہوں گے ۔

 

حضرت رسول خدا(ص): راہ خدا کے مجاہدین ، اہل بہشت کے راہبر ہیں ۔

 

امام صادق علیہ السلام: آدمی کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش چیز، یہ ہے کہ اپنے عیوب ڈھونڈنے میں دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل کرے ۔

 

امام کاظم علیہ السلام: اس بات سے پرہیز کرو کہ خدا کی اطاعت کی راہ میں انفاق کرنے سے دریغ کرو، ورنہ ، معصیت خدا میں اس کا دو گنا خرچ کروگے۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جس چیز کے ذریعہ آدمی اپنی عزت بچاتا ہے ، ایک ایسا صدقہ جو[ اس کے نامۂ عمل میں] لکھا جاتا ہے ۔

 

امام باقر علیہ السلام: اپنے کام میں[فقط] ان لوگوں سے مشورہ کرو جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔

 

امام علی علیہ السلام : بندہ کا خوف خدا سے رونا، اس کے گناہ کو ختم کردیتا ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: صبح سویرے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاؤ اس لئے کہ برکت صبح سویرے اٹھنے میں ہے اور مشورہ سے کام لو اس لئے کہ کامیابی مشورہ میں ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو بہشت کا مشتاق ہے، نیکیوں کی طرف تیزی سے جاتا ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): بچہ کے لئے، اس کی اپنی ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی دوسرا دودھ  بہتر نہیں ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو چاہتا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ احترام کیا جائے تو وہ خدا سے ڈرے۔

 

امام باقر علیہ السلام: بیشک جھوٹی قسم اور قطع رحم ، گھروں کو مکینوں سے خالی کردیتے ہیں ۔

 

 امام صادق علیہ السلام: سب و روز اپنے مولا کے فرج کا انتظار کرو۔

 

امام علی علیہ السلام: اپنے کاموں میں میانہ روی اختیار کرو ؛ اس لئے کہ جو میانہ روی اختیار کرے گا، زندگی کے خرچے اس پر آسان ہو جائیں گے ۔

 

امام ہادی علیہ السلام: جو نیکی بوئے گا ، خوشی کاٹے گا اور جو بُرائی بوئے گا، ندامت کاٹے گا۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو شخص اپنی نماز کو اچھے طریقہ سے ادا کرے اس وقت جب لوگ اسے دیکھ رہے ہیں اور پھر جب خلوت میں جائے تو اپنی نماز کو ہلکا تصور کرے تو اس نے اس کام سے اپنے پروردگار کی توہین کی ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: دشمنی اور حسد سے سینہ کا خالی رہنا، بندے کی سعادت میں سے ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: معاشرت ، چھپی خلصتوں کو ظاہر کردیتی ہے ۔

 

امام جواد علیہ السلام: حسن جوار[صرف] پڑوسی کی اذیت سے پرہیز نہیں ہے، بلکہ [پڑوسی کے] اذیت پر صبر ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جس کے لئے کوئی باب خیر کھول دیا جائے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہئے؛ اس لکئے کہ نہیں جانتا کب بند ہو جائے گا۔

 

امام علی علیہ السلام: عمل کرنے سے پہلے سوچ لو تاکہ لغزشوں سے نجات پالو۔

 

حضرت رسول خدا (ص): اس شخص کے تمام پہلے کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے جو ایمان اور ثواب الٰہی تک پہنچنے کی کاطر اعتکاف میں بیٹھے۔

 

امام علی علیہ السلام: مقاصد کی بلندی تک نہیں پہنچے گا مگر وہ شخص جس نے خود کو مہذب کیا ہو اور اپنے نفس سے جہاد کیا ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: فرزند آدم، ترازو سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے،  یا تو جہالت کی وجہ سے ہلکا ہوتا ہے یا علم کے ذریعہ وزنی ہوتا ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام : جس کے پاس کرامت نفس ہے وہ اپنے آپ کو گناہ کے ذریعہ خوار نہیں کرے گا۔

 

حضرت رسول خدا (ص): شاباش ہو اس شخص کے لئے جو ایک حاضرو آمادہ شہرت کو ایک وعدہ کئے گئے ثواب کی کاطر جسے نہیں دیکھ اہے ، ترک کردے۔

 

حضرت رسول خدا (ص): اگر لوگ مسافر پر رحمت کدا سے آگاہ ہوتے تو سب کے سب سفر کرنے لگتے، بیشک خدا مسافر پر مہربان ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: جو شخص وہ بات کہے جو کہ مناسب نہیں ہے، وہ بات سنے گا جو ناپسند کرتا ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو شخص مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو سیلاب یا آگ سے نجات دلائے ، تو اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے ۔

 

امام صادق علیہ السلام: ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بزرگوں کا احترام نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں کے ساتھ مہربانی سے پیش نہ آئے ۔

 

امام علی علیہ السلام: جب چیزوں کی ایک دوسرے کے ساتھ داشی ہو رہی تھی ، تو کاہلی اور ضعیفی کی شادی ایک ساتھ ہوئی اور ان سے فقر پیدا ہوا۔

 

امام علی علیہ السلام:جو اپنے ہوس کی موافقت کرے، اس نے اپنے رشد کی مخالفت کی ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: پست کاموں سے بی اعتنائی کر کے، اپنی قدر اونچی کرو۔

 

امام صادق علیہ السلام: تین چیزیں ہیں جس کے لوگ محتاج ہیں: امنیت ، عدالت اور آسائش ۔

 

حضرت رسول خدا (ص):فرزند صالح ، جنت کے بھولوں میں سے ایک بھول ہے ۔

 

امام علی علیہ السلام: دل کا روزہ ، فکر گناہ سے بچ کر ، افضل ہے پیٹ کے روزے سے جو کھانے سے بچ کر ہوتا ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو شخص کسی مؤ من کی طرف کوئی بُری بات کی نسبت دے ، تب تک نہیں مرے گا، جب تک کہ وہ کام کا مرتکب نہ ہو جائے ۔

 

امام علی علیہ السلام: کریم لوگوں کی لذت کھلانے میں اور پست لوگوں کی لذت کھانے میں ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): کسی قوم کے لوگ ایک دوسرے سے مشورہ نہیں کریں گے مگر یہ کہ اپنی ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائیں گے ۔

 

امام حسن علیہ السلام: کھیل کود میں مشغول رہو؛ اس لئے کہ میں نہیں چاہتا تمہارے دین میں سختی دکھائی دے۔

 

امام حسن علیہ السلام: تقوا ، ہر توبہ کا دروازہ اور ہر حکمت کی بنیاد اور ہر کام کا شرف ہے ۔

 

حضرت رسول خدا (ص): جو شخص کسی تنگ دست کی سختی اور پریشانی کو دور کردے ، خدا دنیا اور آخرت میں اس پر اسانی کرے گا۔

 

امام صادق علیہ السلام: نوجوانوں کی طرف توجہ دو اس لئے کہ یہ گروہ ہر خیر کی طرف زیادہ سرعت سے بڑھتے ہیں ۔

متفرقہ احادیث 2


آٹھویں امام کی اٹھاسی حدیثیں حضرت علی بن موسے الرضا علیہ السلام آٹھ زبانوں میں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

1۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَجَلُّ الۡخَلائِقِ وَ اکۡرَمُھٰا : اصۡطِنٰاعُ الۡمَعۡرُوفِ وَ اِغٰاثَۃُ الۡمَلۡھُوفِ وَ تَحۡقِیقُ اَمَلِ الاٰمِلِ ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۵۵ )

۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : عظیم ترین عادت و خلق نیکی کرنا ، احسان کرنا پریشان حال کی فریاد رسی کرنا اور آرزو مند کی آرزو پوری کرنا ھے ۔

۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لَمۡ یَخُنۡکَ الاَمِیۡنُ وَ لٰکِنِ ائۡتَمَنۡتَ الۡخٰائِنَ (بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۳۵ )

۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : امانتدار نے تمہارے ساتھ خیانت نہیں کی بلکہ تم نے خائن کو امانتدار سمجھا ۔

۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) :لا تَبۡذُلۡ لاِخۡوٰانِکَ مِنۡ نَفۡسِکَ مٰا ضَرَرُہُ عَلَیۡکَ أَکۡثَرُ مِنۡ نَفۡعِہِ لَھُمۡ ( مسند الامام الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۳۱۴ )

۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : اپنے ایمانی بھائیوں پر اتنی بخشش نہ کرو کہ جس کا نقصان تمہارے لئے ان کو فایدہ دینے سے زیادہ ھو ۔

۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلایمٰانُ اِقۡرٰارٌ باللِّسٰانِ وَ مَعۡرِفَۃٌ بالۡقَلۡبِ وَ عَمَلٌ بالاَرۡکٰانِ ( الخصال صدوق ، ص ۱۷۷ )

۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : "ایمان" زبان سے اقرار ، دل سے پہچان اور اعضاء سے عمل کرنے کا نام ھے ۔

۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَفۡضَلُ الۡعَقۡلِ مَعۡرِفَۃُ الاِنۡسٰانِ نَفۡسَہُ ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۵۲ )

۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بہترین عقل انسان کا اپنے نفس کا پہچاننا ھے

۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اَیۡقَنَ بالۡخَلَفِ جٰادِ بالۡعَطِیَّۃِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۵۴ )

۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جس نے جزا کا یقین کیا اس نے بخشش زیادہ کی ۔

۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اسۡتَفٰادَ أَخًا فِی اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ اسۡتَفٰادَ بَیۡتاً فِی الۡجَنَّۃِ ( ثواب الاعمال ، ص ۱۵۱ )

۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو للہ ، فی اللہ کسی کو اپنا بھائی بنائے تو اس نے جنت میں اپنا ایک گھر بنا لیا ھے ۔

۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : خَیۡرُ مٰالِ الۡمَرۡءِ وَ ذَخٰائِرِہِ الصَّدَقَۃُ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۶۱ )

۸ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : انسان کا سب سے بہتر مال اور ذخیرہ صدقہ ھے ۔

۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : حُسۡنُ الۡخُلُقِ سَجِیَّۃٌ وَ نِیَّۃٌ وَصٰاحِبُ النّیَّۃِ اَفۡضَلُ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۷۹ )

۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : حسن خلق دو طرح کا ھوتا ھے : ایک فطری ھے دوسرا اکتسابی ، اور خلق اکتسابی بہتر ھے ۔

۱۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِنَّ الصَّبۡرَ عَلَی الۡبَلاٰءِ حَسَنٌ جَمیلٌ وَاَفۡضَلُ مِنۡہُ عَنِ الۡمَحٰارِمِ (مشکاة الانوار ، ص ۲۲ )

۱۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کرنا یقیناً بہت اچھا ھے اور اس سے زیادہ بہتر حرام کاموں سے صبر کرنا ھے ۔

۱۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : رَأۡسُ طٰاعَۃِ اللہِ اَلصَّبۡرُ وَ الرِّضٰا (فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۵۹ )

۱۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : اطاعتِ خدا کی جڑ ، صبر کرنا اور قضا و قدر الٰھی پر راضی رھنا ھے ۔

۱۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لَیۡسَتِ الۡعِبٰادَةُ کَثۡرَةَ الصَّلاٰةِ وَ الصَّوۡمِ اِنَّمَا الۡعِبٰادَةُ اَلتَّفَکُّرُ فِی اَمۡرِ اللہِ عَزَّ وَ جَلّ ( اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۵۵ )

۱۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : کثرت سے نماز پڑھنا اور روزے رکھنا صرف عبادت نہیں ھے بلکہ عبادت ان امور میں غور و فکر کرنا ھے جو اللہ عز و جل سے تعلق رکھتے ھیں ۔

۱۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اصۡحَبِ الصَّدیقَ بالتَّوٰاضِعُ وَ الۡعَدُوَّ بالتَّحَرُّزِ وَ الۡعٰامَّۃَ بالۡبشۡرِ ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۵۶ )

۱۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : دوستوں سے تواضع اور انکساری دشمنوں سے احتیاط اور عام لوگوں سے خندہ روئی کے ساتھ پیش آؤ ۔

۱۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : عَجِبۡتُ لِمَنۡ یَشۡتَرِی الۡعَبیدَ بمٰالِہِ فَیُعۡتِقُھُمۡ کَیۡفَ لاٰ یَشۡتَری الاَحۡرٰارَ بحُسۡنِ خُلۡقِہِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۵۴ )

۱۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : مجھے تعجب ھے ان لوگوں پر جو اپنے اموال کے عوض میں غلام خریدتے ھیں اور آزاد کرتے ھیں تو کیوں کر اور کیسے اپنے اخلاق حسنہ سے آزاد لوگوں کو نہیں خریدتے ۔

۱۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : سَخٰاءُ النَّفۡسِ عَمّٰا فِی اَیۡدِی النَّاسِ اَکۡثَرُ مِنۡ سَخٰاءِ الۡبَذۡلِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۶۷ )

۱۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ھے اس سے نفس کا سخاوت کرنا بخشش کی سخاوت سے بہتر ھے ۔

۱۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : عَوۡنُکَ لِلضَّعیفِ اَفۡضَلُ مِنَ الصَّدَقَۃِ ( تحف العقول ، ص ۵۲۵ )

۱۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : تمہارا کمزور کی مدد کرنا صدقہ دینے سے بہتر ھے ۔

۱۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَفۡضَلُ الۡمٰالِ مٰا وُقِیَ بہِ الۡعِرۡضُ ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۵۵ )

۱۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بہترین مال وہ ھے جس کے ذریعہ آبرو بچالی جائے ۔

۱۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لَیۡسَ لِلصَّبیِّ لَبَنٌ خَیۡرٌ مِنۡ لَبَنِ اُمِّہ (عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۳۴ )

۱۸ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بچے کے لئے کوئی دودھ اس کی ماں کے دودھ سے بہتر نہیں ھے ۔

۱۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ عَرَضَ نَفۡسَہُ لِلتُّہۡمَۃِ فَلاٰ یَلُومَنَّ مَنۡ اَسٰاءَ الظَّنَّ بہِ ( صحیفۃ الرضا (ع) ، ص ۷۱ )

۱۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو شخص اپنے لئے تہمت کے اسباب خود فراھم کرے تو اسے چاھئے کہ اس شخص کی ملامت نہ کرے جس نے اس کے بارے میں بدگمانی کی ھے ۔

۲۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لا یَعۡدَمُ الۡعُقُوبَۃَ مَنِ ادَّرَعَ بِالۡبَغۡیِ ( چھل حدیث ۱۲۳ )

۲۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : عقوبت سے بچ نہیں سکتا وہ شخص جو زیادتی اور ظلم کو اپنا شعار قرار دے ۔

۲۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اَرٰادَ اَنۡ یَکُونَ اَغۡنَی النّٰاسِ فَلۡیَکُنۡ وٰاثِقاً بمٰا عِنۡدَ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۶۴ )

۲۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو لوگوں میں سب سے زیادہ دولتمند ھونا چاھے تو اسے چاھے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ھے اسی پر بھروسہ کرے ۔

۲۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ صَبَرَ لِلۡحَقِّ عَوَّضَہُ اللہُ خَیۡراً مِمّٰا صَبَرَ عَلَیۡہِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۶۸ )

۲۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو حق کی خاطر صبر کرے تو اللہ اس کے عوض اسے اس چیز سے بہتر عطا کرتا ھے جس پر وہ صبر کرتا ھے ۔

۲۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ سَرَّہُ اَنۡ یُنۡسَأَ فِی اَجَلِہِ وَ یُزٰادَ فِی رِزۡقِہِ فَلۡیَصِلۡ رَحِمَہُ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۴۴ )

۲۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو شخص اس امر کو دوست رکھتا ھے کہ اس کی عمر طویل اور اس کی روزی زیادہ ھو تو اسے چاھئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔

۲۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ فَرَّجَ عَنۡ مُؤۡمِنٍ فَرَّجَ اللہُ عَنۡ قَلۡبِہ یَوۡمَ الۡقِیٰامَۃِ (اصول کافی ج ۲ ، ص ۲۰۰ )

۲۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو کسی مؤمن کے دل سے ھم و غم کو دور کرے اللہ قیامت کے دن اس کے دل سے ھر طرح کا غم دور کرے گا ۔

۲۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَحۡسِنُوا جِوٰارَ النِّعَمَ فَاِنَّھٰا وَحۡشَیّۃٌ مٰا نأَتۡ عَنۡ قَوۡمٍ فَعٰادَتۡ اِلَیۡہِمۡ (تحف العقول ، ص ۵۲۶ )

۲۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : نعمتوں کے اچھے ھمسایہ بنو اس لئے کہ نعمتیں وحشی ھیں اگر ایک دفعہ فرار کر جائیں تو دوبارہ واپس نہیں آتیں ۔

۲۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مِنۡ اَخۡلاقِ الاَنۡبِیٰاءِ "عَلَیۡہِمُ السَّلامُ" اَلتَّطَیَّبُ ، مِنۡ اَخۡلاٰقِ الاَنۡبیٰاءِ "عَلَیۡہِمُ السَّلامُ" اَلتَّنَظُّفُ (مکارم الاخلاق ۔ تحف العقول ص ۴۲ ، ۵۱۹ )

۲۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : خوشبو کا استعمال کرنا اخلاق انبیاء سے ھے انبیاء کے مخصوص اخلاق میں سے صاف ستھرا رھنا ھے ۔

۲۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لاٰ یَعۡدَمُ الۡمَرۡءُ دٰائِرَةَ السَّوۡءِ مَعَ نَکۡثِ الصَّفۡقَۃِ (کشف الغمہ ، ج ۳ ص ۱۴۸ )  

۲۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : آدمی عہد شکنی اور پیمان شکنی کے ساتھ شدید اور سخت مصیبت کو دور نہیں کرسکتا ۔

۲۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِنَّ الۡحُکَمٰاءَ ضَیَّعُوا الۡحِکۡمَۃَ لَمّٰا وَضَعُوا عِنۡدَ غَیۡرِ اَھۡلِھٰا ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۴۵ )

۲۸ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بے شک حکماء اور دانشمند لوگ جبنا ابلوں کو حکمت کی تعلیم دیں گے تو حکمت برباد ھوجائے گی

۲۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لاتَغۡضَبُوا مِنَ الۡحَقِّ اِذٰا صُدِعۡتُمۡ بہِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۳۸ )

۲۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جب حق بات کا سامنا ھو تو غصہ نہ ھو ۔

۳۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مِنۡ حَقِّ الضَّیۡفِ اَنۡ تَمۡشِیَ مَعَہُ فَتُخۡرِجَہُ مِنۡ حَریمِکَ اِلَی الۡبٰابِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ص ۷۰ )

۳۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : مہمان کا حق یہ ھے کہ تم اپنے حریم (گھر) سے دروازے تک اس کے ساتھ جاؤ ۔

۳۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلایمٰانُ : اَدٰاءُ الۡفَرٰائِضِ وَ اجۡتِنٰابُ الۡمَحٰارِمِ (تحف العقول ص ۴۹۵ )

۳۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : ایمان (حقیقی ایمان) واجبات اور فرائض کا ادا کرنا ، محرمات (حرام) سے بچنا ھے ۔

۳۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اَرۡضیٰ سُلۡطٰاناً بمٰا یُسۡخِطُ اللہَ خَرَجَ عَنۡ دینِ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ص ۶۹ )

۳۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو کسی ظالم بادشاہ کو کسی ایسی چیز سے خوش کرے جس سے اللہ ناراض ھوتا ھے تو ایسا شخص دین سے خارج ھے ۔

۳۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مٰا مِنۡ شَیٍٔ اَثۡقَلَ فِی الۡمیزانِ مِنۡ حُسۡنِ الۡخُلُقِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ص ۳۷ )

۳۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : میزان میں (بروز قیامت) حسن اخلاق سے زیادہ کوئی سنگین شیٔ نہیں ھے ۔

۳۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِنَّکُمۡ لَنۡ تَسَعُوا النّٰاسَ باَمۡوٰالِکُمۡ فَسَعُوھُمۡ بطَلاقَۃِ الۡوَجۡہِ وَ حُسۡنِ اللّقٰاءِ (مسند امام الرضا (ع) ، ج ۱ ص ۲۹۲ )

۳۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بے شک تم اپنے اموال کے ذریعہ لوگوں کو خوش نہیں کرسکتے تو انہیں خندہ پیشانی اور خندہ روئی سے خوش کرو۔

۳۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلصَّمۡتُ بٰابٌ مِنۡ اَبۡوٰابِ الۡحِکۡمَۃِ ( تحف العقول ص ۵۲۳ )

۳۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : خاموشی حکمت کا ایک دروازہ ھے ۔

۳۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : صَدیقُ کُلِّ امۡرِیءٍ عَقۡلُہُ وَعَدُوُّہُ جَھۡلُہُ (اصول کافی ج ۱ ص ۱۱ )

۳۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : ھر انسان کا دوست اس کی عقل اور دشمن اس کا جہل ھے ۔

 ۳۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلاُنۡسُ یُذۡھِبُ الۡمَھٰابَۃَ وَ الۡمَسۡأَلَۃُ مِفۡتٰاحٌ فِی الۡبُؤۡسِ ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۵۶ )

۳۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : انس (بے تکلفی ) ھیبت کو دور کرتی ھے اور سؤال فقر و فاقہ کی کنجی ھے ۔

۳۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡکِبۡرُ رِدٰاءُ اللہِ مَنۡ نٰازَعَ اللہَ رِدٰاءَہُ قَصَمَہُ (فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۷۲ )

۳۸ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بڑائی اللہ کی ردا ھے جو اس میں اللہ سے لڑا ، اللہ نے اس کی کمر توڑ دی ۔

۳۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لا یَقۡبَلُ اللہُ عَمَلَ عَبۡدٍ وَ ھُوَ یُضۡمِرُ فی قَلۡبہِ عَلیٰ مُؤۡمِنٍ سُوءًا ( فقہ الرضا (ع) ، ۳۶۹ )

۳۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : اللہ اس بندے کے عمل کو قبول نہیں کرتا جس کے دل میں کسی مؤمن کی طرف سے برائی کا خیال ھو ۔

۴۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِیّٰاکُمۡ وَ الۡحِرۡصَ وَ الۡحَسَدَ فَاِنَّھُمٰا اَھۡلَکَا الاُمَم السَّالِفَۃَ ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۴۶ )

۴۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : لالچ اور حسد (جلن) سے بچو ، اس لئے کہ ان دونوں بری صفتوں نے گذشتہ امتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

۴۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : یَنۡبَغی لِلرَّجُلِ أنۡ یُوَسِّعَ عَلیٰ عِیٰالِہِ لِئَلا یَتَمنَّوا مَوۡتَہُ ( من لا یحضرہ الفقیہ ، ج ۲ ، ص ۶۸ )

۴۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : مرد کے لئے مناسب اور سزاوار یہ ھے کہ اپنے اھل و عیال کے لئے فراخی اور فارغ البالی کا زیادہ خیال رکھے تاکہ وہ لوگ اس کے مرنے کی تمنا نہ کریں ۔

۴۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ لَمۡ یَشۡکُرِ الۡمُنۡعِمَ مِنَ الۡمَخۡلُوقینَ لَمۡ یَشۡکُرِ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۲۴ )

۴۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو مخلوقات میں نعمت عطا کرنے والے کا شکر گذار نہیں وہ اللہ کا شاکر بندہ نہیں بن سکتا ۔

۴۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلسَّخیَُّ یَأکُلُ مِنۡ طَعٰامِ النّٰاسِ لِیَأکُلُوا مِنۡ طَعٰامِہ وَ الۡبَخِیلُ لاٰ یَأکُلُ مِنۡ طَعٰامِ النّٰاسِ لَئِلا یَأکُلُوا مِنۡ طَعٰامِہِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۱۲ )

۴۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : سخی لوگوں کا کھانا اس لئے کھاتا ھے تاکہ لوگ اس کا کھانا کھائیں اور کنجوس لوگوں کا کھانا اس لئے نہیں کھاتا تاکہ لوگ اس کا کھانا نہ کھائیں ۔

۴۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ عَتَبَ عَلَی الزَّمٰانِ طٰالَتۡ مَعۡتَبَتُہُ (عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۵۳ )

۴۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جس نے زمانے پر عتاب و سرزنش کی کیا اس کا عتاب و سرزنش بڑے طولانی ھوا جائیں گے ۔

۴۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : سٰادَةُ النّٰاسِ فِے الدُّنۡیٰا اَلاَسۡۡخِیٰاءُ وَ سٰادَةُ النّٰاسِ فِے الاٰخِرہِ اَلاَتۡقِیٰاءُ (صحیفۃ الرضا (ع) ، ص ۸۶ )

۴۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : دنیا میں لوگوں کے سردار سخی لوگ ھیں اور آخرت میں لوگوں کے سردار متقی اور پرھیزگار لوگ ھیں ۔

۴۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِصۡبرُوا عَلَی الۡحَقِّ وَ اِنۡ کٰانَ مُرًّا ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۶۸ )

۴۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : حق بات پر صبر کرو اگر چہ حق کڑوا ھے ۔

۴۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَفۡوٰاھُکُمۡ طُرُقٌ مِنۡ طُرقِ رَبِّکُمۡ فَنَظِّفُوھٰا بالسِّوِاکِ (صحیفۃ الرضا (ع) ، ص ۵۴ )

۴۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : تمہارے منہ تمہارے پروردگار کے راستے ھیں ۔ مسواک کے ذریعہ انھیں صاف اور ستھرا رکھو ۔

۴۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لا وَرَعَ اَنۡفَعُ مِنۡ تَجَنّبِ مَحٰارِمِ اللہِ وَ الۡکَفِّ عَنۡ أذَیَ الۡمُؤۡمِنِ (بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۴۸ )

۴۸ ۔ امام رضا علیہ السللام نے فرمایا : کوئی پرھیزگاری محرمات سے بچنے اور مؤمنوں کو اذیت کرنے سے اپنے کو باز رکھنے سے زیادہ مفید نہیں ھے ۔

۴۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ حٰاسَبَ نَفۡسَہُ رَبحَ وَ مَنۡ غَفَلَ عَنۡھٰا خَسِرَ (بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۵۵ )

۴۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جس نے اپنے نفس سے غفلت برتی وہ خسارہ میں رھا ۔

۵۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡعٰامِلُ عَلیٰ غَیۡرِ بَصیرَةٍ کَالسَّائِرِ عَلٰی غَیۡرِ الطَّریقِ لا یَزیدُہُ سُرعۃُ السَّیرِ اِلا بُعدًا عَنِ الطِّرِیقِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۸۱ )

۵۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بغیر بصیرت کے کام کرنے والا بے راہ چلنے والے کے مانند ھے ، تیز رفتاری اس کو صحیح راستے سے اور بھی دور کرتی ھے ۔

۵۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ یُبۡغِضُ رَجُلاً یُدۡخَلُ عَلَیۡہِ فِی بَیۡتِہِ وَ لا یُقٰاتِلُ (عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ص ۲۸ )

۵۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بے شک اللہ عز و جل اس شخص کو دوست نہیں رکھتا جس کے گھر میں اس کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی داخل ھوجائے اور وہ اس سے نہ لڑے ۔

۵۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَا الۡتَقَتۡ فِئَتٰانِ قَطُّ اِلا نُصِرَ اَعۡظَمُھُمٰا عَفۡواً ( تحف العقول ، ص ۵۲۴ )

۵۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : دو گروہ کبھی بھی آپس میں نہیں بھڑے مگر ان میں سے جو بڑا معاف کرنے والا گروہ ھے اللہ نے اس کی مدد کی ۔

۵۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اَرٰادَ اَنۡ یَکُونَ اَعَزَّ النّٰاسِ فَلۡیَتَّقِ اللہَ فی سِرِّہِ وَ عَلانِیَتِہِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۸۱ ) 

۵۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عزیز ھونا چاھتا ھے اس کو چاھیئے کہ ظاھر اور باطن میں اللہ سے ڈرے ۔

۵۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡعَقۡلُ حِبٰآءٌ مِنَ اللہِ وَ الاَدَبُ کُلۡفَۃٌ ( تحف العقول ، ص ۳۴۲ )

۵۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : عقل اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ھے اور ادب زحمت سے حاصل ھوتا ھے ۔  

۵۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلتَّدۡبیرُ قَبۡلَ الۡعَمَلِ یُؤۡمِنُکَ مِنَ النَّدَمِ (عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۵۴ )

۵۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : عمل سے پہلے تدبیر تم کو ندامت اور پشیمانی سے بے خوف کردیتی ھے ۔

۵۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلتَّفَکُّرُ مِرۡاٰتُکُ تُریکَ سَیِّئٰاتِکَ وَ حَسَنٰاتِکَ (فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۸۰ )

۵۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : فکر کرنا تمہارا ایک آئینہ ھے جو تمہیں برائیوں اور اچھائیوں کو دکھاتی ھے ۔

۵۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِنَّ الۡغِنیٰ وَ الۡعِزَّ یَجُولانِ فَاِذٰا ظَفِرٰا بمَوۡضِعٍ التَّوَکُّلِ اَوۡطَنٰا ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۵۸ )

۵۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : دولت اور عزت دونوں گردش کرتی رھتی ھیں جب ان کو توکل کی جگہ مل جاتی ھے تو اسی کو اپنا وطن بنا لیتی ھیں ۔

۵۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡھَدِیَّۃُ تُذۡھِبُ الضَّغٰآئِنَ مِنَ الصُّدُورِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۷۴ )

۵۸ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : ھدیہ (تحفہ) کینے کو دلوں سے دور کرتا ھے ۔

۵۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلتَّوٰاضُعُ اَنۡ تُعۡطِیَ النّٰاسَ مِنۡ نَفۡسِکَ مٰا تُحِبُّ اَنۡ یُعۡطُوکَ مِثۡلَہُ ( مسند الامام الرضا(ع) ، [ج۱] ، ص ۲۷۲

۵۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : تواضع و انکساری یہ ھے کہ تم لوگوں کو اپنی جانب سے وھی چیز عطا کرو جس چیز کو تم ان سے اپنے لئے دوست رکھتے ھو ۔

۶۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مٰا اَخۡلَصَ عَبۡدٌ للہِ عَزَّ وَ جَلَّ اَرۡبَعینَ صَبٰاحاً اِلا جَرَتۡ یَنٰابیعُ الۡحِکۡمَۃِ مِنۡ قَلۡبِہِ عَلیٰ لِسٰانِہِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۶۹ )

۶۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : کسی بندے نے اپنے کو چالیس دن اللہ کے لئے خالص نہیں کیا مگر یہ کہ حکمت کے چشمے اس کے دل سے نکل کر زبان پر جاری ھونے لگے ۔

۶۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اِنَّ الصَّدَقَۃَ تَدۡفَعُ الۡقَضٰاءَ الۡمُبۡرَمَ عَنۡ صٰاحِبہِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۴۷ )

۶۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : یقیناً صدقہ قضائے مبرم کو اس کے دینے والوں سے ٹال دیتا ھے ۔

۶۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اَرٰادَ اَنۡ یَکُونَ اَقۡوَی النّٰاسِ فَلۡیَتَوَکَّلۡ عَلَی اللہِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۵۸ )

۶۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو سب سے زیادہ قوی ھونے کا ارادہ کرے اس کو چاھیئے کہ صرف اللہ پر بھروسہ رکھے ۔

۶۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَکۡمَلُ الۡمُؤمِنینَ اِیمٰاناً اَحۡسَنُھُمۡ خُلۡقاً (جامع الاخبار ، ص ۱۲۵)

۶۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : ایمان کے لحاظ سے سب سے کامل مؤمن وہ ھے جو سب سے اچھے اخلاق کا مالک ھے ۔

۶۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : رَأسُ الۡعَقۡلِ بَعۡدَ الاِیمٰانِ باللہِ اَلتَّوَدُّدُ اِلَی النّٰاسِ وَ اصۡطِنٰاعُ الۡخَیۡرِ اِلیٰ کُلِّ بَرٍّ وَ فٰاجِرٍ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۳۵ )

۶۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : ایمان باللہ کے بعد عقل کی جڑ لوگوں سے دوستی اور ھر اچھے برے کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا ھے ۔

۶۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَسۡرَعُ الذُّنُوبِ عُقُوبَۃً کُفۡرٰانُ النِّعَمِ ( مسند الامام الرضا (ع) ، ج ۱ ، ص ۲۸۰ )

۶۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : سارے گناھوں میں عقوبت کے لحاظ سے سریعتر کفران نعمت ھے ۔

۶۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلصَّفۡحُ الۡجَمیلُ : اَلۡعَفۡوُ مِنۡ غَیۡرِ عِتٰابٍ (چھل حدیث ، ص ۱۲۰ )

۶۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : عمدہ در گذر بغیر سرزنش معاف کردینا ھے ۔

۶۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مِنۡ کُنُوزِ الۡبِرِّ : اِخۡفٰاءُ الۡعَمَلِ وَ الصَّبۡرُ عَلَی الرَّزٰایٰا وَ کِتۡمٰانُ الۡمَصٰائِبِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۳۸ )

۶۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : نیکی کے خزانوں میں سے عمل کا چھپانا اور مصیبتوں پر صبر کرنا اور ظاھر نہ ھونے دینا ھے ۔

۶۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡمُؤۡمِنُ اِذٰا قَدَرَ لَمۡ یَأۡخُذۡ اَکۡثَرَ مِنۡ حَقِّہِ (چھل حدیث ، ص ۱۲۳ )

۶۸ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : مؤمن باوجود قدرت اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتا ۔

۶۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡمُؤۡمِنُ اِذٰا غَضِبَ لَمۡ یُخۡرِجۡہُ غَضَبُہُ مِنۡ حَقٍّ ( چھل حدیث ، ص ۱۲۳)

۶۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : مومن جب غصہ ھوتا ھے تو غصہ اس کو حق کے دائرہ سے باھر نہیں کرتا ۔

۷۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اَصۡبَحَ لا یَھۡتَمُّ بأمۡرِ الۡمُسۡلِمینَ فَلَیۡسَ مِنۡھُمۡ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۶۹ )

۷۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو صبح اس حال میں کرے کہ وہ اصلاح امور مسلمین کا اھتمام نہ کرے تو وہ ان (لوگوں) میں سے نہیں ھے ۔

۷۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡمُسۡلِمُ : الذِّی یَسۡلَمُ الۡمُسۡلِمُونَ مِنۡ لِسٰانِہِ وَ یَدِہ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۲۴ )

۷۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : حقیقی مسلمان وہ ھے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان بھائی محفوظ اور سالم رھتے ھیں ۔

۷۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مٰا ھَلَکَ امۡرُؤٌ عَرَفَ قَدۡرَہُ ( مسند الامام الرضا (ع) ، ج ۱ ، ص ۲۹۳ )

۷۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : وہ انسان جس نے اپنی قدر و منزلت پہچان لی وہ ھلاک نہیں ھوا ۔

۷۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ طَلَبَ الرِّئاسَۃَ لِنَفۡسِہِ ھَلَکَ فَاِنَّ الرِّیٰاسَۃَ لا تَصلُحُ اِلا لاَھۡلِھٰا ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۸۴ )

۷۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو اپنے لئے ریاست کا طالب ھوا ھلاک ھوا ، اس لئے کہ ریاست اس کے لایق ھے جو اس کا اھل ھو ۔

۷۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ طَلَبَ الاَمۡرَ مِنۡ وَجۡھِہِ لَمۡ یَزِلَّ فَاِنۡ زَلَّ لَمۡ تَخۡذُلۡہُ الۡحیلَۃُ ( بحار الانوار ، ج ۷۸ ، ص ۳۵۶ )

۷۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو شخص امور کا انکی راھوں سے طالب ھوگا وہ کبھی نہیں پھسلے گا اور اگر پھسل جائے گا تو حیلہ اور تدبیر اس کی چارۂ جوئی کریں گے ۔

۷۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلسَّخیُّ قَریبٌ مِنَ اللہِ قَریبٌ مِنَ الۡجَنَّۃِ قَریبٌ مِنَ النّٰاسِ ( چھل حدیث ، ص ۱۲۱ )

۷۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : سخی آدمی اللہ سے قریب ھے ، جنت سے قریب ھے ، لوگوں سے قریب ھے ۔

۷۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مِنۡ عَلامَۃِ ایمٰانِ الۡمُؤۡمِنِ کِتۡمٰانُ السِّرِّ وَ الصَّبۡرُ فِی الۡبَأسٰآءِ وَ الضَّرَّاءِ وَ مُدٰارٰةُ النّٰاسِ ( چھل حدیث ، ص ۱۲۴ )

۷۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : مؤمن کے ایمان کی نشانیوں میں سے راز کا چھپانا سختی اور فقر و فاقہ کی حالت میں صبر اور لوگوں کے ساتھ نرمی اور مدارا کرنا ھے ۔

۷۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مِنۡ عَلامٰاتِ الۡفَقیہِ : اَلۡحِلۡمُ وَ الۡعِلۡمُ وَ الصَّمۡتُ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۱ ، ص ۳۵۸ )

۷۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : حقیقی فقیہ کی نشانیوں میں سے برد باری ، علم اور خاموشی ھے ۔

۷۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : بئۡسَ الزَّادُ اِلَی الۡمَعٰادِ الۡعُدۡوٰانُ عَلَی الۡعِبٰادِ ( مسند الامام الرضا (ع) ، ج ۱ ، ص ۲۹۲ )

۷۸ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : روز قیامت کا بدترین توشہ بندوں پر ظلم اور زیادتی کرنا ھے ۔

۷۹ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لَیۡسَ مِنّٰا مَنۡ غَشَّ مُسۡلِمًا اَوۡ ضَرَّہُ اَوۡ مٰا کَرَہُ ( عیون اخبار الرجا (ع) ، ج ۲ ، ص ۲۹ )

۷۹ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : وہ شخص ھم میں سے نہیں جو کسی مسلمان کے ساتھ دغا بازی یا اس کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکا کرے ۔

۸۰ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لَیۡسَ مِنّٰا مَنۡ لَمۡ یَاۡمَنۡ جٰارُہُ بَوٰائِقَۃُ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۲۴ )

۸۰ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : وہ شخص جس کا ھمسایہ (پڑوسی) اس کی تکلیف دہ چھیڑ چھاڑ سے بے خوف نہ ھو وہ ھم میں سے نہیں ۔

۸۱ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لا تَغۡضَبۡ وَ لا تَسۡأَلِ النّٰاسِ شَیۡئًا وَ ارۡضَ لِلنّٰاسِ مٰا تَرۡضیٰ ( مسند الامام الرضا (ع) ، ج ۱ ص ۲۶۷ )

۸۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : غصہ نہ کرو اور لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ اور جو اپنے لئے پسند کرتے ھو وھی لوگوں کے لئے پسند کرو ۔

۸۲ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلۡخَمۡرُ حَرٰامٌ بعَیۡنِہِ وَ الۡمُسۡکِرُ مِنۡ کُلِّ شَرٰابٍ فَمٰا اَسۡکَرَ کَثیرُہُ فَقَلیلُہُ حَرٰامٌ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۲۸۰ )

۸۲ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا شراب اور ھر مست کرنے والی چیز حرام ھے جس کا زیادہ حصہ مست کرے اس کا کم حصہ بھی حرام ھے ۔

۸۳ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : اَلتَّوَدُّدُُ اِلَی النّٰاسِ نِصۡفُ الۡعَقۡلِ ( تحف العقول ، ص ۔ ۵۲ )

۸۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : لوگوں سے دوستی نصف عقل ھے

۸۴ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : صٰاحِبُ النِّعۡمَۃِ یَجِبُ اَنۡ یُوَسِّعُ عَلیٰ عِیٰالِہِ ( تحف العقول ، ص ۵۱۹ )

۸۴ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : صاحب نعمت (توانگر) پر اپنے اھل و عیال کے لئے توسعہ پیدا کرنا (نان و نفقہ ) واجب ھے ۔

۸۵ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : لا یَحِلُّ لِمُسۡلِمٍ اَنۡ یُرَوِّعَ مُسۡلِماً ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۷۱ )

۸۵ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : کسی مسلمان کے لئے کسی دوسرے مسلمان کو ڈرانا جائز نہیں ھے ۔

۸۶ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مَنۡ اَبۡدیٰ ضُرَّہُ اِلَی النّٰاسِ فَضَحَ نَفۡسَہُ عِنۡدَھُمۡ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۶۷ )

۸۶ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو اپنے فقر و فاقہ کا اظہار لوگوں کے سامنے کرے اس نے لوگوں کے نزدیک اپنے کو رسوا کیا ۔

۸۷ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مُجٰالَسَۃُ الاَشۡرٰارِ تُورِثُ سُوۡءَ الظَّنِّ بالاَخۡیٰارِ ( عیون اخبار الرضا (ع) ، ج ۲ ، ص ۵۳ )

۸۷ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بروں کی صحبت اور ھمنشینی نیک لوگوں کے حق میں بدگمانی کا باعث ھے ۔

۸۸ ۔ قال الامام الرضا (علیہ السلام) : مٰا نَزَلَ مِنَ السَّمٰاءِ اَجَلُّ وَ لا اَعَزُّ مِنۡ ثَلاثَۃٍ: اَلتَّسۡلیمِ وَ الۡبرِّ وَ الۡیَقیۡنِ ( فقہ الرضا (ع) ، ص ۳۵۳ )

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : جو کچھ آسمان سے نازل ھوا ھے وہ ان تین چیزوں سے عزیز اور عظیم نہیں ھے تسلیم ، نیکی ، یقین ۔

مسند امام علی رضا علیہ السلام

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

مسند امام علی رضا علیہ السلام

 

(۱) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: من مات ولیس لہ امامٌ من ولدی، ماتَ میتة جاھلیّة، و یُؤخذ بما عمل فی الجاھلیّة والسلام (کنز الفوائد: ۱۵۱، بحار الأنوار ۲۳: ۸۱/ ۱۸ و ۹۲/ ۳۹)

 

(۲) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أنا و ھذا ۔ یعنی علیّاً ۔ یوم القیامة کھاتین ۔ وضمّ بین اصبعیہ ۔ و شیعتُنا معنا، ومن أعان مظلومنا کذلک (بحار الأنوار ۴۰: ۲۶/ ۵۲)

(۲) میں اور یہ یعنی علی ۔قیامت کے دن دونوں کی طرح ہوں گے۔ اشارہ کیا اپنی دو انگلیوں کو ملا کر۔اور ہمارے شیعہ ہمارے ساتھ ہوں گے اور جس نے ہماری راہ میں ظلم اٹھانے والوں کی مدد کی ہے وہ بھی ۔

 

(۳) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن أحبّ أن یتمسّک بالعُروة الوُثقیٰ، فلیتمسّک بحُبّ علیٍّ و أھلِ بیتی (بحار الأنوار ۲۷: ۷۹/ ۱۴)

(۳) جو عروة الوثقیٰ سے متمسک ہونا چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ علی اور میرے اہل بیت کی مدد سے تمسک کرے۔

 

(۴) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: الأئمّة من وُلد الحُسین، مَن أطاعھم فقد أطاعَ اللہَ، ومن عصاھُم فقد عصی اللہَ عزّ وجلّ، ھُمُ العُروة الوثقیٰ، وھُم الوَسِیلة الی اللہ عزّو جلّ (المختصر: ۹۲، ینابیع المودّة ۲: ۳۱۸/ ۹۱۸)

۴۔سارے ائمہ اولاد حسین سے ہوں گے۔ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی نا فرمانی کی ہے وہی لوگ عروة الوثقیٰ اور وہی اللہ تک رسائی کا وسیلہ ہیں۔

 

(۵) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أنتَ یاعلیُّ وولدایَ خیرة اللہ من خلقہ (بحار الأنوار ۲۳: ۱۴۵/ ۱۰۲)

(۵) اے علی! آپ اور میرے دونوں بیٹے اللہ کی مخلوقات میں سے اس کے بر گزیدہ ہو۔

 

(۶) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: خُلِقتُ أنا و علیُّ من نُورٍ واحدٍ (أمالی الصدوق: ۳۰۷/ ۳۵۱، الخصال: ۳۱/ ۱۰۸)

(۶) میں اور علی ایک ہی نور سے خلق ہوئے ہیں۔

 

(۷) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن أحبَّنا ۔ أھلَ البیت ۔ حشرہ اللہُ تعالی آمِناً یومَ القیامة (بحار الأنوار ۲۷: ۷۹/ ۱۵)

(۷) جو ہم۔ اہل بیت سے محبت کرتا ہے خدا اُسے قیامت کے دن ”محفوظ اٹھائے گا“امن وامان کے ساتھ محشور کرے گا۔

 

(۸) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لعلیٍّ: مَن أحبَّکَ کانَ معَ النبیّین فی درجتھم یومَ القیامة، ومَن ماتَ وھو بُیغضُک فلا یُبالی ماتَ یھودیّاً أو نصرانیّاً (ینابیع المودّة ۲: ۲۹۱/ ۸۳۷، بحار الأنوار ۲۷: ۷۹/ ۱۶)

(۸) حضرت علی (ع)سے فر مایا:جو آپ نے محبت کرے گا وہ قیامت کے دن انبیاءکے ساتھ ان درجات میں ہوگا اور جو مرجائے درحالیکہ آپ سے بغض رکھتا ہوتو (اللہ کو)کوئی پرواہ نہیں یہودی مرے یا عیسائی ۔

 

(۹) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ فی قول عزّ وجلّ:(و قفوھم انھم مسؤولون) قال: عن ولایة علیٍّ (الصواعق المحرقة: ۸۹ باب ۱۱ فصل۱)

(۹) اللہ تعالیٰ کے فرمان (وقِفُوھم انھم مسؤولون) کے بارے میں فرمایا:حضرت علی کی ولایت کے سلسلہ میں۔

 

(۱۰) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لعلیٍّ و فاطمة والحسن والحسین علیہم السلام والعبّاس بن عبد المطّلب و عقیل: أنا حربٌ لمن حارَبکم، وسلمٌ لمن سالَمَکم (بحار الأنوار ۲۲: ۲۸۶/ ۵۵)

(۱۰) حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت حسن  اور حضر ت حسین اور عباس بن عبد المطلب اور عقیل سے فرمایا:میں جو تم سے جنگ کرے درپے جنگ ہوں، اور جو تم سے مسالمت سے پیش آئے اس سے مسالمت رکھتاہوں۔

 

(۱۱) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أنت مِنّی، وأنا منکَ (خصائص النسائی: ۸۸ و ۱۲۲ و ۱۵۱ و ۱۵۲)

(۱۱) آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔

 

(۱۲) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: یا علیُّ، أنتَ خیرُ البشرِ لا یشکُّ فیکَ الّا کافِرٌ (فضائل الصحابة ۲: ۵۶۴/ ۹۴۹)

(۱۲) اے علی ! آپ بہترین بشر ہیں جو آپ کے بارے میں شک کرے وہ کافر ہے۔

 

 (۱۳) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: ما زوّجتُ فاطمة الّا لَمّا أمرنی اللہُ بِتزویجھا (بحار الأنوار ۴۳: ۱۰۴/ ۱۶)

(۱۳) میں نے حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی شادی نہیں کی مگر یہ کہ اللہ نے اس امر کا مجھے حکم دے دیا۔

 

(۱۴) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن کُنۡتُ مَولاہُ فَعلیٌّ مَولاہُ، اللھمَّ والِ مَن والاہُ، وعادِ مَن عاداہُ، وأَعِنۡ مَن أعانَہُ، وانۡصُرۡ مَن نَصَرَہُ، واخۡذُلۡ مَن خَذَلَہُ، واخۡذُلۡ عدُوَّہُ، وکُنۡ لَہ ولِوُلدہِ، واخلُفۡہُ فیھم بخیرٍ، وبارِکۡ لَھم فی ما تُعطیھِم، وأیّدۡھُم بِرُوحِ القُدُسِ، واحۡفَظۡھُم حیثُ توجَّھُوا مِن الأرضِ، واجعلۡ الامامة فِیھم، واشکُرۡ مَن أطاعَھُم، وأھۡلِکۡ مَن عَصاھم، انّکَ قریبٌ مجیبٌ (بحار الأنوار ۲۳: ۱۴۵/ ۱۰۳)

۱۴۔میں جس کا مولا ہوں علی (ع)بھی اس کے مولا ہیں پروردگارا! جو علی سے محبت کرے اس کو دوست رکھ اور جو ان سے دشمنی کرے اس سے دشمنی کر، جو ان کا مددگار بن جائے اس کی مدد کر جو ان کی نصرت کرے اس کی نصرت فرما۔جو ان کو نقصان پہنچائے اُسے نقصان پہنچا۔ ان کے دشمن کو گھاٹے میں رکھ،ان کی اور ان کی اولاد کا ہوجا۔ اور ان کی اولاد کو ان کا بہترین جانشین قرار دے۔جو انھیں عطا کرے اس میں ان کے لئے برکت کا باعث ہو ان کی روح القدس کے ذریعہ تائید فرما۔ روئے زمین کے جس حصہ پر بھی وہ سفر کریں ان کی حفاظت فرما منصب امامت انھیں قرار دے، جو اُن کا مطیع بن جائے اس کی قدردانی کر اور جوان کا نافرمان بن جائے اس کو ہلاک فرما، تو ہی قریب اور مجیب ہے۔

 

(۱۵) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: علیٌّ أوّلُ مَن اتّبعَنِی، وھوَ اوَّلُ مَن یُصافِحُنی بعدَ المَوتِ (أُسد الغابة ۵: ۲۸۷، الاصابة ۷: ۲۹۴)

(۱۵) علی وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے میری پیروی کی، اور وہی وہ پہلے انسان ہوں گے جو مرنے کے بعد مجھ سے سب سے پہلے مصافحہ کریں گے۔

 

(۱۶) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: یا علیُّ، أنتَ تُبۡریٔ ذِمَّتی، وأنتَ خَلیفَتِی علی أُمَّتِی (غیبة الطوسی: ۱۵۰/ ۱۱۱)

(۱۶) اے علی! آپ ہی میرے ذمہ (قرضوں) کو ادا کریں گے۔ اور آپ ہی میری امت پر میرے خلیفہ ہیں۔

 

(۱۷) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: لا تقومُ الساعة حتّی یقومَ قائمٌ لِلحقِّ مِنّا، و ذلکَ حینَ یأذنُ اللہُ عزّ وجلّ لَہُ، مَن تَبِعَہ نَجا، ومَن تَخَلَّفَ عنہُ ھَلَکَ، اللہَ اللہَ عبادَ اللہِ فأتُوہُ ولو حَبۡوَاً علی الثَلۡجِ، فانّہُ خلیفة اللہِ عزّ وجلّ و خلیفتی (کفایة الأثر: ۱۰۶، دلائل الامامة: ۴۵۲/ ۴۲۸)

(۱۷) قیامت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہم اہل بیت میں سے حق کا علم لہرانے والا قیام نہ کرلے۔اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب اللہ کی طرف سے اسے اِذن مل جائے۔پس جو اس کی پیروی کرے گا نجات پا جائے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔ خدا کے لئے خدا کے لئے اے بندگان خدا! اس کے پاس چلے جانا چاہئے برف پر کھسک کھسک کے چلنا کیوں نہ پڑے اس لئے کہ وہی اللہ کا خلیفہ اور میرا جانشین ہے۔

 

(۱۸) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وھو آخِذٌ بِیَدِ علیٍّ علیہ السلام: مَن زَعَمَ انّہُ یُحِبُّنی ولا یُحِبُّ ھذا فَقَدۡ کَذِبَ (شواھد التنزیل ۲: ۳۵۸/ ۱۰۰۵)

(۱۸) حضرت علی کا ہاتھ تھامے ہوئے فرمایا:جس کا گمان ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور ان سے (حضرت علی ) کو دوست نہیں رکھتا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔

 

(۱۹) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: تُوضَعُ یومَ القیامة منابرُ حولَ العرشِ لِشیعتی و شیعة أھلِ بَیتی المُخلصین فی ولایتنا، و یقولُ اللہُ عزّ وجلّ: ھَلُمُّوا یا عبادی الیَّ لأنشرنّ علیکم کَرامتی فقدۡ أُوذِیتُمۡ فی الدُنیا (احقا الحقّ ۹: ۴۵۹، ۶: ۱۶۴ باب ۷۶)

(۱۹) بروز قیامت عرش کے پاس میرے اور میرے اہل بیت کی ولایت میں مخلص شیعوں کے لئے بہت سے منبر رکھے جائیں گے اور آواز قدرت آئے گی ۔ اے میرے بندوں میرے پاس آو تاکہ میں تمہارے اوپر اپنی رحمت وکرامت کا پر چم پھیلادوں۔ یقینا تم نے دنیا میں بڑی اذیتیں برداشت کی ہیں۔

 

(۲۰) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: خُلِقتَ یاعلیُّ من شجرة خُلِقتُ مِنھا، أنا اصلُھا، وأنتَ فرعُھا، والحسنُ والحسینُ أغضانُھا، و مُحبُّونا ورقُھا، فمَن تعلّقَ بشیءٍ مِنھا أَدۡخَلَہُ اللہُ عزّ وجلّ الجنّة (ینابیع المودّة ۱: ۲۷۰/ ۵، شواھد التنزیل ۲: ۲۰۳/ ۸۳۷)

(۲۰) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:اے علی! آپ اسی درخت سے خلق ہوئے ہیں جس سے میں خلق ہوا ہوں میں اُس کی جڑ ہوں اور تم اس کا تنا ہو، حسن وحسین اس کی شاخیں ہیں اور ہمارے محب اس کے پتے ہیں پس جو بھی اس درخت کے کسی بھی حصہ سے وابستہ ہو جائے گا اللہ اُسے جنت میں داخل کردے گا۔

 

(۲۱) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: لا یُبغضُکَ من الأنصار الّا مَن کانَ اصلُہُ یھودیّاً (مودّة القربی ص۹۱ طبع لاھور)

(۲۱) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:انصار میں سے کوئی بھی آپ سے دشمنی نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کی اصلیت یہودی ہوگی۔

 

(۲۲) قال علیٌّ علیہ السلام: انّہُ لَعَھۡدُ النبیّ الأُمّیِّ الیَّ: انّہُ لا یُحبُّنی الّا مؤمنٌ، ولا یُبغضُنی الّا مُنافقٌ (صحیح مسلم ۱: ۶۱ کتب الایمان)

(۲۲) قال علی علیہ السلام:نبی اُمیِّ نے مجھے عہد وپیمان دیا ہے کہ:مجھ سے سوائے مومن کوئی محبت نہیں کرے گا اور مجھ سے سوائے منافق کے کوئی دشمنی نہیں کرے گا۔

 

(۲۳) قال صلی اللہ علیہ وآلہ: لا یَحِلُّ لأحدٍ یُجنبُ فی ھذا لمسجدِ الّا أنا و علیٌّ و فاطمة والحسنُ والحسینُ، ومَن کانَ مِن أھلی فانّھم مِنّی (مجمع الزوائد ۹: ۱۱۵، کنز العمّال ۱۱: ۵۹۹/ ۳۲۸۸۵ و ۶۲۶/ ۳۳۰۵۱)

(۲۳) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: کسی کے لئے بھی اس مسجد(مسجد النبی)میں محتلم ہونا جائز نہیں ہے سوائے میرے اور علی و فاطمہ و حسن وحسین کے۔ اور جو لوگ بھی میرے اہل بیت سے ہیں وہ مجھ سے ہیں۔

 

(۲۴) قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ: لا یَرَیٰ عَورتی غیرُ علیٍّ الّا کافِرٌ (بحار الأنوار ۴۰: ۲۶/ ۵۲)

(۲۴) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:علی کے علاوہ کوئی بھی میری شرمگاہ نہیں دیکھے گا مگر کافر۔

 

(۲۵) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: تَرِدُ شیعتُکَ یومَ القیامة رُواءٍ غیرَ عِطاشٍ، ویَرِدُ عدوُّکَ عِطاشیٰ یستسقُونَ فلا یُسۡقَونَ (بحار الأنوار ۶۸: ۱۹/ ۳۱)

(۲۵) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: (اے علی) آپ کے شیعہ بروز قیامت سیراب وارد محشر ہوں گے اور آپ کے دشمن پیاسے وارد محشر ہوں گے وہ ہر کسی سے پانی مانگیں گے لیکن انھیں پانی نہیں ملے گا۔

 

(۲۶) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: بُغۡضُ علیٍّ کُفۡرٌ، و بُغۡضُ بنی ھاشم نِفَاقٌ (ینابیع المودّة ۲: ۲۷۳/ ۷۸۰)

(۲۶) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: علی سے بغض و عداوت کفر ہے اور بنی ہاشم سے دشمنی وکنیہ، نفاق ہے۔

 

(۲۷) قال علیٌّ علیہ السلام: دعا لیَ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ فقال: اللھمّ اھۡدِ قَلبَہُ، واشرحۡ صَدۡرَہُ، وثَبِّتۡ لِسانَہُ، وقِہِ الحَرَّ والبَرۡدَ (بحار الأنوار ۴۰: ۲۶/ ۵۲)

(۲۷) قال علی علیہ السلام: پیغمبر خدا نے مجھے طلب کیا اور فرمایا:بار الٰہا ! ان کے دل کو ہدایت یافتہ ، سینہ کو کشادہ زبان کو پائیدار بنادے اور انھیں گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ۔

 

(۲۸) قال علیٌّ علیہ السلام: أُمرتُ بِقِتالِ الناکِثینَ والقاسِطِینَ والمارِقِینَ (مستدرک الحاکم ۳: ۱۳۹، البدایة والنھایة ۷: ۳۳۸۔ ۳۴۰۔

(۲۸) قال علی علیہ السلام:مجھے، ناکثین(بیعت توڑنے والے عائشہ ، طلحہ، زبیر اور جمل والوں سے)اور قاسطین (صفین میں آنے والے معاویہ، عمر عاص اور ان کے لشکریوں سے)اور مارقین(حرقوص اور خوارج سے)جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

 

(۲۹) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِن جُبّ الحزن (نیل الأوطار ۸: ۳۵، سنن ابن ماجة ۱: ۹۴/ ۲۵۶)

(۲۹) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: غم واندوہ کے کنوؤں سے اللہ کی پناہ حاصل کرو۔

 

(۳۰) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: لا یُؤَدِّی عَنّی الّا علیٌّ ولا یَقضی عِداتِی الّا علیٌّ (بحار الأنوار ۴۰: ۲۶/ ۵۲)

(۳۰) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: میری جانب سے میرے (پیغام )کو سوائے علی کے کوئی نہیں پہنچا سکتا میرے قرضوں اور وعدوں(ذمہ داریوں)کو سوائے علی کے کوئی ادا نہیں کر سکتا۔

 

(۳۱) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ أنّہ قال لِبَنی ھاشم: أنۡتُم المُستضۡعَفُونَ بَعدِی (المعجم الکبیر ۲۵: ۲۳،الطبقات الکبریٰ ۸: ۲۷۸)

(۳۱) عن النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: آنحضرت نے بنی ہاشم کو مخاطب کرکے فرمایا:تم میرے بعد کمزور کردیئے جاؤگے۔

 

(۳۲) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: خیرُ مالِ المرءِ و ذخائِرِہِ الصَدَقَة (وسائل الشیعة ۹: ۳۷۱/ ۱۲۲۶۵)

(۳۲) عن النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کا صدقہ دینے سے معاف کر دیا ہے۔

 

(۳۳) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ قال: عفوتُ لکُم عن صَدَقَة الخَیۡلِ والرَقِیقِ (مسند أحمد ۱: ۹۲ و ۱۱۳ و ۱۲۱ و ۱۴۵ و ۱۴۶)

(۳۳) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:انسان کا بہترین مال اور اچھا ذخیرہ،  صدقہ ہے۔

 

(۳۴) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ انّہ قال: خیرُ اِخۡوانِی علیٌّ، وخیرُ أَعۡمامِی حمزة، والعبّاسُ صِنۡوُ أَبِی (بحار الأنوار ۲۲: ۲۷۴/ ۱۹ و ۲۸۶/ ۵۶)

(۳۴) عن النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: میرے سب سے اچھی بھائی علی ہیں اور میرے سب سے اچھے چچا حمزہ ہیں اور عباس میرے باپ کے برادر تنی ہیں۔

 

(۳۵) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ قال: الاثنانُ وما فوقَھما جماعة (سنن ابن ماجة ۱: ۳۱۲/ ۹۷۲، سنن الدار قطنی ۱: ۲۸۰/ ۱)

(۳۵) عن النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: دواور اس سے زیادہ پوری جماعت ہے۔

 

(۳۶) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ قال: المُؤذِّنُون أطولُ الناسِ أعۡناقاً یومَ القِیامة (صحیح ابن حبّان ۴: ۵۵۵۔ ۵۵۸)

(۳۶) عن النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: اذان دینے والے لوگ قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی گردن والے ہوں گے۔

 

(۳۷) عن النبیّ صلوات اللہ علیھما أنّہ قال: المُؤمِنُ یَنظُرُ بِنُورِ اللہِ (المبسوط / السرخی ۱: ۸۵ و ۲۱۹، ۱۰: ۱۸۶)

(۳۷) مومن نور خدا سے دیکھتا ہے۔

 

(۳۸) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ قال: باکِرُوا بِالصَدَقَة، فَمن باکَرَ بِھا لم یَتَخَطّاہُ البَلاءُ (بحار الأنوار ۹۶: ۱۷۷/ ۷)

(۳۸) دن کا آغاز صدقہ سے کرو، جو دن کا آغاز صدقہ سے کرے گا اس کے پاس بلائیں نہیں آئیں گی۔

 

(۳۹) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: الحسنُ والحسنُ خیرُ أھلِ الأرضِ بَعدی و بعدَ أَبیھِما، وأُمُّھُما أفضلُ نِساءِ أھلِ الأرضِ (بحار الأنوار ۲۶: ۲۷۲/ ۱۴، ۴۳: ۱۹/ ۵ و ۲۶۴/ ۱۵)

(۳۹) حسن اور حسین میرے اور اپنے باپ کے بعد روئے زمین کے بہترین انسان ہیں اور ان کی ماں روئے زمین کی تمام عورتوں سے افضل ہیں۔

 

(۴۰) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ قال: خیرُ نِساءِ رَکِبۡنَ الاِبِلِ نِساءُ قُریشٍ، أَحۡناھُنَّ [علی وَلَدٍ، وأزۡعاھُنَّ] علی زَوۡجٍ (صحیح مسلم ۷: ۱۸۲، مسند أحمد ۱: ۳۱۹، ۲: ۲۶۹)

(۴۰) اونٹوں پر سواری کرنے والی عورتوں میں سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں جو بچوں پر سب سے زیادہ مہربان اور شوہر کے حال کی سب سے زیادہ رعایت کرنے والی ہوتی ہیں۔

 

(۴۱) عن النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ قال: مَن جاءَکُم یُریدُ أنۡ یُفَرِّقَ الجماعة ویَغۡصبَ الأُمّة أمرَھا وَ یَتَوَلّی مِن غیرِ مَشۡوَرَة؛ فاقتُلُوہُ، فانَّ اللہَ عزّ وجلّ قد أَذِنَ [فی] ذلک (بحار الأنوار ۲۹: ۴۳۴/ ۲۱)

(۴۱) جو تمہارے پاس آئے جماعت میں تفرقہ اندازی کرنے کے لئے امر امت کو غصب کرنے کے لئے اور ان کے امور کو بغیر مشورہ لئے ہوئے تو ایسے شخص کو قتل کردو ۔ اس لئے کہ اللہ نے ایسے انسان کے قتل کی اجازت دے رکھی ہے۔

 

(۴۲) عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ قال: نزلتۡ ھذہ الآیة: (الّذِینَ یُنفِقُونَ أمۡوَالَھُمۡ بِاللَّیۡلِ وَالنَّھَارِ سِرّاً وَ عَلَانِیَة) (۴۳) فی علیٍّ (سورہ البقرة ۲: ۲۷۴۔ (المناقب لابن المغازلی: ۲۸۰/ ۳۲۵، تفسیر الکشّاف ۱: ۳۹۸)

(۴۲) یہ آیت کریمہ (الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار سراً وعلانیةً)”وہ لوگ جو کہ اپنے اموال کو رات اور دن میں خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں“حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

 

(۴۳) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ فی قولہ عزّ وجلّ: (وَتَعِیَھَا أُذُنٌ وَاعِیَة) قال: دعوت اللہ ان یجعلھا اذنک یاعلی (فتح القدیر ۵: ۲۸۲، تفسیر القرطبی ۱۸: ۲۶۴)

(۴۳) اللہ تعالیٰ کے اس قول(وَتعِیَھاَ اُذُن وَاعِیَة)اور اُسے سمجھدار کان ہی سمجھتا ہے“کے بارے میں کہ جناب رسول خدا (ص) کا فرمان ہے کہ”میں نے اللہ سے درخواست کی کہ اے علی وہ کان آپ کا کان قرار دے۔

 

(۴۴) علیّ علیہ السلام قال: ما رأیتُ أحداً أَبۡعَدَ ما بینَ المِنۡکَبَیۡنِ من رسولِ اللہِ (صحیح البخاری ۴: ۱۶۵، صحیح مسلم ۷: ۸۳)

(۴۴) میں نے رسول خدا (ص) سے زیادہ کسی کو اتنا کشادہ کاندھے والا شخص نہیں دیکھا ہے۔

 

(۴۵) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: أوّلُ ما یُسأَلُ عنہُ العبدُ حُبّنا أھلَ البیتِ (بحار الأنوار ۷: ۲۶۰/ ۸، ۲۷: ۷۹/ ۱۸)

(۴۵) بندے سے سب سے پہلا سوال ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں ہوگا۔

 

(۴۶) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: انّی تارکٌ فِیکُم الثقلَیۡنِ، کتابَ اللہِ، وعِترتِی، ولَن یَفۡتَرِقا حتّی یَرِدا علیَّ الحوضَ (مستدرک الحاکم ۳: ۱۴۸، سنن الترمذی ۵: ۶۶۲/ ۳۷۸۶)

(۴۶) میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہاہوں اللہ کی کتاب اور میری عترت ، اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہوں گے یہاں تک دونوں میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں۔

 

(۴۷) علیّ علیہ السلام قال: کان النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ یُضَحِّی بِکَبۡشینِ أَمۡلَحَیۡنِ أَقۡرنِیۡنَ (صحیح البخاری ۲: ۱۸۵، سنن النسائی ۷: ۲۲۰)

(۴۷) حضرت رسول خدا (ص) ایسے دو بھیڑ وں کی قربانی کیا کرتے تھے جو پرُچرب(صحت مند)اور سینگ والے ہوتے تھے۔

 

(۴۸) علیّ علیہ السلام قال: دعا لیَ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ أَنۡ یَقِیۡنِیَ اللہُ عزّ وجلّ الحَرَّ والبَرۡدَ (بحار الأنوار ۴۰: ۷۱/ ۱۰۷)

(۴۸) حضرت علیں فرماتے ہیں:جناب رسول خدا (ص) نے میرے لئے دعا فرمائی ہے کہ اللہ مجھے گرمی و سردی سے محفوظ رکھے۔

 

(۴۹) علیّ علیہ السلام قال: أنا عبدُ اللہِ وأخُو رسولِہِ، لا یقولُھا بَعدی الّا کذّابٌ (تاریخ الطبری ۲: ۵۶، البدایة والنھایة ۳: ۳۶، ۷: ۳۷۱)

(۴۹) حضرت علی (ع):میں بندہ


¿ خدا اور برادر رسول خدا (ص) ہوں۔اور یہ بات میرے بعد سوائے کذّاب کے اور کوئی نہیں کہے گا۔

 

(۵۰) قال لیَ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: فیکَ مَثَلٌ مِن عِیسیٰ أحبّہُ النصاریٰ حتّی کَفَرُوا فی حُبِّہِ، وأَبۡغَضَہُ الیھودُ حَتّی کَفَرُوا فی بُغۡضِہِ (بحار الأنوار ۳۵: ۳۱۹/ ۱۵، ۳۹: ۳۰۲/ ۱۱۳)

(۵۰) حضرت علی (ع): مجھ سے رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:تمہارے اندر حضرت عیسیٰ کی مثال موجود ہے کہ انھیں نصاریٰ نے اس قدر چاہا کہ ان کی محبت میں کفر کر بیٹھے اور ان سے یہودیوں نے اس حدتک دشمنی کی کہ ان کی دشمنی میں کفر کر بیٹھے۔

 

(۵۱) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: انّ فاطمة أَحۡصَنَتۡ فرجَھا، فحرّمَ اللہُ ذُرِّیَتَھا علی النارِ (فیض القدیر ۲: ۵۸۷)

۵۱۔رسول خدا (ص):حضرت فاطمہ زہرا نے اپنا دامن پاک رکھا اس لئے اللہ نے ان کی ذریت پر آتش جہنم کو حرام قرار دیا ہے۔

 

(۵۲) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: مُحِبُّکَ مُحِبّی، ومُبۡغِضُکَ مُبۡغِضِی (تاریخ دمشق ۴۲: ۲۶۹ و کشف الخفاء ۲: ۳۸۴/ ۳۱۹۰)

۵۲۔رسول خدا (ص):(اے علیں!)تمہارا دوست میرا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے۔

 

(۵۳) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: لا یُحِبُّ علیّاً الّا مُؤمِنٌ، ولا یُبۡغِضُہُ الّا کافِرٌ (المعجم الکبیر ۲۳: ۳۷۵، کنز العمال ۱۱: ۶۲۲/ ۳۳۰۲۹)

۵۳۔رسول خدا (ص):علی کو سوائے مومن کے کوئی دوست نہیں رکھے گا اور ان سے سوائے کافر کے کوئی بغض نہیں رکھے گا ۔

(۵۴) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: الناسُ من أشجار شَتَّی، وأَنا وأَنتَ یا علیُّ من شجرة واحدة (تاریخ دمشق ۴۲: ۶۵، مجمع الزوائد ۹: ۱۰۰)

۵۴۔ رسول خدا (ص):لوگ مختلف شجروں سے ہیں اور میں اور تم اے علی! ایک ہی درخت سے ہیں۔

 

(۵۵) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: انّ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ یَتَخَتَّمُ فی یَمِینِہِ (البدایة والنھایة ۱۰: ۱۲۹، الکافی ۶: ۴۶۹/ ۱۱)

۵۵۔حضرت علی (ع):جناب رسول خدا (ص) اپنے داہنے ہاتھ میں انگشتری پہنا کرتے تھے۔

 

(۵۶) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: تَقۡتُلُ عَمّاراً الفِئَة الباغِیَة (المصنف لابن أبی شیبة ۸: ۷۲۸/ ۳۹ و ۴۰)

۵۶۔رسول خدا (ص):عمار کو سرکش گروہ قتل کرے گا۔

 

(۵۷) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن تَوَلَّی غیرَ مَوالِیہِ فَعَلَیہِ لعنة اللہِ والملائکة والناسِ أجمعینَ (مسند أحمد ۱: ۸۱ و ۳۲۸، ۴: ۱۸۷ و ۲۳۸، ۵: ۲۶۷) 

۵۷۔رسول خدا (ص):جواپنے آقاو


¿ں کوچھوڑ کر دوسروں کو اپنا مولیٰ و آقا بنالے اس کے اوپر اللہ ،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

 

(۵۸) قال: نھی النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ عن وَطۡیِٔ الحُبالَیٰ حَتّی یَضَعۡنَ (مسند أحمد ۴: ۱۰۸، المصنّف لابن أبی شیبة ۳: ۴۳۷/ ۱۲) 

۵۸۔حضرت علی (ع):رسول خدا (ص) نے حاملہ عورتوں کے ساتھ وضع حمل کرنے تک مباشرت کرنے سے منع کیا ہے۔

 

(۵۹) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: الأئمّة مِن قُریشٍ (مسند الطیالسی: ۱۲۵، مصنف ابن أبی شیبة ۷: ۵۴۵/ ۸)

۵۹۔رسول اسلام (ص):ائمہ قریش سے ہوں گے۔

 

(۶۰) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن کانَ آخِرُ کلامِہِ الصلاة علیّ و علیٍّ علیّ دَخَلَ الجنّة (الریاض النضرة ۲: ۱۶۰، ۱۷: ۱۸۲)

۶۰۔رسول خدا (ص):جس شخص کا آخری کلام مجھ پر اور علی(ع)پر درود بھیجنا ہوگا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔

 

(۶۱) عن علیّ علیہ السلام قال: انّکُم سَتُعۡرِضُونَ عَلی البَراءَةِ مِنّی فلا تَتَبَرءُوا مِنّی، فانِّیَ عَلی دِیۡنِ مُحمٍّد صلی اللہ علیہ وآلہ (کنز العمال ۵: ۷۸۰/ ۱۴۳۶۸)

۶۱۔حضرت علی (ع):تم لوگوں کو مجھ سے برأت جوئی پر مجبور کیا جائے گا۔ دیکھو مجھ سے برأت نہ کرنا اس لئے کہ میں دین محمد پر ہوں۔

 

(۶۲) عن علیّ علیہ السلام قال: لَقَدۡ عَلِمَ المُستحفظُون من أصحاب مُحمّدٍ أَنَّ أَھۡلَ صِفِّینَ قد لَعَنَھُم اللہُ علی لِسانِ نَبِیِّہِ، وقد خابَ مَن افۡتَرَیٰ (بحار الأنوار ۳: ۱۶۲/ ۴۲۷)

۶۲۔حضرت علی (ع):اصحاب محمد میں صاحبان اسرار اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصحا ب صفین پر اللہ نے اپنے رسول کی زبانی لعنت کی ہے اور تہمت باندھنے والا یقینا گھاٹے میں ہے۔

 

(۶۳) عن علیّ علیہ السلام قال: قال لیَ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: ما سَلَکۡتَ طَرِیقاً ولا فجّاً الّا سَلَکَ الشیطانُ غیرَ طرِیقِکَ وفَجِّکَ (بحار الأنوار ۴۰: ۲۷/ ۵۲)

۶۳۔حضرت علی (ع):مجھ سے رسول خدا (ص) نے فرمایاہے کہ:تم کسی بھی راستے یا وادی کو اپناو


¿گے تو شیطان تمہارے راستے اور وادی کے بر خلاف راستے کو اپنائے گا۔

 

(۶۴) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: یَقۡتُلُ الحسینَ شرُّ الأُمّةِ، ویَتَبَرّأُ مِن وُلۡدِہِ مَن یَکۡفُرُ بِیَ (ینابیع المودة ۲: ۳۲۸/ ۹۶۰)

۶۴۔رسول خدا (ص):حسین (ع)کو امت کا بد ترین شخص قتل کرے گا۔ اور ذریت حسین (ع) سے وہی برأت کرے گا جو میر ا منکر ہوگا ۔

 

(۶۵) حدثنا محمد بن عمر الحافظ، قال: حدّثنا الحسن بن عبد اللہ التمیمی، قال: حدّثنی أبی، قال: حدّثنی سیّدی علیُّ بن موسی الرضا علیھما السلام عن أبیہ؛ موسی ابن جعفر، عن أبیہ؛ جعفر بن محمّد، عن أبیہ؛ محمّد بن علیّ، عن أبیہ علیّ بن الحسین، عن أبیہ الحسین، عن أمہ فاطمة بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ أنّ النبیّ علیہِ الصلاةُ والسلامُ قال لعلیٍّ علیہ السلام: مَنۡ کُنۡتُ وَلیَّہُ فعلیُّ وَلِیُّہُ، ومَن کُنۡتُ امامَہُ فعلیُّ امامُہُ (ینابیع المودة ۲: ۳۸۶/ ۹۶۰)

(۶۵) فاطمہ زہر ا (ع):رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کے لئے فرمایا ہے کہ: جس کا میں مولیٰ و آقا ہوں علی بھی اس کے مولیٰ وآقا ہیں اور جس کامیں امام ہوں علی بھی اس کے امام ہیں۔

 

(۶۶) عن علیّ علیہ السلام قال: دَفَعَ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ الرایةَ یومَ خَیبر الیّ فما بَرِحۡتُ حَتّی فَتَحَ اللہُ علی یَدِیَ (بحار الأنوار ۲۱: ۱۳/ ۹)

(۶۶) حضرت علی (ع):خیبر کے دن علم کو رسول خدا (ص) نے میرے حوالے کیا۔ میں نہیں پلٹا مگر یہ کہ اللہ نے میرے ہاتھوں فتح دلائی ۔

 

(۶۷) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: أُمرتُ أن أُقاتلَ الناسَ حتّی یقولوا: لا الہ الّا اللہُ، فاذا قالوھا فقدۡ حُرِّمَ عَلیَّ دماؤُھم وأموالُھم (سنن الدار قطنی۱: ۲۳۸، سنن الدارمی ۲: ۲۱۸)

(۶۷) رسول خدا (ص):مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں تاکہ وہ ”لا الہ الا اللہ“کہنے لگیں۔ پس جب وہ یہ جملہ کہہ دیں گے تو ان کا خون ومال مجھ پر حرام ہو جائے گا۔

 

(۶۸) عن علیّ علیہ السلام، قال: ما شبع النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ من خبز بُرّ ثلاثة أیّام حتّی مضی لسبیلہ (تفسیر القرطبی ۱: ۴۲۷، و کنز العمال ۷: ۱۸۷/ ۱۸۶۰۵)

(۶۸) حضرت علی(ع):رسول خدا(ص) نے کبھی گندم کی روٹی تین دن تک سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ اپنی راہ چل بسے۔

 

(۶۹) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: سلمانُ مِنّا أھلَ البَیۡتِ (المعجم الکبیر ۶: ۲۱۳، الطبقات الکبریٰ ۴: ۸۳ و ۷: ۳۱۹)

(۶۹) رسول خدا (ص):سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔

 

(۷۰) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: أبُوذَرّ صِدّیقُ ھذہِ الأُمّةِ (بحار الأنوار ۲۲: ۴۰۵/ ۱۷)

(۷۰) رسول خدا (ص):ابوذر اس امت کے صدیق ہیں۔

 

(۷۱) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن قتلَ حَیَّةً فقدۡ قتلَ کافِراً (بحار الأنوار ۶۴: ۲۶۷/ ۱۲۲)

(۷۱) رسول خدا (ص):جس نے ایک سانپ کو مارا گویا اس نے ایک کافر کو قتل کر دیا ہے۔

 

(۷۲) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: یا علیُّ لاتُتۡبع النَظۡرَةَ النَظۡرَةَ، فلیسَ لَکَ الّا أوّلُ نَظۡرةٍ (

(۷۲) رسول خدا (ص):اے علی!مسلسل (نامحرم پر)نظر پر نظر نہ کرتے رہو کیونکہ تمہارے لئے صرف پہلی نظر کی اجازت ہے اور بس۔

 

(۷۳) عن علیّ علیہ السلام قال: اِنَّ النبیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ لمّا وَجَّھَنی الی الیَمنِ قال: اِذا تُحُوکِمَ الیکَ فلا تحکُمۡ لأحدِ الخَصۡمَینِ دُونَ أَنۡ تَسمَعَ مِن الآخَرِ

قال: فما شککت فی قضاءٍ بعد ذلک (مستدرک الوسائل ۱۷:۳۵۱)

(۷۳) حضرت علی (ع):رسول خدا (ص) نے جس وقت مجھے یمن روانہ فرمایاتو آپ نے ارشاد فرمایاکہ:جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہوتو دوسرے شخص کی بھی بات سنے بغیر فیصلہ نہ سنانا، حضرت علی فرماتے ہیں کہ:اس روز کے بعد میں نے کبھی بھی کسی فیصلہ میں شک وتردید نہیں کیا۔

 

(۷۴) عن علیّ علیہ السلام قال: لَعَنَ اللہُ الذینَ یُجادِلُونَ فی دِینِہِ، أُولئکَ ملعُونُونَ علی لِسانِ نَبِیِّہِ صلی اللہ علیہ وآلہ (بحار الأنوار ۲: ۱۲۹/ ۱۳)

(۷۴) حضرت علی (ع):خدا کی ان لوگوں پر لعنت ہو جو اس کے دین میں جدال کرتے ہیں یہی لوگ اللہ کے رسول کی بھی زبان پر ملعون ہیں۔

 

(۷۵) عن علیّ علیہ السلام قال: وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (فی نزلت) (بحار الأنوار ۳۵: ۳۳۵/ ۱۴)

(۷۵) حضرت علی (ع):﴾والسابقون السابقون﴿میری شان میں نازل ہوئی ہے۔

 

(۷۶) عن علیّ علیہ السلام قال: أُوۡلَئِکَ ھُمۡ الۡوَارِثُونَ الَّذِینَ یَرِثُونَ الۡفِرۡدَوۡسَ ھُمۡ فِیھَا خَالِدُونَ (فِیَّ نَزَلَتۡ) (بحار الأنوار ۳۵: ۳۳۵/ ۱۴)

(۷۶) حضرت علی (ع):﴾اولئک﴿میری شان میں نازل ہوئی ہے ۔

 

(۷۷) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن قَرَأَ آیَۃَ الکُرسِیّ مائۃَ مرّۃً کانَ کَمَن عَبَدَ اللہَ طُولَ حَیاتِہِ (بحار الأنوار ۹۲: ۲۶۳/ ۵) 

(۷۷) رسول گرامی (ص):جو شخص آیت کرسی کو سوبار تلاوت کرے گویا اس نے اپنی پوری عمر بھر اللہ کی عبادت کی ہے۔

 

(۷۸) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: خیرُکُم مَن أَطابَ الکلامَ، وأَطۡعَمَ الطَعامَ، وصَلَّی بِاللیلِ والناسُ نِیامٌ (بحار الأنوار ۷۴: ۳۸۳/ ۹۳، ۸۷: ۱۴۲/ ۱۴)

(۷۸) رسول خدا (ص):تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اچھی بات کرتا ہے، کھانا کھلاتا ہے اور رات کو جب سب سوتے ہوتے ہیں تو وہ نماز شب پڑھتا ہے۔

 

(۷۹) عن علیٍّ علیہ السلام انّہ ذکر الکُوفَۃَ، فقال: یُدۡفَعُ عَنھا البلاءُ کَما یُدۡفَعُ عن أَخۡبِیَۃِ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ (بحار الأنوار ۱۰۰: ۳۹۲/ ۲۲)

(۷۹) حضرت علی (ع):کے سامنے کوفہ کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا:کوفہ سے اُسی طرح بلائیں ٹلتی رہتی ہیں جس طرح نبی کے خیموں سے ٹلتی تھیں۔

 

(۸۰) عن علیٍّ علیہ السلام قال:مَن کَذَّبَ بِشفاعَۃِ رَسولِ اللہِ لم تَنَلۡہُ (بحار الأنوار ۸: ۴۰/ ۲۵)

(۸۰) حضرت علی (ع):جو رسول خدا (ص) کی شفاعت کی تکذیب کرگا اُسے شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔

 

(۸۱) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: لا تَذۡھَبُ الدُنیا حتّی یَقُومَ [بِأَمرِ أُمَّتی] رَجُلٌ مِن وُلۡدِ الحُسینِ یَمۡلأُھا عَدۡلاً کَما مُلِئَتۡ ظُلۡماً وجَوۡراً (کفایۃ الأثر: ۹۷، دلائل الامامۃ: ۴۵۳/ ۴۲۹)

(۸۱) رسول خدا (ص):دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کی باگ ڈور ذریت حسین (ع)سے ایک مرد سنبھال لے جو دنیا کو عدل وانصاف سے اُسی طرح پر کر دے گا جس طرح ، وہ ظلم و ستم سے پُر ہوچکی ہوگی۔

 

(۸۲) عن علیّ علیہ السلام أنّہ شَرِبَ قَائِماً و قال: ھٰکذا رَأَیۡتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ فَعَلَ (صحیح مسلم/ بشرح النووی ۳: ۱۹۵) 

(۸۲) حضرت علی (ع):نے کھڑے کھڑے پانی پیکر فرمایا:اسی طرح رسول خدا (ص) کو کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔

 

(۸۳) عن علیٍّ علیہ السلام قال: العِلۡمُ ضَالَّۃُ المُؤمِنِ (بحار الأنوار ۱: ۱۶۸/ ۱۷، کسف الخفاء/ العجلونی ۱: ۳۶۴/ ۱۱۵۹)

(۸۳) حضرت علی (ع):علم مومن کی گمشدہ شئی ہے ۔

 

(۸۴) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن غَشَّ المُسلمینَ فِی مَشۡوَرَۃٍ فَقَد بَرِئۡتُ مِنہ (بحار الأنوار ۷۵: ۹۹/ ۸)

(۸۴) رسول خدا (ص):جو مسلمانوں کو مشورہ دینے میں دھوکہ دے میں اس سے بری ہوں۔

 

(۸۵) عن علیٍّ علیہ السلام قال: نحنُ أھلَ البیتِ لا یُقاسُ بِنا أحدٌ، فِینا نزلَ القُرآنُ، وفِینا مَعدِنُ الرِسالۃِ (بحار الأنوار ۲۶: ۲۶۹/ ۵)

(۸۵) حضرت علی (ع):ہم اہل بیت سے کسی کا مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ہم میں قرآن نازل ہوا اور ہم رسالت کا سر چشمہ ہیں۔

 

(۸۶) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أَنَا مَدِینَۃُ العِلۡمِ وعلیٌّ بابُھا (تھذیب الآثار/ الطبری۔ مسند علیّ علیہ السلام: ۱۰۴۔ ۱۰۵/ ۱۷۳)

(۸۶) رسول خدا (ص):میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا در ہیں۔

 

(۸۷) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِنَّ اللہَ عزّ وجلّ اطَّلَعَ عَلی أَھۡلِ الأَرۡضِ اطِّلاعَۃً فَاخۡتارَنِی، ثُمَّ اطَّلَعَ الثانِیۃَ فَاخۡتارَکَ بَعدِی، فَجَعَلَکَ القَیِّمَ بِأَمۡرِ أُمَّتِی مِن بَعدِی، وَلَیسَ أَحَدٌ بَعدَنا مِثۡلَنا (بحار الأنوار ۳۹: ۹۱/ ۴)

(۸۷) رسول اسلام (ص)نےحضرت علی (ع):سے فر مایا:اللہ نے زمین والوں کا جائزہ لیا تو مجھے انتخاب کیا پھر دوبارہ جائزہ لیا تو میرے بعد کے لئے آپ کو منتخب کیا اور آپ کو میرے بعد امت کے جملہ امور کا سر پرست بنادیا اور ہمارے بعد کوئی ہمارے جیسا نہیں ہو سکتا۔

 

(۸۸) عن علیٍّ علیہ السلام فی قول اللہ عزّو جلّ: وَلَہُ الۡجَوَارِ الۡمُنۡشئاتُ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡأعۡلَامِ قال: (السُفُنُ) (تفسیر ابن کثیر۴: ۲۹۲ تفسیر القرطبی ۱۷: ۱۶۴)

(۸۸) حضرت :نے اللہ کے اس قول(ولہ الجوار)کے بارے میں فرمایاکہ:وہ کشتیاں ہیں۔

 

(۸۹) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: عَمّارٌ عَلی الحَقِّ حِینَ یُقۡتَلُ بَینَ الفِئَتینِ؛ اِحدَی الفِئَتینِ عَلی سَبِیلِی و سُنَّتِی، والأُخۡرَی مَارِقَۃٌ مِن الدِیۡنِ خارِجۃٌ عَنۡہُ (بحار الأنوار ۲۲: ۳۲۶/ ۳۰)

(۸۹) رسول خدا (ص):مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے در علی (ع) کے۔

 

(۹۰) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: سُدُّوا الأَبۡوابَ الشارِعَۃَ فِی المَسجِدِ اِلّا بابَ عَلِیٍّ علیہ السلام (ذخائر العقبی: ۷۷، تاریخ بغداد ۷: ۲۱۴/ ۳۶۶۹)

(۹۰) رسول خدا (ص): عمار جس وقت دو گروہوں کے درمیان قتل کئے جائیں گے حق پر ہوں گے ان میں سے ایک گروہ میری راہ میں اور سنت پر قائم ہوگا اور دوسرا گروہ میرے دین وآئین سے خارج ہو چکا ہوگا۔

 

(۹۱) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِذا مُتُّ ظَھَرَتۡ لَکَ ضَغَائِنُ فِی صُدُورِ قَومٍ یَتَمالَؤُونَ عَلیکَ ویَمۡنَعُونَکَ حَقَّکَ (الصراط المستقیم ۲: ۱۱۶)

(۹۱) رسول خدا (ص): نے حضرت علی (ع) کو مخاطب کر کے فرمایا:جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا تو لوگوں کے دلوں میں چھپے آپ کے لئے کینہ ظاہر ہوجائیں گے وہ تمہارے خلاف جمع ہو جائیں گے اور تمہیں تمہارے حق سے محروم کر دیں گے۔

 

(۹۲) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: کَفُّ عَلِیٍّ کَفِّی (المناقب للخوارزمی: ۲۶۹/ ۲۹۰، المناقب لابن المغازلی: ۱۲۹/ ۱۷۰)

(۹۲) رسول خدا (ص):علی کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔

 

(۹۳) عن الحسین بن علیٍّ علیہ السلام [عن جابِر] قال: ما کُنّا نَعۡرِفُ المُنافِقِینَ عَلَی عَھۡدِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ اِلّا بِبُغۡضِھِم عَلِیّاً ووُلۡدِہِ (شرح ابن أبی الحدید ۴: ۸۳ و ۹: ۱۳۵ و ۱۳: ۲۵۱، ذخائر العقبی: ۹۱)

(۹۳) جابر بن عبد اللہ انصاری ٪: ہم رسول خدا (ص) کے دور میں منافقین بغض علی (ع)اور اولاد علی (ع)کے ذریعہ ہی پہچان لیا کرتے تھے ۔

 

(۹۴) عن الحُسین بن علیٍّ علیہ السلام [عن علیٍّ علیہ السلام] قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: الجَنّۃُ تَشۡتاقُ اِلیکَ واِلی عَمّارٍ وسَلۡمانَ وأَبِی ذَرٍّ والمِقۡدادِ (بحار الأنوار ۲۲: ۳۲۴/ ۲۲، روضۃ الواعظین: ۲۸۰)

(۹۴) رسول خدا (ص):نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:جنت آپ کی اور عمار ، سلمان، ابوذراور مقداد کی مشتاق ہے۔

 

(۹۵) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِنَّ أُمَّتِی سَتَغۡدِرُ بِکَ بَعدِی ویتبعُ ذلکَ بَرّھا وفاجِرھا (بحار الأنوار ۲۸: ۵۰/ ۱۷)

(۹۵) رسول خدا (ص):نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:میرے بعد میری امت آپ کے ساتھ دھوکہ کرے گی اور اس کی پیروی امت کے نیک وبد دونوں کریں گے۔

 

(۹۶) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن سَبَّ عَلیّاً فَقَدۡ سَبَّنِی، ومَن سَبَّنِی فَقَدۡ سَبَّ اللہَ (مسند أحمد ۶: ۳۲۳، فضائل الصحابۃ / أحمد بن حنبل ۲: ۵۹۴/ ۱۰۱۱)

(۹۶) رسول خدا (ص):جس نے علی پر سب وشتم کیا اس نے مجھ پر سب وشتم کیا ہے اور جس نے مجھ پرسب وشتم کیا اس نے خدا پر سب وشتم کیا ہے۔

 

(۹۷) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: أَنۡتَ یاعلیُّ فِی الجَنّۃِ و ذُو قَرۡنَیۡھا (بحار الأنوار ۴۰: ۲۷/ ۲)

(۹۷) رسول خدا (ص):نے امام علی (ع) سے فرمایا:اے علی! تمہیں جنت میں ہواورتمہیں ذولقرنین ہو۔

 

(۹۸) عن الحسین بن علیّ علیھما السلام قال: خَطَبَنا أمیرُ المُؤمِنِینَ علیہ السلام فقال: سَلُونِی عَن القُرآنِ أُخۡبِرۡکُم عن آیاتِہِ فی مَن نَزَلَتۡ؟ وأَیۡنَ نَزَلَتۡ؟ (أمالی المفید: ۱۵۲/ ۳، أمالی الطوسی: ۵۲۳/ ۱۱۵۸)

(۹۸) امام حسین ں:فرماتے ہیں کہ ایک روز ہمارے سامنے امیر المومنین (ع)نے خطبہ میں فرمایا:قرآن کے متعلق مجھ سے سوال کرو کہ اس کی آیتیں کس کے بارے میں اورکہاں کہاں نازل ہوئی ہیں۔

 

(۹۹) قال النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِنِّی أُحِبُّ لَکَ ما أُحِبُّ لِنَفۡسِی، وأَکۡرَہُ لَکَ ما أَکۡرَہُ لَھا (سنن الترمذی ۱: ۱۷۴/ ۲۸۱، باب ۲۰۷)

(۹۹) رسول خدا (ص):نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:میں تمہارے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتاہوں اور تمہارے لئے وہی ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہوں۔

 

(۱۰۰) عن الحُسین بن علیٍّ علیھما السلام قال: قال لی بُرَیۡدَۃُ: أَمَرَنا رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ أَنۡ نُسَلِّمَ عَلیٰ أَبِیکَ بِاِمۡرَۃِ المُؤمِنِینَ (بحار الأنوار ۳۷: ۲۹۰/ ۱)

(۱۰۰) امام حسین ں:فرماتے ہیں کہ ُبرَیدہ نے مجھ سے کہا ہے کہ:رسول خدا (ص) نے ہمیں دستور دیا ہے کہ ہم آپ کے باپ پر امیر المومنین کہہ کر سلام کریں۔

 

(۱۰۱) عن الحُسین بن علیٍّ علیہ السلام قال: قال رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لِعَلِیٍّ: بَشِّرۡ شِیعَتَکَ أَنِّی الشَفِیعُ لَھُم یومَ القِیامَۃِ، یومَ لا تَنۡفَعُ اِلّا شَفاعَتِی (بحار الأنوار ۶۸: ۹۸/ ۲، احقاق الحقّ ۱۷: ۲۶۱ باب ۱۶۱)

(۱۰۱) رسول خدا (ص):نے حضرت علی (ع)سے فرمایا:کہ اپنے شیعوں کو بشارت دیدو کہ بروز قیامت میں ان کا شفیع ہوں جس دن سوائے میری کسی کی شفاعت نفع بخش نہ ہوگی۔

 

(۱۰۲) قال رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: وَسَطُ الجَنّۃِ لِی و لأھلِ بَیۡتِی (بحار الأنوار ۸: ۱۷۸/ ۱۳۱، ۲۳: ۱۴۵/ ۱۰۶)

(۱۰۲) رسول خدا (ص):جنت کا درمیانی علاقہ میرے لئے اور میرے اہل بیت(ع) کے لئے ہے۔

احادیث متفرقہ

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

1.
800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

قال الإمام المهدي، صاحب العصر و الزّمان (عليه السلام و عجّل الله تعالى فرجه الشّريف :الَّذى يَجِبُ عَلَيْكُمْ وَ لَكُمْ أنْ تَقُولُوا: إنّا قُدْوَةٌ وَ أئِمَّةٌ وَ خُلَفاءُ اللهِ فى أرْضِهِ، وَ اُمَناؤُهُ عَلى خَلْقِهِ، وَ حُجَجُهُ فى بِلادِهِ، نَعْرِفُ الْحَلالَ وَ الْحَرامَ، وَ نَعْرِفُ تَأْويلَ الْكِتابِ وَ فَصْلَ الْخِطاب.(

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: خِیارُ اُمّتِی المُتَأھِّلونَ، وشِرارُ اُمَّتِی العُزّابُ ۔ (جامع الأخبار: ص ۲۷۳ ح ۷۴۸)۔

۲۔ میری امت کے بہترین لوگ شادی شدہ لوگ ھیں اور میری امت کے بدترین لوگ، غیر شادی شدہ لوگ ھیں۔

 

۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: ما بُنِیَ فِی الاسلامِ أحَبُّ الَی اللہِ تَعالیٰ مِنَ التَّزویجِ۔ (کتاب من لا یحضرہ الفقیہ: ج۳ ص۳۸۳ ح۴۳۴۳ )۔

۳۔ اسلام میں کوئی عمارت شادی کی عمارت سے زیادہ خدا کے نزدیک پسندیدہ نہیں ھے۔

 

۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِتَّخِذُوا الأھلَ؛ فَاِنَّہُ أرزَقُ لَکُم۔ (الکافی: ج۵ ص۳۲۹ ح۶)۔

۴۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: شادی کرو کہ تمھاری روزی میں اضافہ کا باعث ھے۔

 

۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: ریحُ الوَلَدُ مِن ریحِ الجَنَّۃِ۔ (المعجم الأوسط: ج۶ ص۸۲ ح۵۸۶۰)۔

۹۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: بچہ کی مہک، جنت کی خوشبوؤں میں سے ھے۔

 

۱۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: الوَلَدُ للوالِدِ رَیحانَۃٌ مِنَ اللہِ یَشَمُّھا، (عدّة الداعی: ص ۷۶)۔

۱۰۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: فرزند اپنے والد کے لئے، خدا کی طرف سے ایک خوشبودار پھول ھے جسے وہ سونگھتا ھے۔

 

۱۴۔ الامام زین العابدین علیہ السلام: مِن سَعادَة الرَّجُلِ أن یَکونَ لَہُ وُلدٌ یَستَعینُ بھِم۔ (الکافی: ج۶ ص۲ ح۲)۔

۱۴۔ امام کاظم علیہ السلام: مرد کی سعادتمندی ھے کہ اس کے پاس مددگار بچے ھوں۔

۱۵۔ الامام الکاظم علیہ السلام: سَعَدَ امرُؤٌ لَم یَمُت حَتّیٰ یَریٰ خَلَفاً مِن نَفسِہِ۔ (الکافی: ج۶ ص۴ ح۳)۔

۱۵۔ امام کاظم علیہ السلام: وہ شخص سعادتمند ھے جو مرنے سے پہلے اپنا جانشین دیکھ لے۔

 

۱۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مِن سَعادَة الرَّجُلِ الوَلَدُ الصّالِحُ۔ (الکافی: ج۶ ص۳ ح۱۱)۔

۱۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مرد کی سعادتمندیوں میں سے ایک، صالح فرزند ھے۔

 

۱۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِنَّ الوَلَدَ الصّالِحُ رَیحانَۃٌ مِن رَیاحینِ الجَنَّۃِ۔  (الکافی: ج۶ ص۳ ح۱۰)۔

۱۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: بے شک صالح فرزند، جنت کے پھولوں میں سے ایک پھول ھے۔

 

۲۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مِن نِعمَۃِ اللہِ عَلَی الرَّجُلِ أن یُشبِھَہُ وَلَدُہُ۔ (الکافی: ج۶ ص۴ ح۱)۔

۲۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: انسان کے لئے خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ھے کہ اس کا فرزند اس سے مشابہت رکھتا ھو۔

 

۲۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أکثِرُوا الوَلَدَ اُکاثِرُ بکُمُ الاُمَمَ غَداً۔ (الکافی: ج۶ ص۲ ح۳)۔

۲۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اپنی اولاد زیادہ کرو تاکہ قیامت کے دن میں تمھاری تعداد پر [دوسری امتوں کے سامنے] فخر کروں۔

 

۳۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مِن یُمنِ المَرأة أن یَکونَ بکرُھا جارِیَۃً۔ (الجعفریات: ص۹۹)۔

۳۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: عورت کی خوش قدمی ھے کہ اس کا پہلا بچہ، لڑکی ھو۔

 

۵۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: تَزَوَّجُوا فی الحِجرِ الصَّالِحِ؛ فَاِنَّ العِرقَ دَسَّاسٌ۔ (الفردوس: ج۲ ص۵۱ ح۲۲۹۱)۔

۵۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: صالح اور شایستہ گھروں کے ساتھ رشتہ جوڑو، اس لئے کہ رگ میں بڑی تاثیر ھوتی ھے۔

 

۷۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِغتَرِبوا؛ لا تُضووا۔ (النھایۃ: ج۳ ص۱۰۶)۔

۷۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: غیروں میں [جو رشتہ دار نہ ھوں] شادی کرو تاکہ ضعیف فرزند پیدا نہ ھو۔

 

۷۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: لا تَنکِحُوا القَرابَۃَ؛ فَاِنَّ الوَلَدَ یُخلَقُ ضاوِیاً۔ (المحجۃ البیضاء: ج۳ ص۹۴)۔

۷۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اپنے قرابت داروں کے ساتھ شادی نہ کرو کیونکہ بچہ ضعیف اور ناتوان پیدا ھوگا۔

 

۷۵۔ الامام الصادق علیہ السلام: کَسبُ الحَرام یَبینُ فِی الذُّرِیَّۃِ۔ (الکافی: ج۵ ص۱۲۴ ح۴)۔

۷۵۔ امام صادق علیہ السلام: حرام آمدنی [کا اثر]، نسل میں ظاھر ھوتا ھے۔

 

۷۶۔ الامام الصادق علیہ السلام: مَن أکَلَ سَفَر جَلَۃً عَلَی الرِّیقِ طابَ ماؤُہُ، وحَسُنَ وَلَدُہُ۔ (الکافی: ج۶ ص۳۵۷ ح۳)۔

۷۶۔ امام صادق علیہ السلام: جو کوئی نہار منھ بھی (سیب کے مانند ایک پھل) کھائے، اس کا نطفہ پاکیزہ ھوجائے گا اور اس کا فرزند خوبصورت ھوگا۔

 

۸۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أطعِموا حَبالاکُمُ السَّفَرجَلَ؛ فَاِنّہ یُحَسِّنُ أخلاقَ أولادِکُم۔ (لسان العرب: ج۶ ص۱۹)۔

۸۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اپنی حاملہ عورتوں کو بھی کھلاؤ، اس لئے کہ وہ تمھاری اولاد کی اخلاق نیک بنادے گی۔

 

۹۳۔ الامام الصادق علیہ السلام: أطعِمُوا البَرنِیّ نِساءَکُم فی نِفاسِھِنَّ تَحلُمُ أولادُکُم ۔ (المحاسن: ج۲ ص۳۴۵ ح۲۱۹۰)۔

۹۳۔ امام صادق علیہ السلام: نفاس کے دوران اپنی عورتوں کو برنی کھلاؤ تاکہ تمھارے بچے صابر اور بُرد بار پیدا ھوں۔

 

۱۰۸۔ الامام الصادق علیہ السلام: لا یُبغِضُنَا الا مَن خَبُثَت وِلادَتُہُ، أو حَمَلَت بہِ اُمُّہُ فی حَیضِھا۔ (کتاب من لا یحضرہ الفقیہ: ج۱ ص۹۶ ح۲۰۳)۔

۱۰۸۔ امام صادق علیہ السلام: ھماری دشمنی نہیں کرے گا مگر وہ شخص جس کی ولادت ناپاک ھو یا اس کی ماں حیض کے دوران حاملہ ھوئی ھو۔

 

۱۳۱۔ الامام الصادق علیہ السلام: غَسلُ المَولودِ واجِبٌ (الکافی: ج۶ ص۴۰ ح۲)۔

۱۳۱۔ امام صادق علیہ السلام: نو مولود کا غسل لازم ھے۔

 

۱۳۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: یُحَنَّکُ المَولودُ بالماءِ السُّخنِ۔ (جامع الاحادیث: ص۱۴۱)۔

۱۳۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: نو مولود کو سب سے پہلے گرم پانی دیا جاتا ھے۔

 

۱۴۱۔ الامام علی علیہ السلام: حَنِّکوا أولادَکُم بالتَّمرِ، ھٰکَذا فَعَلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ بالحَسَنَ والحُسَینِ۔ (الکافی: ج۶ ص۲۴ ح۲۷)۔

۱۴۱۔ امام علی علیہ السلام: اپنے بچوں کو پہلی غذا کجھور کھلاؤ اس لئے کہ رسول خدا (ص) نے حسن (ع) و حسین (ع) کے ساتھ ایسا ھی کیا تھا۔  

 

۱۴۴۔ الامام الصادق علیہ السلام: حَنِّکوا أولادَکُم بتُربَۃِ الحُسَینِ علیہ السلام؛ فَاِنَّھا أمانٌ۔ (تھذیب الاحکام: ج۶ ص۷۴ ح۱۴۳)۔

۱۴۴۔ امام صادق علیہ السلام: اپنے بچوں کو پھلی غذا امام حسین علیہ السلام کی تربت کھلاؤ اس لئے کہ اس میں امان ھے۔

 

۱۶۱۔ الامام الباقر علیہ السلام: أَصدَقُ الأسماءِ ما سُمِّیَ بالعُبودِیَّۃِ، و أفضَلُھا أسماءُ الأَنبیاءِ۔ (الکافی: ج۶ ص۱۸ ح۱)۔

۱۶۱۔ امام باقر علیہ السلام: سب سے سچے نام وہ ھیں جن میں عبودیت شامل ھو اور سب سے بہتر نام انبیاء کے نام ھیں۔

 

۱۷۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: لا تُسَمّوا شِھابَ فَاِنَّ شِھابَ اسمٌ مِن أسماءِ النّارِ۔ (بحار الانوار: ج۱۰۴ ص۱۳۰ ح۲۱)۔

۱۷۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: شھاب نام نہ رکھو اس لئے کہ شھاب جہنم کے ناموں میں سے ایک نام ھے۔

 

۱۸۳۔ الامام الصادق علیہ السلام: کُلُّ مَولودٍ مُرتَھَنٌ بالعَقیقَۃِ۔ (الکافی: ج۶ ص۲۴ ح۲)۔

۱۸۳۔ امام صادق علیہ السلام: ھر نوزاد عقیقہ کے رھن میں ھے۔

 

۱۹۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: لَیسَ لِلصَّبیِّ لَبَنٌ خَیرٌ مِن لَبَنِ اُمِّہِ۔ (عیون اخبار الرضا: ج۲ ص۳۴ ح۶۹)۔

۱۹۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: بچہ کے لئے اس کی ماں کے دودھ سے بہتر کوئی دودھ بہتر نہیں ھے۔

 

۱۹۹۔ الامام الصادق علیہ السلام: ألرَّضاعُ واحِدٌ و عِشرونَ شَھراً، فَما نَقَصَ فَھُوَ جَورٌ عَلَی الصَّبیِّ۔ (الکافی: ج۶ ص۴۰ ح۳)۔

۱۹۹۔ امام صادق علیہ السلام: دودھ پلانے کی مدت اکیس مہینہ ھے۔ جتنا کم کیا جائے۔ بچہ کے اوپر ظلم ھے۔

 

۲۰۱۔ الامام علیّ علیہ السلام: اُنظُروا مَن تُرضِعُ أولادَکُم؛ فَاِنّ الوَلَدَ یَشِبُّ عَلَیہِ۔ (الکافی: ج۶ ص۴۴ ح۱۰)۔

۲۰۱۔ امام علی علیہ السلام: دیکھو تمھاری اولاد کو کون سی عورت دودھ پلارھی ھے، اس لئے کہ بچہ اسی بنیاد پر پروان چڑھتا ھے۔

 

۲۰۹۔ الامام علی علیہ السلام: أطعِموا صِبیانَکُم الرُّمَّانَ؛ فَانَّہُ أسرَعُ لألسِنَتِھِمَََ ؟؟؟۔ (مکارم الاخلاق: ج۱ ص۳۷۱ ح۱۲۲۷)۔

۲۰۹۔ امام علی علیہ السلام: اپنے بچوں کو اتار کھلاؤ، اس لئے کہ اس کی وجہ سے ان کے دانت جلدی بڑھیں گے۔

 

۲۴۷۔ الامام علی علیہ السلام: اذا عَقَلَ الغُلامُ وَ قَرَأ شَیئاً مِنَ القُرآنِ عُلِّمَ الصَّلاةُ۔ (دعائم الاسلام: ج۱ ص۱۹۳)۔

۲۴۷۔ امام علی علیہ السلام: جب لڑکا سمجھداری کے سن تک پہونچ جائے اور قرآن میں سے کچھ پڑھ لے تو اسے نماز سکھانی چاھیے۔

 

۲۶۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: خِیارُکُم مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہُ۔ (امالی الطوسی: ص۳۵۷ ح۷۳۹)۔

۲۶۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: تم میں سب سے بہترین فرد وہ ھے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔

 

۲۷۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اُمُّ جَمیعِ الأَدوِیَۃِ قِلّۃُ الأکلِ۔ (المواعظ العددیۃ: ص۲۱۳)۔

۲۷۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ساری دواؤں کی ماں، کم کھانا ھے۔

 

۲۷۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: المَعِدَةُ بَیتُ کُلِّ داءٍ، وَالحِمیَۃُ رأسُ کُلِّ دَواءٍ۔ (طب النبی: ص۱۱)

۲۷۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: معدہ تمام بیماریوں کا گھر ھے اور پرھیز تمام علاجوں کی جڑ ھے۔

 

۲۸۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: عَلِّموا أولادَکُمُ السِّباحَۃَ وَالرِّمایَۃَ۔ (أسد الغابۃ: ج۱ ص۴۱۲)۔

۲۸۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اپنے بچوں کو تیرنا اور تیر چلانا سکھاؤ۔

 

۲۹۰۔ الامام علی علیہ السلام: وَلَدُکَ رَیحانَتُکَ سَبعاً، وَخادِمُکَ سَبعاً، ثُمّ ھُوَ عَدُوُّکَ أو صَدیقُکَ۔ (شرح نھج البلاغہ لابن أبی الاحدید: ج۲۰ ص۳۴۳ ح۹۳۷)۔

۲۹۰۔ امام علی علیہ السلام: تمھارا بچہ،سات سال تک تمھارا پھول ھے اور سات سال تک تمھارا خادم ھے۔ اس کے بعد یا تمھارا دشمن ھے یا تمھارا دوست ھے۔

 

۲۹۷۔ الامام علی علیہ السلام: کُن کَالطَّیبِ الرَّفیقِ الّذی یَضَعُ الدّواءَ بحَیثُ یَنفَعُ۔ (مصباح الشریعۃ: ص۳۷۰)۔

۲۹۷۔ امام علی علیہ السلام: ایک شفیق طبیب کی طرح بنو جو دوا اس جگہ استعمال کرتا ھے جہاں فائدہ مند ھو۔

 

۳۱۶۔ علی بن اسباط: نَھیٰ رَسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ عَنِ الأدَبِ عِندَ الغَضَبِ۔ (الکافی: ج۷ ص۲۶۰ ح۳)۔

۳۱۶۔ علی بن اسباط نقل کرتے ھیں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غصہ کے وقت تأدیب کرنے سے منع فرماتے تھے۔

 

۳۲۵۔ الامام الصادق علیہ السلام: یُفَرَّقُ بَینَ الغِلمانِ وَالنِّساءِ فِی المَضاجِعِ اذا بَلَغوا عَشرَ سِنینَ۔ (الکافی: ج۶ ص۴۷ ح۶)۔

۳۲۵۔ امام صادق علیہ السلام: جب لڑکے دس سال کے ھوجائیں تو ان کا بستر عورتوں سے الگ کردینا چاھیئے۔

 

۳۳۱۔ الامام الصادق علیہ السلام: اذا بَلَغَتِ الجارِیَۃُ الحُرَّة سِتَّ سِنینَ فلا یَنبَغی لَکَ أن تُقَبِّلَھا۔ (الکافی: ج۵ ص۵۳۳ ح۲)۔

۳۳۱۔ امام صادق علیہ السلام: جب ایک آزاد لڑکی [جو کنیز نہ ھو] چھ سال کی ھوجائے تو تمھارے لئے ٹھیک نہیں ھے کہ اس کا بوسہ لو ۔

 

۳۴۶۔ الامام الصادق علیہ السلام: اِنَّ اللہَ لَیَرحَمُ العَبدَ لِشِدَّة حُبِّہِ لِوَلَدِہِ۔ (الکافی: ج۶ ص۵۰ ح۵)۔

۳۴۶۔ امام صادق علیہ السلام: بے شک خدا، اپنے بندے پر فرزند سے شدید محبت کی خاطر رحم فرماتا ھے۔

 

۳۵۶۔ مکارم الاخلاق عن أنس: اِنّ رَسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ مَرّ عَلَی صِبیانٍ فَسَلّمَ عَلیھِم وھُوَ مُغِذٌّ۔ (مکارم الأخلاق: ج۱ ص۴۷ ح۵)۔

۳۵۶۔ مکارم اخلاق میں انس سے روایت ھے: جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کہ [جلدی میں تھے اور] تیزی سے حرکت فرما رھے تھے، بچوں کے ایک گروہ کے پاس سے گذرے اور انہیں سلام کیا۔

 

۳۶۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِعدِلُوا بَینَ أولادِکُم فِی العَطِیَّۃِ۔ (صحیح البخاری: ج۲ ص۹۱۳)۔

۳۶۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ھدیہ دینے میں اپنے بچوں کے درمیان عدالت سے کام لو۔

 

۳۷۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اذا وعَدَ أحَدُکُم صَبیَّۃُ فَلیُنجز۔ (الجعفریات: ص۱۶۶)۔

۳۷۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: جب بھی تم میں سے کوئی اپنے بچے کو وعدہ دے تو اس پر عمل کرے۔

 

۳۸۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِشتَروا لِصِبیانِکُمُ اللَّحمَ، وذَکِّروھُم یَومَ الجُمُعَۃِ۔ (مستدرک الوسائل: ج۶ ص۹۹ ح۶۵۲۵)۔

۳۸۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اپنے بچوں کے لئے گوشت خریدو اور جمعہ کا دن انہیں یاد دلاؤ۔

 

۳۹۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: عَرَامَۃُ الصَّبِیِّ فی صِغَرِہِ زِیَادَة فی عَقلِہِ فی کِبَرِہِ۔ (النھایۃ: ج۳ ص۲۲۳)۔

۳۹۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: بچپنے میں بچہ کی شیطنت، بڑے ھوکر اس کی عقلمندی کا باعث ھوگی۔

 

۴۰۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن کانَ عِندَہُ صَبیٌّ فَلیَتَصابَ لَہُ۔ (عوالی اللآلی: ج۳ ص۳۱۱ ح۱۴۱)۔

۴۰۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: جس کے پاس بچہ ھو اسے چاھئے کہ اس کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کرے۔

 

۴۰۳۔ الامام علی علیہ السلام: مَن کانَ لَہُ وَلَدٌ صَبا۔ (الکافی: ج۶ ص۵۰ ح۴)

۴۰۳۔ امام علی علیہ السلام: جس کے پاس بچہ ھو، اسے اس کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلنا چاھئے۔

 

۴۱۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: انَّ التُّرابَ رَبیعُ الصِّبیانِ ۔ (المعجم الکبیر: ج۶ ص۱۴۰ ح۵۷۷۵)۔

۴۱۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مٹی، بچوں کی بہار ھے۔

 

۴۱۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: دُعاءُ الوالِدِ لِلوَلَدِ کَالماءِ لِلزَّرعِ بصَلاحِہِ۔ (الفردوس: ج۲ ص۲۱۳ ح۳۰۳۸)۔

۴۱۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: باپ کی دعا بچہ کے لئے، زراعت کے لئے پانی کی طرح مفید ھے۔

 

۴۱۷۔ الامام الصادق علیہ السلام: أیُّمَا رَجُلٍ دَعَا عَلٰی وَلَدِہِ أورَثَہُ اللہُ الفَقرَ۔ (عدّة الداعی ص۸۰)۔

۴۱۷۔ امام صادق علیہ السلام: جو شخص اپنے بچہ کو بد دعا دے گا، خدا اسے فقیر بنادے گا۔

 

۴۲۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِنَّ اللہَ طَیِّبٌ یُحبُّ الطَّیِّبَ، نَظیفٌ یُحِبُّ النِّظَافَۃَ۔ (سنن الترمذی: ج۵ ص۱۱۲ ح۲۷۹۹)۔

۴۲۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: بے شک اللہ پاک ھے اور پاک لوگوں کو دوست رکھتا ھے، پاکیزہ اور صاف ھے صفائی اور پاکیزگی کو دوست رکھتا ھے۔

 

۴۳۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: تَقلیمُ الأظفارِ یَمنَعُ الدّاءَ الأعظَمَ، ویُدِرُّ الرِّزقَ۔ (الکافی: ج۶ ص۴۹۰ ح۱)۔

۴۳۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ناخن کو چھوٹا رکھا، بڑی بیماری سے بچاتا ھے اور روزی کو [انسان کی طرف] جاری کردیتا ھے۔

 

۴۵۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن أحزَنَ والِدَیہِ فَقَد عَقَّھُما۔ (کتاب من لا یحضرہ الفقیہ: ج۴ ص۳۷۲ ح۵۷۶۲)۔

۴۵۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: جو اپنے والدین کو غمگین کرے، وہ ان دونوں کا عاق ھوگیا ھے۔

 

۴۶۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: سَیِّدُ الأبرارِ یَومَ القِیامَۃِ رَجُلٌ بَرَّ والِدَیہِ بَعدَ مَوتِھما۔ (بحار الأنوار: ج۷۴ ص۸۶ ح۱۰۰)۔

۴۶۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: نیک لوگوں کا سردار قیامت کے دن، وہ شخص ھے جس نے اپنے والدین کی موت کے بعد ان پر احسان کیا ھو۔

 

۴۶۵۔ الامام الصادق علیہ السلام: بَرُّوا آباءَکُم؛ یَبَرَّکُم أبناؤُکُم۔ (الکافی: ج۵ ص۵۵۴ ح۵)۔

۴۶۵۔ امام صادق علیہ السلام: اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو تاکہ تمھارے بچے تمہارے ساتھ نیکی کریں ۔

 

۴۶۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَن تَعَلَّمتَ مِنہُ حَرفاً، صِرتَ لَہُ عَبداً۔ (عوالی اللالی: ج۱ ص۲۹۲ ح۱۶۳)۔

۴۶۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: جس سے تم ایک حرف سیکھ لو، اس کے غلام ھو گئے ھو۔

 

۴۷۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: مَنِ احتَقَرَ صاحِبَ العِلمِ فَقَدِ احتَقَرَنی، ومَنِ احتَقَرَنی فَھُو کافِرٌ۔ (ارشادالقلوب: ص۱۶۵)۔

۴۷۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: جو صاحب علم کو نیچا سمجھے بے شک اس نے مجھے نیچا سمجھا ھے اور جو مجھے نیچا سمجھے، وہ کافر ھے۔

 

۴۷۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أولَی النّاسِ باللہِ و برَسولِہِ مَن بَدَأ بالسّلامِ۔ (الکافی: ج۲ ص۶۴۴ ح۳)۔

۴۷۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: خدا اور رسول (ص) سے سب سے نزدیک شخص، وہ ھے جو سلام کرنے میں پھل کرے۔

 

۴۷۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أطوَعُکُم للہِ الذی یَبدَأ صاحِبَہُ بالسَّلامِ۔ (کنز العمال: ج۹ ص۱۱۶ ح۲۵۲۵۳)۔

۴۷۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: تم میں سے خدا کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والا شخص، وہ ھے جو اپنے دوست پر سلام کرنے میں پھل کرے۔

 

۴۹۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اللہُ فی عَونِ العَبدِ ما کانَ العَبدُ فی عَونِ أخیہِ۔ (صحیح مسلم: ج۴ ص۲۰۷۴ ح۳۸)۔

۴۹۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اللہ اپنے بندے کی مدد کرتا ھے جب تک کہ وہ بندہ اپنے (دینی) بھائی کی مدد کرتا ھے۔

 

۴۹۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: انَّ اللہَ جَلَّ ذِکرُہُ لَیَحفَظُ مَن یَحفَظُ صَدیقَہُ۔ (الکافی: ج۸ ص۱۶۲ ح۱۶۶)۔

۴۹۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: خدأے عز و جل اس کی حفاظت کرتا ھے جو اپنے دوست کی حفاظت کرے۔

 

۴۹۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: اِلقَ أخاکَ بوَجہٍ مُنبَسِطٍ ۔ (تحف العقول: ص۴۲)۔

۴۹۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اپنے بھائی سے کشادہ چہرے کے ساتھ ملاقات کرو۔

 

۵۰۱۔ الامام علی علیہ السلام: البَشاشَۃُ فَخُّ المَوَدَّة۔ (بحار الانوار: ج۷۸ ص۳۸ ح۱۳)۔

۵۰۱۔ امام علی علیہ السلام: ھنسی، دوستی کا جال ھے۔

 

۵۱۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: خَیرُ اخوانِکُم مَن أھدیٰ الَیکُم عُیوبَکُم۔  (تنبیہ الخواطر: ج۲ ص۱۲۳)۔

۵۱۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: تمھارے دوستوں میں سب سے بہتر وہ ھے جو تمھارے عیوب کو تمھیں ھدیہ دے ۔

 

۵۱۷۔ الامام علی علیہ السلام: اِحتَمِل زَلَّۃَ وَلِیِّکَ لِوَقتِ وَثبَۃِ عَدُوِّکَ۔ (الارشاد: ج۱ ص۲۹۹)۔

۵۱۷۔ امام علی علیہ السلام: اپنے دوست کی لغزش سے چشم  پوشی کرو اس وقت کے لئے جب تمھارا دشمن تم پر حملہ آور ھوگا۔

 

۵۱۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: أذَلُّ النّاسِ مَن أھانَ النّاسَ۔ (کتاب من لا یحضرہ الفقیہ: ج۴ ص۳۹۶ ح۵۸۴۰)

۵۱۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لوگوں میں سب سے پست شخص وہ ھے جو لوگوں کو پست سمجھے اور ان کی توھین کرے۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

۔ قالَ الإمامُ أبُو مُحَمَّد الْحَسَنِ الْعَسْكَرى (عليه السلام:  
1.إنَّ اللهَ تَبارَكَ وَ تَعالى بَيَّنَ حُجَّتَهُ مِنْ سائِرِ خَلْقِهِ بِكُلِّ شَىْء، وَ يُعْطِيهِ اللُّغاتِ، وَمَعْرِفَةَ الاْنْسابِ وَالاْجالِ وَالْحَوادِثِ، وَلَوْلا ذلِكَ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْحُجَّةِ وَالْمَحْجُوحِ فَرْقٌ.1

1. اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی حجت کو ہر شیٔ سے آگاہ بنا کر تمام مخلوقات کے درمیان بھیجا ہے اسے ہر زبان ، تمام انسانوں کے حسب ونسب ، موت کے وقت اور حادثات سے آگاہ کر دیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو حجت اور محجوج میں کوئی فرق ہی نہ رہ جاتا۔

 

2 ۔ قالَ (عليه السلام): عَلامَةُ الاْيمانِ خَمْسٌ: التَّخَتُّمُ بِالْيَمينِ، وَ صَلاةُ الإحْدى وَ خَمْسينَ، وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحيم، وَ تَعْفيرُ الْجَبين، وَ زِيارَةُ الاْرْبَعينَ.2

2 ۔ ایمان کی پانچ نشانیاں ہیں: دائیں ہاتھ میں انگشتری پہننا ، اکیاون رکعت نماز پڑھنا، بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا خاک پر سجدہ کرنا اور زیارت اربعین کرنا۔

 

3 ۔ قالَ (عليه السلام): لَيْسَتِ الْعِبادَةُ كَثْرَةُ الصّيامِ وَالصَّلاةِ، وَ إنَّمَا الْعِبادَةُ كَثْرَةُ التَّفَكُّرِ في أمْرِ اللهِ .(3  

3 ۔ زیادہ روزے اور نماز کا نام عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت امر الٰہی میں زیادہ سے زیادہ غور وفکر کرنا ہے ۔

 

4 ۔ قالَ (عليه السلام): خَصْلَتانِ لَيْسَ فَوْقَهُما شَىْءٌ: الاْيمانُ بِاللهِ، وَنَفْعُ الاْخْوانِ.(4

4 ۔ دوصفتوں سے بالاتر کوئی صفت نہیں ہے،اللہ پرایمان رکھنا،دوستوں اور بھائیوں کو فائدہ پہنچانا۔

 

5 ۔ قالَ (عليه السلام): قُولُوا لِلنّاسِ حُسْناً، مُؤْمِنُهُمْ وَ مُخالِفُهُمْ، أمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَيَبْسِطُ لَهُمْ وَجْهَهُ، وَ أمَّا الْمُخالِفُونَ فَيُكَلِّمُهُمْ بِالْمُداراةِ لاِجْتِذابِهِمْ إلَى الاْيِمانِ.(5

5 ۔ لوگوں سے اچھی طرح بولو چاہے وہ مومن ہوں یا مخالف ، مومنین سے خوشی وانبساط کے ساتھ ملو اور مخالفین سے انھیں ایمان کی کھینچ لانے کے لئے مدارات کرو ۔

 

6 ۔ قالَ (عليه السلام): اللِّحاقُ بِمَنْ تَرْجُو خَيْرٌ مِنَ المُقامِ مَعَ مَنْ لا تَأْمَّنُ شَرَّهُ.(6

6 ۔ اس شخص سے وابستگی جس سے کسی بھلائی کی امید ہے بہتر ہے اس شخص کے ساتھ رھنے سے جس کے شر سے تم  محفوظ نہیں ہو۔

 

7 ۔ قالَ (عليه السلام): إيّاكَ وَ الاْذاعَةَ وَ طَلَبَ الرِّئاسَةِ، فَإنَّهُما يَدْعُوانِ إلَى الْهَلَكَةِ.(7

7 ۔ خبردار افواہ نہ پھیلاؤ اور ریاست طلبی نہ کرو کہ دونوں کا انجام ہلاکت ہے۔

 

8 ۔ قالَ (عليه السلام): إنَّ مُداراةَ أَعْداءِاللهِ مِنْ أفْضَلِ صَدَقَةِ الْمَرْءِ عَلى نَفْسِهِ و إخْوانِهِ.(8

8 ۔ دشمنان خدا سے مدارات اپنے اوپر اور اپنے دینی بھائیوں کے اوپر انسان کا بہترین صدقہ ہے ۔

 

9 ۔ قالَ (عليه السلام): حُسْنُ الصُّورَةِ جَمالٌ ظاهِرٌ، وَ حُسْنُ الْعَقْلِ جَمالٌ باطِنٌ.(9

9 ۔ خو بصورت چہرہ ظاہری جمال ہے اور عقل کا حسن باطنی جمال ہے۔

 

10 ۔ قالَ (عليه السلام): مَنْ وَعَظَ أخاهُ سِرّاً فَقَدْ زانَهُ، وَمَنْ وَعَظَهُ عَلانِيَةً فَقَدْ شانَهُ.(10

10 ۔ جو اپنے دینی بھائی کو مخفیانہ نصیحت کرتا ہے وہ اس کی زینت بڑھاتا ہے اور جو اسے آشکارا نصیحت کرتا ہے وہ اس کی تحقیر واہانت کرتا ہے۔

 

11 ۔ قالَ (عليه السلام): مَنْ لَمْ يَتَّقِ وُجُوهَ النّاسِ لَمْ يَتَّقِ اللهَ.(11

11 ۔ جو شخص لوگوں کے سامنے بے باک اور جری ہے وہ اللہ سے بھی نہیں ڈرتا ۔

 

12 ۔ قالَ (عليه السلام): ما أقْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ أنْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ.(12

12 ۔ مومن کے لئے کتنی بُری بات ہے کہ اسے ایسی چیز میں رغبت ہو جو اسے ذلیل و رسوا کر سکتی ہے ۔

 

13۔ قالَ (عليه السلام): خَيْرُ إخْوانِكَ مَنْ نَسَبَ ذَنْبَكَ إلَيْهِ.(13

13۔ تمہارا سب سے بہترین دوست اور بھائی وہ ہے کہ جو تمہاری کوتاہیوں کو اپنی طرف منسوب کرلیتا ہے ۔

 

14۔ قالَ (عليه السلام): ما تَرَكَ الْحَقَّ عَزيزٌ إلاّ ذَلَّ، وَلا أخَذَ بِهِ ذَليلٌ إلاّ عَزَّ.(14

14۔ کسی عزت دار نے حق کو نہیں چھوڑا مگر یہ کہ وہ ذلیل ہوا اور کسی ذلیل و رسوا نے حق کا دامن نہیں پکڑا مگر یہ کہ وہ عزت دار ہوگیا۔

 

15۔ قالَ (عليه السلام): مِنَ الْفَواقِرِ الّتى تَقْصِمُ الظَّهْرَ جارٌ إنْ رأى حَسَنَةً أطْفَأها وَ إنْ رَأى سَيِّئَةً أفْشاها.(15

15۔ کمر شکن مصیبتوں میں سے ایک وہ پڑوسی ہے کہ جو کوئی نیکی دیکھتا تو اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کسی برائی کو دیکھ لیتا ہے تو اسے پھیلادیتا ہے۔

 

16 ۔ قالَ (عليه السلام) لِشيعَتِهِ: أوُصيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالْوَرَعِ فى دينِكُمْ وَالاْجْتِهادِ لِلّهِ، وَ صِدْقِ الْحَديثِ، وَأداءِ الاْمانَةِ إلى مَنِ ائْتَمَنَكِمْ مِنْ بِرٍّ أوْ فاجِر، وِطُولِ السُّجُودِ، وَحُسْنِ الْجَوارِ.(16

16 ۔ حضرت(ع) نے اپنے شیعوں سے فرمایا:کہ می تمہیں تقوائے الٰہی اختیار کرنے اور دین کے معاملہ میں نہایت پرہیزگاری برتنے اور اللہ کے لئے بھر پور کوشش کرنے سچ بات بولنے اور جس نے تمہارے پاس امانت رکھی ہے اچھاہو یا بُرا ہو امانت ادا کرنے طولانی سجدہ کرنے اور بہترین پڑوسی بننے کی سفارش کرتا ہوں۔

 

17۔ قالَ (عليه السلام): مَنْ تَواضَعَ فِى الدُّنْيا لاِخْوانِهِ فَهُوَ عِنْدَ اللهِ مِنْ الصِدّيقينَ، وَمِنْ شيعَةِ علىِّ بْنِ أبى طالِب (عليه السلام)حَقّاً.(17

17۔ جو دنیا میں اپنے دینی بھائیوں کے لئے انکساری کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک صدیقین میں سے ہے اور وہی حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا حقیقی شیعہ ہے۔

 

18 ۔ قالَ (عليه السلام): إنَّهُ يُكْتَبُ لِحُمَّى الرُّبْعِ عَلى وَرَقَة، وَ يُعَلِّقُها عَلَى الْمَحْمُومِ: «يا نارُكُونى بَرْداً»، فَإنَّهُ يَبْرَءُ بِإذْنِ اللهِ.(18

18 ۔ تب کے مریض کی خاطر ایک کاغذ پر’’یانار کونی برداً‘‘ لکھ کر اس کے اوپر لٹکا دو تو وہ حکم خدا سے شفا پاجائے گا۔

 

.19 قالَ (عليه السلام): أكْثِرُوا ذِكْرَ اللهِ وَ ذِكْرَ الْمَوْتِ، وَ تَلاوَةَ الْقُرْآنِ، وَالصَّلاةَ عَلى النَّبىِّ (صلى الله عليه وآله وسلم)، فَإنَّ الصَّلاةَ عَلى رَسُولِ اللهِ عَشْرُ حَسَنات.(19

.19 ذکر خدا ، یاد موت، تلاوت قرآن ، اور نبی (ص) پردرود کثرت سے بھیجو کہ رسول خدا (ص) پر درود دس نیکی کے برابر ہے ۔

 

20 ۔ قالَ (عليه السلام): إنَّكُمْ فى آجالِ مَنْقُوصَة وَأيّام مَعْدُودَة، وَالْمَوْتُ يَأتي بَغْتَةً، مَنْ يَزْرَعُ شَرّاً يَحْصَدُ نِدامَةً.(20

20 ۔ تم سب کم ہوتی جارہی مدت حیات اور گھٹتے جارہے ایام زندگانی کے اسیر ہو موت یکایک آجائے گی جو شر بوئے گا وہ شرمندگی کا پھل کاٹے گا۔

 

21 ۔ قالَ (عليه السلام): إنّ الْوُصُولَ إلَى اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ سَفَرٌ لا يُدْرَكُ إلاّ بِامْتِطاءِ اللَّيْلِ.(21

21 ۔ قرب خدا تک رسائی ایسا سفر ہے جسے شب بیداری کے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا۔

 

 22 ۔ قالَ (عليه السلام): الْمَقاديرُ الْغالِبَةِ لا تُدْفَعُ بِالْمُغالَبَةِ، وَ الاْرْزاقُ الْمَكْتُوبَةِ لا تُنالُ بِالشَّرَهِ، وَ لا تُدْفَعُ بِالاْمْساكِ عَنْها.(22

22 ۔ ظہور پذیر ہونے والی تقدیروں کو زیرکی و ہوشیاری کے ذریعہ دفع نہیں کیا جاسکتا۔ اور مقدر کے لکھے رزق سےزیادہ کو حرص وطمع کے ذریعہ نہیں پایا جاسکتا ، اور نہ ہی رکاوٹ کھڑی کر کے اسے دفع کیا جا سکتا ہے ۔

 

23 ۔ قالَ (عليه السلام): قَلْبُ الاْحْمَقِ فى فَمِهِ، وَفَمُ الْحَكيمِ فى قَلْبِهِ.(23

23 ۔ بے وقوف کادل اس کے منھ میں ہوتا ہے اور عقلمند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے۔

 

 

۲۴۔مومن دوسرے مومن کے لئے باعث بر کت اور کافر کے لئے حجت ہے ۔

۲۵۔رزق کی ضمانت تمہیں واجب عمل پر سے باز نہ رکھے۔

۲۶۔بچپنے میں بچے کی باپ کے اوپر جرأت بڑے ہونے پر اس کے عاق ہونے کا سبب بنتی ہے۔

۲۷۔دعا نماز ظہر وعصر کو(اول وقت)ملا کر پڑھو تو اپنے مقاصد کو پوراہوتا ہوا دیکھو گے۔

۲۸۔سب سے بڑا پرہیزگار شبہ کے وقت ٹھہرجانے والا شخص ہے سب سے بڑا عبادتگذار واجب ادا کرنے والا شخص ہے سب سے بڑا پارسا حرام چھوڑدینے والا شخص ہے سب سے بڑا مجتہد محنتی گناہوں کو چھوڑ دینے والا شخص ہے ۔

۲۹۔نعمت کی معرفت نہیں رکھتا مگر شکرگزار اور نعمت کا شکریہ ادا نہیں کرتا مگر نعمت کی معرفت رکھنے والا۔

۳۰۔نہ بخشے جانے والوں گناہوں میں سے انسان کا یہ جملہ ہے :اے کاش! مجھے صرف اسی گناہ کی سزا ملتی ۔

۳۱۔ سب سے بُرا بندہ وہ بندہ ہے کہ جس کے دو زبان اور دو چہرہ (یعنی منافق) ہوتا ھے وہ سامنے اپنے دینی بھائی کی تعریف کرتا ہے اور غیاب میں اس کو کھاتا ہے (اس کی غیبت کرتا ہے )اس کو کچھ عطا ہوتا ہے تو یہ اس سے حسد کرتا ہے اور وہ محروم ہوتا ہے یا کسی بلا میں مبتلا ہو تا ہے تو اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے ۔

۳۲۔انکساری یہ ہے کہ انسان جس کسی کے پاس سے گذرے اس پر سلام کرے ۔ اور جہاں جگہ مل جائے بیٹھ جائے۔

۳۳۔جہاں جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جانے والے شخص پر خدا اور اس کے ملائکہ اس وقت تک درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ وہاں سے اٹھ نہ جائے۔

۳۴۔ فخر ومباہات نہ کرو ورنہ تمہاری قدر گھٹ جائے گی، مزاح نہ کرو کہ لوگ تم پر جری ہو جائیں گے۔

۳۵۔جو شخص اپنے دینی والدین(حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام) کی پیروی کو اپنے نسبی والدین پر مقدم کرے تو خداوند متعال اس سے خطاب کرکے فرماتا ہے:جس طرح تونے میرے حکم کو مقدم کیا ہے میں بھی تجھے (نیکی میں)مقدم کروں گا اور تجھے تیرے دینی والدین کا ہم نشین بناؤں گا جس طرح کہ تو نے ان دونوں کی محبت کو اپنے نسبی والدین کی محبت پر مقدم کیا ہے۔

۳۶۔غمگین کے سامنے اظہار خوشی بے ادب ہے۔

۳۷۔جس کی طرز زندگی میں تقویٰ وپرہیزگاری ، طبیعت میں بزرگواری اور عادت میں حلم و بردباری پائی جائے گی اس کے دوست زیادہ اور مدح وثنا کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

۳۸۔اپنے دینی بھائیوں کے حقوق کی زیادہ سے زیادہ معرفت رکھنے والا اور انھیں بھر پور طریقے سے اداکرنے والا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت وشان کامالک ہے ۔

۳۹۔خدا سے ڈرو اور (ہمارے لئے) زینت کا باعث بنو۔ ذلت کا سبب نہ بنو، لوگوں کو ہم سے دوستی و محبت پیدا کرنے کی طرف جذب کرو اور ہم سے ہر قسم کی بری شیٔ کو دور رکھو اس لئے کہ کوئی بھی اچھائی ہمارے بارے میں ذکر نہیں کی جاتی مگر یہ کہ وہ ہم میں پائی جاتی ہے اور ہر برائی ہم سے دور ہے۔

۴۰۔ہمارے شیعہ علماء جنھوں نے ہمارے کمزور چاہنے والوں اور ہماری ولایت کے قائل لوگوں کی سرپرستی اور ان کی مشکلات کو دور کیا ہے وہ بروز قیامت اس حال میں وارد محشر ہوں گے کہ ان کے سروں پر تاج کرامت ہوگا اس سے نکلنے والے نور محشر کے ہر گوشے کو منور کردے گا ان انوار کی پہنچ تین ہراز سال کی مسافت تک ہوگی۔

منابع و مآخذ

[1] - اصول كافى: ج 1، ص 519، ح 11.
[2] -
حديقة الشّيعة: ج 2، ص 194، وافى: ج 4، ص 177، ح 42.
[3] -
مستدرك الوسائل:ج 11، ص 183، ح 12690.
[4] -
تحف العقول: ص 489، س 13، بحارالأنوار: ج 75، ص 374، ح 26.
[5] -
مستدرك الوسائل: ج 12، ص 261، ح 14061.
[6] -
مستدرك الوسائل: ج 8، ص 351، ح 5، بحارالأنوار: ج 71، ص 198، ح 34.
[7] -
بحارالأنوار: ج 50، ص 296، ضمن ح 70.
[8] -
مستدرك الوسائل: ج 12، ص 261،س 15، بحارالأنوار: ج 75، ص 401، ضمن ح 42.
[9] -
بحارالأنوار: ج 1، ص 95، ح 27.
[10] -
تحف العقول: ص 489 س 20، بحارالأنوار: ج 75، ص 374، ح 33.
[11] -
بحارالأنوار: ج 68، ص 336، س 21، ضمن ح 22.
[12] -
تحف العقول: ص 498 س 22، بحارالأنوار: ج 75، ص 374، ح 35.
[13] -
بحارالانوار: ج 71، ص 188، ح 15.
[14] -
تحف العقول: ص 489، س 17، بحارالأنوار: ج 75، ص 374، ح 24.
[15] -
بحارالأنوار: ج 75، ص 372، ح 11.
[16] -
أعيان الشّيعة: ج 2، ص 41، س 30، بحارالأنوار: ج 75، ص 372، ح 12.
[17] -
احتجاج طبرسى: ج 2، ص 517، ح 340، بحارالأنوار: ج 41، ص 55، ح 5.
[18] -
طب الائمّه سيّد شبّر: ص 331، س 8.
[19] -
بحارالأنوار: ج 75، ص 372، س 21، ضمن ح 12.
[20] -
أعيان الشّيعة: ج 2، ص 42، س 2، بحارالأنوار: ج 75، ص 373، ح 19.
[21] -
أعيان الشّيعة: ج 2، ص 42، س 29، بحارالأنوار: ج 75، ص 380، س 1.
[22] -
أعلام الدّين: ص 313، س 3، بحارالأنوار: ج 75، ص 379، س 18.
[23] -
تحف العقول: ص 489، س 8، بحارالأنوار: ج 75، ص 374، ح 21.

پیامبر اعظم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

1ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا تُضَيِّعُوا صَلاتَكُمْ، فَإنَّ مَنْ ضَيَّعَ صَلاتَهُ، حُشِرَ مَعَ قارُونَ وَ هامانَ، وَ كانَ حَقّاً عَلىِ اللّهِ أنْ يُدْخِلَهُ النّارَ مَعَ الْمُنافِقينَ.(1)

۱۔ رسول اکرم (ص): اپنی نمازوں کو ضایع نہ کرو اس لئے کہ جو شخص اپنی نماز کو ضایع کرے گا وہ قارون و ہامان کے ساتھ محشور ہوگا اور اللہ حق رکھتا ہے کہ اسے منافقین کے ہمراہ جہنم میں ڈال دے ۔

 

2ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ مَشى إلى مَسْجِد مِنْ مَساجِدِ اللّهِ، فَلَهُ بِكُّلِ خُطْوَة خَطاها حَتّى يَرْجِعَ إلى مَنْزِلِهِ، عَشْرُ حَسَنات، وَ مَحى عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئات، وَ رَفَعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجات.(2)

۲۔ رسول اکرم (ص): جو شخص مساجد الٰہی میں سےکسی ایک کی جانب اٹھا ئے تو گھر واپس آنے تک اس کے ہر قدم پر دس نیکیاں ہیں اور اس کی دس برائیاں محو ہو جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بڑھادیئے جاتے ہیں۔

 

3ـ بَيْنَما رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله) جالِسٌ فِى الْمَسْجِدِ، إذْدَخَلَ رَجُلٌ فَقامَ يُصَلّى، فَلَمْ يُتِمَّ رُكُوعَهُ وَ لا سُجُودَهُ، فَقالَ: نَقَرَ كَنَقْرِ الْغُرابِ، لَئِنْ ماتَ هذا وَ هكَذا صَلوتُهُ لَيَمُوتُنَّ عَلى غَيْرِ ديني.(3)

۳۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک شخص داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا اور رکوع وسجدوں کو کامل طریقہ سے بجا نہ لایا آنحضر ت (ص) نے فرمایا:کوّے کی طرح چونچ مار رہا ہے اگر یہ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مر جائے تو میرے دین پر نہیں مرا ہے ۔

 

4ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ) لِعَلىّ(عليه السلام): أنَا رَسُولُ اللّهِ الْمُبَلِّغُ عَنْهُ، وَ أنْتَ وَجْهُ اللّهِ وَ الْمُؤْتَمُّ بِهِ، فَلا نَظير لى إلاّ أنْتَ، وَ لا مِثْلَ لَكَ إلاّ أنَا.(4)

۴۔ آنحضرت (ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: میں اللہ کا فرستادہ اور اس کی طرف سے تبلیغ کرنے والا ہوں اور تم وجہ اللہ اور مقتدا ہو میری تمہارے سواء کوئی نظیر نہیں اور تمہارا میرے سواء کوئی مثل نہیں ۔

 

5ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يا أباذَر، اَلدُّنْيا سِجْنُ الْمُؤْمِن وَ جَنَّةُ الْكافِرِ، وَ ما أصْبَحَ فيها مُؤْمِنٌ إلاّ وَ هُوَ حَزينٌ، وَ كَيْفَ لايَحْزُنُ الْمُؤْمِنُ وَ قَدْ أوَعَدَهُ اللّهُ أنَّهُ وارِدٌ جَهَنَّمَ.(5)

۵۔ رسول اکرم (ص): اے ابوذر! دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے مومن اس میں ہمیشہ محزون و مغموم رہتا ہے اور کیونکر مومن اس میں محزون نہ رہے کہ خدا نے اس کو (گناہوں کے مقابل) جہنم میں ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔

 

6ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): وَ عَظَني جِبْرئيلُ(عليه السلام): يا مُحَمَّدُ ، أحْبِبْ مَنْ شِئْتَ فَإنَّكَ مُفارِقُهُ، وَ اعْمَلْ ما شِئْتَ فَإنَّكَ مُلاقيهِ.(6)

6۔ رسول اکرم (ص): جبرئیل نے مجھے وعظ کیا اور کہا: اے محمد ! جس سے چاہو محبت کرو کہ تم اس سے بچھڑنے والے ہو اور جو چاہو عمل کرو کہ اس سے ؟؟؟(اللہ سے)ملاقات کرنے والے ہو۔

 

7ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): شَرّ ُالنّاسِ مَنْ باعَ آخِرَتَهُ بِدُنْياهُ، وَ شَرٌّ مِنْ ذلِكَ مَنْ باعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيا غَيْرِهِ.(7)

۷۔ رسول اکرم (ص): بدترین آدمی وہ ہے جو اپنی دنیا کی خاطر آخرت کو بیچ دے اور اس سے بد تر وہ ہے جو دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت داؤ ں پر لگا دے۔(۷)

 

8ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ثَلاثَةٌ أخافُهُنَّ عَلى اُمتَّى: ألضَّلالَةُ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ، وَ مُضِلاّتُ الْفِتَنِ، وَ شَهْوَةُ الْبَطْنِ وَ الْفَرْجِ.(8)

۸۔ رسول اکرم (ص): میں اپنی امت کے لئے تین چیزوں سے ڈرتا ہوں۔ مغرفت کے بعد گمراہی سے، فتنوں کی گمراہیوں سے اور شکم و شرمگاہ کی شہوت سے۔(۸)

 

9ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ثَلاثَةٌ مِنَ الذُّنُوبِ تُعَجَّلُ عُقُوبَتُها وَ لا تُؤَخَّرُ إلى الاخِرَةِ: عُقُوقُ الْوالِدَيْنِ، وَ الْبَغْيُ عَلَى النّاسِ، وَ كُفْرُ الاْحْسانِ.(9)

۹۔ رسول اکرم (ص): تین گناہوں کی سزا جلدی مل جاتی ہے اور اسے آخرت پر نہیں ٹالا جاتا۔ والدین کا عاق ہونا، لوگوں پر سرکشی کرنا، اور نیکی کا برائی سے بدلہ دینا ۔(۹)

 

10ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إنَّ أعْجَزَ النّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعاءِ، وَ إنَّ أبْخَلَ النّاسِ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلامِ.(10)

۱۰۔ رسول اکرم (ص): سب سے بڑا ناتوان انسان، دعاؤں سے عاجز انسان ہے اور سب سے بڑا بخیل سلام میں بخل کرنے والا ہے ۔(۱۰)

 

11ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إذا تَلاقَيْتُمْ فَتَلاقُوا بِالتَّسْليمِ وَ التَّصافُحِ، وَ إذا تَفَرَّقْتُمْ فَتَفَرَّقُوا بِإلاسْتِغْفارِ.(11)

۱۱۔ رسول اکرم (ص): جب ایک دوسرے سے ملاقات کرو تو سلام اور مصافحہ کے ساتھ ملاقات کرو، اور جب ایک دوسرے سے جدا ہو تو طلب مغفرت کے ساتھ جدا ہو۔ (۱۱)

 

12ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): بَكِرُّوا بِالصَّدَّقَةِ، فَإنَّ الْبَلاءَ لا يَتَخَطاّها.(12)

۱۲۔ رسول اکرم (ص): دن کا آغاز صدقہ سے کرو کہ صدقہ بلاؤں کو دور کرتا رہتا ہے ۔(۱۲)

 

13ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يُؤْتَى الرَّجُلُ في قَبْرِهِ بِالْعَذابِ، فَإذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ رَأسِهِ دَفَعَتْهُ تِلاوَةُ الْقُرْآنِ، وَ إذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ يَدَيْهِ دَفَعَتْهُ الصَّدَقَةُ، وَ إذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ دَفَعَهُ مَشْيُهُ إلىَ الْمَسْجِدِ.(13)

۱۳۔ رسول اکرم (ص): انسان کی قبر میں عذاب آتا ہے پس اگر سرہانے کی جانب سے عذاب آیاتو تلاوت قرآن اسے دفع کرتی ہے ۔اور اگرسامنے سے تو صدقہ اسے دفع کرتا ہے اور اگر پیروں کی طرف سے عذاب آتا ہے تو مسجد جانے کا ثواب اسے دفع کرتا ہے۔

 

14ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): عَلَيْكُمْ بِمَكارِمِ الاْخْلاقِ، فَإنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَني بِها، وَ إنَّ مِنْ مَكارِمِ الاْخْلاقِ: أنْ يَعْفُوَ الرَّجُلُ عَمَّنْ ظَلَمَهُ، وَ يُعْطِيَ مَنْ حَرَمَهُ، وَ يَصِلَ مَنْ قَطَعَهُ، وَ أنْ يَعُودَ مَنْ لايَعُودُهُ.(14)

۱۴۔ رسول اکرم (ص): تم پر مکارم اخلاق اپنا نا لازم ہے اس لئے کہ اس کے ہمراہ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور مکارم اخلاق میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر ظلم  کرنے والے کو معاف کردے جس نے اسے محروم رکھا ہے اسے عطا کرے جس نے قطع تعلق کر لیا ہے اس سے رابطہ قائم کرے اور جو اس کی عیادت کو نہیں آیا ہے اس کی عیادت کو جائے ۔(۱۴)

 

15ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): سادَةُ النّاسِ فِى الدُّنْيا الأسْخِياء، سادَةُ النّاسِ فِى الاخِرَةِ الاْتْقِياء.(15)

15۔ رسول اکرم (ص): دنیا میں لوگوں کے سردار سخی لوگ ہیں اور آخرت میں لوگو ں کے سردار متقی لوگ ہیں ۔

 

16ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ما تَواضَعَ أحَدٌ إلاّ رَفَعَهُ اللّهُ.(16)

۱۶۔ رسول اکرم (ص): کوئی بھی تواضع وانکساری نہیں کرے گامگریہ کہ خدا اسے سربلند کردے گا۔(۱۶)

 

17ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ أنْظَرَ مُعْسِراً، كانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْم صَدَقَةٌ.(17)

۱۷۔ رسول اکرم (ص): جو کسی تنگدست کو مھلت دیتا ہے اسے ہر روز کے بدلے صدقہ کا ثواب ملتا ہے ۔ (۱۷)

 

18ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَوْصانى رَبّى بِتِسْع: اَوْصانى بِالاْخْلاصِ فِى السِّرِّ وَ الْعَلانِيَةِ، وَ الْعَدْلِ فِى الرِّضا وَ الْغَضَبِ، وَ الْقَصْدِ فِى الْفَقْرِ وَ الْغِنى، وَ اَنْ أعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنى، وَ أعطِيَ مَنْ حَرَمَنى، وَ أصِلَ مَنْ قَطَعَنى، وَ اَنْ يَكُونَ صُمْتى فِكْراً، وَ مَنْطِقى ذِكْراً، وَ نَظَرى عِبْراً. (18)

18۔ رسول اکرم (ص): میرے پروردگار نے مجھ سے نو چیزوں کی سفارش کی ہے ۔ جلوت و خلوت میں اخلاص کی، خوشی و غضب میں عدالت کی، فقرو ثروت میں میانہ روی کی، جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اسے معاف کردینے کی، جس نے مجھے محروم رکھا ہے اسے عطا کرنے کی، جس نے مجھ سے قطع تعلق کیا اس سے رابطہ کی، اور یہ کہ میری خاموشی تفکر کے لئے ہو اور میری گفتار ذکر اور میری نظر عبرت کے لئے ہو۔

 

19ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يَأتي عَلىَ النّاسِ زَمانٌ، الصّابِرُ مِنْهُمْ عَلى دينِهِ كَالْقابِضِ عَلىَ الْجَمَرِ.(19)

۱۹۔ رسول اکرم (ص): لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جس میں اپنے دین پر صبر کرنے والا،ہاتھ میں انگارا تھامنے والے کے مانند ہے ۔(۱۹)

 

20ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): سَيَأتي زَمانٌ عَلى اُمتَّي يَفِرُّونَ مِنَ الْعُلَماءِ كَما يَفِرُّ الْغَنَمُ مِنَ الذِّئْبِ، إبْتَلاهُمُ اللّهُ بِثَلاثَةِ أشْياء: الاْوَّلُ: يَرَفَعُ الْبَرَكَةَ مِنْ أمْوالِهِمْ، وَ الثّاني: سَلَّط اللّهُ عَلَيْهِمْ سُلْطاناً جائِراً، وَ الثّالِثُ: يَخْرُجُونَ مِنَ الدُّنْيا بِلا إيمان.(20)

۲۰۔ رسول اکرم (ص): میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں لوگ علماء ے اس طرح بھاگیں گے جس طرح بھیڑ بھڑیوں سے بھاگتے ہیں اور پھر اللہ انھیں تین امتحان میں مبتلا کرے گا۔ ایک:ان کے اموال سے برکت اٹھالے گا، دو: ان کے اوپر ظالم حکمراں کو مسلط کردے گا، تین: وہ دنیا سے بے ایمان اٹھیں گے ۔(۲۰)

 

21ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلْعالِمُ بَيْنَ الْجُهّالِ كَالْحَىّ بَيْنَ الاْمْواتِ، وَ إنَّ طالِبَ الْعِلْمِ يَسْتَغْفِرُلَهُ كُلُّ شَيء حَتّى حيتانِ الْبَحْرِ، وَ هَوامُّهُ، وَ سُباعُ الْبَرِّ وَ أنْعامُهُ، فَاطْلُبُوا الْعِلْمَ، فَإنّهُ السَّبَبُ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ، وَ إنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَريضَةٌ عَلى كُلِ مُسْلِم.(21)

۲۱۔ رسول اکرم (ص): جاہلوں کے درمیان عالم، مردوں کے درمیان زندہ کی طرح ہے ۔اور بے شک طالب علم کے لئے ہر شئے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور اس کے حشرات ، خشکی کے درندے اور چوپائے استغفار کرتے ہیں لہٰذا علم حاصل کروکہ علم تمہارے اور خدا کے درمیان واسطہ ہے اور علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے۔

 

22ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ زارَ عالِماً فَكَأنَّما زارَني، وَ مَنْ صافَحَ عالِماً فَكأنَّما صافَحَني، وَ مَنْ جالَسَ عالِماً فَكَأنَّما جالَسَني، وَ مَنْ جالَسَني فِى الدُّنْيا أجْلَسْتُهُ مَعى يَوْمَ الْقِيامَةِ.(22)

۲۲۔ رسول اکرم (ص): جس نے کسی عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ہے اور جو کسی عالم سے مصاحفہ کرے گویا اس نے مجھ سے مصاحفہ کیا ہے اور جو کسی عالم کی ہمنشینی اختیار کرے گویا اس نے میری ہمنیشنی اختیار کی ہے اور جو دنیا می میرا ہم نشین ہوگا میں اخرت میں اس کا ہم نشین ہوں گا۔

 

23ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ تَزَوَّجَ إمْرَأةً لِمالِها وَكَلَهُ اللّهُ إلَيْهِ، وَ مَنْ تَزَوَّجَها لِجَمالِها رَأى فيها ما يَكَرَهُ، وَ مَنْ تَزَوَّجَها لِدينِها جَمَعَ اللّهُ لَهُ ذلِكَ.(23)

۲۳۔ رسول اکرم (ص): جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے ازدواج کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اسی(مال) کے حوالے کردے گا اور جو اس کے جمال و خوبصورتی کی خاطر ازدواج کرے گا ۔ اسے، اس(عورت)میں ناپسند چیزیں دیکھنا پڑیں گی۔ اور جو اس سے اس کے دین کی خاطر ازدواج کرے گا خدا اس کے لئے تمام چیزوں (مال جمال اور دین)کو یکنا کردے گا۔

 

24ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ قَلَّ طَعامُهُ، صَحَّ بَدَنُهُ، وَ صَفا قَلْبُهُ، وَ مَنْ كَثُرَ طَعامُهُ سَقُمَ بَدَنُهَ وَ قَسا قَلْبُهُ.(24)

۲۴۔ رسول اکرم (ص): جس کی خوراک کم ہوگی اس کا بدن تندرست ، دل پاکیزہ ہو جائے گا۔ اور جس کی خوراک زیادہ ہوگی اس کا بدن مریض اور دل سخت ہو جائے گا۔

 

25ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا تُشْبِعُوا، فَيُطْفأ نُورُ الْمَعْرِفَةِ مِنْ قُلُوبِكُمْ.(25)

۲۵۔ رسول اکرم (ص): پیٹ بھر کر نہ کھاؤ کہ تمہارے دلوں میں معرفت کا نور خاموش ہو جائے گا۔

 

26ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ تَوَلّى عَمَلا وَ هُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ لَيْسَ لَهُ بِأهْل، فَلْيتُبَّوَءُ مَقْعَدُهُ مِنَ النّارِ.(26)

۲۶۔ رسول اکرم (ص): جو کسی کام کی ذمہ داری لے حالانکہ وہ جنانتا ہے کہ اس کام کی اہلیت نہیں رکھتا اس کا ٹھکانہ آتش جہنم  ہوگا ۔

 

27ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُبْغِضُ الْمُؤْمِنَ الضَّعيفِ الَّذي لا دينَ لَهُ، فَقيلَ: وَ ما الْمُؤْمِنُ الضَّعيفُ الَّذي لا دينَ لَهُ؟ قالَ: اَلذّي لا يَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ.(27)

۲۷۔ رسول اکرم (ص): خدا وند معال کمزور اور بے دین مومن کو نا پسند کرتا ہے ۔ سوال کیا گیا؛ کمزور اور بے دین مومن کون ہے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا: جو برائیوں سے منع نہیں کرتا ہے۔

 

28ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِىءُ الْخَطيئَةَ، كَما تُطْفِىءُ الماءُ النّارَ، وَ تَدْفَعُ سَبْعينَ باباً مِنَ الْبَلاءِ.(28)

۲۸۔ رسول اکرم (ص): پوشیدہ صدقہ گناہ کی (آگ کو) اس طرح  بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا تا ہے۔ اور ستر قسم کی بلاؤں کو دور کرتا ہے ۔

 

29ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): عَجِبْتُ لِمَنْ يَحْتَمى مِنَ الطَّعامِ مَخافَةَ الدّاءِ، كَيْفَ لايَحْتمى مِنَ الذُّنُوبِ، مَخافَةَ النّارِ.(29)

۲۹۔ رسول اکرم (ص): مجھے تعجب اس شخص پر جو بیماری کے خوف سے خوراک میں تو پرہیز کرتا لیکن آتش جہنم کے خوف سے گناہوں سے گریز نہیں رکتا ہے۔

 

30 ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): حُبُّ الْجاهِ وَ الْمالِ يُنْبِتُ النِّفاقَ فِى الْقَلْبِ، كَما يُنْبِتُ الْماءُ الْبَقْلَ.(30)

۳۰۔ رسول اکرم (ص): جاہ ومال کی محبت دل میں نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی سبزہ پیدا کرتا ہے ۔

 

31ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ اَصابَ مِنْ إمْرَأة نَظْرَةً حَراماً، مَلاَ اللّهُ عَيْنَيْهِ ناراً.(31)

۳۱۔ رسول اکرم (ص): جو کسی نا محرم عورت پر نگاہ حرام کرے گا خدا وند متعال اس کی دونوں آنکھوں میں آگے بھر دے گا-

 

32ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): حَسِّنُوا أخْلاقَكُمْ، وَ ألْطِفُوا جيرانَكُمْ، وَ أكْرِمُوا نِسائَكُمْ، تَدْخُلُوا الْجَنّةَ بِغَيْرِ حِساب.(32)

۳۲۔ رسول اکرم (ص): اپنے اخلاق کو اچھا کرو، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، اپنی عورتوں کا احترام کرو، تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

 

33ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلْمَرْءُ عَلى دينِ خَليلِهِ، فَلْيَنْظُر أحَدُكُمْ مَنْ يُخالِطُ.(33)

۳۳۔ رسول اکرم (ص): انسان اپنے دوست کے دین ومذہب پر ہوتا ہے لہٰذا تمہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو۔

 

34ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلصَّدقَةُ بِعَشْر، وَ الْقَرْضُ بِثَمانِيَةَ عَشَرَ، وَ صِلَةُ الرَّحِمِ بِأرْبَعَةَ وَ عِشْرينَ.(34)

۳۴۔ رسول اکرم (ص): صدقہ کا ثواب دس گناہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا اور صلۂ رحم کا ثواب چوبیس گنا ہے ۔

 

35ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا يَمْرُضُ مُؤْمِنٌ وَ لا مُؤْمِنَةٌ إلاّ حَطّ اللّهُ بِهِ خَطاياهُ.(35)

۳۵۔ رسول اکرم (ص): کوئی مومن یا مومنہ مریض نہیں ہوتے مگر یہ کہ خداوند متعال مرض کے ذریعہ ان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔

 

36ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ وَقَّرَ ذا شَيْبَة فِى الاْسْلامِ أمَّنَهُ اللّهُ مِنْ فَزَعِ يَوْمِ الْقِيامَةِ.(36)

۳۶۔ رسول اکرم (ص): جو کسی بوڑھے (ڈاڑھی والے)مسلمان کا احترام کرے گا خدا وند متعال اسے  روز قیامت کے خوف سے محفوظ رکھے گا۔

 

37ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): كُلُّ عَيْن باكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيامَةِ إلاّ ثَلاثَ أعْيُن: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ ، وَ عَيْنٌ غُضَّتْ عَنْ مَحارِمِ اللّهِ، وَ عَيْنٌ باتَتْ ساهِرَةً فى سَبيلِ اللّهِ.(37)

۳۷۔ رسول اکرم (ص): روز قیامت تمام آنکھیں اشکبار ہوں گی سوائے تین آنکھوں کے: وہ آنکھ جو خوف خدا سے گریہ کر چکی ہوگی وہ آنکھ جو خدا کے حرام کردہ چیزوں سے بند رہی ہوگی اور وہ آنکھ جو راہ خدا میں بیدار رہی ہوگی۔

 

منابع :حدیث

(۱)۔ وسائل الشیعۃ؛ ج۴، ص۳۰، ح۴۴۳۱۔

(۲)۔ عقاب الاعمال؛ ص۳۴۳، س۱۴ ۔ وسائل الشیعہ؛ ج۵، ص۲۰۱، ح۶۳۲۸۔

(۳)۔ وسائل الشعۃ؛ ج۴، ص۳۱، ح۴۴۳۴۔

(۴)۔ تاویل الآیات الظاھرۃ؛ ص۵۴۹۔ س۵ ۔ تفسیر البرھان، ج۴، ص۱۸۴،س۲۴۔

(۵)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۱۴۲، بحار الانوار؛ ج۷۴، ص۸۰، ح۳۔

(۶)۔امالی طوسی؛ ج۲، ص۲۰۳، بحار الانوار؛ ج۶۸، ص۱۸۸، ح۵۴۔

(۷)۔ من لایحضرہ الفقیہ؛ج۴، ص۳۵۳، ح۵۷۶۲ چاپ جامعہ مدرسین۔

(۸)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۳، بحار الانوار؛ ج۱۰، ص۳۶۸، ح۱۵۔

(۹)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۳،بحارالانوار؛ ج ۷۰، ص۳۷۳، ح۷۔

(۱۰)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۸۷، بحارالانوار؛ ج۹۰، ص۲۹۱، ح۱۱۔

(۱۱)۔ مالی طوسی؛ ج۱، ص۲۱۹، بحار الانوار؛ ج۷۳، ص ۴، ص۱۳۔

(۱۲)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۵۷، بحار الانوار؛ ج۹۳، ص۱۷۷، ح۸۔

(۱۳)۔ مسکن الفؤاد شہید ثانی؛ ص۵۰، س۱۔

(۱۴)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۹۲، بحارالانوار؛ ج۶۶، ص۳۷۵، ح۲۴۔

(۱۵)۔اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۳۰۲، بحار الانوار؛ ج۶۸، ص۳۵۰، ح۱۔

(۱۶)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۵۶، بحار الانوار؛ ج۷۲، ص ۱۲۰، ح۷۔

(۱۷)۔ اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۳۰۵، بحار الانوار؛ ج۱۰۰، ص۱۵۱، ح۱۷۔

(۱۸)۔اعیان الشیعۃ؛ ج۱، ص۳۰۰، بحار الانوار؛ ج ۷۴، ص۱۳۹، ح۱۔

(۱۹)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۹۲، بحار الانوار؛ ج۲۸، ص ۴۷، ح۹۔

(۲۰)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۱، ص۳۷۶، ح۱۳۳۰۱۔

(۲۱)۔ بحار الانوار؛ ج۱، ص۱۷۲، ح۲۵۔

(۲۲)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۱، ص۳۰۰، ح۲۱۴۰۶۔

(۲۳)۔ تہذیب الاحکام؛ ج۷، ص۳۹۹، ح۵۔

(۲۴)۔ تنبیہ الخواطر،(مجموعہ ورام)؛ص۵۴۸، بحار الانوار؛ ج۵۹، ص۲۶۸، ح۵۲۔

(۲۵)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۶، ص۲۱۸، ص۱۹۶۴۶۔

(۲۶)۔ تاریخ الاسلام؛ ج۱۰۱۔ ۱۲۰، ص۲۸۵۔

(۲۷)۔ وسائل الشیعہ؛ ج۱۶، ص۱۲۲، ح۲۱۱۳۹۔

(۲۸)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۷، ص۱۸۴، ح۷۹۸۴۔

(۲۹)۔ بحار الانوار؛ ج۷۰، ص۳۴۷، ح۳۴۔

(۳۰)۔ تنبیہ الخواطر، معروف بہ مجموعہ ورام؛ ص۲۶۴۔

(۳۱)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۴، ص۲۷۰، ح۱۶۶۸۵۔

(۳۲)۔ اعیان الشیعۃ؛ ج۱، ص۳۰۱۔

(۳۳)۔ امالی طوسی؛ ج۲ ، ص۱۳۲، بحار الانوار؛ ج۷، ص۱۹۲، ح۱۲۔

(۳۴)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۷، ص۱۹۴، ح۸۰۱۰۔

(۳۵)۔  جامع الاحادیث؛ ج۳، ص۸۹، ح۳۵، مستدرک الوسائل؛ ج۲، ص۶۶، ح۱۴۲۲۔

(۳۶)۔ کافی؛ ج۲، ص۵۶۸۔ ح۳، بحار الانوار؛ ج۷، ص۳۰۲، ح۵۳۔

(۳۷)۔ ثواب الاعمال؛ ص۲۱۱، ح۱، بحار الانوار؛ ج۴۶، ص۱۰۰، ص۸۸۔

پیامبر اعظم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

1ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا تُضَيِّعُوا صَلاتَكُمْ، فَإنَّ مَنْ ضَيَّعَ صَلاتَهُ، حُشِرَ مَعَ قارُونَ وَ هامانَ، وَ كانَ حَقّاً عَلىِ اللّهِ أنْ يُدْخِلَهُ النّارَ مَعَ الْمُنافِقينَ.(1)

۱۔ رسول اکرم (ص): اپنی نمازوں کو ضایع نہ کرو اس لئے کہ جو شخص اپنی نماز کو ضایع کرے گا وہ قارون و ہامان کے ساتھ محشور ہوگا اور اللہ حق رکھتا ہے کہ اسے منافقین کے ہمراہ جہنم میں ڈال دے ۔

 

2ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ مَشى إلى مَسْجِد مِنْ مَساجِدِ اللّهِ، فَلَهُ بِكُّلِ خُطْوَة خَطاها حَتّى يَرْجِعَ إلى مَنْزِلِهِ، عَشْرُ حَسَنات، وَ مَحى عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئات، وَ رَفَعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجات.(2)

۲۔ رسول اکرم (ص): جو شخص مساجد الٰہی میں سےکسی ایک کی جانب اٹھا ئے تو گھر واپس آنے تک اس کے ہر قدم پر دس نیکیاں ہیں اور اس کی دس برائیاں محو ہو جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بڑھادیئے جاتے ہیں۔

 

3ـ بَيْنَما رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله) جالِسٌ فِى الْمَسْجِدِ، إذْدَخَلَ رَجُلٌ فَقامَ يُصَلّى، فَلَمْ يُتِمَّ رُكُوعَهُ وَ لا سُجُودَهُ، فَقالَ: نَقَرَ كَنَقْرِ الْغُرابِ، لَئِنْ ماتَ هذا وَ هكَذا صَلوتُهُ لَيَمُوتُنَّ عَلى غَيْرِ ديني.(3)

۳۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک شخص داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا اور رکوع وسجدوں کو کامل طریقہ سے بجا نہ لایا آنحضر ت (ص) نے فرمایا:کوّے کی طرح چونچ مار رہا ہے اگر یہ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مر جائے تو میرے دین پر نہیں مرا ہے ۔

 

4ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ) لِعَلىّ(عليه السلام): أنَا رَسُولُ اللّهِ الْمُبَلِّغُ عَنْهُ، وَ أنْتَ وَجْهُ اللّهِ وَ الْمُؤْتَمُّ بِهِ، فَلا نَظير لى إلاّ أنْتَ، وَ لا مِثْلَ لَكَ إلاّ أنَا.(4)

۴۔ آنحضرت (ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: میں اللہ کا فرستادہ اور اس کی طرف سے تبلیغ کرنے والا ہوں اور تم وجہ اللہ اور مقتدا ہو میری تمہارے سواء کوئی نظیر نہیں اور تمہارا میرے سواء کوئی مثل نہیں ۔

 

5ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يا أباذَر، اَلدُّنْيا سِجْنُ الْمُؤْمِن وَ جَنَّةُ الْكافِرِ، وَ ما أصْبَحَ فيها مُؤْمِنٌ إلاّ وَ هُوَ حَزينٌ، وَ كَيْفَ لايَحْزُنُ الْمُؤْمِنُ وَ قَدْ أوَعَدَهُ اللّهُ أنَّهُ وارِدٌ جَهَنَّمَ.(5)

۵۔ رسول اکرم (ص): اے ابوذر! دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے مومن اس میں ہمیشہ محزون و مغموم رہتا ہے اور کیونکر مومن اس میں محزون نہ رہے کہ خدا نے اس کو (گناہوں کے مقابل) جہنم میں ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔

 

6ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): وَ عَظَني جِبْرئيلُ(عليه السلام): يا مُحَمَّدُ ، أحْبِبْ مَنْ شِئْتَ فَإنَّكَ مُفارِقُهُ، وَ اعْمَلْ ما شِئْتَ فَإنَّكَ مُلاقيهِ.(6)

6۔ رسول اکرم (ص): جبرئیل نے مجھے وعظ کیا اور کہا: اے محمد ! جس سے چاہو محبت کرو کہ تم اس سے بچھڑنے والے ہو اور جو چاہو عمل کرو کہ اس سے ؟؟؟(اللہ سے)ملاقات کرنے والے ہو۔

 

7ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): شَرّ ُالنّاسِ مَنْ باعَ آخِرَتَهُ بِدُنْياهُ، وَ شَرٌّ مِنْ ذلِكَ مَنْ باعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيا غَيْرِهِ.(7)

۷۔ رسول اکرم (ص): بدترین آدمی وہ ہے جو اپنی دنیا کی خاطر آخرت کو بیچ دے اور اس سے بد تر وہ ہے جو دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت داؤ ں پر لگا دے۔(۷)

 

8ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ثَلاثَةٌ أخافُهُنَّ عَلى اُمتَّى: ألضَّلالَةُ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ، وَ مُضِلاّتُ الْفِتَنِ، وَ شَهْوَةُ الْبَطْنِ وَ الْفَرْجِ.(8)

۸۔ رسول اکرم (ص): میں اپنی امت کے لئے تین چیزوں سے ڈرتا ہوں۔ مغرفت کے بعد گمراہی سے، فتنوں کی گمراہیوں سے اور شکم و شرمگاہ کی شہوت سے۔(۸)

 

9ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ثَلاثَةٌ مِنَ الذُّنُوبِ تُعَجَّلُ عُقُوبَتُها وَ لا تُؤَخَّرُ إلى الاخِرَةِ: عُقُوقُ الْوالِدَيْنِ، وَ الْبَغْيُ عَلَى النّاسِ، وَ كُفْرُ الاْحْسانِ.(9)

۹۔ رسول اکرم (ص): تین گناہوں کی سزا جلدی مل جاتی ہے اور اسے آخرت پر نہیں ٹالا جاتا۔ والدین کا عاق ہونا، لوگوں پر سرکشی کرنا، اور نیکی کا برائی سے بدلہ دینا ۔(۹)

 

10ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إنَّ أعْجَزَ النّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعاءِ، وَ إنَّ أبْخَلَ النّاسِ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلامِ.(10)

۱۰۔ رسول اکرم (ص): سب سے بڑا ناتوان انسان، دعاؤں سے عاجز انسان ہے اور سب سے بڑا بخیل سلام میں بخل کرنے والا ہے ۔(۱۰)

 

11ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إذا تَلاقَيْتُمْ فَتَلاقُوا بِالتَّسْليمِ وَ التَّصافُحِ، وَ إذا تَفَرَّقْتُمْ فَتَفَرَّقُوا بِإلاسْتِغْفارِ.(11)

۱۱۔ رسول اکرم (ص): جب ایک دوسرے سے ملاقات کرو تو سلام اور مصافحہ کے ساتھ ملاقات کرو، اور جب ایک دوسرے سے جدا ہو تو طلب مغفرت کے ساتھ جدا ہو۔ (۱۱)

 

12ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): بَكِرُّوا بِالصَّدَّقَةِ، فَإنَّ الْبَلاءَ لا يَتَخَطاّها.(12)

۱۲۔ رسول اکرم (ص): دن کا آغاز صدقہ سے کرو کہ صدقہ بلاؤں کو دور کرتا رہتا ہے ۔(۱۲)

 

13ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يُؤْتَى الرَّجُلُ في قَبْرِهِ بِالْعَذابِ، فَإذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ رَأسِهِ دَفَعَتْهُ تِلاوَةُ الْقُرْآنِ، وَ إذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ يَدَيْهِ دَفَعَتْهُ الصَّدَقَةُ، وَ إذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ دَفَعَهُ مَشْيُهُ إلىَ الْمَسْجِدِ.(13)

۱۳۔ رسول اکرم (ص): انسان کی قبر میں عذاب آتا ہے پس اگر سرہانے کی جانب سے عذاب آیاتو تلاوت قرآن اسے دفع کرتی ہے ۔اور اگرسامنے سے تو صدقہ اسے دفع کرتا ہے اور اگر پیروں کی طرف سے عذاب آتا ہے تو مسجد جانے کا ثواب اسے دفع کرتا ہے۔

 

14ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): عَلَيْكُمْ بِمَكارِمِ الاْخْلاقِ، فَإنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَني بِها، وَ إنَّ مِنْ مَكارِمِ الاْخْلاقِ: أنْ يَعْفُوَ الرَّجُلُ عَمَّنْ ظَلَمَهُ، وَ يُعْطِيَ مَنْ حَرَمَهُ، وَ يَصِلَ مَنْ قَطَعَهُ، وَ أنْ يَعُودَ مَنْ لايَعُودُهُ.(14)

۱۴۔ رسول اکرم (ص): تم پر مکارم اخلاق اپنا نا لازم ہے اس لئے کہ اس کے ہمراہ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور مکارم اخلاق میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر ظلم  کرنے والے کو معاف کردے جس نے اسے محروم رکھا ہے اسے عطا کرے جس نے قطع تعلق کر لیا ہے اس سے رابطہ قائم کرے اور جو اس کی عیادت کو نہیں آیا ہے اس کی عیادت کو جائے ۔(۱۴)

 

15ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): سادَةُ النّاسِ فِى الدُّنْيا الأسْخِياء، سادَةُ النّاسِ فِى الاخِرَةِ الاْتْقِياء.(15)

15۔ رسول اکرم (ص): دنیا میں لوگوں کے سردار سخی لوگ ہیں اور آخرت میں لوگو ں کے سردار متقی لوگ ہیں ۔

 

16ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ما تَواضَعَ أحَدٌ إلاّ رَفَعَهُ اللّهُ.(16)

۱۶۔ رسول اکرم (ص): کوئی بھی تواضع وانکساری نہیں کرے گامگریہ کہ خدا اسے سربلند کردے گا۔(۱۶)

 

17ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ أنْظَرَ مُعْسِراً، كانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْم صَدَقَةٌ.(17)

۱۷۔ رسول اکرم (ص): جو کسی تنگدست کو مھلت دیتا ہے اسے ہر روز کے بدلے صدقہ کا ثواب ملتا ہے ۔ (۱۷)

 

18ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَوْصانى رَبّى بِتِسْع: اَوْصانى بِالاْخْلاصِ فِى السِّرِّ وَ الْعَلانِيَةِ، وَ الْعَدْلِ فِى الرِّضا وَ الْغَضَبِ، وَ الْقَصْدِ فِى الْفَقْرِ وَ الْغِنى، وَ اَنْ أعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنى، وَ أعطِيَ مَنْ حَرَمَنى، وَ أصِلَ مَنْ قَطَعَنى، وَ اَنْ يَكُونَ صُمْتى فِكْراً، وَ مَنْطِقى ذِكْراً، وَ نَظَرى عِبْراً. (18)

18۔ رسول اکرم (ص): میرے پروردگار نے مجھ سے نو چیزوں کی سفارش کی ہے ۔ جلوت و خلوت میں اخلاص کی، خوشی و غضب میں عدالت کی، فقرو ثروت میں میانہ روی کی، جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اسے معاف کردینے کی، جس نے مجھے محروم رکھا ہے اسے عطا کرنے کی، جس نے مجھ سے قطع تعلق کیا اس سے رابطہ کی، اور یہ کہ میری خاموشی تفکر کے لئے ہو اور میری گفتار ذکر اور میری نظر عبرت کے لئے ہو۔

 

19ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يَأتي عَلىَ النّاسِ زَمانٌ، الصّابِرُ مِنْهُمْ عَلى دينِهِ كَالْقابِضِ عَلىَ الْجَمَرِ.(19)

۱۹۔ رسول اکرم (ص): لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جس میں اپنے دین پر صبر کرنے والا،ہاتھ میں انگارا تھامنے والے کے مانند ہے ۔(۱۹)

 

20ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): سَيَأتي زَمانٌ عَلى اُمتَّي يَفِرُّونَ مِنَ الْعُلَماءِ كَما يَفِرُّ الْغَنَمُ مِنَ الذِّئْبِ، إبْتَلاهُمُ اللّهُ بِثَلاثَةِ أشْياء: الاْوَّلُ: يَرَفَعُ الْبَرَكَةَ مِنْ أمْوالِهِمْ، وَ الثّاني: سَلَّط اللّهُ عَلَيْهِمْ سُلْطاناً جائِراً، وَ الثّالِثُ: يَخْرُجُونَ مِنَ الدُّنْيا بِلا إيمان.(20)

۲۰۔ رسول اکرم (ص): میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں لوگ علماء ے اس طرح بھاگیں گے جس طرح بھیڑ بھڑیوں سے بھاگتے ہیں اور پھر اللہ انھیں تین امتحان میں مبتلا کرے گا۔ ایک:ان کے اموال سے برکت اٹھالے گا، دو: ان کے اوپر ظالم حکمراں کو مسلط کردے گا، تین: وہ دنیا سے بے ایمان اٹھیں گے ۔(۲۰)

 

21ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلْعالِمُ بَيْنَ الْجُهّالِ كَالْحَىّ بَيْنَ الاْمْواتِ، وَ إنَّ طالِبَ الْعِلْمِ يَسْتَغْفِرُلَهُ كُلُّ شَيء حَتّى حيتانِ الْبَحْرِ، وَ هَوامُّهُ، وَ سُباعُ الْبَرِّ وَ أنْعامُهُ، فَاطْلُبُوا الْعِلْمَ، فَإنّهُ السَّبَبُ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ، وَ إنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَريضَةٌ عَلى كُلِ مُسْلِم.(21)

۲۱۔ رسول اکرم (ص): جاہلوں کے درمیان عالم، مردوں کے درمیان زندہ کی طرح ہے ۔اور بے شک طالب علم کے لئے ہر شئے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور اس کے حشرات ، خشکی کے درندے اور چوپائے استغفار کرتے ہیں لہٰذا علم حاصل کروکہ علم تمہارے اور خدا کے درمیان واسطہ ہے اور علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے۔

 

22ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ زارَ عالِماً فَكَأنَّما زارَني، وَ مَنْ صافَحَ عالِماً فَكأنَّما صافَحَني، وَ مَنْ جالَسَ عالِماً فَكَأنَّما جالَسَني، وَ مَنْ جالَسَني فِى الدُّنْيا أجْلَسْتُهُ مَعى يَوْمَ الْقِيامَةِ.(22)

۲۲۔ رسول اکرم (ص): جس نے کسی عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ہے اور جو کسی عالم سے مصاحفہ کرے گویا اس نے مجھ سے مصاحفہ کیا ہے اور جو کسی عالم کی ہمنشینی اختیار کرے گویا اس نے میری ہمنیشنی اختیار کی ہے اور جو دنیا می میرا ہم نشین ہوگا میں اخرت میں اس کا ہم نشین ہوں گا۔

 

23ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ تَزَوَّجَ إمْرَأةً لِمالِها وَكَلَهُ اللّهُ إلَيْهِ، وَ مَنْ تَزَوَّجَها لِجَمالِها رَأى فيها ما يَكَرَهُ، وَ مَنْ تَزَوَّجَها لِدينِها جَمَعَ اللّهُ لَهُ ذلِكَ.(23)

۲۳۔ رسول اکرم (ص): جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے ازدواج کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اسی(مال) کے حوالے کردے گا اور جو اس کے جمال و خوبصورتی کی خاطر ازدواج کرے گا ۔ اسے، اس(عورت)میں ناپسند چیزیں دیکھنا پڑیں گی۔ اور جو اس سے اس کے دین کی خاطر ازدواج کرے گا خدا اس کے لئے تمام چیزوں (مال جمال اور دین)کو یکنا کردے گا۔

 

24ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ قَلَّ طَعامُهُ، صَحَّ بَدَنُهُ، وَ صَفا قَلْبُهُ، وَ مَنْ كَثُرَ طَعامُهُ سَقُمَ بَدَنُهَ وَ قَسا قَلْبُهُ.(24)

۲۴۔ رسول اکرم (ص): جس کی خوراک کم ہوگی اس کا بدن تندرست ، دل پاکیزہ ہو جائے گا۔ اور جس کی خوراک زیادہ ہوگی اس کا بدن مریض اور دل سخت ہو جائے گا۔

 

25ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا تُشْبِعُوا، فَيُطْفأ نُورُ الْمَعْرِفَةِ مِنْ قُلُوبِكُمْ.(25)

۲۵۔ رسول اکرم (ص): پیٹ بھر کر نہ کھاؤ کہ تمہارے دلوں میں معرفت کا نور خاموش ہو جائے گا۔

 

26ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ تَوَلّى عَمَلا وَ هُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ لَيْسَ لَهُ بِأهْل، فَلْيتُبَّوَءُ مَقْعَدُهُ مِنَ النّارِ.(26)

۲۶۔ رسول اکرم (ص): جو کسی کام کی ذمہ داری لے حالانکہ وہ جنانتا ہے کہ اس کام کی اہلیت نہیں رکھتا اس کا ٹھکانہ آتش جہنم  ہوگا ۔

 

27ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُبْغِضُ الْمُؤْمِنَ الضَّعيفِ الَّذي لا دينَ لَهُ، فَقيلَ: وَ ما الْمُؤْمِنُ الضَّعيفُ الَّذي لا دينَ لَهُ؟ قالَ: اَلذّي لا يَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ.(27)

۲۷۔ رسول اکرم (ص): خدا وند معال کمزور اور بے دین مومن کو نا پسند کرتا ہے ۔ سوال کیا گیا؛ کمزور اور بے دین مومن کون ہے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا: جو برائیوں سے منع نہیں کرتا ہے۔

 

28ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِىءُ الْخَطيئَةَ، كَما تُطْفِىءُ الماءُ النّارَ، وَ تَدْفَعُ سَبْعينَ باباً مِنَ الْبَلاءِ.(28)

۲۸۔ رسول اکرم (ص): پوشیدہ صدقہ گناہ کی (آگ کو) اس طرح  بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا تا ہے۔ اور ستر قسم کی بلاؤں کو دور کرتا ہے ۔

 

29ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): عَجِبْتُ لِمَنْ يَحْتَمى مِنَ الطَّعامِ مَخافَةَ الدّاءِ، كَيْفَ لايَحْتمى مِنَ الذُّنُوبِ، مَخافَةَ النّارِ.(29)

۲۹۔ رسول اکرم (ص): مجھے تعجب اس شخص پر جو بیماری کے خوف سے خوراک میں تو پرہیز کرتا لیکن آتش جہنم کے خوف سے گناہوں سے گریز نہیں رکتا ہے۔

 

30 ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): حُبُّ الْجاهِ وَ الْمالِ يُنْبِتُ النِّفاقَ فِى الْقَلْبِ، كَما يُنْبِتُ الْماءُ الْبَقْلَ.(30)

۳۰۔ رسول اکرم (ص): جاہ ومال کی محبت دل میں نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی سبزہ پیدا کرتا ہے ۔

 

31ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ اَصابَ مِنْ إمْرَأة نَظْرَةً حَراماً، مَلاَ اللّهُ عَيْنَيْهِ ناراً.(31)

۳۱۔ رسول اکرم (ص): جو کسی نا محرم عورت پر نگاہ حرام کرے گا خدا وند متعال اس کی دونوں آنکھوں میں آگے بھر دے گا-

 

32ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): حَسِّنُوا أخْلاقَكُمْ، وَ ألْطِفُوا جيرانَكُمْ، وَ أكْرِمُوا نِسائَكُمْ، تَدْخُلُوا الْجَنّةَ بِغَيْرِ حِساب.(32)

۳۲۔ رسول اکرم (ص): اپنے اخلاق کو اچھا کرو، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، اپنی عورتوں کا احترام کرو، تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

 

33ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلْمَرْءُ عَلى دينِ خَليلِهِ، فَلْيَنْظُر أحَدُكُمْ مَنْ يُخالِطُ.(33)

۳۳۔ رسول اکرم (ص): انسان اپنے دوست کے دین ومذہب پر ہوتا ہے لہٰذا تمہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو۔

 

34ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلصَّدقَةُ بِعَشْر، وَ الْقَرْضُ بِثَمانِيَةَ عَشَرَ، وَ صِلَةُ الرَّحِمِ بِأرْبَعَةَ وَ عِشْرينَ.(34)

۳۴۔ رسول اکرم (ص): صدقہ کا ثواب دس گناہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا اور صلۂ رحم کا ثواب چوبیس گنا ہے ۔

 

35ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا يَمْرُضُ مُؤْمِنٌ وَ لا مُؤْمِنَةٌ إلاّ حَطّ اللّهُ بِهِ خَطاياهُ.(35)

۳۵۔ رسول اکرم (ص): کوئی مومن یا مومنہ مریض نہیں ہوتے مگر یہ کہ خداوند متعال مرض کے ذریعہ ان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔

 

36ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ وَقَّرَ ذا شَيْبَة فِى الاْسْلامِ أمَّنَهُ اللّهُ مِنْ فَزَعِ يَوْمِ الْقِيامَةِ.(36)

۳۶۔ رسول اکرم (ص): جو کسی بوڑھے (ڈاڑھی والے)مسلمان کا احترام کرے گا خدا وند متعال اسے  روز قیامت کے خوف سے محفوظ رکھے گا۔

 

37ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): كُلُّ عَيْن باكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيامَةِ إلاّ ثَلاثَ أعْيُن: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ ، وَ عَيْنٌ غُضَّتْ عَنْ مَحارِمِ اللّهِ، وَ عَيْنٌ باتَتْ ساهِرَةً فى سَبيلِ اللّهِ.(37)

۳۷۔ رسول اکرم (ص): روز قیامت تمام آنکھیں اشکبار ہوں گی سوائے تین آنکھوں کے: وہ آنکھ جو خوف خدا سے گریہ کر چکی ہوگی وہ آنکھ جو خدا کے حرام کردہ چیزوں سے بند رہی ہوگی اور وہ آنکھ جو راہ خدا میں بیدار رہی ہوگی۔

 

منابع :حدیث

(۱)۔ وسائل الشیعۃ؛ ج۴، ص۳۰، ح۴۴۳۱۔

(۲)۔ عقاب الاعمال؛ ص۳۴۳، س۱۴ ۔ وسائل الشیعہ؛ ج۵، ص۲۰۱، ح۶۳۲۸۔

(۳)۔ وسائل الشعۃ؛ ج۴، ص۳۱، ح۴۴۳۴۔

(۴)۔ تاویل الآیات الظاھرۃ؛ ص۵۴۹۔ س۵ ۔ تفسیر البرھان، ج۴، ص۱۸۴،س۲۴۔

(۵)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۱۴۲، بحار الانوار؛ ج۷۴، ص۸۰، ح۳۔

(۶)۔امالی طوسی؛ ج۲، ص۲۰۳، بحار الانوار؛ ج۶۸، ص۱۸۸، ح۵۴۔

(۷)۔ من لایحضرہ الفقیہ؛ج۴، ص۳۵۳، ح۵۷۶۲ چاپ جامعہ مدرسین۔

(۸)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۳، بحار الانوار؛ ج۱۰، ص۳۶۸، ح۱۵۔

(۹)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۳،بحارالانوار؛ ج ۷۰، ص۳۷۳، ح۷۔

(۱۰)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۸۷، بحارالانوار؛ ج۹۰، ص۲۹۱، ح۱۱۔

(۱۱)۔ مالی طوسی؛ ج۱، ص۲۱۹، بحار الانوار؛ ج۷۳، ص ۴، ص۱۳۔

(۱۲)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۵۷، بحار الانوار؛ ج۹۳، ص۱۷۷، ح۸۔

(۱۳)۔ مسکن الفؤاد شہید ثانی؛ ص۵۰، س۱۔

(۱۴)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۹۲، بحارالانوار؛ ج۶۶، ص۳۷۵، ح۲۴۔

(۱۵)۔اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۳۰۲، بحار الانوار؛ ج۶۸، ص۳۵۰، ح۱۔

(۱۶)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۵۶، بحار الانوار؛ ج۷۲، ص ۱۲۰، ح۷۔

(۱۷)۔ اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۳۰۵، بحار الانوار؛ ج۱۰۰، ص۱۵۱، ح۱۷۔

(۱۸)۔اعیان الشیعۃ؛ ج۱، ص۳۰۰، بحار الانوار؛ ج ۷۴، ص۱۳۹، ح۱۔

(۱۹)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۹۲، بحار الانوار؛ ج۲۸، ص ۴۷، ح۹۔

(۲۰)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۱، ص۳۷۶، ح۱۳۳۰۱۔

(۲۱)۔ بحار الانوار؛ ج۱، ص۱۷۲، ح۲۵۔

(۲۲)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۱، ص۳۰۰، ح۲۱۴۰۶۔

(۲۳)۔ تہذیب الاحکام؛ ج۷، ص۳۹۹، ح۵۔

(۲۴)۔ تنبیہ الخواطر،(مجموعہ ورام)؛ص۵۴۸، بحار الانوار؛ ج۵۹، ص۲۶۸، ح۵۲۔

(۲۵)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۶، ص۲۱۸، ص۱۹۶۴۶۔

(۲۶)۔ تاریخ الاسلام؛ ج۱۰۱۔ ۱۲۰، ص۲۸۵۔

(۲۷)۔ وسائل الشیعہ؛ ج۱۶، ص۱۲۲، ح۲۱۱۳۹۔

(۲۸)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۷، ص۱۸۴، ح۷۹۸۴۔

(۲۹)۔ بحار الانوار؛ ج۷۰، ص۳۴۷، ح۳۴۔

(۳۰)۔ تنبیہ الخواطر، معروف بہ مجموعہ ورام؛ ص۲۶۴۔

(۳۱)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۴، ص۲۷۰، ح۱۶۶۸۵۔

(۳۲)۔ اعیان الشیعۃ؛ ج۱، ص۳۰۱۔

(۳۳)۔ امالی طوسی؛ ج۲ ، ص۱۳۲، بحار الانوار؛ ج۷، ص۱۹۲، ح۱۲۔

(۳۴)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۷، ص۱۹۴، ح۸۰۱۰۔

(۳۵)۔  جامع الاحادیث؛ ج۳، ص۸۹، ح۳۵، مستدرک الوسائل؛ ج۲، ص۶۶، ح۱۴۲۲۔

(۳۶)۔ کافی؛ ج۲، ص۵۶۸۔ ح۳، بحار الانوار؛ ج۷، ص۳۰۲، ح۵۳۔

(۳۷)۔ ثواب الاعمال؛ ص۲۱۱، ح۱، بحار الانوار؛ ج۴۶، ص۱۰۰، ص۸۸۔

پیامبر اعظم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

1ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا تُضَيِّعُوا صَلاتَكُمْ، فَإنَّ مَنْ ضَيَّعَ صَلاتَهُ، حُشِرَ مَعَ قارُونَ وَ هامانَ، وَ كانَ حَقّاً عَلىِ اللّهِ أنْ يُدْخِلَهُ النّارَ مَعَ الْمُنافِقينَ.(1)

۱۔ رسول اکرم (ص): اپنی نمازوں کو ضایع نہ کرو اس لئے کہ جو شخص اپنی نماز کو ضایع کرے گا وہ قارون و ہامان کے ساتھ محشور ہوگا اور اللہ حق رکھتا ہے کہ اسے منافقین کے ہمراہ جہنم میں ڈال دے ۔

 

2ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ مَشى إلى مَسْجِد مِنْ مَساجِدِ اللّهِ، فَلَهُ بِكُّلِ خُطْوَة خَطاها حَتّى يَرْجِعَ إلى مَنْزِلِهِ، عَشْرُ حَسَنات، وَ مَحى عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئات، وَ رَفَعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجات.(2)

۲۔ رسول اکرم (ص): جو شخص مساجد الٰہی میں سےکسی ایک کی جانب اٹھا ئے تو گھر واپس آنے تک اس کے ہر قدم پر دس نیکیاں ہیں اور اس کی دس برائیاں محو ہو جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بڑھادیئے جاتے ہیں۔

 

3ـ بَيْنَما رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله) جالِسٌ فِى الْمَسْجِدِ، إذْدَخَلَ رَجُلٌ فَقامَ يُصَلّى، فَلَمْ يُتِمَّ رُكُوعَهُ وَ لا سُجُودَهُ، فَقالَ: نَقَرَ كَنَقْرِ الْغُرابِ، لَئِنْ ماتَ هذا وَ هكَذا صَلوتُهُ لَيَمُوتُنَّ عَلى غَيْرِ ديني.(3)

۳۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک شخص داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا اور رکوع وسجدوں کو کامل طریقہ سے بجا نہ لایا آنحضر ت (ص) نے فرمایا:کوّے کی طرح چونچ مار رہا ہے اگر یہ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مر جائے تو میرے دین پر نہیں مرا ہے ۔

 

4ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ) لِعَلىّ(عليه السلام): أنَا رَسُولُ اللّهِ الْمُبَلِّغُ عَنْهُ، وَ أنْتَ وَجْهُ اللّهِ وَ الْمُؤْتَمُّ بِهِ، فَلا نَظير لى إلاّ أنْتَ، وَ لا مِثْلَ لَكَ إلاّ أنَا.(4)

۴۔ آنحضرت (ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: میں اللہ کا فرستادہ اور اس کی طرف سے تبلیغ کرنے والا ہوں اور تم وجہ اللہ اور مقتدا ہو میری تمہارے سواء کوئی نظیر نہیں اور تمہارا میرے سواء کوئی مثل نہیں ۔

 

5ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يا أباذَر، اَلدُّنْيا سِجْنُ الْمُؤْمِن وَ جَنَّةُ الْكافِرِ، وَ ما أصْبَحَ فيها مُؤْمِنٌ إلاّ وَ هُوَ حَزينٌ، وَ كَيْفَ لايَحْزُنُ الْمُؤْمِنُ وَ قَدْ أوَعَدَهُ اللّهُ أنَّهُ وارِدٌ جَهَنَّمَ.(5)

۵۔ رسول اکرم (ص): اے ابوذر! دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے مومن اس میں ہمیشہ محزون و مغموم رہتا ہے اور کیونکر مومن اس میں محزون نہ رہے کہ خدا نے اس کو (گناہوں کے مقابل) جہنم میں ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔

 

6ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): وَ عَظَني جِبْرئيلُ(عليه السلام): يا مُحَمَّدُ ، أحْبِبْ مَنْ شِئْتَ فَإنَّكَ مُفارِقُهُ، وَ اعْمَلْ ما شِئْتَ فَإنَّكَ مُلاقيهِ.(6)

6۔ رسول اکرم (ص): جبرئیل نے مجھے وعظ کیا اور کہا: اے محمد ! جس سے چاہو محبت کرو کہ تم اس سے بچھڑنے والے ہو اور جو چاہو عمل کرو کہ اس سے ؟؟؟(اللہ سے)ملاقات کرنے والے ہو۔

 

7ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): شَرّ ُالنّاسِ مَنْ باعَ آخِرَتَهُ بِدُنْياهُ، وَ شَرٌّ مِنْ ذلِكَ مَنْ باعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيا غَيْرِهِ.(7)

۷۔ رسول اکرم (ص): بدترین آدمی وہ ہے جو اپنی دنیا کی خاطر آخرت کو بیچ دے اور اس سے بد تر وہ ہے جو دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت داؤ ں پر لگا دے۔(۷)

 

8ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ثَلاثَةٌ أخافُهُنَّ عَلى اُمتَّى: ألضَّلالَةُ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ، وَ مُضِلاّتُ الْفِتَنِ، وَ شَهْوَةُ الْبَطْنِ وَ الْفَرْجِ.(8)

۸۔ رسول اکرم (ص): میں اپنی امت کے لئے تین چیزوں سے ڈرتا ہوں۔ مغرفت کے بعد گمراہی سے، فتنوں کی گمراہیوں سے اور شکم و شرمگاہ کی شہوت سے۔(۸)

 

9ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ثَلاثَةٌ مِنَ الذُّنُوبِ تُعَجَّلُ عُقُوبَتُها وَ لا تُؤَخَّرُ إلى الاخِرَةِ: عُقُوقُ الْوالِدَيْنِ، وَ الْبَغْيُ عَلَى النّاسِ، وَ كُفْرُ الاْحْسانِ.(9)

۹۔ رسول اکرم (ص): تین گناہوں کی سزا جلدی مل جاتی ہے اور اسے آخرت پر نہیں ٹالا جاتا۔ والدین کا عاق ہونا، لوگوں پر سرکشی کرنا، اور نیکی کا برائی سے بدلہ دینا ۔(۹)

 

10ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إنَّ أعْجَزَ النّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعاءِ، وَ إنَّ أبْخَلَ النّاسِ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلامِ.(10)

۱۰۔ رسول اکرم (ص): سب سے بڑا ناتوان انسان، دعاؤں سے عاجز انسان ہے اور سب سے بڑا بخیل سلام میں بخل کرنے والا ہے ۔(۱۰)

 

11ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إذا تَلاقَيْتُمْ فَتَلاقُوا بِالتَّسْليمِ وَ التَّصافُحِ، وَ إذا تَفَرَّقْتُمْ فَتَفَرَّقُوا بِإلاسْتِغْفارِ.(11)

۱۱۔ رسول اکرم (ص): جب ایک دوسرے سے ملاقات کرو تو سلام اور مصافحہ کے ساتھ ملاقات کرو، اور جب ایک دوسرے سے جدا ہو تو طلب مغفرت کے ساتھ جدا ہو۔ (۱۱)

 

12ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): بَكِرُّوا بِالصَّدَّقَةِ، فَإنَّ الْبَلاءَ لا يَتَخَطاّها.(12)

۱۲۔ رسول اکرم (ص): دن کا آغاز صدقہ سے کرو کہ صدقہ بلاؤں کو دور کرتا رہتا ہے ۔(۱۲)

 

13ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يُؤْتَى الرَّجُلُ في قَبْرِهِ بِالْعَذابِ، فَإذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ رَأسِهِ دَفَعَتْهُ تِلاوَةُ الْقُرْآنِ، وَ إذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ يَدَيْهِ دَفَعَتْهُ الصَّدَقَةُ، وَ إذا اُتِيَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ دَفَعَهُ مَشْيُهُ إلىَ الْمَسْجِدِ.(13)

۱۳۔ رسول اکرم (ص): انسان کی قبر میں عذاب آتا ہے پس اگر سرہانے کی جانب سے عذاب آیاتو تلاوت قرآن اسے دفع کرتی ہے ۔اور اگرسامنے سے تو صدقہ اسے دفع کرتا ہے اور اگر پیروں کی طرف سے عذاب آتا ہے تو مسجد جانے کا ثواب اسے دفع کرتا ہے۔

 

14ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): عَلَيْكُمْ بِمَكارِمِ الاْخْلاقِ، فَإنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَني بِها، وَ إنَّ مِنْ مَكارِمِ الاْخْلاقِ: أنْ يَعْفُوَ الرَّجُلُ عَمَّنْ ظَلَمَهُ، وَ يُعْطِيَ مَنْ حَرَمَهُ، وَ يَصِلَ مَنْ قَطَعَهُ، وَ أنْ يَعُودَ مَنْ لايَعُودُهُ.(14)

۱۴۔ رسول اکرم (ص): تم پر مکارم اخلاق اپنا نا لازم ہے اس لئے کہ اس کے ہمراہ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور مکارم اخلاق میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر ظلم  کرنے والے کو معاف کردے جس نے اسے محروم رکھا ہے اسے عطا کرے جس نے قطع تعلق کر لیا ہے اس سے رابطہ قائم کرے اور جو اس کی عیادت کو نہیں آیا ہے اس کی عیادت کو جائے ۔(۱۴)

 

15ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): سادَةُ النّاسِ فِى الدُّنْيا الأسْخِياء، سادَةُ النّاسِ فِى الاخِرَةِ الاْتْقِياء.(15)

15۔ رسول اکرم (ص): دنیا میں لوگوں کے سردار سخی لوگ ہیں اور آخرت میں لوگو ں کے سردار متقی لوگ ہیں ۔

 

16ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): ما تَواضَعَ أحَدٌ إلاّ رَفَعَهُ اللّهُ.(16)

۱۶۔ رسول اکرم (ص): کوئی بھی تواضع وانکساری نہیں کرے گامگریہ کہ خدا اسے سربلند کردے گا۔(۱۶)

 

17ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ أنْظَرَ مُعْسِراً، كانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْم صَدَقَةٌ.(17)

۱۷۔ رسول اکرم (ص): جو کسی تنگدست کو مھلت دیتا ہے اسے ہر روز کے بدلے صدقہ کا ثواب ملتا ہے ۔ (۱۷)

 

18ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَوْصانى رَبّى بِتِسْع: اَوْصانى بِالاْخْلاصِ فِى السِّرِّ وَ الْعَلانِيَةِ، وَ الْعَدْلِ فِى الرِّضا وَ الْغَضَبِ، وَ الْقَصْدِ فِى الْفَقْرِ وَ الْغِنى، وَ اَنْ أعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنى، وَ أعطِيَ مَنْ حَرَمَنى، وَ أصِلَ مَنْ قَطَعَنى، وَ اَنْ يَكُونَ صُمْتى فِكْراً، وَ مَنْطِقى ذِكْراً، وَ نَظَرى عِبْراً. (18)

18۔ رسول اکرم (ص): میرے پروردگار نے مجھ سے نو چیزوں کی سفارش کی ہے ۔ جلوت و خلوت میں اخلاص کی، خوشی و غضب میں عدالت کی، فقرو ثروت میں میانہ روی کی، جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اسے معاف کردینے کی، جس نے مجھے محروم رکھا ہے اسے عطا کرنے کی، جس نے مجھ سے قطع تعلق کیا اس سے رابطہ کی، اور یہ کہ میری خاموشی تفکر کے لئے ہو اور میری گفتار ذکر اور میری نظر عبرت کے لئے ہو۔

 

19ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): يَأتي عَلىَ النّاسِ زَمانٌ، الصّابِرُ مِنْهُمْ عَلى دينِهِ كَالْقابِضِ عَلىَ الْجَمَرِ.(19)

۱۹۔ رسول اکرم (ص): لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جس میں اپنے دین پر صبر کرنے والا،ہاتھ میں انگارا تھامنے والے کے مانند ہے ۔(۱۹)

 

20ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): سَيَأتي زَمانٌ عَلى اُمتَّي يَفِرُّونَ مِنَ الْعُلَماءِ كَما يَفِرُّ الْغَنَمُ مِنَ الذِّئْبِ، إبْتَلاهُمُ اللّهُ بِثَلاثَةِ أشْياء: الاْوَّلُ: يَرَفَعُ الْبَرَكَةَ مِنْ أمْوالِهِمْ، وَ الثّاني: سَلَّط اللّهُ عَلَيْهِمْ سُلْطاناً جائِراً، وَ الثّالِثُ: يَخْرُجُونَ مِنَ الدُّنْيا بِلا إيمان.(20)

۲۰۔ رسول اکرم (ص): میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں لوگ علماء ے اس طرح بھاگیں گے جس طرح بھیڑ بھڑیوں سے بھاگتے ہیں اور پھر اللہ انھیں تین امتحان میں مبتلا کرے گا۔ ایک:ان کے اموال سے برکت اٹھالے گا، دو: ان کے اوپر ظالم حکمراں کو مسلط کردے گا، تین: وہ دنیا سے بے ایمان اٹھیں گے ۔(۲۰)

 

21ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلْعالِمُ بَيْنَ الْجُهّالِ كَالْحَىّ بَيْنَ الاْمْواتِ، وَ إنَّ طالِبَ الْعِلْمِ يَسْتَغْفِرُلَهُ كُلُّ شَيء حَتّى حيتانِ الْبَحْرِ، وَ هَوامُّهُ، وَ سُباعُ الْبَرِّ وَ أنْعامُهُ، فَاطْلُبُوا الْعِلْمَ، فَإنّهُ السَّبَبُ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ، وَ إنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَريضَةٌ عَلى كُلِ مُسْلِم.(21)

۲۱۔ رسول اکرم (ص): جاہلوں کے درمیان عالم، مردوں کے درمیان زندہ کی طرح ہے ۔اور بے شک طالب علم کے لئے ہر شئے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور اس کے حشرات ، خشکی کے درندے اور چوپائے استغفار کرتے ہیں لہٰذا علم حاصل کروکہ علم تمہارے اور خدا کے درمیان واسطہ ہے اور علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے۔

 

22ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ زارَ عالِماً فَكَأنَّما زارَني، وَ مَنْ صافَحَ عالِماً فَكأنَّما صافَحَني، وَ مَنْ جالَسَ عالِماً فَكَأنَّما جالَسَني، وَ مَنْ جالَسَني فِى الدُّنْيا أجْلَسْتُهُ مَعى يَوْمَ الْقِيامَةِ.(22)

۲۲۔ رسول اکرم (ص): جس نے کسی عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ہے اور جو کسی عالم سے مصاحفہ کرے گویا اس نے مجھ سے مصاحفہ کیا ہے اور جو کسی عالم کی ہمنشینی اختیار کرے گویا اس نے میری ہمنیشنی اختیار کی ہے اور جو دنیا می میرا ہم نشین ہوگا میں اخرت میں اس کا ہم نشین ہوں گا۔

 

23ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ تَزَوَّجَ إمْرَأةً لِمالِها وَكَلَهُ اللّهُ إلَيْهِ، وَ مَنْ تَزَوَّجَها لِجَمالِها رَأى فيها ما يَكَرَهُ، وَ مَنْ تَزَوَّجَها لِدينِها جَمَعَ اللّهُ لَهُ ذلِكَ.(23)

۲۳۔ رسول اکرم (ص): جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے ازدواج کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اسی(مال) کے حوالے کردے گا اور جو اس کے جمال و خوبصورتی کی خاطر ازدواج کرے گا ۔ اسے، اس(عورت)میں ناپسند چیزیں دیکھنا پڑیں گی۔ اور جو اس سے اس کے دین کی خاطر ازدواج کرے گا خدا اس کے لئے تمام چیزوں (مال جمال اور دین)کو یکنا کردے گا۔

 

24ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ قَلَّ طَعامُهُ، صَحَّ بَدَنُهُ، وَ صَفا قَلْبُهُ، وَ مَنْ كَثُرَ طَعامُهُ سَقُمَ بَدَنُهَ وَ قَسا قَلْبُهُ.(24)

۲۴۔ رسول اکرم (ص): جس کی خوراک کم ہوگی اس کا بدن تندرست ، دل پاکیزہ ہو جائے گا۔ اور جس کی خوراک زیادہ ہوگی اس کا بدن مریض اور دل سخت ہو جائے گا۔

 

25ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا تُشْبِعُوا، فَيُطْفأ نُورُ الْمَعْرِفَةِ مِنْ قُلُوبِكُمْ.(25)

۲۵۔ رسول اکرم (ص): پیٹ بھر کر نہ کھاؤ کہ تمہارے دلوں میں معرفت کا نور خاموش ہو جائے گا۔

 

26ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ تَوَلّى عَمَلا وَ هُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ لَيْسَ لَهُ بِأهْل، فَلْيتُبَّوَءُ مَقْعَدُهُ مِنَ النّارِ.(26)

۲۶۔ رسول اکرم (ص): جو کسی کام کی ذمہ داری لے حالانکہ وہ جنانتا ہے کہ اس کام کی اہلیت نہیں رکھتا اس کا ٹھکانہ آتش جہنم  ہوگا ۔

 

27ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): إنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُبْغِضُ الْمُؤْمِنَ الضَّعيفِ الَّذي لا دينَ لَهُ، فَقيلَ: وَ ما الْمُؤْمِنُ الضَّعيفُ الَّذي لا دينَ لَهُ؟ قالَ: اَلذّي لا يَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ.(27)

۲۷۔ رسول اکرم (ص): خدا وند معال کمزور اور بے دین مومن کو نا پسند کرتا ہے ۔ سوال کیا گیا؛ کمزور اور بے دین مومن کون ہے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا: جو برائیوں سے منع نہیں کرتا ہے۔

 

28ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِىءُ الْخَطيئَةَ، كَما تُطْفِىءُ الماءُ النّارَ، وَ تَدْفَعُ سَبْعينَ باباً مِنَ الْبَلاءِ.(28)

۲۸۔ رسول اکرم (ص): پوشیدہ صدقہ گناہ کی (آگ کو) اس طرح  بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا تا ہے۔ اور ستر قسم کی بلاؤں کو دور کرتا ہے ۔

 

29ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): عَجِبْتُ لِمَنْ يَحْتَمى مِنَ الطَّعامِ مَخافَةَ الدّاءِ، كَيْفَ لايَحْتمى مِنَ الذُّنُوبِ، مَخافَةَ النّارِ.(29)

۲۹۔ رسول اکرم (ص): مجھے تعجب اس شخص پر جو بیماری کے خوف سے خوراک میں تو پرہیز کرتا لیکن آتش جہنم کے خوف سے گناہوں سے گریز نہیں رکتا ہے۔

 

30 ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): حُبُّ الْجاهِ وَ الْمالِ يُنْبِتُ النِّفاقَ فِى الْقَلْبِ، كَما يُنْبِتُ الْماءُ الْبَقْلَ.(30)

۳۰۔ رسول اکرم (ص): جاہ ومال کی محبت دل میں نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی سبزہ پیدا کرتا ہے ۔

 

31ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ اَصابَ مِنْ إمْرَأة نَظْرَةً حَراماً، مَلاَ اللّهُ عَيْنَيْهِ ناراً.(31)

۳۱۔ رسول اکرم (ص): جو کسی نا محرم عورت پر نگاہ حرام کرے گا خدا وند متعال اس کی دونوں آنکھوں میں آگے بھر دے گا-

 

32ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): حَسِّنُوا أخْلاقَكُمْ، وَ ألْطِفُوا جيرانَكُمْ، وَ أكْرِمُوا نِسائَكُمْ، تَدْخُلُوا الْجَنّةَ بِغَيْرِ حِساب.(32)

۳۲۔ رسول اکرم (ص): اپنے اخلاق کو اچھا کرو، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، اپنی عورتوں کا احترام کرو، تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

 

33ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلْمَرْءُ عَلى دينِ خَليلِهِ، فَلْيَنْظُر أحَدُكُمْ مَنْ يُخالِطُ.(33)

۳۳۔ رسول اکرم (ص): انسان اپنے دوست کے دین ومذہب پر ہوتا ہے لہٰذا تمہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو۔

 

34ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): اَلصَّدقَةُ بِعَشْر، وَ الْقَرْضُ بِثَمانِيَةَ عَشَرَ، وَ صِلَةُ الرَّحِمِ بِأرْبَعَةَ وَ عِشْرينَ.(34)

۳۴۔ رسول اکرم (ص): صدقہ کا ثواب دس گناہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا اور صلۂ رحم کا ثواب چوبیس گنا ہے ۔

 

35ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): لا يَمْرُضُ مُؤْمِنٌ وَ لا مُؤْمِنَةٌ إلاّ حَطّ اللّهُ بِهِ خَطاياهُ.(35)

۳۵۔ رسول اکرم (ص): کوئی مومن یا مومنہ مریض نہیں ہوتے مگر یہ کہ خداوند متعال مرض کے ذریعہ ان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔

 

36ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): مَنْ وَقَّرَ ذا شَيْبَة فِى الاْسْلامِ أمَّنَهُ اللّهُ مِنْ فَزَعِ يَوْمِ الْقِيامَةِ.(36)

۳۶۔ رسول اکرم (ص): جو کسی بوڑھے (ڈاڑھی والے)مسلمان کا احترام کرے گا خدا وند متعال اسے  روز قیامت کے خوف سے محفوظ رکھے گا۔

 

37ـ قال رَسُولُ اللّهِ (صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ): كُلُّ عَيْن باكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيامَةِ إلاّ ثَلاثَ أعْيُن: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ ، وَ عَيْنٌ غُضَّتْ عَنْ مَحارِمِ اللّهِ، وَ عَيْنٌ باتَتْ ساهِرَةً فى سَبيلِ اللّهِ.(37)

۳۷۔ رسول اکرم (ص): روز قیامت تمام آنکھیں اشکبار ہوں گی سوائے تین آنکھوں کے: وہ آنکھ جو خوف خدا سے گریہ کر چکی ہوگی وہ آنکھ جو خدا کے حرام کردہ چیزوں سے بند رہی ہوگی اور وہ آنکھ جو راہ خدا میں بیدار رہی ہوگی۔

 

منابع :حدیث

(۱)۔ وسائل الشیعۃ؛ ج۴، ص۳۰، ح۴۴۳۱۔

(۲)۔ عقاب الاعمال؛ ص۳۴۳، س۱۴ ۔ وسائل الشیعہ؛ ج۵، ص۲۰۱، ح۶۳۲۸۔

(۳)۔ وسائل الشعۃ؛ ج۴، ص۳۱، ح۴۴۳۴۔

(۴)۔ تاویل الآیات الظاھرۃ؛ ص۵۴۹۔ س۵ ۔ تفسیر البرھان، ج۴، ص۱۸۴،س۲۴۔

(۵)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۱۴۲، بحار الانوار؛ ج۷۴، ص۸۰، ح۳۔

(۶)۔امالی طوسی؛ ج۲، ص۲۰۳، بحار الانوار؛ ج۶۸، ص۱۸۸، ح۵۴۔

(۷)۔ من لایحضرہ الفقیہ؛ج۴، ص۳۵۳، ح۵۷۶۲ چاپ جامعہ مدرسین۔

(۸)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۳، بحار الانوار؛ ج۱۰، ص۳۶۸، ح۱۵۔

(۹)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۳،بحارالانوار؛ ج ۷۰، ص۳۷۳، ح۷۔

(۱۰)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۸۷، بحارالانوار؛ ج۹۰، ص۲۹۱، ح۱۱۔

(۱۱)۔ مالی طوسی؛ ج۱، ص۲۱۹، بحار الانوار؛ ج۷۳، ص ۴، ص۱۳۔

(۱۲)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۱۵۷، بحار الانوار؛ ج۹۳، ص۱۷۷، ح۸۔

(۱۳)۔ مسکن الفؤاد شہید ثانی؛ ص۵۰، س۱۔

(۱۴)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۹۲، بحارالانوار؛ ج۶۶، ص۳۷۵، ح۲۴۔

(۱۵)۔اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۳۰۲، بحار الانوار؛ ج۶۸، ص۳۵۰، ح۱۔

(۱۶)۔ امالی طوسی؛ ج۱، ص۵۶، بحار الانوار؛ ج۷۲، ص ۱۲۰، ح۷۔

(۱۷)۔ اعیان الشیعہ؛ ج۱، ص۳۰۵، بحار الانوار؛ ج۱۰۰، ص۱۵۱، ح۱۷۔

(۱۸)۔اعیان الشیعۃ؛ ج۱، ص۳۰۰، بحار الانوار؛ ج ۷۴، ص۱۳۹، ح۱۔

(۱۹)۔ امالی طوسی؛ ج۲، ص۹۲، بحار الانوار؛ ج۲۸، ص ۴۷، ح۹۔

(۲۰)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۱، ص۳۷۶، ح۱۳۳۰۱۔

(۲۱)۔ بحار الانوار؛ ج۱، ص۱۷۲، ح۲۵۔

(۲۲)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۱، ص۳۰۰، ح۲۱۴۰۶۔

(۲۳)۔ تہذیب الاحکام؛ ج۷، ص۳۹۹، ح۵۔

(۲۴)۔ تنبیہ الخواطر،(مجموعہ ورام)؛ص۵۴۸، بحار الانوار؛ ج۵۹، ص۲۶۸، ح۵۲۔

(۲۵)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۶، ص۲۱۸، ص۱۹۶۴۶۔

(۲۶)۔ تاریخ الاسلام؛ ج۱۰۱۔ ۱۲۰، ص۲۸۵۔

(۲۷)۔ وسائل الشیعہ؛ ج۱۶، ص۱۲۲، ح۲۱۱۳۹۔

(۲۸)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۷، ص۱۸۴، ح۷۹۸۴۔

(۲۹)۔ بحار الانوار؛ ج۷۰، ص۳۴۷، ح۳۴۔

(۳۰)۔ تنبیہ الخواطر، معروف بہ مجموعہ ورام؛ ص۲۶۴۔

(۳۱)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۱۴، ص۲۷۰، ح۱۶۶۸۵۔

(۳۲)۔ اعیان الشیعۃ؛ ج۱، ص۳۰۱۔

(۳۳)۔ امالی طوسی؛ ج۲ ، ص۱۳۲، بحار الانوار؛ ج۷، ص۱۹۲، ح۱۲۔

(۳۴)۔ مستدرک الوسائل؛ ج۷، ص۱۹۴، ح۸۰۱۰۔

(۳۵)۔  جامع الاحادیث؛ ج۳، ص۸۹، ح۳۵، مستدرک الوسائل؛ ج۲، ص۶۶، ح۱۴۲۲۔

(۳۶)۔ کافی؛ ج۲، ص۵۶۸۔ ح۳، بحار الانوار؛ ج۷، ص۳۰۲، ح۵۳۔

(۳۷)۔ ثواب الاعمال؛ ص۲۱۱، ح۱، بحار الانوار؛ ج۴۶، ص۱۰۰، ص۸۸۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

1ـ قالَتْ فاطِمَةُ الزَّهْراء ( سلام الله عليها) :

نَحْنُ وَسيلَتُهُ فى خَلْقِهِ، وَ نَحْنُ خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدْسِهِ، وَ نَحْنُ حُجَّتُهُ فى غَيْبِهِ، وَ نَحْنُ وَرَثَةُ أنْبيائِهِ. 1

1ـ ہم اللہ اور اس کی مخلوقات کے درمیان اللہ کا وسیلہ ہیں ۔ ہم اس کے برگزیدہ اور پاک وپاکیزہ بندے ہیں ہم اس کے غیب میں اس کی حجت ہیں اور ہم ہی اس کے انبیاء (ع) کے وارث ہیں۔

 

2ـ عَبْدُ اللّهِ بْنِ مَسْعُود، فالَ: أتَيْتُ فاطِمَةَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْها، فَقُلْتُ: أيْنَ بَعْلُكِ؟ فَقالَتْ(عليها السلام): عَرَجَ بِهِ جِبْرئيلُ إلَى السَّماءِ، فَقُلْتُ: فيما ذا؟ فَقالَتْ: إنَّ نَفَراً مِنَ الْمَلائِكَةِ تَشاجَرُوا فى شَيْىء، فَسَألُوا حَكَماً مِنَ الاْدَمِيّينَ، فَأَوْحىَ اللّهُ إلَيْهِمْ أنْ تَتَخَيَّرُوا، فَاخْتارُوا عَليِّ بْنِ أبي طالِب (عليه السلام). 2

2ـ عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ جناب فاطمہ (س) نے فرمایا:انھیں جبرئیل آسمان پر لے  گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا ۔ کس سلسلہ میں؟فرمایا:ملائکہ کے درمیان کسی چیز کو لے کر نزاع ہوا تھا تو انھوں نے کسی انسان کو حاکم بنانے  کی خواہش کی، اللہ نے ان پر وحی کی کہ کسی کو انتخاب کرو، چنانچہ ملائکہ نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو منتخب کر لیا

 

3ـ قالَتْ(عليها السلام): وَهُوَ الإمامُ الرَبّانى، وَالْهَيْكَلُ النُّورانى، قُطْبُ الأقْطابِ، وَسُلالَةُ الاْطْيابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الإمامَةِ. 3

3ـ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی مدح میں فرماتی ہیں:آپ عالم ربانی پیکر نورانی ، قطب الاقطاب ، فرزند طیبین حق گو اور نقطہ دائرہ امامت ہیں۔

 

4ـ قالَتْ(عليها السلام): أبَوا هِذِهِ الاْمَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىٌّ، يُقْيمانِ أَودَّهُمْ، وَ يُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ أطاعُوهُما، وَ يُبيحانِهِمُ النَّعيمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما. 4

4ـ اس امت کے باپ محمد(ص) اور علی(ع) ہیں دونوں امت کے انحراف کو سیدھا اور عذاب دائمی سے امت کو نجات دلاتے ہیں اگر امت ان کی اطاعت کرے، اور دونوں امت کو دائمی نعمت سے بہرہ مند کرتے ہیں اگر امت ان کے ہمراہ ہو جائے ۔

 

5ـ قالَتْ (عليها السلام): مَنْ أصْعَدَ إلىَ اللّهِ خالِصَ عِبادَتِهِ، أهْبَطَ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ أفْضَلَ مَصْلَحَتِهِ. 5

5ـ جو شخص خدا کی بارگاہ میں اپنی خالص عبادت بھیجے گا اللہ سبحانہ اس کے لئے بہترین مصلحت نازل فرمائے گا۔

 

6ـ قالَتْ (عليها السلام): إنَّ السَّعيدَ كُلَّ السَّعيدِ، حَقَّ السَّعيدِ مَنْ أحَبَّ عَليّاً فى حَياتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ. 6

6ـ مکمل اور برحق نیک بخت وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام سے ان کی موت وحیات دونوں میں محبت کرے ۔

 

7ـ قالَتْ (عليها السلام): إلهى وَ سَيِّدى، أسْئَلُكَ بِالَّذينَ اصْطَفَيْتَهُمْ، وَ بِبُكاءِ وَلَدَيَّ فى مُفارِقَتى أَنْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شيعَتى، وَشيعَةِ ذُرّيتَى. 7

7ـ (خدایا)میرے مولاو آقا ! میں تجھ سے ان ذوات کا واسطہ دے کر سوال کرتی ہوں جنھیں تونے مصطفیٰ بنایا ہے اور اپنی ذریت کی گریہ و بکاء کا واسطہ دے کر طلب کر تی ہوں جو مجھ سے بچھڑ جائیں گے کہ میرے گنہگار شیعوں کو اور میر ی ذریت کے شیعوں کو بخش دے ۔

 

8ـ قالَتْ (عليها السلام): شيعَتُنا مِنْ خِيارِ أهْلِ الْجَنَّةِ وَكُلُّ مُحِبّينا وَ مَوالى اَوْليائِنا وَ مُعادى أعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا. 8

8ـ ہمارے شیعہ اور ہمارے سارے محب اور ہمارے چاہنے والوں کے چاہنے والے اور ہمارے دشمنوں کے دشمن اور دل وزبان سے ہماری پیروی کرنے والے سب کے سب جنت کے بہترین لوگ ہیں ۔

 

9ـ قالَتْ (عليها السلام): وَاللّهِ يَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلا أنّى أكْرَهُ أنْ يُصيبَ الْبَلاءُ مَنْ لا ذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ أنّى سَأُقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ أجِدُهُ سَريعَ الاْجابَةِ. 9

9ـ خدا کی قسم! اے پسر خطاب ! اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ کہیں وہ لوگ بھی بلاؤں میں مبتلا نہ ہوجائیں جن کا کوئی گناہ نہیں ہے جو بے گناہ ہیں، تو تم دیکھتے کہ میں خدا کو قسم دیتی اور وہ بہت جلد میری بددعا کو سن لیتا۔

 

10ـ قالَتْ (عليها السلام): وَاللّهِ! لا كَلَّمْتُكَ أبَداً، وَاللّهِ! لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَيْكَ فى كُلِّ صَلوة.10

10ـ ابو بکر سے خطاب فرمایا:خدا کی قسم! میں تجھ سے بات نہیں کروں گی خدا کی قسم !میں ہر نماز کے بعد تیرے لئے بد دعا کروں گی۔

 

11ـ قالَتْ (عليها السلام): إنّى أُشْهِدُ اللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ، أنَّكُما اَسْخَطْتُمانى، وَ ما رَضيتُمانى، وَ لَئِنْ لَقيتُ النَبِيَّ لأشْكُوَنَّكُما إلَيْهِ. 11

11ـ (ابو بکر وعمر ملاقات کے لئے آئے تو فرمایا:)میں خدا اور اس کے تمام ملائکہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے غضبناک کیا اور تم نے مجھے راضی نہیں کیا اور اگر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کروں گی تو تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

 

12ـ قالَتْ (عليها السلام): لا تُصَلّى عَلَيَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَ اللّهِ وَ عَهْدَ أبى رَسُولِ اللّهِ فى أمير الْمُؤمنينَ عَليّ، وَ ظَلَمُوا لى حَقىّ، وَ أخَذُوا إرْثى، وَ خَرقُوا صَحيفَتى اللّتى كَتَبها لى أبى بِمُلْكِ فَدَك. 12

12ـ جن لوگوں نے عہد وپیمان خدا اور میرے پدر بزرگوار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کو حضرت امیر المومنین علی کے حق میں توڑا ہے، میرا حق غصب کیا ہے اور میرے ارث کو چھین لیا ہے اور فدک کی ملکیت کے مسئلہ میں میرے باپ کی تحریر کو پا را کیا ہے ان میں سے کوئی بھی میرے اوپر نماز نہ پڑھے ۔

 

13ـ قالَتْ (عليها السلام): إلَيْكُمْ عَنّي، فَلا عُذْرَ بَعْدَ غَديرِكُمْ، وَ الاَْمْرُ بعد تقْصيركُمْ، هَلْ تَرَكَ أبى يَوْمَ غَديرِ خُمّ لاِحَد عُذْوٌ. 13

13ـ (مہاجرین وانصار سے خطاب میں فرمایا)تم مجھ سے دور ہو جاؤ غدیر کے بعدتمہارے پاس کوئی عذر نہیں ہے کوتاہیوں کے بعد بہانہ تراشی کرتے ہو کیا میرے باپ نے غدیر خم کے دن کسی کے لئے کوئی عذر باقی رکھا تھا۔

 

14ـ قالَتْ (عليها السلام): جَعَلَ اللّهُ الاْيمانَ تَطْهيراً لَكُمْ مِنَ الشّـِرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزيهاً لَكُمْ مِنَ الْكِبْرِ، وَ الزَّكاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ، وَ نِماءً فِى الرِّزقِ، وَ الصِّيامَ تَثْبيتاً لِلاْخْلاصِ، وَ الْحَّجَ تَشْييداً لِلدّينِ 14

14ـ اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو شرک سے پاک رکھنے والا، نماز کو تمہارے لئے تکبر سے دور رکھنے والا اور زکات کو تمہارے نفس کی پاکیزگی اور رزق کو وسعت دینے والا، روزے کو اخلاص میں ثبات عطا کرنے والا اور حج کو دین کی مضبوطی قرار دیا ہے۔

 

15ـ قالَتْ (عليها السلام): يا أبَا الْحَسَنِ! إنَّ رَسُولَ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) عَهِدَ إلَىَّ وَ حَدَّثَنى أنّى اَوَّلُ أهْلِهِ لُحُوقاً بِهِ وَ لا بُدَّ مِنْهُ، فَاصْبِرْ لاِمْرِاللّهِ تَعالى وَ ارْضَ بِقَضائِهِ. 15

15ـ اے ابو الحسن! اللہ کے رسول نے مجھ سے عہد لیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں ان کے اہل خانوادہ میں سب سے پہلے ان سے محلق ہونے والی ہوں اور یہ ہوکے رہے گا لہٰذا امر الٰہی کے آگے صبر کیجئے اور اس کے فیصلہ پر راضی رہئے ۔(۱۵)

 

16ـ قالَتْ (عليها السلام): مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ اَوْ عَلَيَّ ثَلاثَةَ أيّام أوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: فى حَياتِهِ وَ حَياتِكِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا. 16

16ـ جو شخص میرے پدر بزرگوار پر یا میرے اوپر تین دن مسلسل درود وسلام بھیجے گا خدا وند متعال اس کے اوپر جنت واجب کردے گا ۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا :آپ کی اور ان کی زندگی میں ؟جناب فاطمہ (س) نے فرمایا: ہاں اور ہمارے موت کے بعد بھی۔

 

17ـ قالَتْ (عليها السلام): ما صَنَعَ أبُو الْحَسَنِ إلاّ ما كانَ يَنْبَغى لَهُ، وَ لَقَدْ صَنَعُوا ما اللّهُ حَسيبُهُمْ وَ طالِب2ُهُمْ. 17

17ـ جو کچھ ابو الحسن (ع) نے انجام دیا  وہی ان کے لئے مناسب تھا اور جو کچھ لوگوں نے انجام دیا ہے اللہ اس کا  ان سے حساب لے گا اور ان سے مؤاخذہ کرے گا۔

 

18ـ قالَتْ (عليه السلام): خَيْرٌ لِلِنّساءِ أنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَ لا يَراهُنَّ الرِّجالُ. 18

18ـ عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ہی مرد انھیں دیکھیں ۔

 

19ـ قالَتْ (عليها السلام): أوُصيكَ يا أبَا الْحَسنِ أنْ لا تَنْسانى، وَ تَزُورَنى بَعْدَ مَماتى.19

19ـ اے ابوالحسن ! میں آپ سے وصیت کرتی ہوں کہ آپ مجھے بھول نہ جائیے گا اور میری موت کے بعد میری زیارت کو تشریف لایئے گا۔

 

20ـ قالَتْ (عليها السلام): إنّى قَدِاسْتَقْبَحْتُ ما يُصْنَعُ بِالنِّساءِ، إنّهُ يُطْرَحُ عَلىَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَيَصِفُها لِمَنْ رَأى، فَلا تَحْمِلينى عَلى سَرير ظاهِر، اُسْتُرينى، سَتَرَكِ اللّهُ مِنَ النّارِ. 20

20ـ جناب اسماء بنت عمیس سے فرمایا:جو عورتوں کے ساتھ (جنازہ میں)کیا جاتا ہے مجھے بے حد نا پسند ہے کہ ایک کپڑا اس کے بدن پر ڈال دیا جاتا ہے جو دیکھنے والوں کے لئے عورت کے جسم کو نمایاں کر دیتا ہے ۔ دیکھو ہرگز مجھے ظاہری چار پائی پر نہ اٹھانا ، مجھے پوشیدہ رکھنا خدا تمہیں آتش جہنم سے محفوظ رکھے ۔

 

21ـ قالَتْ (عليها السلام): ... إنْ لَمْ يَكُنْ يَرانى فَإنّى أراهُ، وَ هُوَ يَشُمُّ الريح. 21

21ـ اگر وہ (نابینا)مجھے نہیں دیکھ سکتا تو میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں اور وہ ہوا تو سونگھ سکتا ہے ۔

 

22ـ قالَتْ (عليها السلام): أصْبَحْتُ وَ اللهِ! عاتِقَةً لِدُنْياكُمْ، قالِيَةً لِرِجالِكُمْ۔ 22

22ـ خدا کی قسم ! میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ تمہاری دنیا سے بیزار ہوں اور تمہارے مردوں سے نالاں ہوں۔

 

23ـ قالَتْ (عليها السلام): إنْ كُنْتَ تَعْمَلُ بِما أمَرْناكَ وَ تَنْتَهى عَمّا زَجَرْناكَ عَنْهُ، قَأنْتَ مِنْ شيعَتِنا، وَ إلاّ فَلا. 23

23ـ اگر تم ہمارے دستور پر عمل کرو اور ہماری منع کردہ چیزوں سے پرہیز کرو تو تم ہمارے شیعہ ہو ورنہ نہیں۔

 

24ـ قالَتْ (عليها السلام): حُبِّبَ إلَيَّ مِنْ دُنْياكُمْ ثَلاثٌ: تِلاوَةُ كِتابِ اللّهِ، وَالنَّظَرُ فى وَجْهِ رَسُولِ اللّهِ، وَالاْنْفاقُ فى سَبيلِ اللّهِ.

24ـ تمہاری دنیا سے مجھے صرف تین چیزیں محبوب ہیں ۔ کلام اللہ کی تلاوت،چہرۂ رسول خدا(ص) کی زیارت ، اور راہ خدا میں انفاق

 

25ـ قالَتْ (عليها السلام): أُوصيكَ اَوّلاً أنْ تَتَزَوَّجَ بَعْدى بِإبْنَةِ اُخْتى أمامَةَ، فَإنَّها تَكُونُ لِوُلْدى مِثْلى، فَإنَّ الرِّجالَ لابُدَّ لَهُمْ مِنَ النِّساءِ. 24

25ـ میں آپ کو سب سے پہلی وصیت یہ کرتی ہوں کہ آپ میرے بعد میری خالہ زاد بہن امامہ سے شادی رچائیں کہ وہ میرے بچوں کے لئے میری جیسی ہے اس لئے کہ مردوں کو بہر حال عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

26ـ قالَتْ (عليها السلام): الْزَمْ رِجْلَها، فَإنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أقْدامِها، و الْزَمْ رِجْلَها فَثَمَّ الْجَنَّةَ.25

26ـ ہمیشہ ماں کی خدمت میں رہو اس لئے کہ ماؤں کے پیروں تلے جنت ہے ہمیشہ اس کی خدمت کرو بہشت اس کے پاس ہے۔

 

27ـ قالَتْ (عليها السلام): ما يَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِيامِهِ إذا لَمْ يَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ. 26

27ـ روزہ دار اپنے روزے سے کیا اجر پائے گا جب اس نے اپنی زبان ، کان ، آنکھ اور دیگر اعضاء بدن کو (گناہوں سے)محفوظ نہیں رکھا۔

 

28ـ قالَتْ (عليها السلام): اَلْبُشْرى فى وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصاحِبهِ الْجَنَّةَ، وَ بُشْرى فى وَجْهِ الْمُعانِدِ يَقى صاحِبَهُ عَذابَ النّارِ. 27

28ـ رخ مومن پر مسکرانا مسکرانے والے کے  لئے جنت کا سبب ہے اور رخ دشمن پر(ازراہ تقیہ ومدارات)مسکرانا، مسکرانے والے کوآتش جہنم سے نجات دلاتاہے۔

 

29ـ قالَتْ (عليها السلام): لا يَلُومَنَّ امْرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، يَبيتُ وَ فى يَدِهِ ريحُ غَمَر. 28

29ـ جس آدمی کے ہاتھ میں کھانے کی بو  بسی ہوئی ہے وہ اسی حال میں سو جائے اور اسے کوئی گزند پہنچے تو اپنے سواء کسی کو ملامت نہ کرے۔

 

30ـ قالَتْ (عليها السلام): اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ، فَإنْ رَأيْتَ نِصْفَ عَيْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلّى لِلْغُرُوبِ فَأعْلِمْنى حَتّى أدْعُو. 29

30ـ (اپنے غلام سے فرمایا:)چھت پر چلے جاؤ دیکھو کہ آدھا سورج ڈوب گیاہےتو مجھے باخبر کرو تاکہ میں دعا کروں۔

 

31ـ قالَتْ (عليها السلام): إنَّ اللّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَميعاً وَلايُبالى. 30

31ـ خدا وند متعال تمام گناہوں کو بخش دے گا اور کسی کی پرواہ نہیں کرے گا۔

 

32ـ قالَتْ (عليها السلام): الرَّجُلُ اُحَقُّ بِصَدْرِ دابَّتِهِ، وَ صَدْرِ فِراشِهِ، وَالصَّلاةِ فى مَنْزِلِهِ إلاَّ الاْمامَ يَجْتَمِعُ النّاسُ عَلَيْهِ. 31

32ـ انسان اپنی سواری اپنے فرشِ منزل اور اپنے گھر میں نماز پڑھنے کا زیادہ مستحق ہے مگر یہ کہ کوئی امام جماعت ہو اور لوگ اس کے گرد جمع ہو جائیں۔

 

33ـ قالَتْ (عليها السلام): يا أبَة، ذَكَرْتُ الْمَحْشَرَ وَوُقُوفَ النّاسِ عُراةً يَوْمَ الْقيامَةِ، وا سَوْأتاهُ يَوْمَئِذ مِنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ. 32

33ـ اے بابا! میں یاد کررہی ہوں روز محشر اور روز قیامت لوگوں کے عریاں کھڑے ہونے کو، اس روز کی اللہ سے پناہ ہے۔

 

34ـ قالَتْ (عليها السلام): إذا حُشِرْتُ يَوْمَ الْقِيامَةِ، أشْفَعُ عُصاةَ أُمَّةِ النَّبىَّ 6. 33

34ـ جب بروز قیامت میں محشور ہوں گی تو امت رسول کے گنہگاروں کی شفاعت کروں گی۔

 

35ـ قالَتْ (عليها السلام): فَأكْثِرْ مِنْ تِلاوَةِ الْقُرآنِ، وَالدُّعاءِ، فَإنَّها ساعَةٌ يَحْتاجُ الْمَيِّتُ فيها إلى أُنْسِ الاْحْياءِ. 34

35ـ (اے علی ! میری قبر پر) کثرت سے تلاوت قرآن اور دعا کرنا اس لئے کہ وہ ایسا وقت ہوتا ہے جس میں (میت کو) زندوں سے انسیت کی زیادہ  ضرورت ہوتی ہے۔

 

36ـ قالَتْ (عليها السلام): يا أبَا الحَسَن، إنّى لأسْتَحى مِنْ إلهى أنْ أكَلِّفَ نَفْسَكَ ما لا تَقْدِرُ عَلَيْهِ. 35

36ـ اے ابو الحسن ! میں آپنے پروردگار سے شرم کرتی ہوں کہ آپ کو کسی ایسی چیز کی زحمت دوں جسے آپ نہ کر سکتے ہوں۔

 

37ـ قالَتْ (عليها السلام): خابَتْ أُمَّةٌ قَتَلَتْ إبْنَ بِنْتِ نَبِيِّها. 36

37ـ بد بخت ہے وہ قوم جو اپنے نبی کی بیٹی کے بیٹے کو قتل کردے۔

 

38ـ قالَتْ (عليها السلام): ... وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزيهاً عَنِ الرِّجْسِ، وَاجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ، وَ تَرْكَ السِّرْقَةِ ايجاباً لِلْعِّفَةِ۔ 37

38ـ (اور اللہ نے) شراب خوری کو پلیدی سے دور رکھنے کی خاطر ، تہمت سے پرہیز کو لعنت وملامت سے دور رکھنے کی خاطر اور چوری ترک کرنے کو عفت وپاکدامنی کی خاطر واجب کیا ہے۔

 

39ـ قالَتْ(عليها السلام): وَ حَرَّمَ - اللّه - الشِّرْكَ إخْلاصاً لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ، فَاتَّقُوا اللّه حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُّنَ إلاّ وَ أنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ أطيعُوا اللّه فيما أمَرَكُمْ بِهِ، وَ نَهاكُمْ عَنْهُ، فَاِنّهُ، إنَّما يَخْشَى اللّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءِ. 38

39ـ اللہ نے شرک کو اپنی ربوبیت میں اخلاص کی خاطر حرام قرار دیا ہے لہٰذا خدا سے کما حقہ ڈرو۔ اور دیکھو تمہیں موت نہ آئے مگر یہ کہ مسلمان مرو جس جس چیز کا تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے اور جس جس چیز سے روکا ہے ان سب میں اس کی اطاعت کرو۔ یاد رکھو کہ اللہ سے صرف اس کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں۔

 

40ـ قالَتْ (عليها السلام): أمّا وَاللّهِ، لَوْ تَرَكُوا الْحَقَّ عَلى أهْلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبيّه، لَمّا اخْتَلَفَ فِى اللّهِ اثْنانِ، وَ لَوَرِثَها سَلَفٌ عَنْ سَلَف، وَ خَلْفٌ بَعْدَ خَلَف، حَتّى يَقُومَ قائِمُنا، التّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ(عليه السلام). 39

40ـ خدا کی قسم! اگر حق (خلافت) کو اس کے اہل کے سپرد کردیتے اور اپنے نبی کی عترت کے تابع ہو جاتے تو دو آدمیوں کے درمیان کبھی کسی دینی مسئلہ میں اختلاف نہ ہوتا اور خلف، سلف کے وارث ہوتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظہور ہوجاتا  جو میرے فرزند حسین(ع) کے نویں بیٹے ہیں۔

 

منابع و مآخذ

۱۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ؛ ج۱۶، ص۲۱۱۔

۲۔ اختصاص شیخ مفید؛ ص۲۱۳، س۷، بحار الانوار؛ ج۳۷، ص۱۵۰، ح۱۵۔

۳۔ ریاحین الشریعہ؛ ج۱، ص۹۳۔

۴۔ تفسیر الامام العسکری(علیہ السلام)؛ص۳۳۰، ح۱۹۱، بحار الانوار؛ ج۲۳، ص۲۵۹، ح۸۔

۵۔ تنبیہ الخواطر بہ مجموعہ ورام؛ ص۱۰۸، و ۴۳۷، بحار؛، ج۶۷،ص ۲۴۹، ح۲۵۔

۶۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید؛ ج۲، ص۴۴۹ مجمع الزوائد؛ ج۹، ص۱۳۲۔

۷۔ کوکب الدری؛ ج۱، ص۲۵۴۔

۸۔ بحار الانوار؛، ص۶۸، ص۱۵۵،س۲۰ ، ضمن ح۱۱۔

۹۔  الکافی؛ ج۱، ص۴۶۰، بیت الاحزان؛ ص۱۰۴، بحار الانوار؛ ج۲۸، ص۲۵۰، ح۳۰۔

۱۰۔ صحیح مسلم؛ ج۱، ص۷۲، صحیح بخاری؛ ج۶، ص۱۷۶'

۱۱۔ بحار الانوار؛ج۲۸، ص۳۰۳، صحیح مسلم ؛ ج۲، ص۷۲، بخاری؛ ج۵، ص۵۔

۱۲۔ بیت الاحزان؛ ص۱۱۳، کشف الغمہ؛ ج۲، ص۴۹۴۔

۱۳۔ خصال؛ جق، ص۱۷۳، احتجاج؛ ج۱، ص۱۴۶۔

۱۴۔ ریاحین الشریعہ؛ ج۱، ص۳۱۲، فاطمہ الزہراء (علیہا السلام)؛ص ۳۶۰، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایک طولانی خطبہ کا کچھ حصہ جو آپ نے مھاجرین وانصار کے مجمع میں ارشاد فرمایا تھا۔

۱۵۔ بحار الانوار؛ ج۴۳، ص۲۰۰، ص۳۰۔

۱۶۔ بحار الانوار؛ ج۴۳، ص۱۸۵، ح ۱۷۔

۱۷۔ الامامۃ والسیاسۃ؛ص۳۰، بحار الانوار؛ ج۲۸، ص۳۵۵،ح ۶۹۔

۱۸۔ بحار الانوار؛ ج۴۳، ص۵۴، ح۴۸۔

۱۹۔ زہرة الریاض۔ کوکب الدری؛ ج۱، ص۲۵۳۔

۲۰۔ تہذیب الاحکام؛ج۱، ص۴۲۹، کشف الغمہ؛ ج۲، ص۶۷، بحار الانوار؛ج۴۳، ص۱۸۹، ح۱۹۔

۲۱۔ بحار الانوار؛، ج۴۳، ص۱۹۲، احقاق الحق؛ ج۱۰، ص۲۵۸۔

۲۲۔ دلائل الامامۃ؛ص۱۲۸، ح۳۸، معانی الاخبار؛ص۳۵۵، ح۲۔

۲۳۔ تفسیر الامام العسکری(علیہ السلام)؛ص۳۲۰، ح۱۹۱۔

۲۴۔ بحار الانوار؛ج ۴۳،ص ۱۹۲، ح۲۰، اعیان الشیعہ؛ ج۱، ح۳۲۱۔

۲۵۔ کنزل العمال؛ ج۱۶،ص۴۶۲، ح۴۵۴۴۳۔

۲۶۔ مستدرک الوسائل؛ ج۷، ص۳۳۶، ح۲ن بحار الانوار؛ ج۹۳، ص۲۴۹، ح۲۵۔

۲۷۔ تفسیر الامام العسکری (علیہ السلام)؛ص ۳۵۴، ح۲۴۳، مستدرک الوسائل؛ ج۱۲، ص۲۶۲، بحار الانوار؛ج۷۲، ص۴۰۱، ح۴۳۔

۲۸۔ کنزل العمال؛ج۱۵، ص۲۴۲، ح۴۰۷۵۹۔

۲۹۔ دلائل الامامۃ؛ص۷۱، س۱۶، معانی الاخبار؛ص۳۹۹، ضمن ح۹۔

۳۰۔ تفسیر التبیان؛ج۹، ص۳۷، س۱۶۔

۳۱۔ مجمع الزوائد؛ ج۸، ص۱۰۸، مسند فاطمہ؛ ص۳۳و ۵۲۔

۳۲۔ کشف الغمہ؛ ج۲، ص۵۷، بحار الانوار؛ج ۸، ص۵۳، ح۶۲۔

۳۳۔ احقاق الحق؛ ج۱۹، س۱۲۹۔

۳۴۔ بحار الانوار؛ج ۷۹، ص۲۷، ح۱۳۔

۳۵۔ امالی شیخ طوسی؛ ج۲، ص۲۲۸۔

۳۶۔ مدینۃ المعاجز؛ ج۳، ص۴۳۰۔

۳۷۔ ریاحین الشریعۃ؛ج۱، ص۳۱۲، فاطمہ الزہرا(علیہا السلام)ص۳۶۰ ، آپ کے معروف خطبہ کے کا کچھ حصہ ۔

۳۸۔ گذشتہ حوالہ۔

۳۹۔ الامامۃ التبصرہ؛ ص۱، بحار الانوار؛، ج۳۶، ص۳۵۲، ح۲۲۴۔

 

حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

- قال الامام علىّ بن موسى الرّضا (عليه السلام) :

مَنْ زارَ قَبْرَ الْحُسَيْنِ عليه السلام بِشَطِّ الْفُراتِ، كانَ كَمَنْ زارَ اللهَ فَوْقَ عَرْشِهِ. 1

1- جو فرات کے کنارے حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گویا کہ اس نے عرش پر اللہ کی زیارت کی ہے.

 

2- كَتَبَ (عليه السلام): أبْلِغْ شيعَتى: إنَّ زِيارَتى تَعْدِلُ عِنْدَاللهِ عَزَّ وَ جَلَّ ألْفَ حَجَّة، فَقُلْتُ لاِبى جَعْفَر (عليه السلام): ألْفُ حَجَّة؟!

قالَ: إى وَاللهُ، وَ ألْفُ ألْفِ حَجَّة، لِمَنْ زارَهُ عارِفاً بِحَقِّهِ. 2

2- امام نے اپنے ایک چاہنے والے کے پاس خط لکھا کہ: میرے شیعوں تک یہ بات پہنچادو کہ میری زیارت اللہ کے نزدیک ہزار حج کے برابر ہے راوی نے کہا: ہزار حج کے برابر؟ امام نے فرمایا ہاں خدا کی قسم دس لاکھ حج کے برابر ثواب ہے جو میرے بابا کی زیارت معرفت کے ساتھ بجالائے

 

3- قالَ (عليه السلام): أوَّلُ ما يُحاسَبُ الْعَبْدُ عَلَيْهِ، الصَّلاةُ فَإنْ صَحَّتْ لَهُ الصَّلاةُ صَحَّ ماسِواها، وَ إنْ رُدَّتْ رُدَّ ماسِواها. 3

3- جس چیز کا سب سے پہلے بندے سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے کہ اگر نما ز صبح و مقبول ہوئی تو اس کے سارے اعمال صبح و مقبول ہوجائیں گے اور اگر نماز رد کردی گئی تو سارے اعمال رد کردئے جائیں گے

 

5- قالَ (عليه السلام): الصَّلاةُ قُرْبانُ كُلِّ تَقىّ. 4

5- نماز ہر پرہیز گار کو خدا سے نزدیک کرنے والی ھے

 

6- قالَ (عليه السلام): يُؤْخَذُ الْغُلامُ بِالصَّلاةِ وَ هُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنينَ. 5

6- بچوں کو سات سال کے سن میں نماز کا پابند بناوں؟

 

8- قالَ (عليه السلام): رَحِمَ اللهُ عَبْداً أحْيى أمْرَنا، قيلَ: كَيْفَ يُحْيى أمْرَكُمْ؟ قالَ: يَتَعَلَّمُ عُلُومَنا وَيُعَلِّمُها النّاسَ. 6

8- خدا اس بندے پر رحمت نازل کرے جو ہمارے امر کو زندہ رکھتا ہے سوال کیا گیا کہ کس طرح آپ کے امر کو زندہ رکھا جاسکتا ہے؟ فرمایا: ہمارے علوم کو سیکھ کر لوگوں کو سکھائے

 

9- قالَ (عليه السلام): لَتَأمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، اَوْلَيَسْتَعْمِلَنَّ عَلَيْكُمْ شِرارُكُمْ، فَيَدْعُو خِيارُكُمْ فَلا يُسْتَجابُ لَهُمْ. 7

9- اگر تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو گے تو خیر ورنہ تمہارے اوپر تم میں برے لوگ غلبہ حاصل کرلیں گے اس وقت اچھے لوگ دعا بھی کریں گے تو ان کی دعا قبول نہیں کی جائے گی

 

10- قالَ (عليه السلام): مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلى مايُكَفِّرُ بِهِ ذُنُوبَهُ، فَلْيَكْثُرْ مِنْ الصَّلوةِ عَلى مُحَمَّد وَآلِهِ، فَإنَّها تَهْدِمُ الذُّنُوبَ هَدْماً. 8

10. اس کے پاس گناہان کبیرہ کی تلافی و کفارہ کے لئے کچھ نہیں ہے اسے چاہیئے کہ محمد وآل محمد علیہم السلام پر کثرت سے درود بھیجے کہ درود گناہوں کو محو کردیا کرتا ہے

 

11- قالَ (عليه السلام): الصَّلوةُ عَلى مُحَمَّد وَ آلِهِ تَعْدِلُ عِنْدَاللهِ عَزَّ وَ جَلَّ التَّسْبيحَ وَالتَّهْليلَ وَالتَّكْبيرَ. 9

11- محمد وآل محمد پر درود و سلام اللہ کے نزدیک تسبیح و تہلیل و تکبیر کے برابر ہے

 

12- قالَ (عليه السلام): لَوْخَلَتِ الاْرْض طَرْفَةَ عَيْن مِنْ حُجَّة لَساخَتْ بِأهْلِها. 10

12- اگر زمین پلک جھپکنے بھر کے لئے حجت خدا سے خالی ہوجائے تو اپنے اوپر سے تمام لوگوں کے ساتھ تباہ ہوجائے گی

 

13- قالَ (عليه السلام): عَلَيْكُمْ بِسِلاحِ الاْنْبياءِ، فَقيلَ لَهُ: وَ ما سِلاحُ الاْنْبِياءِ؟ يَا ابْنَ رَسُولِ الله! فَقالَ (عليه السلام): الدُّعاءُ. 11

13- تمہیں چاہئے کہ انبیاءکے ہتھیار سے آراستہ ہوجاو


¿ پوچھا گیا کہ ای فرزند رسول! انبیاءکا ہتھیار کیا تھا؟ فرمایا: دعا

 

14- قالَ (عليه السلام): صاحِبُ النِّعْمَةِ يَجِبُ عَلَيْهِ التَّوْسِعَةُ عَلى عَيالِهِ. 12

14- نعمت والے کو چاہئے کہ اپنے اہل و عیال پر وسعت و رفاہ سے کام لے

 

15- قالَ (عليه السلام): المَرَضُ لِلْمُؤْمِنِ تَطْهيرٌ وَ رَحْمَةٌ وَلِلْكافِرِ تَعْذيبٌ وَ لَعْنَةٌ، وَ إنَّ الْمَرَضَ لا يَزالُ بِالْمُؤْمِنِ حَتّى لا يَكُونَ عَلَيْهِ ذَنْبٌ. 13

15- مومن کے لئے بیماری گناہوں سے پاکیزگی اور رحمت کا باعث ہے او رکافر کے لئے بیماری عذاب اور پٹھکار ہے مومن کو مرض لاحق رہتا ہے یہاں تک اس کے اوپر ایک بھی گناہ باقی نہیں رہ جاتا۔

 

17- قالَ (عليه السلام): إنَّما يُرادُ مِنَ الاْمامِ قِسْطُهُ وَ عَدْلُهُ، إذا قالَ صَدَقَ، وَ إذا حَكَمَ عَدَلَ، وَ إذا وَعَدَ أنْجَزَ. 14

17- امام سے عدل و انصاف کی توقع رکھی جاتی ہے اگر بولے تو سچ بولے فیصلہ سنائے تو عدل و انصاف سے کام لے اور وعدہ کرے تو وفا کرے

 

18- قالَ (عليه السلام): لا يُجْمَعُ الْمالُ إلاّ بِخَمْسِ خِصال: بِبُخْل شَديد، وَ أمَل طَويل، وَ حِرص غالِب، وَ قَطيعَةِ الرَّحِمِ، وَ إيثارِ الدُّنْيا عَلَى الْآخِرَةِ. 15

18- مال بغیر پانچ صفتوں کے جمع نہیں ہوسکتا شدید بخل کے ساتھ، طویل آرزو کے ساتھ، زیادہ حرض کے ساتھ، قطع رحم کے ساتھ اور دنیا کو آخرت پرترجیح دینے کے ساتھ۔

 

19- قالَ (عليه السلام): لَوْ أنَّ النّاسَ قَصَّرَوا فِى الطَّعامِ، لاَسْتَقامَتْ أبْدانُهُمْ. 16

19- اگر لوگ کھانے میں کوتاہی کرنے لگیں تو ان کے بدن صحت یافتہ اور تندرست ہوجائیں گے

 

22- قالَ (عليه السلام): السَّخيُّ يَأكُلُ طَعامَ النّاسِ لِيَأكُلُوا مِنْ طَعامِهِ، وَالْبَخيلُ لا يَأكُلُ طَعامَ النّاسِ لِكَيْلا يَأكُلُوا مِنْ طَعامِهِ.17

22- سخی لوگوں کے کھانے میں سے کھاتا ہے تاکہ لوگ اسی کا کھانا کھائیں اور بخیل لوگوں کا کھانا نہیں کھاتا تاکہ لوگ اس کا کھانہ نہ کھائیں۔

 

23- قالَ (عليه السلام): شيعَتُنا المُسَّلِمُونَ لاِمْرِنا، الْآخِذُونَ بِقَوْلِنا، الْمُخالِفُونَ لاِعْدائِنا، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ كَذلِكَ فَلَيْسَ مِنّا. 18

23- ہمارے شیعہ ہمارے امر کو تسلیم کرنے والے ہمارے اقوال کو اخذ کرنے والے ہمارے دشمنوں کے مخالف ہوتے ہیں پس جو ایسا نہ ہو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

 

24- قالَ (عليه السلام) مَنْ تَذَكَّرَ مُصابَنا، فَبَكى وَ أبْكى لَمْ تَبْكِ عَيْنُهُ يَوْمَ تَبْكِى الْعُيُونُ، وَ مَنْ جَلَسَ مَجْلِساً يُحْيى فيهِ أمْرُنا لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ. 19

24- جو ہماری مصیبتوں یاد کرکے روئے اور رلائے جس روز ساری آنکھیں اشکبار ہونگی اس کی آنکھ نہیں روئے گی اور ایسی نشست میں بیٹھے جہاں ہمارا ذکر ہورہا ہو (جہاں ہمارے امر کا تذکرہ ہو رہا ہو تو جس روز سارے دل مردہ ہونگے اس کا دل مردہ نہ ہوگا

 

25- قالَ (عليه السلام): الْمُسْتَتِرُ بِالْحَسَنَةِ يَعْدِلُ سَبْعينَ حَسَنَة، وَ الْمُذيعُ بِالسَّيِّئَةِ مَخْذُولٌ، وَ الْمُسْتَتِرُ بِالسَّيِّئَةِ مَغْفُورٌ لَهُ. 20

25- پوشیدہ نیکی،ستر نیکیوں کے برابر ہے آشکارا گناہ کرنے والا گھاٹے میںہے اور پوشیدہ گناہ معاف کردیا جاتا ہے

 

26- أنَّهُ سُئِلَ مَا الْعَقْلُ؟ فَقالَ (عليه السلام): التَّجَرُّعُ لِلْغُصَّةِ، وَ مُداهَنَةُ الاْعْداءِ، وَ مُداراةُ الاْصْدِقاءِ. 21

26- امام سے پوچھا گیا کہ عقل کیاہے؟ فرمایا: سختیوں کا گھونٹ پی جانا، دشمنوں سے مل کر رضا، دوستوں سے مدارات کرنا

 

28- قالَ (عليه السلام): لا تَتْرُكُوا الطّيبَ فى كُلِّ يَوْم، فَإنْ لَمْ تَقْدِرُوا فَيَوْمٌ وَ يَوْمٌ، فَإنْ لَمْ تَقْدِرُوا فَفى كُلِّ جُمْعَة. 22

28- ہر روز خوشبو لگانا ترک نہ کرو اگر روز آنا نہ کرسکو تو ایک دن چھوڑ کر لگاوں اور اگر اس کا بھی امکان نہ ہوتو ہر جمعہ خوشبو لگاوں

 

29- قالَ (عليه السلام): إذا كَذِبَ الْوُلاةُ حُبِسَ الْمَطَرُ، وَ إذا جارَالسُّلْطانُ هانَتِ الدَّوْلَةِ، وَ إذا حُبِسَتِ الزَّكاةُ ماتَتِ الْمَواشى. 23

29- کام جھوٹ بولیں گے تو بارش نہیں ہوگی اگر بادشاہ ظلم کرے گا تو حکومت کمزور ہوجائے گی اگر زکواة ادانہ کی جائے گی تو جانور مرجائیں گے

 

30- قالَ (عليه السلام): الْمَلائِكَةُ تُقَسِّمُ أرْزاقَ بَنى آدَمِ ما بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إلى طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَمَنْ نامَ فيما بَيْنَهُما نامَ عَنْ رِزْقِهِ. 24

30- فرشتے طلوع فخر سے طلوع آفتاب تک فرزندان آدم کا رزق تقسیم کرتے ہیں لہٰذا جو ان مدت کے دوران سوتا رہے گا وہ در حقیقت اپنے رزق محرومی کے اسباب فراہم کر رہا ہے

 

31- قالَ (عليه السلام): مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُؤْمِن فَرَّجَ اللهُ قَلْبَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ. 25

31- جو کسی مومن کو خوش کردے خدا بروز قیامت اس کے دل کو خوش کردے گا

 

33- قالَ (عليه السلام): لا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً إلاّ أنْ يَكُونَ فيهِ ثَلاثُ خِصال: سُنَّةٌ مِنَ اللهِ وَ سُنَّةٌ مِنْ نَبيِّهِ وَ سُنَّةٌ مِنْ وَليّهِ، أمَّا السَّنَّةُ مِنَ اللهِ فَكِتْمانُ السِّرِّ، أمَّا السُّنَّةُ مِنْ نَبِيِّهِ مُداراةُ النّاسِ، اَمَّا السُّنَّةُ مِنْ وَليِّهِ فَالصَّبْرُ عَلَى النائِبَةِ. 26

33- کوئی مومن واقعی اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کے اندر تین صفتیں نہ پیدا ہوجائیں ایک اللہ کی صفت ایک اس کے رسول کی صفت اور ایک اس کے ولی و امام کی صفت صفت خدا کتمان اسرار ہے صفتِ رسول لوگوں کے ساتھ مدارات ہے اور صفت ولی خدا مصیبت پر صبر کرنا ہے۔

 

34- قالَ (عليه السلام): إنَّ الصَّمْتَ بابٌ مِنْ أبْوابِ الْحِكْمَةِ، يَكْسِبُ الْمَحَبَّةَ، إنَّهُ دَليلٌ عَلى كُلِّ خَيْر. 27

34- خاموشی جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جو محبت جلب کرتی ہے اور ہر نیکی کی رہنما بن جاتی ہے

 

35- قالَ (عليه السلام): مِنَ السُّنَّةِ التَّزْويجُ بِاللَّيْلِ، لاِنَّ اللهَ جَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً، وَالنِّساءُ إنَّماهُنَّ سَكَنٌ. 28

35- خدا کے لئے غضبناک ہوا کروا ور وہ جتنا اپنے حق میں غضبناک ہوتا ہے اس سے زیادہ غضبناک ہونے کی کوشش نہ کرو

 

38- قالَ (عليه السلام): انَّما تَغْضَبُ للهِِ عَزَّ وَ جَلَّ، فَلا تَغْضَبْ لَهُ بِأكْثَرَ مِمّا غَضِبَ عَلى نَفْسِهِ.29

38- رات میں ازدواج کرنا سنت ہے کیونکہ اللہ نے رات کو باعث سکون قرار دیا ہے اور عورتیں بھی سکون کا باعث ہیں

 

40- قالَ (عليه السلام): مَنْ تَرَكَ السَّعْيَ فى حَوائِجِهِ يَوْمَ عاشُوراء، قَضَى اللهُ لَهُ حَوائجَ الدُّنْيا وَ الاْخِرَةِ، وَ قَرَّتْ بِنا فِى الْجِنانِ عَيْنُهُ. 30

40- جو بروز عاشورا، اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی سعی و کوشش سے ہاتھ کھینچ لے گا خداوند متعال اس کی دنیا وآخرت کی حاجتوں کو پورا کردے گا اور جنت میں اس کی آنکھوں کو (اہل بیت علیہم السلام کے دیدار سے) قرار حاصل ہوجائے گا

 

منابع و مآخذ

1 - مستدرك الوسائل: ج 10، ص 250، ح 38.

2 - مستدرك الوسائل: ج 10، ص 359، ح 2.

3 - مستدرك الوسائل: ج 3، ص 25، ح 4.

4 - وسائل الشّيعة: ج 4، ص 43، ح 4469.

5 - وسائل الشّيعة: ج 21، ص 460، ح 27580.

6 - بحارالأنوار: ج 2، ص 30، ح 13.

7 - الدّرّة الباهرة: ص 38، س 3، بحار: ج 75، ص 354، ح 10.

8 - جامع الأخبار ص 59، بحارالأنوار: ج 91، ص 47، ح 2.

9 - أمالى شيخ صدوق ص 68، بحارالأنوار: ج 91، ص 47، ضمن ح 2.

10 - علل الشّرايع: ص 198، ح 21.

11 - بصائرالدّرجات: جزء 6، ص 308، باب 8، ح 5.

12 - وسائل الشّيعة: ج 21، ص 540، ح 27807.

13 - بحارالأنوار: ج 78، ص 183، ح 35، ثواب الأعمال: ص 175.

14 - الدّرّة الباهرة: ص 37، س 13، بحار: ج 75، ص 354، س 5.

15 - وسائل الشّيعة: ج 21، ص 561، ح 27873.

16 - مستدرك الوسائل: ج 2، ص 155، ح 30.

17 - مستدرك الوسائل: ج 15، ص 358، ح 8.

18 - جامع أحاديث الشّيعة: ج 1، ص 171، ح 234، بحار: ج 65، ص 167، ح 24.

19 - وسائل الشّيعة: ج 14، ص 502، ح 19693.

20 - وسائل الشّيعة: ج 16، ص 63، ح 20990.

21 - أمالى شيخ صدوق: ص 233، ح 17.

22 - مستدرك الوسائل: ج 6، ص 49، ح 6.

23 - أمالى شيخ طوسى: ص 82، مستدرك الوسائل: ج 6، ص 188، ح 1.

24 - وسائل الشّيعة: ج 6، ص 497، ح 6533.

25 - اصول كافى: ج 2، ص 160، ح 4، وسائل الشّيعة: ج 16، ص 372، ح 6.

26 - بحارالأنوار: ج 75، ص 334، ح 1، مستدرك الوسائل: ج 9، ص 37، ح 10138.

27 - مستدرك الوسائل: ج 9، ص 16، ح 10073

28 - وسائل الشّيعة: ج 3، ص 91، ح 22040.

29 - عيون أخبارالرّضا(عليه السلام): ج 1، ص 292، ح 44.

30 - عيون أخبارالرّضا(عليه السلام): ج 1، ص 299، ح 57.

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

- قالَ(عليه السلام): مَنْ حَفِظَ مِنْ شيعَتِنا أرْبَعينَ حَديثاً بَعَثَهُ اللهُ يَوْمَ الْقيامَةِ عالِماً فَقيهاً وَلَمْ يُعَذِّبْهُ. 1

2- جو ہمارے شیعوں میں سے چالیس حدیثیں حفظ کرے گا خداوند متعال بروز قیامت اسے عالم و فقیہ مبعوث فرمائے گا اور اس پر عذاب نہ کرے گا

 

3- قالَ (عليه السلام): قَضاءُ حاجَةِ الْمُؤْمِنِ أفْضَلُ مِنْ ألْفِ حَجَّة مُتَقَبَّلة بِمَناسِكِها، وَ عِتْقِ ألْفِ رَقَبَة لِوَجْهِ اللهِ، وَ حِمْلانِ ألْفِ فَرَس فى سَبيلِ اللهِ بِسَرْجِها وَ لَحْمِها. 2

3۔ مومن کی ایک حاجت روائی تمام مناسک کے ساتھ انجام دئے گئے ھزار حج قربة الی اللہ آزاد کئے ھزار غلام، اور راہ خدا میں مع زین اور گوشت کے خیرات گئے ہزار گھوڑوں کے بار سے افضل ھے

 

4- قالَ (عليه السلام): أَوَّلُ ما يُحاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلاةُ، فَإنْ قُبِلَتْ قُبِلَ سائِرُ عَمَلِهِ، وَ إذا رُدَّتْ، رُدَّ عَلَيْهِ سائِرُ عَمَلِهِ. 3

4- سب سے پہلے بندے کا جس چیز کے متعلق حساب و کتاب ھوگا وہ نماز ہے کہ وہ قبول کرلی گئی تو سارے اعمال قبول کر لئے جائیں گے اور اگر وہ رد کردی گئی تو سارے اعمال رد کردئے جائیں گے

 

6- قالَ (عليه السلام): مَنْ عابَ أخاهُ بِعَيْب فَهُوَ مِنْ أهْلِ النّارِ. 4

6- جو کسی برادر مومن کی عیب جوئی کرے وہ جہنمی ہے

 

7- قالَ (عليه السلام): الصَّمْتُ كَنْزٌ وافِرٌ، وَ زَيْنُ الْحِلْمِ، وَ سَتْرُالْجاهِلِ. 5

7- خاموشی بے پناہ خزانہ ہے حلم و بردباری کی زینت ہےا ور جاہل کی پردہ پوشی ہے

 

8- قالَ (عليه السلام): اِصْحَبْ مَنْ تَتَزَيَّنُ بِهِ، وَ لا تَصْحَبْ مَنْ يَتَزَّيَنُ لَكَ. 6

8- جو تمہارے عزت و وقار کا باعث ہے اس کے ہمراہ رہو لیکن اس کے ساتھ نہ رہو جو تمہارے سامنے با عزت و باوقار بننے کی کوشش کرتا ہے

 

9- قالَ (عليه السلام): كَمالُ الْمُؤْمِنِ فى ثَلاثِ خِصال: الْفِقْهُ فى دينِهِ، وَ الصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ، وَالتَّقْديرُ فِى الْمَعيشَةِ. 7

9- مومن کا کمال تین صفتوں میں ہے دین کے معاملہ میں سوجھ بوجھ رکھنا مصیبتوں پر صبر کرنا زندگی کے گذر بسر میں نظم و ضبط رکھنا

 

10- قالَ (عليه السلام): عَلَيْكُمْ بِإتْيانِ الْمَساجِدِ، فَإنَّها بُيُوتُ اللهِ فِى الاْءرْضِ، و مَنْ أتاها مُتَطَهّراً طَهَّرَهُ اللهُ مِنْ ذُنُوبِهِ، وَ كُتِبَ مِنْ زُوّارِهِ. 8

10۔ تمہارے اوپر سجدون میں آنا فرض ہے کیونکہ مسجد میں روئے زمین پر اللہ کا گھر ہیں اور جو مسجدوں میں پاک و پاکیزہ ہوکر داخل ہوگا اللہ اسے گناہوں سے پاک و صاف کردے گا اور اسے اپنے زائروں میں شمار کرے گا

 

15- قالَ (عليه السلام): مَنْ قَرَءَ الْقُرْآنَ فِى الْمُصْحَفِ مُتِّعَ بِبَصَرِهِ، وَ خُنِّفَ عَلى والِدَيْهِ وَ إنْ كانا كافِرَيْنِ. 9

15۔ جو شخص قرآنی کو اس میں دیکھ کر پڑے گا اس کی بصارت میں اضافہ ہوجائے گا اور اس کے ماں باپ کے گناہوں میں تخفیف کردی جائے گی چاہے وہ دونوں کافر ہی کیوں نہ ہوں

 

17- قالَ (عليه السلام): إنَّ لِكُلِّ ثَمَرَة سَمّاً، فَإذا أتَيْتُمْ بِها فأمسُّوهَاالْماء، وَاغْمِسُوها فِى الْماءِ. 10

17۔ ہر پھل کے لئے کوئی نہ کوئی زہر ہوا کرتا ہے لہذا جب پھل خریدا کرو تو اسے پانی سے ضرور دہل لیا کرو

 

19- قالَ (عليه السلام): يُسْتَجابُ الدُّعاءُ فى أرْبَعَةِ مَواطِنَ: فِى الْوِتْرِ، وَ بَعْدَ الْفَجْرِ، وَ بَعْدَالظُّهْرِ، وَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ. 11

19۔ چار جگہوں پر دعا قبول ہوجاتی ہے نماز وتر میں نماز صبح کے بعد نماز طہر کے بعد اور نماز مغرب کے بعد

 

20- قالَ (عليه السلام): مَنْ دَعا لِعَشْرَة مِنْ إخْوانِهِ الْمَوْتى لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أوْجَبَ اللهُ لَهُ الْجَنَّةَ. 12

20۔ جو شخص شب جمعہ اپنے دس مردہ مومن بھائیوں کے لئے دعا کرے گا اور اس کے اوپر اللہ جنت واجب کردے گا۔

 

22- قالَ (عليه السلام): أيُّما مُؤْمِن سَئَلَ أخاهُ الْمُؤْمِنَ حاجَةً وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلى قَضائِها فَرَدَّهُ عَنْها، سَلَّطَ اللهُ عَلَيْهِ شُجاعاً فى قَبْرِهِ، يَنْهَشُ مِنْ أصابِعِهِ. 13

22۔ جو مومن کسی دوسرے مومن بھائی سے کسی حاجت کا خواہاں ہو اور وہ اس کو پورا کرنے پر قادر ہونے کا باوجود رد کردے تو خدا اس کی قبر میں ایک سانپ کو مسلط کردے گا جو اس کی انگلیوں کو چباتا رہے گا

 

24- قالَ (عليه السلام): إذا بَلَغَكَ عَنْ أخيكَ شَيْىءٌ فَقالَ لَمْ أقُلْهُ فَاقْبَلْ مِنْهُ، فَإنَّ ذلِكَ تَوْبَةٌ لَهُ. وَ قالَ (عليه السلام): إذا بَلَغَكَ عَنْ أخيكَ شَيْىءٌ وَ شَهِدَ أرْبَعُونَ أنَّهُمْ سَمِعُوهُ مِنْهُ فَقالَ: لَمْ أقُلْهُ، فَاقْبَلْ مِنْهُ. 14

24۔ جب تمہیں اپنے مومن بھائی سے کوئی شکایت ملے او روہ کہے کہ میں نے نہیں کہا ہے تو اس کی بات مان لو کہ یہ اس کی توبہ ہے۔ امام کا اسی طرح اور ایک ارشاد ہے کہ: جب تمہیں کسی مومن سے کوئی شکایت ملے اور چالیس گواہ اس کی گواہی بھی دیں کہ خود انھوں نے اس سے یہ سنا ہے اور وہ کہے کہ میںنے نہیں کہا ہے تو اس کی بات مان لو

 

25- قالَ (عليه السلام): لا يَكْمُلُ إيمانُ الْعَبْدِ حَتّى تَكُونَ فيهِ أرْبَعُ خِصال: يَحْسُنُ خُلْقُهُ، وَ سَيْتَخِفُّ نَفْسَهُ، وَ يُمْسِكُ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِهِ، وَ يُخْرِجَ الْفَضْلَ مِنْ مالِهِ. 15

25۔ کسی بندے کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس میں چار صفتیں منزل تک نہ پہنچ جائیں اس کا اخلافق اچھا ہوجائے اپنے نفس کو (گناہوں کے بوجھ سے) ہلکا کرے، فالتو باتیں اپنی زبان سے بند کرے اور اضافی مال کو انفاق کردے

 

26- قالَ (عليه السلام): داوُوا مَرْضاكُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَ ادْفَعُوا أبْوابَ الْبَلايا بِالاْسْتِغْفارِ. 16

26۔ اپنے فریضوں کا صدقہ کے ذریعہ علاج کرو اور استغفار کے ذریعہ بلاو


¿ں گے دروازے بند کردو

 

27- قالَ (عليه السلام): إنَّ اللهَ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الصَّلَواتِ الْخَمْسِ فى أفْضَلِ السّاعاتِ، فَعَلَيْكُمْ بِالدُّعاءِ فى إدْبارِ الصَّلَواتِ. 17

27۔ اللہ نے تمہارے اوپر پانچوں نمازیں بہترین گھڑیوں میں واجب کی ہیں لہذاتمہارے اوپر لازم ہے کہ نمازوں کے بعد دعا کرو

 

29- قالَ (عليه السلام): أرْبَعَةٌ مِنْ أخْلاقِ الاْنْبياءِ: الْبِرُّ، وَ السَّخاءُ، وَ الصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ، وَ الْقِيامُ بِحَقِّ الْمُؤمِنِ. 18

29- چار چیزیں انبیاءکی سیرت رہی ہیں نیکی، سخاوت، مصیبت پر صبر اور مومن کے حق کا حصول کرنا

 

30- قالَ (عليه السلام): إمْتَحِنُوا شيعتَنا عِنْدَ ثَلاث: عِنْدَ مَواقيتِ الصَّلاةِ كَيْفَ مُحافَظَتُهُمْ عَلَيْها، وَ عِنْدَ أسْرارِهِمْ كَيْفَ حِفْظُهُمْ لَها عِنْدَ عَدُوِّنا، وَ إلى أمْوالِهِمْ كَيْفَ مُواساتُهُمْ لاِخْوانِهِمْ فيها. 19

30۔ ہمارے شیعوں کا تین موقعوں پر امتحان کرلو نماز کے موقعوں پر کہ وہ کس طرح اس کی پابندی کرتے ہیں ان کو راز رار بنا کر کہ وہ ہمارے دشمنوں کے سامنے کیسے اسرار کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے مال و دولت کے حوالے سے کہ وہ اپنے بھائیوں کی کس طرح مال حمایت کرتے ہیں

 

31- قالَ (عليه السلام): مَنْ مَلَكَ نَفْسَهُ إذا رَغِبَ، وَ إذا رَهِبَ، وَ إذَااشْتَهى، وإذا غَضِبَ وَ إذا رَضِىَ، حَرَّمَ اللهُ جَسَدَهُ عَلَى النّارِ. 20

31۔ جو شخص خواہشات نفس پر قابو پالے گا جب کہ وہ کسی چیز کا ا


¿تاولا ہوجائے کسی چیز سے نفرت کرے، کسی چیز کا خواہاں ہو کسی پر غضبناک ہو اور کسی سے خوش ہوجائے تو خداوند متعال اس کے جسم کو آتش جہنم پر حرام کردے گا

 

33- قالَ (عليه السلام): يَنْبَغى لِلْمُؤْمِنِ أنْ يَكُونَ فيهِ ثَمان خِصال:

وَقُورٌ عِنْدَ الْهَزاهِزِ، صَبُورٌ عِنْدَ الْبَلاءِ، شَكُورٌ عِنْدَ الرَّخاءِ، قانِعٌ بِما رَزَقَهُ اللّهُ، لا يَظْلِمُ الاْعْداءَ، وَ لا يَتَحامَلُ لِلاْصْدِقاءِ، بَدَنُهُ مِنْهُ فى تَعِبٌ، وَ النّاسُ مِنْهُ فى راحَة. 21

33- مومن کے اندر آٹھ صفتوں کا پایا جانا ضروری ہے بلوو


¿ں کے وقت باوقات ہونا، بلاو
¿ں کے وقت صبرکرنا آسانیوں میں شکر کرنا اللہ کے عطا کردہ رزق پر قانع ہونا دشمنوں پر ظلم نہ کرنا دوستوں پر بوجھ نہ بننا، جسم کا اس کے (عمل کے) باعث تھکا ہوا ہونا اور لوگوں کا اس سے آسودہ خاطر ہونا

 

35- قالَ (عليه السلام): إنَّ الرَّجُلَ يَذْنِبُ الذَّنْبَ فَيَحْرُمُ صَلاةَ اللَّيْلِ، إنَّ الْعَمَلَ السَّيِّىءَ أسْرَعُ فى صاحِبِهِ مِنَ السِّكينِ فِى اللَّحْمِ. 22

35۔ انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو نماز شبکی سعادت سے محروم ہوجاتا ہے کیونکہ برا کام انسان کے اوپر تیز دھار چاقو سے بھی زیادہ اثر انداز ہوتا ہے

 

38- قالَ (عليه السلام): إذا أوَيْتَ إلى فِراشِكَ فَانْظُرْ ماسَلَكْتَ فى بَطْنِكَ، وَ ما كَسَبْتَ فى يَوْمِكَ، وَ اذْكُرْ أنَّكَ مَيِّتٌ، وَ أنَّ لَكَ مَعاداً. 23

38۔ جب اپنے بستر پر جاو


¿ تو غور کرو کہ تم نے اپنے شکم کے حوالے کیا کیا آج تم نے کیا کمایااور یاد کرو کہ تم مرنے والے ہو اور تمہیں ایک دن پلٹ کر (خدا کی بارگاہ) میں جانا ہے

 

40- قالَ (عليه السلام): حَديثٌ فى حَلال وَ حَرام تَأخُذُهُ مِنْ صادِق خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيا وَ ما فيها مِنْ ذَهَب وَفِضَّة. 24

40۔ حلال وحرام کے متعلق ایک سچی حدیث کسی سچے سے حاصل کرنا ساری دنیا و مافیھا کے برابر سونا چاندی سے ہوتا ہے۔

 

منابع و مآخذ

1 - أمالى الصدوق: ص 253.

2 - أمالى الصدوق: ص 197.

3 - وسائل الشيعه: ج 4 ص 34 ح 4442.

4 - اختصاص: ص 240، بحارالأنوار: ج 75، ص 260، ح 58.

5 - مستدرك الوسائل: ج 9 ص 16 ح 4.

6 - وسائل الشيعه: ج 11 ص 412.

7 - أمالى طوسى: ج 2 ص 279.

8 - وسائل الشيعة: ج 1 ص 380 ح 2.

9 - وسائل الشيعه: ج 6 ص 204 ح 1.

10 - وسائل الشيعه: ج 25 ص 147 ح 2.

11 - جامع احاديث الشيعة: ج 5 ص 358 ح 12.

12 - جامع احاديث الشيعة: ج 6 ص 178 ح 78.

13 - أمالى طوسى: ج 2، ص 278، س 9، وسائل الشيعة: ج 16، ص 360، ح 10.

14 - مصادقة الاخوان: ص 82.

15 - امالي طوسى: ج 1 ص 125.

16 - مستدرك الوسائل: ج 7 ص 163 ح 1.

17 - مستدرك الوسائل: ج 6 ص 431 ح 6.

18 - أعيان الشّيعة: ج 1، ص 672، بحارالأنوار: ج 78، ص 260، ذيل ح 108 .

19 - وسائل الشيعة: ج 4 ص 112.

20 - وسائل الشيعة: ج 15 ص 162 ح 8.

21 - اصول كافى: ج 2، ص 47، ح 1، ص 230، ح 2، و نزهة النّاظر حلوانى: ص 120، ح 70.

22 - اصول كافى: ج 2 ص 272.

23 - دعوات راوندى ص 123، ح 302، بحارالأنوار

: ج 71، ص 267، ح 17.

24 - الإمام الصّادق (عليه السلام): ص 143.

حضرت امام حسین علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

1- قالَ الاْمامُ سيد الشهداء أبُوعَبْدِ اللّهِ الْحُسَيْن(عَلَيْه السلام) :

إنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبادَةُ التُّجارِ، وَ إنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبادَةُ الْعَبْيدِ، وَ إنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبادَةٌ الْأحْرارِ، وَ هِيَ أفْضَلُ الْعِبادَةِ. 1

1- ایک گروہ لالچ کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرتا ہے تو یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک گروہ خوف کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرتا ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے ' اور ایک گروہ شکرانہ کے طور پر عبادت خدا کرتا ہے تو یہ آزاد مردوں کی عبادت ہے اور یہی عبادت سب سے بہتر ہے۔

 

2- قالَ(عليه السلام): إنَّ أجْوَدَ النّاسِ مَنْ أعْطى مَنْ لا يَرْجُوهُ، وَ إنَّ أعْفَى النّاسِ مَنْ عَفى عَنْ قُدْرَة، وَ إنَّ أَوْصَلَ النّاسِ مَنْ وَصَلَ مَنْ قَطَعَهُ. 2

2- سب سے بڑا سخی وہ ہے جو اس شخص کو بھی دے جس سے کوئی امید وابستہ نہ ہو سب سے بڑا معاف کرنے والا وہ ہے جو انتقام لینے کی قدرت پانے کے بعد در گذر کردے ' اور سب سے بڑا رحم کرنے والا وہ ہے جو قطع رابطہ کرنے والوں سے بھی رابطہ بر قرار رکھے۔

 

3- قيلَ: مَا الْفَضْلُ؟ قالَ (عليه السلام): مُلْكُ اللِّسانِ، وَ بَذْلُ الاْحْسانِ، قيلَ: فَمَا النَّقْصُ؟ قالَ: التَّكَلُّفُ لِما لا يُعنيكَ. 3

3- امام سے پوچھا گیا کہ:فضیلت کیا ہے؟فرمایا :زبان پر کنٹرول کرنا اور سخاوت کرنا، پوچھا گیا نقص کیا ہے؟فرمایا:غیر مفید چیزوں میں زحمت اٹھانا'

 

4- قالَ(عليه السلام): النّاسُ عَبيدُالدُّنْيا، وَ الدّينُ لَعِبٌ عَلى ألْسِنَتِهِمْ، يَحُوطُونَهُ ما دارَتْ بِهِ مَعائِشَهُمْ، فَإذا مُحِصُّوا بِالْبَلاء قَلَّ الدَّيّانُونَ. 4

4- لوگ دینا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبانوں کا (لعب ) کھیل ہے جب تک ان کا ذریعہ معاش دین کے ذریعہ رواں دواں ہے دین کو گلے سے لگائے رہتے ہیں۔ لیکن جب بلاؤں میں پھنس جائیں تب بھی دیکھو گے کہ دیندار بڑے کم ہیں۔

 

5- قالَ(عليه السلام): إنَّ الْمُؤْمِنَ لا يُسىءُ وَ لا يَعْتَذِرُ، وَ الْمُنافِقُ كُلَّ يَوْم يُسىءُ وَ يَعْتَذِرُ. 5

5- مومن بُرا کام کرتا ہی نہیں اس لئے عذر خواہی نہیں کرتا۔اور منافق ہر روز بُرا کام کرتا ہے اور عذر خواہی کرتا ہے۔

 

6- قالَ(عليه السلام): إعْمَلْ عَمَلَ رَجُل يَعْلَمُ أنّه مأخُوذٌ بِالاْجْرامِ، مُجْزى بِالاْحْسانِ.6

6- کام اس شخص کے مانند انجام دو جسے پتہ ہے کہ تمام جرم و جنایت پر اس کی باز خواست کی جائے گی اور نیکیوں پر جزاء عطا سے نوازا جائے گا۔

 

7- قالَ(عليه السلام): عِباداللهِ! لا تَشْتَغِلُوا بِالدُّنْيا، فَإنَّ الْقَبْرَ بَيْتُ الْعَمَلِ، فَاعْمَلُوا وَ لا تَغْعُلُوا. 7

7- اے اللہ کے بندو! دنیا میں مشغول نہ ہوجاؤ ۔ کہ قبر میں صرف عمل کام آئیں گے۔ لہٰذا (زیادہ سے زیادہ) اعمال صالحہ انجام دو اور غفلت کا شکار نہ ہو جاؤ۔

 

8- قالَ(عليه السلام): لا تَقُولَنَّ فى أخيكَ الْمُؤمِنِ إذا تَوارى عَنْكَ إلاّ مِثْلَ ماتُحِبُّ أنْ يَقُولَ فيكَ إذا تَوارَيْتَ عَنْهُ. 8

8- اپنے برادر مومن کے بارے میں جب وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جائے تو کچھ نہ کہو مگر وہی باتیں جو تم اس کی نظروں سے اوجھل ہوجانے کے بعد اپنے بارے میں کہا جانا پسند کرتے ہو۔

 

9- قالَ(عليه السلام): يا بُنَىَّ! إيّاكَ وَظُلْمَ مَنْ لايَجِدُ عَلَيْكَ ناصِراً إلاّ اللهَ. 9

9- اے میرے لال ! خبردار جس کا سوائے اللہ کے کوئی مددگار نہیں ہے اس پر ظلم سے پر ہیز کرو۔

 

10- قالَ(عليه السلام): إنّي لا أري الْمَوْتَ إلاّ سَعادَة، وَ لاَ الْحَياةَ مَعَ الظّالِمينَ إلاّ بَرَماً. 10

10- میں کو صرف سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو ننگ وعار سمجھتا ہوں۔

 

11- قالَ(عليه السلام): مَنْ لَبِسَ ثَوْباً يُشْهِرُهُ كَساهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ ثَوْباً مِنَ النّارِ.11

11- جو شخص لباس شہرت پہنے گا خدا وند متعال بروز قیامت اسے آگ کا لباس پہنائے گا۔

 

12- قالَ(عليه السلام): أنَا قَتيلُ الْعَبَرَةِ، لايَذْكُرُنى مُؤْمِنٌ إلاّ اِسْتَعْبَرَ. 12

12- میں گشتۂ گریہ ہوں ، کوئی مومن مجھے یاد نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ روپڑتا ہے۔

 

13- قالَ(عليه السلام): لَوْ شَتَمَنى رَجُلٌ فى هذِهِ الاُْذُنِ، وَ أَوْمى إلىَ الْيُمْنى، وَ اعْتَذَرَ لى فىِ الاُْخْرى لَقَبِلْتُ ذلِكَ مِنْهُ. 13

13- اگر کوئی میرے داہنے کان کی طرف آکر مجھے بُرا بھلا کہے اور دوسرے کان کے پاس آکر عذر خواہی کر لے تب بھی میں اس کا عذر قبول کر لوں گا۔

 

14- قيلَ لِلْحُسَيْنِ بن علىّ(عليه السلام): مَنْ أعْظَمُ النّاسِ قَدْراً؟

14- امام حسین علیہ السلام سے ہو چھا گیا کہ:سب ست زیادہ قدر و قیمت والا آدمی کون ہے؟فرمایا:جسے اس چیز کی پرواہ نہ ہو کہ دنیا کس کے ہاتھ میں ہے۔

 

15- قالَ(عليه السلام): مَنْ عَبَدَاللهَ حَقَّ عِبادَتِهِ، آتاهُ اللهُ فَوْقَ أمانيهِ وَ كِفايَتِهِ. 15

15- جو خدا کی عبادت کا حق ادا کرے گا اس کی آرزو اور ضرورت سے زیادہ نوازے گا۔

 

17- قالَ(عليه السلام): أيُّما إثْنَيْنِ جَرى بَيْنَهُما كَلامٌ، فَطَلِبَ أَحَدُهُما رِضَى الاْخَرِ، كانَ سابِقَهُ إلىَ الْجَنّةِ. 17

17-اگر دو آدمیوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو جوا ان دونوں میں سے پہلے دوسرے کی رضایت و خوشنودی حاصل کرنے گا وہی دوسرے سے پہلے جنت میں داخل ہو گا۔

 

18- قالَ(عليه السلام): وَ اعْلَمُوا إنَّ حَوائِجَ النّاسِ إلَيْكُمْ مِنْ نِعَمِ الله عَلَيْكُمْ، فَلا تَميلُوا النِّعَمَ فَتَحَوَّلَ نَقِماً. 18

18- یاد رکھو کہ لوگوں کا تمہاری طرف اپنی ضرورتوں کا لے کر آنا تمہارے اوپر اللہ کی نعمتوں میں سے ہے لہٰذا نعمتوں سے رو گردانی اختیار نہ کرو کہ وہ بلاو مصیبت میں تبدیل ہو جائیں۔

 

19- قالَ(عليه السلام): يَا ابْنَ آدَم! اُذْكُرْ مَصْرَعَكَ وَ مَضْجَعَكَ بَيْنَ يَدَي اللهِ، تَشْهَدُ جَوارِحُكَ عَلَيْكَ يَوْمَ تَزِلُّ فيهِ الْأقْدام. 19

19- اے فرزند آدم! اپنے بستر مرگ اور قبر میں خدا کی بارگاہ میں پڑے رہنے کو یاد رکھو کہ تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے خلاف اس روز گواہی دیں گے کہ جس روز قدموں پر لرزش طاری ہو گی۔

 

20- قالَ(عليه السلام): مُجالَسَةُ أهْلِ الدِّناءَةِ شَرٌّ، وَ مُجالَسَةُ أهْلِ الْفِسْقِ ريبَةٌ.20

20- پست لوگوں کی ہمنشینی بد بختی لاتی ہے اور گنہ گاروں کے ساتھ معاشرت سوء ظن پیدا کرتی ہے

 

21- قالَ(عليه السلام): إنَّ اللهَ خَلَقَ الدُّنْيا لِلْبَلاءِ، وَ خَلَقَ أهْلَها لِلْفَناءِ. 21

21- اللہ نے دنیا کو بلاء کے لئے اور اہل دنیا کو فنا کے لئے پیدا کیا ہے۔

 

22- قالَ(عليه السلام): لا يَأمَنُ يوم الْقِيامَةِ إلاّ مَنْ قَدْ خافَ اللهَ في الدُّنْيا. 22

22- کوئی بھی بروز قیامت امان میں نہ ہوگا مگر وہی جو دنیا میں خدا کا خوف رکھتا ہوگا۔

 

23- قالَ(عليه السلام): لِكُلِّ داء دَواءٌ، وَ دَواءُ الذُّنُوبِ الإسْتِغْفارِ. 23

23- ہر بیماری کی دوا ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے۔

 

24- قالَ(عليه السلام): مَنْ قَرَءَ آيَةً مِنْ كِتابِ الله عَزَّ وَ جَلَّ فى صَلاتِهِ قائِماً، يُكْتَبُ لَهُ بِكُلِّ حَرْف مِأةُ حَسَنَة. 24

24- جو شخص حالت نماز (قیام) میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا اس کے لئے ہر حرف کے عوض سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی۔

 

26- قالَ(عليه السلام): إنَّ اَعْمالَ هذِهِ الاُْمَّةِ ما مِنْ صَباح إلاّ و تُعْرَضُ عَلَى اللهِ تَعالى. 25

26- اس امت کے اعمال ہر روز کی صبح کو خدا کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔

 

29- قالَ(عليه السلام): إنَّ الْغِنى وَ اْلِعزَّ خَرَجا يَجُولانِ، فَلَقيا التَّوَكُلَّ فَاسْتَوْطَنا. 27

29- ؟؟؟

 

30- قالَ(عليه السلام): مَنْ نَفَّسَ كُرْبَةَ مُؤْمِن، فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ كَرْبَ الدُّنْيا وَالاْخِرَةِ. 28

30- جو شخص کسی مومن کی مشکل حل کر دیتا ہے خدا وند متعال اس کے دنیاو آخرت کی مشکلوں کو حل کر دیتا ہے۔

 

32- قالَ(عليه السلام): يَا ابْنَ آدَمَ! أُذْكُرْ مَصارِعَ آبائِكَ وَ أبْنائِكَ، كَيْفَ كانُوا، وَ حَيْثُ حَلّوُا، وَ كَأَنَّكَ عَنْ قَليل قَدْ حَلَلْتَ مَحَلَّهُمْ. 29

32- اے فرزند آدم! اپنے آباء و اجداد اور فرندوں کے بستر مرگ پر پڑے رہنے کو یاد کرو کہ ان کی کیا حالت تھی وہ کہاں گئے تمہیں بھی بہت جلد انھیں کی جگہ جاتاہے ۔

 

33- قالَ(عليه السلام): يَا ابْنَ آدَمَ، إنَّما أنْتَ أيّامٌ، كُلَّما مَضى يَوْمٌ ذَهَبَ بَعْضُكَ. 30

33- اے آدم کے بیٹے! تو کچھ دنوں کا مجموعہ ہے جتنے دن گذرتے جاتے ہیں تو اتنا ہی ختم ہو تا جاتا ہے۔

 

34- قالَ(عليه السلام): مَنْ حاوَلَ أمْراً بِمَعْصِيَةِ اللهِ كانَ أفْوَتُ لِما يَرْجُو وَ أسْرَعُ لِمَجيىءِ ما يَحْذَرُ. 31

34- جو شخص کسی معصیت الٰہی کے ذریعہ کوئی کام انجام دیتا ہے وہ اس کام سے جس چیز کی آرزو رکھتا ہے وہ بہت جلد فنا ہو جاتی ہے اور جس چیز سے ڈرتا ہے وہ مصیبت بہت جلد آپہنچتی ہے۔

 

35- قالَ(عليه السلام): الْبُكاءُ مِنْ خَشْيَةِ الله نَجاتٌ مِنَ الّنارِ وَ قالَ: بُكاءُ الْعُيُونِ، وَ خَشْيَةُ الْقُلُوبِ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ. 32

35- خوف خدا سے گریہ آتش جہنم سے نجات کا باعث ہے ۔امام کا ہی ارشاد ہے:آنکھوں کا رونا اور دل کا شکستہ ہونا اللہ کی رحمت و عنایت ہے۔

 

36- قالَ(عليه السلام): لا يَكْمِلُ الْعَقْلُ إلاّ بِاتّباعِ الْحَقِّ. 33

36- (انسنا کی) عقل بغیر حق کی پیروی کئے کامل نہیں ہو سکتی۔

 

37- قالَ(عليه السلام): أَهْلَكَ النّاسَ إثْنانِ: خَوْفُ الْفَقْرِ، وَ طَلَبُ الْفَخْرِ. 34

37- دو چیزوں نے انسانوں کو ہلاکت کے دہانے پر پہنچادیا ہے ۔ فقر و فاقہ کا خوف اور دوسروں پر فخر و مباہات

 

38- قالَ(عليه السلام): مَنْ عَرَفَ حَقَّ أَبَوَيْهِ الاْفْضَلَيْنِ مُحَمَّد وَ عَلىّ، و أطاعَهُما، قيلَ لَهُ: تَبَحْبَحْ فى أيِّ الْجِنانِ شِئْتَ. 35

38- جو شخص اپنے دونوں افضل باپ حضرت رسول خدا (ص) اور حضرت امیر المومنین (ع) کے حق کی معرفت پیدا کر ے گا اور ان کی اطاعت کرے گا اس سے کہا جائے گا:جنت کے جس حصے میں چاہے داخل ہو جا۔

 

39- قالَ(عليه السلام): مَنْ طَلَبَ رِضَى اللهِ بِسَخَطِ النّاسِ كَفاهُ الله اُمُورَ النّاسِ، وَ مَنْ طَلَبَ رِضَى النّاسِ بِسَخَطِ اللهِ وَ كَّلَهُ اللهُ إلَى النّاسِ. 36

39- جو شخص لوگوں کی ناراضگی کے باوجود خدا کی خوشی حاصل کرلے گا خدا وند متعال اس کو لوگوں سے متعلق اس کے سارے امور کو درست کر دے گا ۔ اور جو خدا کی ناراضگی کے باوجود لوگوں کی خوشی حاصل کرے گا خدا اس کے جملہ امور کو لوگوں کے اوپر ڈال دے گا۔

 

40- قالَ(عليه السلام):إنَّ شيعَتَنا مَنْ سَلِمَتْ قُلُوبُهُمْ مِنْ كُلِّ غِشٍّ وَ غِلّ وَ دَغَل.37

40- ہم اہل بیت (ع) کے شیعہ بس وہی ہیں جن کے دل ہر قسم کے مکرو وفریب دہی ۔ کینہ اور دھوکہ دہی سے خالی ہوں ۔

 

منابع و مآخذ

1- تحف العقول: ص 177، بحارالأنوار: ج 75، ص 117، ح 5.

2- نهج الشّهادة: ص 39، بحارالأنوار: ج 75، ص 121، ح 4.

3- مستدرك الوسائل: ج 9، ص 24، ح 10099 به نقل از مجموعه شهيد.

4- محجّة البيضاء: ج 4، ص 228، بحارالأنوار: ج 75، ص 116، ح 2.

5- تحف العقول: ص 179، بحارالأنوار: ج 75، ص 119، ح 2.

6- بحارالأنوار: ج 2، ص 130، ح 15 و ج 75، ص 127، ح 10.

7- نهج الشّهادة: ص 47.

8- بحارالأنوار: ج 75، ص 127، ح 10.

9- وسائل الشّيعة: ج 11، ص 339، بحارالأنوار: ج 46، ص 153، ح 16.

10- بحار الأنوار: ج 44، ص 192، ضمن ح 4، و ص 381، ضمن ح 2.

11- كافى: ج 6، ص 445، ح 4.

12- أمالى شيخ صدوق: ص 118، بحارالأنوار: ج 44، ص 284، ح 19.

13- إحقاق الحقّ: ج 11، ص 431.

14- تنبيه الخواطر، معروف به مجموعة ورّام: ص 348، س 11.

15- تنبيه الخواطر: ص 427، س 14، بحارالأنوار: ج 68، ص 183، ح 44.

17- محجّة البيضاء: ج 4، ص 228.

18- نهج الشّهادة: ص 38.

19- نهج الشّهادة: ص 59.

20- نهج الشّهادة: ص 47، بحارالأنوار: ج 78، ص 122، ح 5.

21- نهج الشّهادة: ص 196. 

22- بلاغة الحسين(عليه السلام): ص 285، بحار الأنوار: ج 44، ص 192، ح 5.

23- وسائل الشّيعة: ج 16، ص 65، ح 20993، كافى: ج 2، ص 439، ح 8.

24- اصول كافى: ج 2، ص 611، بحارالأنوار: ج 89، ص 200، ح 17.

25- بحارالأنوار: ج 70، ص 353، ح 54، به نقل از عيون الأخبارالرّضا(عليه السلام).

27- مستدرك الوسائل: ج 11، ص 218، ح 15، بحارالأنوار: ج 75، ص 257، ح 108.

28- مستدرك الوسائل: ج 12، ص 416، ح 13، بحارالأنوار: ج 75، ص 121، ح 4.

29- نهج الشّهادة: ص 60.

30- نهج الشّهادة: ص 346.

31- اصول كافى: ج 2، ص 373، ح 3، بحارالأنوار: ج 75، ص 120، س 6، وسائل الشّيعة: ج 16، ص 153، ح 3.

32- نهج الشّهادة: ص 370، مستدرك الوسائل: ج 11، ص 245، ح 12881.

33- نهج الشّهادة: ص 356، بحارالأنوار: ج 75، ص 127، ح 11.

34- بحارالأنوار: ج 75، ص 54، ح 96.

35- نهج الشّهادة: ص 293، تفسيرالامام العسكرى (عليه السلام): ص 330، بحار: ج 23، ص 260، ح 8.

36- أمالى شيخ صدوق: ص 167، مستدرك الوسائل: ج 12، ص 209، ح 13902.

37- تفسيرالإمام العسكرى(عليه السلام): ص 309، ح 154، بحارالأنوار: ج 65، ص 156، ح 11.

 

حضرت امیر المومنین علی(ع) کی چالیس حدیثیں

800x600

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}

حضرت امیر المومنین علی(ع) کی چالیس حدیثیں

1ـ قالَ الاْمامُ علىّ بن أبي طالِب أميرُ الْمُؤْمِنينَ (عَلَيْهِ السلام) :(إغْتَنِمُوا الدُّعاءَ عِنْدَ خَمْسَةِ مَواطِنَ: عِنْدَ قِرائَةِ الْقُرْآنِ، وَ عِنْدَ الاْذانِ، وَ عِنْدَ نُزُولِ الْغَيْثِ، وَ عِنْدَ الْتِقاءِ الصَفَّيْنِ لِلشَّهادَةِ، وَ عِنْدَ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، فَاِنَّهُ لَيْسَ لَها حِجابٌ دوُنَ الْعَرْشِ  .(1

1 ـ پانچ مواقع پر دعا کرنا غنیمت جانو! قرآن کی قرائت کرنے وقت، اذان کے وقت، بارش کے وقت، شھادت کے  لئے دو لشکروں کی مڈ بھیڑ کے وقت، مظلوم کی پکار کے وقت، اس لئے کہ ان مواقع پر عرش کے نیچے کوئی چیز قبولیٔ دعا میں حائل نہیں ہوتی۔

 

2ـ قالَ (عليه السلام): اَلْعِلْمُ وِراثَةٌ كَريمَةٌ، وَ الاْدَبُ حُلَلٌ حِسانٌ، وَ الْفِكْرَةُ مِرآةٌ صافِيَةٌ، وَ الاْعْتِذارُ مُنْذِرٌ ناصِحٌ، وَ كَفى بِكَ أَدَباً تَرْكُكَ ما كَرِهْتَهُ مِنْ غَيْرِكَ .(2       

2ـ علم ایک کریم وارثت ہے اور ادب خوبصورت حلے ہیں اور غور وفکر ، صاف شفاف آئینہ ہے اور عذر خواہی دلسوز ڈرانے والی ہے اور تمہارے ادب کے لئے یہی کافی ہے کہ تم جس چیز کو غیروں سے ناپسند کرتے ہو اسے خود ترک کردو۔

 

3ـ قالَ (عليه السلام): اَلـْحَقُّ جَديدٌ وَ إنْ طالَتِ الاْيّامُ، وَ الْباطِلُ مَخْذُولٌ وَ إنْ نَصَرَهُ أقْوامٌ.( 3

3ـ حق ہمیشہ ترق تازہ رہتا ہے چاہے عرصہ گزر گیا ہو۔ اور باطل ہمیشہ مضمحل ہوتا ہے چاہے قومیں ایک جٹ ہو کر اس کی مدد کیوں نہ کریں۔

 

4ـ قالَ (عليه السلام): اَلدُّنْيا تُطْلَبُ لِثَلاثَةِ أشْياء: اَلْغِنى، وَ الْعِزِّ، وَ الرّاحَةِ، فَمَنْ زَهِدَ فيها عَزَّ، وَ مَنْ قَنَعَ إسْتَغْنى، وَ مَنْ قَلَّ سَعْيُهُ إسْتَراحَ.(  4

4ـ دنیا کو صرف تین چیزوں کے لئے ہی طلب کیا جا سکتا ہے ۔ بے نیازی و ثروتمندی کے لئے ، عزت و آبرو کے لئے ، سکون و آرام کے لئے، جو اس دنیا میں رہد و پارسائی کرے گا وعزت دار بن جائے گا اور جو قناعت پیشہ ہو جائے گا وہ بے نیاز اور ثروتمند ہو جائے گا اور جو دنیا طلبی میں کم زحمت کرے گا وہ سکون وآرام پائے گا۔

 

5ـ قالَ (عليه السلام): لَوْ لاَ الدّينُ وَ التُّقى، لَكُنْتُ أدْهَى الْعَرَبِ.( 5

5ـ اگر دینداری اور پرہیزگاری کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں عرب دنیا کا سب سے بڑا سیاست مدار ہوتا۔

 

6ـ قالَ (عليه السلام): اَلْمُلُوكُ حُكّامٌ عَلَى النّاسِ، وَ الْعِلْمُ حاكِمٌ عَلَيْهِمْ، وَ حَسْبُكَ مِنَ الْعِلْمِ أنْ تَخْشَى اللّهَ، وَ حَسْبُكَ مِنَ الْجَهْلِ أنْ تَعْجِبَ بِعِلْمِكَ.( 6

6ـ بادشاہ لوگوں پر حاکم ہیں اور علم ان کے اوپر حاکم ہے تمہارے علم کے لئے یہ یہی کافی ہے کہ تم خدا سے ڈرو اور تمہاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ تم اپنے علم پر ناز کرو۔

 

7ـ قالَ (عليه السلام): ما مِنْ يَوْم يَمُرُّ عَلَى ابْنِ آدَم إلاّ قالَ لَهُ ذلِكَ الْيَوْمُ: يَابْنَ آدَم أنَا يَوُمٌ جَديدٌ وَ أناَ عَلَيْكَ شَهيدٌ. فَقُلْ فيَّ خَيْراً، وَ اعْمَلْ فيَّ خَيْرَاً، أشْهَدُ لَكَ بِهِ فِى الْقِيامَةِ، فَإنَّكَ لَنْ تَرانى بَعْدَهُ أبَداً.( 7

7ـ فرزندان آدم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جو اس سے نہ کہتا ہوکہ اے فرزند آدم میں ایک نیادن ہوں اور میں تیرے اوپر گواہ ہوں لہٰذا میرے اندر اچھی بات کہو اچھا کام کرو تو میں تمہارے لئے قیامت کے دن گواہی دوں گا اس لئے کہ تم آج کے بعد پھر کبھی مجھے نہیں دیکھ پاؤگے۔

 

8ـ قالَ (عليه السلام): فِى الْمَرَضِ يُصيبُ الصَبيَّ، كَفّارَةٌ لِوالِدَيْهِ.( 8

8ـ بچے کی بیماری اس کے والدین کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

 

9ـ قالَ (عليه السلام): الزَّبيبُ يَشُدُّ الْقَلْبِ، وَ يُذْهِبُ بِالْمَرَضِ، وَ يُطْفِىءُ الْحَرارَةَ، وَ يُطيِّبُ النَّفْسَ.( 9

9ـ کشمش دل کو قوی ، بیماری کو ختم، حرارت کو سرد اور طبیعت کو سازگار بنا دیتی ہے۔

 

10ـ قالَ (عليه السلام): أطْعِمُوا صِبْيانَكُمُ الرُّمانَ، فَإنَّهُ اَسْرَعُ لاِلْسِنَتِهِمْ.( 10

10ـ اپنے بچوں کو انار کھلاؤ کہ وہ ان کی زبان کو جلدی وا کردے گا۔

 

11ـ قالَ (عليه السلام): أطْرِقُوا أهاليكُمْ فى كُلِّ لَيْلَةِ جُمْعَة بِشَيْء مِنَ الْفاكِهَةِ، كَيْ يَفْرَحُوا بِالْجُمْعَةِ.( 11

11ـ ہر شب جمعہ اپنے اہل وعیال کے پاس پھل لے کر جاؤ تاکہ وہ جمعہ کے دن خوشحال رہیں۔

 

12ـ قالَ (عليه السلام): كُلُوا ما يَسْقُطُ مِنَ الْخوانِ فَإنَّهُ شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داء بِإذْنِ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ، لِمَنْ اَرادَ أنْ يَسْتَشْفِيَ بِهِ.( 12

12ـ دستراخوان سے گرنے والے دانوں کو چن کر کھا لیا کرو کہ وہ بحکم خدا ہر مرض کی بیماری سے شفا کا باعث ہے جو اس سے شفا حاصل کرنا چاہے۔

 

13ـ قالَ (عليه السلام): لا ينبغى للعبد ان يثق بخصلتين: العافية و الغنى، بَيْنا تَراهُ مُعافاً اِذْ سَقُمَ، وَ بَيْنا تَراهُ غنيّاً إذِ افْتَقَرَ.( 13

13ـ بندے کے لئے مناسب نہیں ہے کہ دوصفتوں پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہے صحت اور ثروت ۔ اس لئے کہ دیکھتے دیکھتے صحت مند بیمار ہو جاتا ہے اور ثروتمند فقیر ہو جاتا ہے ۔

 

14ـ قالَ (عليه السلام): لِلْمُرائى ثَلاثُ عَلامات: يَكْسِلُ إذا كانَ وَحْدَهُ، وَ يَنْشطُ إذاكانَ فِى النّاسِ، وَ يَزيدُ فِى الْعَمَلِ إذا أُثْنِىَ عَلَيْهِ، وَ يَنْقُصُ إذا ذُمَّ.( 14

14ـ ریا کاری کی تین علامتیں ہیں۔ جب تنہا ہوتا ہے تو سستی کرتا ہے جب لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تو چاق و چوبند ہوتا ہے جب اس کی تعریف کی جاتی ہے تو عمل میں اضافہ کردیتا ہے اور اگر مذمت کی جاتی ہے تو عمل میں کمی برتنے لگتا ہے ۔

 

15ـ قالَ (عليه السلام): اَوْحَى اللّهُ تَبارَكَ وَ تَعالى إلى نَبيٍّ مِنَ الاْنْبياءِ: قُلْ لِقَوْمِكَ لا يَلْبِسُوا لِباسَ أعْدائى، وَ لا يَطْعَمُوا مَطاعِمَ أعْدائى، وَ لا يَتَشَكَّلُوا بِمَشاكِلِ أعْدائى، فَيَكُونُوا أعْدائى.( 15

15ـ اللہ نے ایک نبی کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی قوم والوں سے کہو کہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنیں میرے دشمنوں کی غذا نہ کھائیں اور میرے دشمنوں کی شکل و صورت اختیار نہ کریں ورنہ وہ بھی میرے دشمن ہوجائیں گے ۔

 

16ـ قالَ (عليه السلام): اَلْعُقُولُ أئِمَّةُ الأفْكارِ، وَ الاْفْكارُ أئِمَّةُ الْقُلُوبِ، وَ الْقُلُوبُ أئِمَّةُ الْحَواسِّ، وَ الْحَواسُّ أئِمَّةُ الاْعْضاءِ.( 16

16ـ عقلیں فکروں کی رہبر ہیں، فکریں دلوں کی رہبر ہیں ۔ دل احساسات کے رہبر ہیں اور احساسات اعضاء بدن کے رہبر ہیں۔

 

17ـ قالَ (عليه السلام): تَفَضَّلْ عَلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أميرُهُ، وَ اسْتَغِْنِ عَمَّنْ شِئْتَ فَأنْتَ نَظيرُهُ، وَ افْتَقِرْ إلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أسيرُهُ.( 17

17ـ جس پر چاہو احاس کرو کہ تم اس کے رئیس بن جاؤ گے۔ اور جس سے چاہو مدد طلب کرو کہ تم اسی کے ہم مثل ہو ۔ اور جس سے چاہو بھیک مانگو کہ تم اس کے اسیر بن جاؤ گے۔

 

18ـ قالَ (عليه السلام): أعَزُّ الْعِزِّ الْعِلْمُ، لاِنَّ بِهِ مَعْرِفَةُ الْمَعادِ وَ الْمَعاشِ، وَ أذَلُّ الذُّلِّ الْجَهْلُ، لاِنَّ صاحِبَهُ أصَمُّ، أبْكَمٌ، أعْمى، حَيْرانٌ.( 18

18ـ سب سے بڑی عزت علم ودانش ہے کیونکہ علم کی بدولت معرفت معاد (قیامت) و معاش پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑی ذلت جہل و نادانی ہے کیونکہ جاہل گونگا بہرہ اندھا اور حیران و سر گردان ہوتا ہے۔

 

19ـ قالَ (عليه السلام): جُلُوسُ ساعَة عِنْدَ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ عِبادَةِ ألْفِ سَنَة، وَ النَّظَرُ إلَى الْعالِمِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ إعْتِكافِ سَنَة فى بَيْتِ اللّهِ، وَ زيارَةُ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ تَعالى مِنْ سَبْعينَ طَوافاً حَوْلَ الْبَيْتِ، وَ أفْضَلُ مِنْ سَبْعينَ حَجَّة وَ عُمْرَة مَبْرُورَة مَقْبُولَة، وَ رَفَعَ اللّهُ تَعالى لَهُ سَبْعينَ دَرَجَةً، وَ أنْزَلَ اللّهُ عَلَيْهِ الرَّحْمَةَ، وَ شَهِدَتْ لَهُ الْمَلائِكَةُ: أنَّ الْجَنَّةَ وَ جَبَتْ لَهُ.( 19

19ـ علماء کی بزم میں ایک گھڑی بیٹھنا اللہ کو ایک ہزار سال کی عبادت سے زیادہ پیارا ہے ۔ اور اور عالم کی طرف دیکھنا اللہ کو بیت اللہ(کعبہ) میں اعتکاف کرنے سے زیادہ پیارا ہے علماء کی زیارت کو جانا اللہ کو بیت اللہ کے ارد گرد ستر طواف سے زیادہ پیارا ہے اور ستر مقبول حج و عمرہ سے زیادہ افضل ہے اور اللہ اس کے (زائر علماء) ستر درجات بلند کردتیا ہے اس پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے ملائکہ اس کے گواہ بن جاتے ہیں کہ بہشت اس کے لئے واجب ہو چکی ہے ۔

 

20ـ قالَ (عليه السلام): يَا ابْنَ آدَم، لا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذى لَمْ يَأتِكَ عَلى يَوْمِكَ الَّذى أنْتَ فيهِ، فَإنْ يَكُنْ بَقِيَ مِنْ أجَلِكَ، فَإنَّ اللّهَ فيهِ يَرْزُقُكَ.( 20

20ـ اے فرزند آدم! جس دن میں زندگی بسر کر رہے ہو اس پر اس دن کے ہم وغم نہ ڈالوں جو ابھی تمہاری زندگی میں داخل نہیں ہوا ہے اگر وہ تمہاری زندگی کا حصہ ہے تو اللہ اس دن تمہارے رزق کو فراہم کرے گا۔

 

21ـ قالَ (عليه السلام): قَدْرُ الرَّجُلِ عَلى قَدْرِ هِمَّتِهِ، وَ شُجاعَتُهُ عَلى قَدْرِ نَفَقَتِهِ، وَ صِداقَتُهُ عَلى قَدْرِ مُرُوَّتِهِ، وَ عِفَّتُهُ عَلى قَدْرِ غِيْرَتِهِ.( 21

21ـ انسان کی قدر و قیمت اس ہمت کے برابر ہوتی ہے اور اس کی شجاعت اس کے عفو و در گزر کرنے کے برابر ہوتی ہے اور اس کی سچائی اس کی مروت و مردانگی کے برابر ہوتی ہے اور اس کی عفت وپاکدامنی اس کی غیرت و حمیت کے برابر ہوتی ہے۔

 

22ـ قالَ (عليه السلام): مَنْ شَرِبَ مِنْ سُؤْرِ أخيهِ تَبَرُّكاً بِهِ، خَلَقَ اللّهُ بَيْنَهُما مَلِكاً يَسْتَغْفِرُ لَهُما حَتّى تَقُومَ السّاعَةُ.( 22

22ـ جو شخص اپنے دینی بھائی کو جھوٹا پانی تبرکا پیئے گا تو ان دونوں کے لئے خدا وند متعال ایک فرشتہ خلق فرمائے گا جو قیامت تک ان دونوں کے لئے استغفار کرتا رہے گا۔

 

23ـ قالَ (عليه السلام): لا خَيْرَ فِى الدُّنْيا إلاّ لِرَجُلَيْنِ: رَجَلٌ يَزْدادُ فى كُلِّ يَوْم إحْساناً، وَ رَجُلٌ يَتَدارَكُ ذَنْبَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَ أنّى لَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَالله لَوْسَجَدَ حَتّى يَنْقَطِعَ عُنُقُهُ ما قَبِلَ اللهُ مِنْهُ إلاّ بِوِلايَتِنا أهْلِ الْبَيْتِ.( 23

23ـ دنیا صرف دو قسم کے لوگوں کے لئے بھلائی ہے ایک وہ شخص جو ہر روز اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور دوسرے وہ شخص جو اپن گناہوں کا توبہ و استغفار کے ذریعہ تدارک کیا کرتا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ کوئی بندہ توبہ کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ خدا کی قسم اگر کوئی اتنا طولانی سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کی گردن ٹوٹ جائے تب بھی خدا وند متعال ہم اہل بیت(ع) کی ولایت کا اقرار کئے بغیر قبول نہیں کرے گا۔

 

24ـ قالَ (عليه السلام): عَجِبْتُ لاِبْنِ آدَم، أوَّلُهُ نُطْفَةٌ، وَ آخِرُهُ جيفَةٌ، وَ هُوَ قائِمٌ بَيْنَهُما وِعاءٌ لِلْغائِطِ، ثُمَّ يَتَكَبَّرُ.( 24

24ـ بنی آدم پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اس کی ابتداء نطفہ ہے اور اس کا انجام مردار اور دونوں کے درمیان وہ فضلہ کا برتن لئے کھڑا ہے پھر بھی تکبر کرتا ہے۔

 

25ـ قالَ (عليه السلام): إيّاكُمْ وَ الدَّيْن، فَإنَّهُ هَمٌّ بِاللَّيْلِ وَ ذُلٌّ بِالنَّهارِ.( 25

25ـ خبردار قرض نہ لو کہ قرض رات میں ہم وغم اور دن میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے ۔

 

26ـ قالَ (عليه السلام): إنَّ الْعالِمَ الْكاتِمَ عِلْمَهُ يُبْعَثُ أنْتَنَ أهْلِ الْقِيامَةِ، تَلْعَنُهُ كُلُّ دابَّة مِنْ دَوابِّ الاْرْضِ الصِّغارِ.( 26

26ـ اپنے علم کو چھپاکے رکھنے والا عالم بروز قیامت بڑا بد بودار اٹھایا جائے گا اور اس پر زمین کے تمام حشرات لعنت کرتے ہیں۔

 

27ـ قالَ (عليه السلام): يا كُمَيْلُ، قُلِ الْحَقَّ عَلى كُلِّ حال، وَوادِدِ الْمُتَّقينَ، وَاهْجُرِ الفاسِقينَ، وَجانِبِ المُنافِقينَ، وَلاتُصاحِبِ الخائِنينَ.( 27

27ـ اے کمیل! ہر حال میں حق بات کہو۔ اور متقیوں سے خلوص بھری محبت کرو۔ فاسقوں کی ہمراہی چھوڑ دو منافقوں سے دور رہو اور خائنوں کے ساتھ نہ اُٹھو بیٹھو۔

 

28ـ قالَ (عليه السلام): فى وَصيَّتِهِ لِلْحَسَنِ (عليه السلام): سَلْ عَنِ الرَّفيقِ قَبْلَ الطَّريقِ، وَعَنِ الْجارِ قَبْلَ الدّارِ.( 28

28ـ حضرت امام امیر المومنین (ع) نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: سفر سے پہلے ہم سفر کے متعلق معلومات فراہم کرو، اور گھر سے پہلے پڑوسی کے متعلق سوال کرو۔

 

29ـ قالَ (عليه السلام): اِعْجابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ دَليلٌ عَلى ضَعْفِ عَقْلِهِ.( 29

29ـ انسان کا اپنی ہی ذلت پر تعجب ہونا اس کی کم عقلی کی دلیل ہے ۔

 

30ـ قالَ (عليه السلام): أيُّهَا النّاسُ، إِيّاكُمْ وُحُبَّ الدُّنْيا، فَإِنَّها رَأْسُ كُلِّ خَطيئَة، وَبابُ كُلِّ بَليَّة، وَداعى كُلِّ رَزِيَّة.( 30

30ـ اے لوگو! دنیا کی محبت سے خبردار اس کہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کا سرمایہ ہر آفت وبلا کا دروازہ اور ہر مصیبت کو کھینچ لانے والی ہے ۔

 

31ـ قالَ (عليه السلام): السُّكْرُ أرْبَعُ السُّكْراتِ: سُكْرُ الشَّرابِ، وَسُكْرُ الْمالِ، وَسُكْرُ النَّوْمِ، وَسُكْرُ الْمُلْكِ.( 31

31ـ نشہ چار قسم ہوتا ہے ۔شراب کا نشہ ، مال کا نشہ، نیند کا نشہ، جاہ ومقام کا نشہ۔

 

32ـ قالَ (عليه السلام): أللِّسانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ.( 32

32ـ زبان ایک درندہ ہے جسے چھوڑ دیا جائے تو زخمی کر دے گا۔

 

33ـ قالَ (عليه السلام): يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظّالِمِ أشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.( 33

33ـ ظالم پر مظلوم کے اقتدار کا دن ظالم کے مظلوم کے اوپر اقتدار کے دن سے سخت تر ہے۔

 

34ـ قالَ (عليه السلام): فِى الْقُرْآنِ نَبَأُ ما قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ ما بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ ما بَيْنِكُمْ.( 34

34ـ قرآن میں تم سے پہلے والوں کی خبریں، اور تمہارے بعد آنے والوں کی خبریں اور تمہارے درمیان پیش آنے والے واقعات کا حکم و دستور موجود ہے۔

 

35ـ قالَ (عليه السلام): نَزَلَ الْقُرْآنُ أثْلاثاً، ثُلْثٌ فينا وَفى عَدُوِّنا، وَثُلْثٌ سُنَنٌ وَ أمْثالٌ، وَثُلْثٌ فَرائِض وَأحْكامٌ.( 35

35ـ قرآن تین حصوں پر مشتمل ہے ایک تہائی، ہمارے تعریف و تمجید میں ہے اور ہمارے دشمنوں کی سر زنش میں ہے ایک تہائی مثالیں اور سیرت وسنت ہے اور ایک تہائی فرائض واحکام پر مشتمل ہے۔

 

36ـ قالَ (عليه السلام): ألْمُؤْمِنُ نَفْسُهُ مِنْهُ فى تَعَب، وَالنّاسُ مِنْهُ فى راحَة.( 36

36ـ مومن کا نفس اس سے تھکا ہوا ہوتا ہے اور لوگ اس سے راحت وآرام میں ہوتے ہیں ۔

 

37ـ قالَ (عليه السلام): كَتَبَ اللّهُ الْجِهادَ عَلَى الرِّجالِ وَالنِّساءِ، فَجِهادُ الرَّجُلِ بَذْلُ مالِهِ وَنَفْسِهِ حَتّى يُقْتَلَ فى سَبيلِ اللّه، وَجِهادُ الْمَرْئَةِ أنْ تَصْبِرَ عَلى ماتَرى مِنْ أذى زَوْجِها وَغِيْرَتِهِ.( 37

37ـ اللہ نے جہاد کو مرد اور عورت دونوں پر واجب کیا ہے مرد کا جہاد جان ومال کی قربانی ہے یہاں تک کہ وہ راہ خدا میں قتل ہو جائے۔ اور عورت کا جہاد اپنے شوہر کی اذیتوں پر صبر کرنا ہے ۔

 

38ـ قالَ (عليه السلام): فى تَقَلُّبِ الاْحْوالِ عُلِمَ جَواهِرُ الرِّجالِ.( 38

38ـ حالات کی تبدیلی میں لوگوں کے جو ہر کھلتےہیں۔

 

39ـ قالَ (عليه السلام): إنّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلا حِسابَ، وَغَداً حِسابٌ وَ لا عَمَل.( 39

39ـ آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں اور کل حساب کا دن ہوگا عمل کا نہیں۔

 

40ـ قالَ (عليه السلام): إتَّقُوا مَعَاصِيَ اللّهِ فِى الْخَلَواتِ فَإنَّ الشّاهِدَ هُوَ الْحاكِم.( 40

40ـ خلوتوں میں اللہ کی معصیت سے ڈرو اس لئے کہ دیکھنے والا ہی حاکم ہوگا۔

 

منابع و مآخذ

1ـ أمالى صدوق: ص 97، بحارالأنوار: ج 90، ص 343، ح 1.
2
ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 114 ح 29، بحارالأنوار: ج 1، ص 169، ح 20.
 3
ـ وسائل الشّيعة: ج 25، ص 434، ح 32292.
4
ـ وافى: ج 4، ص 402، س 3.
5
ـ أعيان الشّيعة: ج 1، ص 350، بحارالأنوار: ج 41، ص 150، ضمن ح 40.
6
ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 55، بحارالأنوار: ج 2، ص 48، ح 7.
7
ـ أمالى صدوق: ص 95، بحارالأنوار: ج 68، ص 181، ح 35.
8
ـ بحار الأنوار: ج 5، ص 317، ح 16، به نقل از ثواب الأعمال.
9
ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 152، ح 5.
10
ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 155، ح 5.
11
ـ عدّة الدّاعى: ص 85، ص 1، بحارالأنوار: ج 101، ص 73، ح 24.
12
ـ مستدرك الوسائل: ج 16، ص 291، ح 19920.
13
ـ بحارالأنوار: ج 69، ص 68، س 2، ضمن ح 28.
14
ـ محبّة البيضاء: ج 5، ص 144، تنبيه الخواطر: ص 195، س 16.
15
ـ مستدرك الوسائل: ج 3، ص 210، ح 3386.
16
ـ بحارالأنوار: ج 1، ص 96، ح 40.
17
ـ بحارالأنوار: ج 70، ص 13.
18
ـ نزهة الناظر و تنبيه الخاطر حلوانى: ص 70، ح 65.
19
ـ عدّة الدّاعى: ص 75، س 8، بحارالأنوار: ج 1، ص 205، ح 33.
20
ـ نزهة الناظر و تنبيه الخاطر حلوانى: ص 52، ح 26.

21ـ نزهة الناظر و تنبيه الخاطر حلوانى: ص 46، ح 12.
22
ـ اختصاص شيخ مفيد: ص 189، س 5.
23۔ وسائل الشيعة: ج 16 ص 76 ح 5.
24
ـ وسائل الشّيعة: ج 1، ص 334، ح 880.
25
ـ وسائل الشّيعة: ج 18، ص 316، ح 23750.
26
ـ وسائل الشّيعة: ج 16، ص 270، ح 21539.
27
ـ تحف العقول: ص 120، بحارالأنوار: ج 77، ص 271، ح 1.
28
ـ بحارالأنوار: ج 76، ص 155، ح 36، و ص 229، ح 10.
29
ـ اصول كافى: ج 1، ص 27، بحارالأنوار: ج 1، ص 161، ح 15.
30
ـ تحف العقول: ص 152، بحارالأنوار: ج 78، ص 54، ح 97.
31
ـ خصال: ج 2، ص 170، بحارالأنوار: ج 73، ص 142، ح 18.
32
ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص 165.
33
ـ شرح نهج البلاغه فيض الاسلام: ص 1193.
34
ـ شرح نهج البلاغه فيض الاسلام: ص 1235.
35
ـ اصول كافى، ج 2، ص 627، ح2.
36
ـ بحارالأنوار: ج 75، ص 53، ح 10.
37
ـ وسائل الشّيعة: ج 15، ص 23، ح 19934.
38
ـ شرح نهج البلاغه فيض الإسلام: ص 1183.
39
ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 1، ك 41.
40
ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص 324.

 

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

800x600

 

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی چالیس حدیثی

1- قالَ الاْمامُ عَلىّ بنُ الْحسَين، زَيْنُ الْعابدين (عَلَيْهِ السَّلام) :

ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فيهِ مِنَ الْمُؤمِنينَ كانَ في كَنَفِ اللّهِ، وَأظَلَّهُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ في ظِلِّ عَرْشِهِ، وَآمَنَهُ مِنْ فَزَعِ الْيَوْمِ الاْكْبَرِ:

مَنْ أَعْطى النّاسَ مِنْ نَفْسِهِ ما هُوَ سائِلهُم لِنَفْسِهِ، ورَجُلٌ لَمْ يَقْدِمْ يَداً وَرِجْلاً حَتّى يَعْلَمَ أَنَّهُ فى طاعَةِ اللّهِ قَدِمَها أَوْ فى مَعْصِيَتِهِ، وَرَجُلٌ لَمْ يَعِبْ أخاهُ بِعَيْب حَتّى يَتْرُكَ ذلكَ الْعِيْبَ مِنْ نَفْسِهِ. 1

1۔ جن مومنین کے اندر تین صفتیں پائی جائیں گی وہ خدا کی پناہ میں ہونگے اور اللہ انہیں بروز قیامت اپنے عرش کے سایہ میں رکھے گا اور اس روز کے بھیانک عذاب سے نجات عطا کرے گا

۱۔ جو لوگوں کو وہی عطا کرے جو اپنے لئے ان سے طلبگار ہے

۲۔ جو شخص اپنے ہاتھ پیر کو اس وقت تک حرکت نہ دے جبتک کہ یہ جان نہ لے کہ اطاعت الٰہی میں حرکت دے رہا ہے یا معصیت الٰہی میں

۳۔ جو شخص اپنے دینی بھائی کی کسی ایسے عیب پر سرزنش نہ کرے جب تک کہ وہ خود اسے چھوڑ نہ دے

 

2- قالَ(عليه السلام): ثَلاثٌ مُنْجِياتٌ لِلْمُؤْمِن: كَفُّ لِسانِهِ عَنِ النّاسِ وَ اغْتِيابِهِمْ، وَ إشْغالُهُ نَفْسَهُ بِما يَنْفَعُهُ لاِخِرَتِهِ وَ دُنْياهُ، وَ طُولُ الْبُكاءِ عَلى خَطيئَتِهِ. 2

2- تین چیزیں مومن کے لئے نجات بخش ہیں: لوگوں کی عیب جوئی اور غیبت سے اپنی زبان کو باز رکھنا اپنے نفس کو ایسے امور میں مشغول رکھنا جو اس کی دنیا و آخرت میں مفید واقع ہو اور اپنی غلطیوں پر کثرت سے گریہ و زاری کرنا

 

3- قالَ(عليه السلام): أرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فيهِ كَمُلَ إسْلامُهُ، وَ مَحَصَتْ ذُنُوبُهُ، وَ لَقِيَ رَبَّهُ وَ هُوَ عَنْهُ راض: وِقاءٌ لِلّهِ بِما يَجْعَلُ عَلى نَفْسِهِ لِلنّاس، وَ صِدْقُ لِسانِه مَعَ النّاسِ، وَ الاْسْتحْياء مِنْ كُلِّ قَبِيح عِنْدَ اللّهِ وَ عِنْدَ النّاسِ، وَ حُسْنُ خُلْقِهِ مَعَ أهْلِهِ. 3

3- چار چیزیں جس شخص کے اندر ہوں اس کا اسلام کامل ہے اور اس کے سارے گناہ پاک ہوجائیں گے وہ خدا سے اس حال میں ملے گا کہ خدا اس سے راضی ہوگا

۱۔ اپنے اندر خدا کا تقویٰ اس حد تک پیدا کرے کہ لوگوں سے کسی توقع کے بغیر ان کی خدمت کرے

۲۔ لوگوں سے سچی اور حقیقت پر مبنی باتیں کرے

۳۔ ہر برائی سے پرہیز کرے چاہے وہ برائی شرعی ہو یا عرفی ہو

۴۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو

 

4- قالَ(عليه السلام): يَا ابْنَ آدَم، إنَّكَ لا تَزالُ بَخَيْر ما دامَ لَكَ واعِظٌ مِنْ نَفْسِكَ، وَما كانَتِ الْمُحاسَبَةُ مِنْ هَمِّكَ، وَما كانَ الْخَوْفُ لَكَ شِعاراً. 4

4- اے فرزند آدم! جب تک تم اپنے آپ کے نصیحت کرنے والے ہوگے اور تمہارا اہم و غم اپنامحاسبہ کرنا ہوگا اور تمہارا اشعار خوف و تقویٰ ہوگا تب تک خیر و عافیت میں رہو گے

 

5- قالَ(عليه السلام): وَ أمّا حَقُّ بَطْنِكَ فَأنْ لا تَجْعَلْهُ وِعاءً لِقَليل مِنَ الْحَرامِ وَ لا لِكَثير، وَ أنْ تَقْتَصِدَ لَهُ فِى الْحَلالِ. 5

5- تمہارے شکم کا تمہارے حق یہ ہے کہ تم اسے حرام کا برتن بننے نہ دو حرام کم ہو یا زیادہ بلکہ شکم کے لئے حلال میں بھی میانہ روی اختیار کرو

 

6- قالَ(عليه السلام): مَنِ اشْتاقَ إلى الْجَنَّةِ سارَعَ إلى الْحَسَناتِ وَسَلاعَنِ الشَّهَواتِ، وَمَنْ أشْفَقَ مِنَ النارِ بادَرَ بِالتَّوْبَةِ إلى اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِهِ وَراجَعَ عَنِ الْمَحارِمِ. 6

6- جو جنت کا مشتاق ہوگا وہ نیکیوں میں جلدی کرے گا اور خواہشوں کو کچل دے گا اور جو جہنم سے ہراساں ہوگا و ہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں جلدی کرے گا اور حرام کاموں سے دوری اختیار کرے گا

 

7- قالَ(عليه السلام): طَلَبُ الْحَوائِجِ إلىَ النّاسِ مَذَلَّةٌ لِلْحَياةِ وَمَذْهَبَةٌ لِلْحَياءِ، وَاسْتِخْفافٌ بِالْوَقارِ وَهُوَ الْفَقْرُ الْحاضِرِ، وَقِلَّةُ طَلَبِ الْحَوائِجِ مِنَ النّاسِ هُوَ الْغِنَى الْحاضِر. 7

7- لوگوں سے اپنی حاجتوں کا طلب کرنا زندگی کی ذلت اور شرم و حیا کو ختم کر دیتی ہے اور انسان کا وقار جاتا رہتا ہے اور یہ موجود فقر و فاقہ ہے اور لوگوں نے اپنی ضرورتوں کا کم طلب کرنا موجود ثروت مندی ہے

 

8- قالَ(عليه السلام): اَلْخَيْرُ كُلُّهُ صِيانَةُ الاْنْسانِ نَفْسَهُ. 8

8- ساری خوبیاں یہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کو بچائے رکھے

 

9- قالَ(عليه السلام): سادَةُ النّاسِ فى الدُّنْيا الأَسْخِياء، وَ سادَةُ الناسِ في الآخِرَةِ الاْتْقياءِ. 9

9- دنیا میں لوگوں کے سردار سخاوتمند افراد ہیں اور آخرت میں لوگوں کے سردار پرہیز گار لوگ ہیں

 

10- قالَ(عليه السلام): مَنْ زَوَّجَ لِلّهِ، وَوَصَلَ الرَّحِمَ تَوَّجَهُ اللّهُ بِتاجِ الْمَلَكِ يَوْمَ الْقِيامَةِ. 10

10۔ جو خدا کی خاطر ازدواج کرے اور صلہ


¿ رحم کرے خدا وند متعال بروز قیامت اسے تاج عظمت و کرامت سے سرفراز فرمائے گا

 

11- قالَ(عليه السلام): مَنْ زارَ أخاهُ فى اللّهِ طَلَباً لاِنْجازِ مَوْعُودِ اللّهِ، شَيَّعَهُ سَبْعُونَ ألْفَ مَلَك، وَهَتَفَ بِهِ هاتِفٌ مِنْ خَلْف ألاطِبْتَ وَطابَتْ لَكَ الْجَنَّةُ، فَإذا صافَحَهُ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَةُ. 11

11- جو صرف خدا کی خوشنودی اور اللہ کے کئے ہوئے وعدے تک پہنچنے کے لئے اپنے برادر مومن کی ملاقات کو جائے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ہمراہ چلتے ہیں اور ایک منادی اس کے نیچے سے ندا دیتا جاتا ہے کہ تم خود پاک و پاکیزہ ہوئے تمہیں جنت مبارک ہو اور جب اس برادر مومن سے مصافحہ کرتا ہے تو اس کے اوپر رحمت کا حصار ہوجاتا ہے

 

12- قالَ(عليه السلام): إنْ شَتَمَكَ رَجُلٌ عَنْ يَمينِكَ، ثُمَّ تَحَوَّلَ إلى يَسارِكَ فَاعْتَذَرَ إلَيْكَ فَاقْبَلْ مِنْهُ. 12

12۔ اگر کوئی تمہارے داہنی طرف رخ کرکے گالیاں دے رہا ہو اور پھر بائیں طرف آکر عذر خواہی کرے تو تم اس کا عذر قبول کرلو اور اسے معاف کردو

 

13- قالَ(عليه السلام): عَجِبْتُ لِمَنْ يَحْتَمى مِنَ الطَّعامِ لِمَضَرَّتِهِ، كَيْفَ لايَحْتَمى مِنَ الذَّنْبِ لِمَعَرَّتِهِ. 13

13- مجھے تعجب ہے اس شخص کے اوپر جو غذا کو اس کے ضرور نقصان کو پرکھ کر کھاتا ہے کس طرح اپنے اپنے گناہوں کی نسبت سہل انگری سے کام لیتا ہے

 

14- قالَ(عليه السلام): مَنْ أطْعَمَ مُؤْمِناً مِنْ جُوع أطْعَمَهُ اللّهُ مِنْ ثِمارِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ سَقى مُؤْمِناً مِنْ ظَمَأ سَقاهُ اللّهُ مِنَ الرَّحيقِ الْمَخْتُومِ، وَمَنْ كَسا مُؤْمِناً كَساهُ اللّهُ مِنَ الثّيابِ الْخُضْرِ. 14

14۔ خدا کا دین ناقص عقلوں، باطل را


¿یوں، فاسد قیاسوں کے ذریعہ نہیں حاصل کیاجاسکتا صرف سر تسلیم خم کرکے ہی حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا جو ہمارے سامنے تسلیم ہے اور ہماری ہدایتوں پر عمل کرے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جو قیاس اور رائے کا معتقد ہے وہ ہلاک ہوجائے گا

 

15- قالَ(عليه السلام): إنَّ دينَ اللّهِ لايُصابُ بِالْعُقُولِ النّاقِصَةِ، وَالاْراءِ الْباطِلَةِ، وَالْمَقاييسِ الْفاسِدَةِ، وَلايُصابُ إلاّ بِالتَّسْليمِ، فَمَنْ ـ سَلَّمَ لَنا سَلِمَ، ومَنِ اهْتَدى بِنا هُدِىَ، وَمَنْ دانَ بِالْقِياسِ وَالرَّأْىِ هَلَكَ. 15

 ؟؟؟؟

 

16- قالَ(عليه السلام): الدُّنْيا سِنَةٌ، وَالاْخِرَةُ يَقْظَةٌ، وَنَحْنُ بَيْنَهُما أضْغاثُ أحْلامِ. 16

16۔ دنیا اونکھ ہے اور آخرت بیداری ہے اور ہم انسان ان دونوں کے درمیان خواب پریشان ہیں

 

17- قالَ(عليه السلام): مِنْ سَعادَةِ الْمَرْءِ أنْ يَكُونَ مَتْجَرُهُ فى بِلادِهِ، وَيَكُونَ خُلَطاؤُهُ صالِحينَ، وَتَكُونَ لَهُ أوْلادٌ يَسْتَعينُ بِهِمْ. 17

17۔ سعادتمند ہے وہ انسان جس کا کاروبار اس کے شہر میں ہو دوست صالح ہوں اور اس کی اولاد اس کے کام آتی ہو

 

18- قالَ(عليه السلام): آياتُ الْقُرْآنِ خَزائِنُ الْعِلْمِ، كُلَّما فُتِحَتْ خَزانَةٌ، فَيَنْبَغى لَكَ أنْ تَنْظُرَ ما فيها. 18

18۔ قرآن کی آیتیں علم کا خزانہ ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھلے تو لازم ہے کہ دیکھو اس کے اندر کیا کیا ہے

 

19- قالَ(عليه السلام): مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ بِمَكَّة لَمْ يَمُتْ حَتّى يَرى رَسُولَ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم)، وَيَرَى مَنْزِلَهُ فى الْجَنَّةِ. 19

19۔ جو شخص مکہ میں قرآن ختم کرے وہ نہیں مرے گا مگر کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرلے اور جنت میں اپنا مقام دیکھ لے

 

20- قال(عليه السلام): يا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ يَحِجَّ اسْتَبْشَرُوا بِالْحاجِّ إذا قَدِمُوا فَصافِحُوهُمْ وَعَظِّمُوهُمْ، فَإنَّ ذلِكَ يَجِبُ عَلَيْكُمْ تُشارِكُوهُمْ فى الاْجْرِ. 20

20۔ اے وہ لوگو! کہ جنھوں نے حج نہیں کیا ہے تمہیں حج سے واپس آنے والے حاجیوں کی بشارت ہو ان سے مصافحہ کرو اور ان کی تعظیم و تکریم کرو یہ تمہارے اوپر لازم ہے اس طرح تم ان کے اجر و ثواب میں شریک ہوجاو


¿ گے

 

21- قالَ(عليه السلام): الرِّضا بِمَكْرُوهِ الْقَضاءِ، مِنْ أعْلى دَرَجاتِ الْيَقينِ. 21

21۔ ناگوار فیصلہ پر راضی رہنا یقین کے اعلیٰ درجوں میں سے ہے

 

22- قالَ(عليه السلام): ما مِنْ جُرْعَة أَحَبُّ إلى اللّهِ مِنْ جُرْعَتَيْنِ: جُرْعَةُ غَيْظ رَدَّها مُؤْمِنٌ بِحِلْم، أَوْ جُرْعَةُ مُصيبَة رَدَّها مُؤْمِنٌ بِصَبْر. 22

22- اللہ کے نزدیک کوئی گھونٹ دو گھونٹ سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے ایک غصہ کا وہ گھونٹ جسے مرض حلم و بردباری کے ساتھ پی جاتا ہے اور دوسرے مصیبت کا وہ گھونٹ جسے مومن صبر و شکیبائی کے ساتھ پی جاتا ہے

 

23- قالَ(عليه السلام): مَنْ رَمَى النّاسَ بِما فيهِمْ رَمَوْهُ بِما لَيْسَ فيِهِ. 23

23۔ جو شخص لوگوں کے اندر موجود عیوب پر سرزنش کرے گا لوگ اس کے غیر موجود عیوب کی نسبت دیگر ملامت کریں گے

 

24- قالَ(عليه السلام): مُجالَسَةُ الصَّالِحيِنَ داعِيَةٌ إلى الصَّلاحِ، وَ أَدَبُ الْعُلَماءِ زِيادَةٌ فِى الْعَقْلِ. 24

24۔ نیکو کاروں کی ہم نشینی نیکی کی دعوت دیتی ہے اور علماءکے ساتھ مو


¿دبانہ ہم نشینی عقل و خرد کی زیادتی کا باعث ہے

 

25- قالَ(عليه السلام): إنَّ اللّهَ يُحِبُّ كُلَّ قَلْب حَزين، وَ يُحِبُّ كُلَّ عَبْد شَكُور. 25

25۔ اللہ ہر غمزدہ دل کو دوست رکھتا ہے اور ہر بندہ


¿ شکر گزار کو پسند کرتا ہے

 

26- قالَ(عليه السلام): إنَّ لِسانَ ابْنَ آدَم يَشْرُفُ عَلى جَميعِ جَوارِحِهِ كُلَّ صَباح فَيَقُولُ: كَيْفَ أصْبَحْتُمْ؟

فَيَقُولُونَ: بِخَيْر إنْ تَرَكْتَنا، إنَّما نُثابُ وَ نُعاقَبُ بِكَ. 26

26۔ فرزند آدمی کی زبان روزآنہ تمام اعضاءبدن سے احوال پرسی کرتی ہے اور کہتی ہے تم سب کیسے ہو؟ وہ سب کہتے ہیں اگر تم نے ہمیں آزاد رکھا ہو ہم سب خیریت سے ہیں کیونکہ ہمارا ثواب و عقاب تجھ سے وابستہ ہے

 

27- قالَ(عليه السلام): ما تَعِبَ أوْلِياءُ اللّهُ فِى الدُّنْيا لِلدُّنْيا، بَلْ تَعِبُوا فِى الدُّنْيا لِلاْخِرَةِ.27

27۔ اولیاءالٰہی دنیا میں دنیا کے لئے زحمت نہیں اٹھاتے بلکہ وہ دنیامیں آخرت کی خاطر زحمت برداشت کرتے ہیں

 

28- قالَ(عليه السلام): لَوْ يَعْلَمُ النّاسُ ما فِى طَلَبِ الْعِلْمِ لَطَلَبُوهُ وَ لَوْبِسَفْكِ الْمُهَجِ وَ خَوْضِ اللُّجَجِ. 28

28۔ اگر لوگوں کو حصول علم کے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں معلوم ہوجائیں تو وہ علم ضرور حاصل کرتے چاہے انہیں اپنا جون جگہ بہانا پڑتا یا بھیانک موجوں کی تہوں میں غوطہ لگانا پڑتا

 

29- قال(عليه السلام): لَوِ اجْتَمَعَ أهْلُ السّماءِ وَ الاْرْضِ أنْ يَصِفُوا اللّهَ بِعَظَمَتِهِ لَمْ يَقْدِرُوا. 29

29۔ اگر سارے اہل آسمان و زمین مل کر عظمت اللہ کی توصیف کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے

 

30- قالَ(عليه السلام): ما مِنْ شَيْىء أحبُّ إلى اللّهِ بَعْدَ مَعْرِفَتِهِ مِنْ عِفَّةِ بَطْن وَفَرْج، وَما شَيْىءٌ أَحَبُّ إلى اللّهِ مِنْ أنْ يُسْألَ. 30

30۔ اللہ کی معرفت کے بعد اللہ کے نزدیک کوئی چیز عفت شکم اور عفت شرمگاہ سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور اللہ کے نزدیک اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے کہ اس کی بارگاہ میں دست نیاز دراز کیا جائے

 

31- قالَ(عليه السلام): إنَّ أفْضَلَ الْجِهادِ عِفَّةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ. 31

31۔ سب سے بہترین جہاد،شکم اور شرمگاہ کی عفت اور اس کا تحفظ ہے

 

32- قالَ(عليه السلام): إبْنَ آدَم إنَّكَ مَيِّتٌ وَمَبْعُوثٌ وَمَوْقُوفٌ بَيْنَ يَدَىِ اللّهِ عَزَّ وَ جَلّ مَسْؤُولٌ، فَأعِدَّ لَهُ جَواباً. 32

32۔ اے فرزند آدم! تو مرنے کے بعد زندہ ہونے والا ہے اور تجھے پیش پروردگار کھڑے ہوکہ جواب دہ ہونا ہے لہذا جواب کے لئے آمادگی پیدا کر

 

33- قالَ(عليه السلام): نَظَرُ الْمُؤْمِنِ فِى وَجْهِ أخِيهِ الْمُؤْمِنِ لِلْمَوَدَّةِ وَالْمَحَبَّةِ لَهُ عِبادَة.33

33- مومن کی دوسرے مومن کے چہرے پر محبت بھری نظر عبادت ہے

 

34- قالَ(عليه السلام): إيّاكَ وَمُصاحَبَةُ الْفاسِقِ، فَإنّهُ بائِعُكَ بِأكْلَة أَوْ أقَلّ مِنْ ذلِكَ وَإيّاكَ وَمُصاحَبَةُ الْقاطِعِ لِرَحِمِهِ فَإنّى وَجَدْتُهُ مَلْعُوناً فى كِتابِ اللّهِ. 34

34۔ فاسق کی ہمنشینی ہرگز اختیار نہ کرنا کہ وہ تمہیں ایک لقمہ یا اس سے بھی کم کے بدلے بیچ دے گا اور خبردار قاطع رحم کی بھی صحبت اختیار نہ کرنا میں نے اسے کتاب خدا (قرآن) میں لعنت شدہ پایا ہے

 

35- قالَ(عليه السلام): أشَدُّ ساعاتِ ابْنِ آدَم ثَلاثُ ساعات: السّاعَةُ الَّتى يُعايِنُ فيها مَلَكَ الْمَوْتِ، وَالسّاعَةُ الَّتى يَقُومُ فيها مِنْ قَبْرِهِ، وَالسَّاعَةُ الَّتى يَقِفُ فيها بَيْنَ يَدَيِ الله تَبارَكَ وَتَعالى، فَإمّا الْجَنَّةُ وَإمّا إلَى النّارِ. 35

35۔فرزند آدم کے لئے تین گھڑیاں بڑی سخت ہیں: ایک وہ گھڑی جس میں وہ ملک الموت کا مشاہدہ کرتا ہے دوسرے وہ گھڑی جس میں وہ قبر سے اٹھے گا تیسرے وہ گھڑی جس میں وہ پیش پروردگار کھڑا ہوگا کہ یا جنت کا راہی ہو یا واصل جہنم ہوگا

 

36- قالَ(عليه السلام): إذا قامَ قائِمُنا أذْهَبَ اللّهُ عَزَوَجَلّ عَنْ شيعَتِنا الْعاهَةَ، وَ جَعَلَ قُلُوبَهُمْ كُزُبُرِ الْحَديدِ، وَجَعَلَ قُوَّةَ الرَجُلِ مِنْهُمْ قُوَّةَ أرْبَعينَ رَجُلاً. 36

36۔ جب ہمارے قائم ظہور فرمائیں گے تو خداوند متعال ہمارے شیعوں سے بلا و مصیبت کو ختم کردے گا اور ان کے دل فولاد کے مانند قوی ہوجائیں گے اور ہر شخص میں چالیس آدمیوں کی قوت و طاقت ہوجائے گی

 

37- قالَ(عليه السلام): عَجَباً كُلّ الْعَجَبِ لِمَنْ عَمِلَ لِدارِ الْفَناءِ وَتَرَكَ دارَ الْبقاء. 37

37۔ بے حد تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو دار فانی کے لئے تو سر گرم ہے لیکن دار باقی کے لئے کچھ نہیں کرتا

 

38- قالَ(عليه السلام): رَأْيْتُ الْخَيْرَ كُلَّهُ قَدِ اجْتَمَعَ فِى قَطْعِ الطَّمَعِ عَمّا فِى أيْدِى النّاسِ. 38

38۔ میں نے ساری خوبیاں بس ایک چیز میں دیکھی ہیں اور وہ ہے لوگوں کے ہاتھوں میں موجود تمام چیزوں سے لا تعلق ہوجانا

 

39- قالَ(عليه السلام): مَنْ لَمْ يَكُنْ عَقْلُهُ أكْمَلَ ما فيهِ، كانَ هَلاكُهُ مِنْ أيْسَرِ ما فيهِ.39

39۔ جو شخص اپنی عقل و خرد کو کمال تک نہیں پہنچائے گا وہ بڑی آسانی کے ساتھ ہلاکت کی کھائی میں گر جائے گا

 

40- قالَ(عليه السلام): إنَّ الْمَعْرِفَةَ، وَكَمالَ دينِ الْمُسْلِمِ تَرْكُهُ الْكَلامَ فيما لايُغْنيهِ، وَقِلَّةُ ريائِهِ، وَحِلْمُهُ، وَصَبْرُهُ، وَحُسْنُ خُلْقِهِ. 40

40۔ ایک مسلمان کی معرفت اور کمال دین لاحصل چیزوں کے متعلق سکوت اختیار کرنے میں ہے نیز قلتِ ریا کاری، حلم و بردبادی، صبر و شکیبائی اور اچھے اخلاق میں ہے

 

منابع و مآخذ

1 ـ تحف العقول: ص204، بحارالأنوار: ج 75، ص 141، ح 3.

2ـ تحف العقول: ص 204، بحارالأنوار: ج 75، ص 140، ح 3.

3ـ مشكاة الأنوار: ص 172، بحارالأنوار: ج 66، ص 385، ح 48.

4ـ مشكاة الأنوار: ص 246، بحارالأنوار: ج 67، ص 64، ح 5.

5ـ تحف العقول: ص 186، بحارالأنوار: ج 71، ص 12، ح 2.

6ـ تحف العقول: ص 203، بحارالأنوار: ج 75، ص 139، ح 3.

7ـ تحف العقول: ص 210، بحارالأنوار: ج 75، ص 136، ح 3.

8ـ تحف العقول: ص201، بحارالأنوار: ج 75، ص 136، ح 3.

9ـ مشكاة الأنوار: ص 232، س 20، بحارالأنوار: ج 78، ص 50، ح 77.

10ـ مشكاة الأنوار: ص 166، س 3.

11ـ مشكاة الأنوار: ص 207، س 18.

12ـ مشكاة الأنوار: ص 229، س 10، بحارالأنوار: ج 78، ص 141، ح 3.

13ـ أعيان الشّيعة: ج 1، ص 645، بحارالأنوار: ج 78، ص 158، ح 19.

14ـ مستدرك الوسائل: ج 7، ص 252، ح 8.

15ـ مستدرك الوسائل: ج 17، ص 262، ح 25.

16ـ تنبيه الخواطر، معروف به مجموعة ورّام: ص 343، س 20.

17ـ وسائل الشيعة: ج 17، ص 647، ح 1، ومشكاة الأنوار: ص 262.

18ـ مستدرك الوسائل: ج 4، ص 238، ح 3.

19ـ من لا يحضره الفقيه: ج 2، ص 146، ح 95.

20ـ همان مدرك: ج 2، ص 147، ح97.

21ـ مستدرك الوسائل: ج 2، ص 413، ح 16.

22ـ مستدرك الوسائل: ج 2، ص 424، ح 21.

23ـ بحار الأنوار: ج 75، ص 261، ح 64.

24ـ بحارالأنوار: ج 1، ص 141، ضمن ح 30، و ج 75، ص 304.

25ـ كافى: ج 2، ص 99، بحارالأنوار: ج 71، ص 38، ح 25.

26ـ اصول كافى: ج 2، ص 115، وسائل الشّيعة: ج 12، ص 189، ح 1.

27ـ بحارالأنوار: ج 73، ص 92، ضمن ح 69.

28ـ اصول كافى: ج 1، ص 35، بحارالأنوار: ج 1، ص 185، ح 109.

29ـ اصول كافى: ج 1، ص 102، ح 4.

30ـ تحف العقول: ص 204، بحارالأنوار: ج 78، ص 41، ح 3.

31ـ مشكاة الأنوار: ص 157، س 20.

32ـ تحف العقول: ص 202، بحارالأنوار: ج 70، ص 64، ح 5.

33ـ تحف العقول: ص 204، بحارالأنوار: ج 78، ص 140، ح 3.

34ـ تحف العقول: ص 202، بحارالأنوار: ج 74، ص 196، ح 26.

35ـ بحار الأنوار: ج 6، ص 159، ح 19، به نقل از خصال شيخ صدوق.

36ـ خصال: ج 2، ص 542، بحارالأنوار: ج 52، ص 316، ح 12.

37ـ بحارالأنوار: ج 73، ص 127، ح 128.

38ـ اصول كافى: ج 2، ص 320، بحارالأنوار: ج 73، ص 171، ح 10.

39ـ بحارالأنوار: ج 1، ص 94، ح 26، به نقل از تفسير امام حسن عسكرى (عليه السلام).

40ـ تحف العقول: ص 202، بحارالأنوار: ج 2، ص 129، ح 11.

 

Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA MicrosoftInternetExplorer4 /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0cm 5.4pt 0cm 5.4pt; mso-para-margin:0cm; mso-para-margin-bottom:.0001pt; mso-pagination:widow-orphan; font-size:10.0pt; font-family:"Times New Roman","serif";}